بنو امیہ

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر جامع
ویکی شیعہ سے
(بنو امیہ کی حکومت سے رجوع مکرر)

خلافت بنوامیہ

سلاطین

عنوان


معاویہ بن ابی سفیان
یزید بن معاویہ
معاویہ بن یزید
مروان بن حکم
عبدالملک بن مروان
ولید بن عبدالملک
سلیمان بن عبدالملک
عمر بن عبدالعزیز
یزید بن عبدالملک
ہشام بن عبدالملک
ولید بن یزید
ولید بن عبدالملک
ابراہیم بن الولید
مروان بن محمد

مدت سلطنت


41-61ھ
61-64ھ
64-64ھ
64-65ھ
65-86ھ
86-96ھ
96-99ھ
99-101ھ
101-105ھ
105-125ھ
125-126ھ
126-126ھ
126-127ھ
127-132ھ

مشہور وزراء اور امراء

مغیرۃ بن شعبہ ثقفی
زیاد بن ابیہ
عمرو عاص
مسلم بن عقبہ مری
عبیداللہ بن زیاد
حجاج بن یوسف ثقفی

اہم واقعات

صلح امام حسن
واقعہ عاشورا
واقعہ حرہ
قیام مختار
قیام زید بن علی

بنو امیہ قبیلۂ قریش کی دو بڑی شاخوں میں سے ایک ہے جن میں سے بعض افراد نے تقریبا ایک صدی (41-132ھ) تک اسلامی سرزمینوں پر حکومت کی۔ پہلی صدی ہجری بلکہ اس سے کچھ عرصہ پہلے کی تاریخ اموی خاندان کے اعضاء یا سیاسی سرگرمیوں کے نام سے خلیفہ یا کسی بھی دیگر عنوان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ بنو امیہ کا دور سنہ 41 ہجری میں معاویہ کی سلطنت کے آغاز سے شروع ہوا اور سنہ 132 ہجری میں مروان بن محمد کی شکست پر زوال پذیر ہوا۔ اس عرصے میں اس خاندان کے 14 افراد نے خلیفہ کے عنوان سے اسلامی ممالک پر حکمرانی کی۔ معاویہ کے بعد اس کا بیٹا یزید تخت نشین ہوا اور اس کے بعد اس کا بیٹا معاویہ بن یزید جس کے بعد خلافت مروانیوں کو منتقل ہوئی۔ مروانیوں نے مشرقی سرحدوں نیز روم کی سرحدات پر جنگیں لڑ لڑ کر اسلامی سرزمین کو ہر روز وسیع سے وسیع تر کیا۔ شیعیان اہل بیت اور خوارج کی سرکوبی بنو امیہ کی دائمی پالیسی کا حصہ رہی۔ بنو امیہ نے متعدد بار اسلامی مقدسات کی حرمت کو پامال کیا۔

بنی امیہ کا ظہور

بنی امیہ کا ظہور جزیرہ نمائے عرب کے شمال اور مرکز میں شہر نشینی کے آغاز اور کم و بیش ظہور اسلام کے ساتھ ہم عصر ہے۔ اس خاندان کی تشکیل کی کیفیت مبہم ہے لیکن بنی ہاشم کے ساتھ اس کی دشمنی اور مسابقت اذہان پر غالب ہے۔

مکہ قبل از اسلام ایک زیارتی اور بعد ازاں تجارتی شہر تھا۔ روم کے شامی قلمرو کے ساتھ ہاشم بن عبد مناف کے تجارتی تعلق نے مکہ کے باشندوں حالت بدل دی۔ اگرچہ دوسرے عربوں کا تعلق جزوی طور پر یمن اور ایران کے ساتھ تجارت کرتے تھے۔[1] علاوہ ازیں ہاشم زائرین کعبہ کی رفادت (مہمان داری و ضیافت) اور سقایت (سیراب کرنے) کا عہدہ بھی حاصل کرچکے تھے اور یوں ان کا رتبہ مزید برتر ہو چکا تھا[2] ہاشم بن عبد مناف کی ثروت اور سخاوت و کشادہ دستی نے مکہ کے قحط زدہ عوام کو نجات دلائی۔[3]

امیہ بن عبد شمس

ائمہ علیہم السلام مدت حیات اور دور امامت ہم عصر خلفاء
امام علی علیہ السلام مدت حیات: (30 عام الفیل-40ھ) ابوبکر عمر بن خطاب عثمان بن عفان
دور امامت: ۱۱-۴۰ق
امام حسن مجتبی علیہ السلام مدت حیات: (3تا50ھ) ابوبکر عمر بن خطاب عثمان بن عفان امام علیؑ معاویہ بن ابی سفیان (41-61ھ)
دور امامت: 40-50ھ
امام حسین علیہ السلام مدت حیات: (4تا61ھ) ابوبکر عمر بن خطاب عثمان بن عفان امام علیؑ امام حسنؑ معاویہ بن ابی سفیان یزید بن معاویہ
دور امامت: 50-61ھ
امام زین العابدین علیہ السلام مدت حیات: (38تا95ھ) امام علی امام حسن معاویہ بن ابی سفیان یزید بن معاویہ معاویہ بن یزید مروان بن حکم(64-65ھ) عبدالملک بن مروان (65-86ھ) ولید بن عبدالملک (86تا96ھ)
دور امامت: 61-95ھ
امام محمد باقر علیہ السلام مدت حیات: (57تا114ھ) معاویہ بن ابی سفیان یزید بن معاویہ معاویہ بن یزید مروان بن الحکم عبدالملک بن مروان ولید بن عبدالملک سلیمان بن عبدالملک (96-99ھ) عمر بن عبدالعزیز (99-101ھ) یزید بن عبدالملک (101-105ھ) ہشام بن عبدالملک (105-125ھ)
دور امامت: 95-114ھ
امام جعفر صادق علیہ السلام مدت حیات: (82تا148ھ) عبدالملک بن مروان ولید بن عبدالملک سلیمان بن عبدالملک عمر بن عبدالعزیز یزید بن عبدالملک ہشام بن عبدالملک ولید بن یزید (125-126ھ) ولید بن عبدالملک (126-126ھ) ابراہیم بن ولید (126-127ھ) مروان بن محمد (127-132) ابوالعباس سفاح (132-136ھ) منصور دوانیقی (136-158ھ)
دور امامت: 114-148ھ
امام موسی کاظم علیہ السلام مدت حیات: (۱۲۸-۱۸۳ق) مروان بن محمد ابوالعباس سفاح منصور دوانیقی مہدی عباسی(158-169) ہادی عباسی(169-170ھ) ہارون‌الرشید(170-193ھ)
دور امامت: (128تا183ھ)
امام علی رضا علیہ السلام مدت حیات: (148تا203ھ) منصور دوانیقی مہدی عباسی ہادی عباسی ہارون‌الرشید امین عباسی (193-198ھ) مأمون عباسی (198-218ھ)
دور امامت: 183-203ھ
امام محمد تقی علیہ السلام مدت حیات: (195تا220ھ) امین عباسی مأمون المعتصم باللہ (218-227ھ)
دور امامت: 203-220ھ
امام علی نقی علیہ السلام مدت حیات: (254-212ھ) مأمون المعتصم باللہ الواثق باللہ (227-232ھ) متوکل (232-247ھ) منتصر (247-248) مستعین (248-252) معتز (252-255)
دور امامت: 220-254ھ
امام حسن عسکری علیہ السلام مدت حیات:(232تا260ھ) متوکل منتصر مستعین معتز مہتدی (255-256) معتمد (256-278ھ)
دور امامت: 255-260ھ
امام مہدی علیہ السلام مدت حیات: (255ھ-بقید حیات) خلفا غیبت صغری کے اختتام تک

معتز مہتدی معتمد معتضد (278-289ھ) مکتفی (289-295ھ) مقتدر (295-320ھ) قاہر (320-322ھ) راضی (322-329ھ)

دور امامت: 260ھ-...


امیہ عبد شمس بن عبد مناف کے چند بیٹوں میں سے ایک تھا چنانچہ بنی ہاشم اور بنی امیہ کا نسب عبد مناف سے جا ملتا ہے اور عبد مناف ان دونوں خاندانوں کے مورث ہیں۔ امویوں کے جد کو امیۂ اکبر کہا جاتا تھا؛ کیونکہ اس کا ایک چھوٹا بھائی بھی امیہ نام کا تھا جس کو امیہ اصغر کہا جاتا تھا۔[4]

امیہ کے بارے میں چند ہی روایات کے سوا کچھ دستیاب نہیں ہے۔ ان چند روایات سے بھی صرور بنی ہاشم اور بنی امیہ کر درمیان دشمنی اور خون خرابے کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ عبد شمس اور ہاشم جڑواں بھائی تھے اور ولادت کے وقت ایک کی انگلی دوسرے کے سر سے چپکی ہوئی تھی؛ ان دو کو الگ کیا گیا تو خون جاری ہوا۔[5] ایک دوسری اور بہت رائج روایت میں کہا گیا ہے کہ امیہ نے اپنے چچا ہاشم بن عبد مناف کے ساتھ حسد کیا تاہم صاحب ثروت ہونے کے باوجود کشادہ دستی کا مظاہرہ نہیں کر سکا اور عوام کے درمیان خوار ہوا؛ حتی کہ اس کا کام ہاشم کے ساتھ اختلاف اور تنازعے کی صورت اختیار کر گیا اور 10 سال تک شام میں جلاوطنی کی سی زندگی گذارنے پر مجبور ہوا۔[6]

یہ روایت کئی پہلؤوں سے قابل تنقید ہے[7] لیکن بنو امیہ اور شام کے درمیان ایک ربط و تعلق پایا جاتا ہے۔

امیہ بھی ہاشم بن عبد مناف کی طرح بڑے خاندان کا مالک تھا[8] اور فعالانہ انداز سے کاروبار تجارت میں مصروف تھا۔ اس صورت حال سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ دو خاندان مسابقت کی طرف بڑھ رہے تھے بطور خاص اس لئے بھی کہ بنو ہاشم اہم مناصب پر فائز تھے اور زيادہ مال و ثروت کے مالک تھے۔

بعض کا کہنا ہے کہ امیہ عرب اکابرین میں سے تھا حتی جب حبشہ میں سیف بن ذی یزن کو فتح حاصل ہوئی تو لوگ مبارکباد کہنے کے لئے اس کے پاس چلے گئے۔[9] علی جواد وغیرہ نے اس روایت کی صحت کو مشکوک قرار دیا ہے[10] بعض مؤرخین نے امیہ کے سخیوں کے زمرے میں قرار دیا ہے؛ نیز بعض نے اس کی ذاتی خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امیہ اعور (کانا) تھا۔[11]

اولاد امیہ

کہا جاتا ہے کہ امیہ کے 10 بیٹے تھے (1 سے 4 =) حرب، ابو حرب، سفیان و ابو سفیان جنہیں عنابس کہا جاتا تھا؛ (5 سے 8 =) عاص، ابو العاص، عیص، ابو العیص جو اعیاص کے عنوان سے مشہور ہیں؛[12]، (9 اور 10) عمرو اور ابوعمرو۔ ان میں سے دو افراد طفولت میں ہی انتقال کرگئے اور دو مقطوع النسل ہوئے۔

حرب امیہ کا بڑا بیٹا اور ابو سفیان کا باپ تھا جو زعمائے مکہ میں شمار ہوتا تھا؛ وہ کچھ عرصہ عبدالمطلب بن ہاشم کا دوست تھا اور ان کے درمیان چال چلن کا سلسلہ بھی جاری تھا لیکن آخر کار ان کا کام بھی جھگڑے اور جرگے پنچایت پر منتج ہوا۔ اگرچہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ موضوع بھی افسانہ ہی ہو جو امیہ اور ہاشم کے درمیان منافرت کی بنیاد پر گھڑ لیا گیا ہو۔[13] وہ یوم عکاظ اور فجار کی دو جنگوں میں قریش کا سپہ سالار تھا اور اس کے بعد یہ منصب ابوسفیان کو ملا۔[14]

امیہ کا ایک بیٹا ابو العاص عثمان بن عفان اور مروان بن حکم اور اس کے خلافت کا عہدہ سنبھالنے والے بعض بیٹوں کا مورث تھا۔[15]

بنی امیہ کی ایک شاخ اسید بن ابی العیص بن امیہ کے ذریعے جاری رہی اور اسید کے دو بیٹے عتاب اور خالد فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔[16] بنو امیہ کی دیگر شاخیں اس امیہ کے بیٹوں عاص اور سعید بن عاص کی اولاد میں سے ہیں جن میں سے بعض نے عثمان کے دور کے تاریخی واقعات میں کردار ادا کیا اور اہم مناصب پر فائز ہوئے۔[17] اس خاندان کی ایک شاخ ابو عمر بن امیہ کے توسط سے وجود میں آئی تھی اور عقبہ بن ابی معیط اور اس کا بیٹا ولید اس شاخ کے مشہور ترین افراد تھے۔[18] شاید بنو امیہ کی نہایت کم اہم شاخ سفیان بن امیہ کی اولاد ہے جن کی تعداد کم تھی اور واقعات میں ان کا کردار بہت کمزور تھا۔[19]

ابوسفیان

ظہور اسلام کے زمانے میں ابو سفیان نمایاں ترین اموی شخصیت سمجھا جاتا تھا اور ان چار افراد میں سے تھا جن کا حکم ـ بقول بعض مورخین ـ قبل از اسلام، نافذ تھا۔[20] وہ زیادہ تر تجارت میں مصروف رہتا تھا[21] اور اگرچہ پیغمبر اسلام کے مخالفین میں سے تھا اور اسلام کے خلاف بعض سازشوں میں بھی شریک ہوا[22] لیکن قریش کے دوسرے اکابرین کی نسبت کم تر عداوت کا مظاہرہ کرتا تھا۔[23] شاید اس لئے کہ ارد گرد کی دنیا سے رابطہ رکھنے کے باعث مشرکین حجاز کی نسبت وابستگی محسوس کرتا تھا اسی وجہ سے اس کو قریش کا زندیق سمجھا جاتا تھا۔[24]

رسول اللہ(ص) کی ہجرت مدینہ کے بعد ابوسفیان نے دوبارہ تجارت کا پیشہ اپنایا اور ایک بڑا تجارتی قافلہ لے کر شام چلا گیا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ [گوکہ مہاجرین کا گھریلو سامان بھی سامان تجارت کے عنوان سے شام لے گیا تھا] مائل بہ جنگ نہ تھا، باوجود اس کے، کہ جنگ بدر میں بہت سے اس کے بیٹا حنظلہ اور بہت سے عمائدین قریش کام آئے تھے اور اس کا دوسرا بیٹا عمرو مسلمانوں کے ہاتھوں جنگی قیدی کے طور پر گرفتار ہوا تھا۔[25] ابو سفیان نے مشرکین کی قیادت سنبھال کر جنگ احد کے لئے مشرکین کا لشکر تشکیل دینے میں بنیادی کردا ادا کیا اور بعض محققین کے بقول جنگ بدر نے بنو ہاشم اور بنوامیہ]] کی مسابقت کو خون کا رنگ دیا[26] اور اس کی اذیت ناک یادیں بعد کے سالوں حتی کہ بہت دور کے زمانوں میں باقی تھیں اور اس سے پیدا ہونے والے تفکر نے پہلی صدی ہجری / ساتویں صدی عیسوی، میں بعض واقعات میں کردار ادا کیا۔ [جس کا سہرا بہرحال دین کو قبائلیت کا رنگ دینے والوں کے سر بندھتا ہے]۔

[چنانچہ] لگتا ہے کہ بنو امیہ کے عمائدین زيادہ سے زیادہ مادی مراعاتیں اور سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لئے، اسلام کو قبائلی مسابقت کے دریچے سے دیکھتے تھے۔ چنانچہ ابوسفیان اور اس کے خاندان والوں نے آخر کار (فتح مکہ کے بعد) اسلام قبول کیا اور حتی کہ وہ بعض مراعاتوں سے بھی بہرہ ور ہوئے تھے لیکن رسول اللہ(ص) کے وصال کے بعد غالب قوت کے ساتھ مل کر شدت کے ساتھ اپنے خاص اہداف کے حصول کے لئے کوشاں تھے۔ سقیفہ میں بنو امیہ کا کوئی خاص کردار نظر نہیں آتا اور حتی کہ ابو سفیان نے ابوبکر کے بحیثیت خلیفہ انتخاب پر اس لئے اعتراض کیا کہ ان کا تعلق قریش کی غیر معروف شاخ سے تھا[27] تاہم یہ اختلاف زیادہ سنجیدہ نہ تھا۔ خاندان ابو سفیان نے ابوبکر اور عمر کے زمانے کی فتوحات میں فعالانہ شرکت کی؛ ابو سفیان کے بیٹے یزید اور معاویہ شام کے بعض علاقوں کی فتح کے دوران امرائے سپاہ تھے اور بعدازاں عمر کے زمانے میں شام کی امارت تک بھی پہنچے۔[28]

[اگرچہ] عمر سے منسوب ایک جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ولایت کو طلقاء اور ان کے بیٹوں کے سپرد کرنے سے زیادہ خوش نہ تھے۔[29] بایں وجود، ابو سفیان کو دوسرے خلیفہ کے دور میں کافی احترام حاصل تھا؛[30] اور وہ اپنے بیٹے کو خلیفہ کی مخالفت سے باز رکھتا تھا۔[31] حقیقت یہ ہے کہ خلافت میں کارفرما اور حاوی اصول ایسے تھے جو بنو امیہ [اور طلقاء] کے بعض عناصر کو سیاسی میدان کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کررہے تھے اور اسلامی معاشرے کے اعلی سطحی انتظام میں ان کے حضور کے اسباب کو ان ہی اصولوں میں تلاش کرنا چاہئے۔

عثمان کا دور

عثمان بن عفان ـ جو بنو امیہ میں سے تھے ـ کو خلیفہ چن لیا گیا تو امویوں نے اپنے اثر و رسوخ اور طاقت میں زبردست اضافہ کیا[32] [یہ درست ہے] کہ خلیفۂ دوئم نے عبدالرحمن بن عوف کو لامحدود اختتیار اور استقلال دیا تھا[33]۔۔[34] تاہم بعض روایات میں ہے کہ امیران سپاہ و لشکر اور اشراف ـ جن میں اموی بھی شامل تھے ـ ابن عوف کو مسلسل عثمان کے انتخاب کی ترغیب دلاتے رہے تھے؛[35] ابو سفیان نے بھی عثمان کے انتخاب کے بعد ـ یا بقولے رسول اللہ(ص) کی وفات کے بعد ـ امویوں کے ایک اجتماع میں کہا تھا کہ "خلافت کو گیند کی طرح اپنے درمیان گھماتے پھراتے رہو"۔[36] عثمان نے رفتہ رفتہ بنو امیہ کو اہم شہروں کی ولایت (گورنری) اور فتوحات جاری رکھنے کے لئے لشکر کے امارت دینا شروع کیا[37] اور بعض مواقع پر انہیں بڑی بڑی رقوم عطا کیں![38]

بظاہر بنو امیہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ خلیفہ کا انتخاب سابقہ طریقے سے انجام پائے؛ چنانچہ جب عثمان نے ایک بار بیمار ہوکر خفیہ وصیت نامے میں اپنے بعد عبدالرحمن بن عوف کو خلیفہ بنائے جانے کی تجویز دی تو بنو امیہ کا غیظ و غضب ابل پڑا۔[39]۔۔[40]

اس دور میں مروان بن حکم نے امور خلافت پر لامحدود تسلط پا لیا تھا۔[41] خلیفہ عثمان کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج کے دوران بھی وہ مروان کی معزولی اور تحویل میں دینے کا مطالبہ کررہے تھے۔[42] عہد عثمان کے اواخر میں اموی مخالف جذبات و احساسات قریشیوں نیز دیگر چھوٹے قبائل میں وسعت اختیار کرگئے۔[43] اس زمانے مییں خلافت کے بارے میں بنو امیہ کے تصور کو اس جملے سے سمجھا جاسکتا ہے جو مروان نے بغاوت پر اترنے والے عوام سے مخاطب ہوکر کہا تھا۔ اس نے کہا: "تم یہاں آئے ہو کہ ہمارے "ملک" (یعنی ہماری بادشاہت) کو ہمارے چنگل سے چھین لو!"۔[44]

خلافت امام علی

امیر المؤمنین امام علی کی خلافت کے آغاز پر ـ جبکہ بیعت بنی امیہ کے ارادے سے باہر انجام پا چکی تھی ـ بنو امیہ کے اکابرین بھاگ کر مکہ چلے گئے[45] اور پھر اصحاب جمل کے ساتھ مل کر عثمان کی خونخواہی کے بہانے، بغاوت و مخالفت کا جھنڈا اٹھایا[46] لیکن خلافت کے موضوع پر ان سے شدید اختلاف رکھتے تھے حتی کہ روایات کے مطابق مروان نے طلحہ کو جنگ کے دوران قتل کر ڈالا۔[47]

جنگ جمل میں شکست کے بعد بنو امیہ والی شام معاویہ بن ابی سفیان کے پاس چلے گئے۔ امیرالمؤمنین اپنی خلافت کے روز اول سے ہی ولایت شام سے معاویہ کی معزولی کے خواہاں تھے۔[48] معاویہ کو شام کی ولایت عمر بن خطاب نے سونپ دی تھی اور ان اختیارات کی بنا پر ـ جو اس کو عثمان کے زمانے کی فتوحات کے بدولت ملے تھے،[49]ـ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ عالم اسلام کے اس حصے میں بنو امیہ کی خلافت (اور بالفاظ مناسب تر سلطنت و ملوکیت) کا آغاز پہلے ہی ہو چکا تھا۔ معاویہ نے عثمان کی خونخواہی کے بہانے اپنی مخالفت کا اظہار کیا جبکہ اس نے عثمان کے محاصرے کے وقت ان کو امداد پہنچانے سے احتراز کیا تھا۔ بعض مؤرخین کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی خلافات کی لالچ میں عثمان کی مدد سے امتناع کیا تھا۔[50]

جنگ صفین کی طوالت معاویہ کے فائدے پر منتج ہوئی اور اس (طوالت) نے امام علی کے لشکر کی صفوں کو اختلاف سے دوچار کیا۔ ایک طرف سے امامؑ کے لشکر میں خوارج موجود تھے تو دوسری طرف سے اشعث کندی سمیت عراقیوں کے بعض اکابرین خفیہ طور پر معاویہ سے ملے ہوئے تھے اور ان کا معاویہ کے پاس آنا جانا شروع ہوچکا تھا۔ گوکہ معاویہ نے صفین کے بعد بسر بن ارطاۃ اور بعض دیگر گماشتوں کو عراق، حجاز اور یمن بھجوا کر ان علاقوں میں ممکنہ حد تک بدامنی پھیلا دی تھی۔[51] اور بصرہ کے قبائل کے درمیان اختلافات ڈالنے میں ملوث تھا[52] ان دشواریوں اور اختلافات نے امام علیؑ اور آپؑ کے بعد امام حسن کو معاویہ کا مسئلہ حل کرنے سے باز رکھا اور آخر کار ایک مصالحت کے نتیجے میں معاویہ سنہ 41 ہجری/661 عیسوی میں مکمل طور پر خلیفہ بنا۔[53] روایات میں ہے کہ امیرالمؤمنین کی شہادت کے بعد اہل شام معاویہ کو خلیفہ کا خطاب دینے لگے تھے۔[54]

خلافت معاویہ

معاویہ کی خلافت کا آغاز سنہ 41 ہجری میں صلح امام حسن سے ہوا۔ معاویہ کی خلافت کے بعد خلافت کا مفہوم ملوکیت اور سلطنت میں بدل گیا۔[55] معاویہ اور اس کے اعوان و انصار نے بارہا اپنی حکومت کے لئے "مُلک" (یا بادشاہت) کا لفظ استعمال کیا۔[56] مروی ہے کہ عمر بن خطاب نے معاویہ کو "کسرائے عرب" کا خطاب دیا تھا۔[57]۔۔[58]

خلافت! کی شام منتقلی

معاویہ نے "بادشاہت" اور "ملک داری" کے لئے مرکز خلافت کو شام منتقل کیا۔ وہ شامی عوام کی وفاداری سے مطمئن تھا۔ معاویہ نے طویل عرصے کے دوران شامی عوام کے ساتھ مشترکہ مفادات کی بنیاد رکھی ہوئی تھی۔[59] شامی ایک واقعے کے سوا، ہمیشہ اپنی وفاداری پر استوار رہے۔[60]

اس کے باوجود دمشق خلافت معاویہ کے دور میں بنو امیہ کی اصلی قیام گاہ شمار نہیں ہوتا تھا۔[61]

مختلف علاقوں پر امویوں کی تعیناتی

معاویہ نے عثمان کے انجام سے عبرت لے کر بنو امیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اپنی خلافت کے مفاد کی روشنی میں منظم کیا۔ اس نے مروان کو مدینہ کا والی مقرر کیا۔[62] اما بعدها روابطشان به سردی گرایید.[63] امویوں کی اکثریت حجاز میں اکٹھی ہوئی۔[64]

معاویہ نے بصرہ اور کوفہ کی ولایت ـ ان دو شہروں کے زد پذیر قبائلی ڈھانچے کے بموجب ـ مغیرہ بن شعبہ ثقفی اور عبداللہ بن عامر اموی کے سپرد کیا۔[65] اس نے زیاد بن ابیہ کا تعاون حاصل کرنے کے لئے اس کو ابو سفیان کا بیٹا اور اپنا سوتیلا بھائی قرار دیا!؟۔[66] اس اقدام نے معاویہ کو لوگوں کے مذاق اور توہین سے دوچار کیا۔[67] اس نے سنہ 45 ہجری میں زیاد بنی ابیہ کو عراق اور ایران کے ایک بڑے حصے کی حکمرانی سونپ دی[68] اور اس نے مطلق العنانیت اور استبدادیت کا سہارا لے کر عراق میں معاشی اور انتظامی استحکام بحال کیا۔[69] زیاد کے مرنے کے بعد معاویہ نے مذکورہ شہروں کے غیر اموی افراد کے سپرد کیا۔[70]

معاویہ کی فتوحات

معاویہ نے پہلے سال رومیوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا[71] لیکن بعدازاں مختلف علاقوں میں فتوحات کا سلسلہ از سر نو شروع ہوا[72] اور یہ سلسلہ قسطنطنیہ، قبرص، سیسیلیا اور خراسان بزرگ کے دور دراز کے علاقوں تک جاری رہا اور ہندوستان کی سرحدوں تک پہنچا۔[73]

یزید کی جانشینی

مروی ہے کہ معاویہ نے [معاہدہ صلح کے برعکس] یزید کے لئے بیعت لینے کی کوششوں کا آغاز سنہ 50 ہجری سے کیا تھا اور اس نے سب سے پہلے اہلیان شام اور اپنے حلیفوں سے بیعت لی۔[74] اور زیادہ تر شخصیات ـ ما سوائے امام حسین اور بعض صحابہ کے فرزندوں کے ـ باقی لوگوں بیعت کی۔[75]

یزید کی خلافت!

یزید عہد جاہلی کے اشراف زادوں اور سردار زادوں سے زیادہ مشابہت رکھتا تھا جبکہ خلیفۂ مسلمین کے مشابہ نہ تھا[76] اس کے دور خلافت میں بہت سے اسلامی مظاہر و اقدار کو حملے اور تجاوز کا سامنا کرنا پڑا؛ کربلا، واقعۂ حرہ اور کعبہ کو نذر آتش کرنے کے واقعات ان ہی حملوں اور تجاوزات کی مثالیں ہیں۔

زمانۂ یزید کے واقعات

حادثہ کربلا

یزید نے اپنی خلافت کے آغاز میں ہی سنہ 61 ہجری میں امام حسینؑ سے بیعت لینے کے بہانے عراق میں اپنے عامل عبیداللہ بن زیاد کے توسط سے المیۂ کربلا کے اسباب فراہم کئے۔[77] اور اگر اس نے کوشش کی کہ اپنے آپ کو اس واقعے پر نادم و پشیمان اور اس المیئے میں اپنے کردار سے مبرّا ظاہر کرے تو غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے مقتولین کے بدلے کی طرف اشارہ کرکے اس واقعے پر اپنی خوشنوی کا اعلان کردیا تھا۔

واقعۂ حرہ

سنہ 62 ہجری میں اشراف مدینہ کی ایک جماعت نے یزید کے ساتھ ملاقات کی[78] [اور اس کے حالات دیکھ کر] مدینہ لوٹے تو لوگوں کو اس کے خلاف مشتعل کیا۔ عوام نے شہر کے اموی والی کو نکال باہر کیا اور مدینہ میں مقیم امویوں کا محاصرہ کیا[79] عبد اللہ بن زبیر نے واقعۂ کربلا سے فائدہ اٹھا کر مکی عوام کو یزید کے اپنے ساتھ ملا لیا۔[80] یزید نے ایک لشکر مسلم بن عقبہ مری کی سرکردگی میں حجاز روانہ کیا۔[81] مسلم اور اس کے لشکر نے مدینہ میں زبردست قتل عام اور لوٹ مار مچایا۔

کعبہ کو نذر آتش کرنا

مسلم بن عقبہ کے لشکر نے ـ اس کی ناگہانی موت کے بعد ـ ابن زبیر کی سرکوبی کے لئے مکہ کا رخ کیا اور آتشی تیروں کے ذریعے کعبہ کو نذر آتش کیا۔[82]

مرگ یزید

لشکر یزید نے مکہ کا محاصرہ کرلیا تھا کی اسی اثناء ربیع الاول سنہ 64 ہجری/ 368 عیسوی کو یزید کی موت کی خبر ملی۔[83]

افراتفری

مرگ یزید کے بعد حجاز، عراق اور شام کو افراتفری اور انتشار کا سامنا کرنا پڑا۔ عراق اور شام میں عبد اللہ بن زبیر کے حامیوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کی۔[84]

دمشق کے عوام نے وقتی طور پر ضحاک بن قیس کے ہاتھ پر بیعت کی۔[85] بصرہ میں ایسی ہی صورت حال میں لوگوں نے عبیداللہ بن زیاد کے ہاتھ پر بیعت کی[86] لیکن کچھ عرصہ بعد کوفہ اور بصرہ کے عوام نے اپنے والیوں کے خلاف قیام کیا۔[87] قنسرین، حمص اور فلسطین میں لوگوں نے ابن زبیر کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔[88]۔۔[89]

ضحاک بن قیس حسان بن مالک کلبی ـ جو ابتداء میں خالد بن یزید کی طرف مائل تھا اور بعد میں مروان بن حکم کی طرف مائل ہوا تھا ـ کی منزلت کی تقویت کے خوف سے عبداللہ بن زبیر کی طرف مائل ہوا؛[90] فلسطین کا والی اور یزید کا ماموں[91] اردن چلا گیا اور بہت سے قبائل کو ـ جو قلبا بنو امیہ کے حامی تھے ـ اکٹھایا کیا۔[92] مروان سمیت مدینہ سے نکالے جانے والے اموی زعماء بھی حسان سے جا ملے۔[93] حسان نے ابتداء میں خالد بن یزید کے مفاد میں ـ جس نے بعد میں علمی کام کا آغاز کیا ـ تشہیری مہم چلائی۔[94] بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مروان نے ابتداء میں عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کرکے بنو امیہ کے لئے امان حاصل کرنے کا ارادہ کیا تھا[95]لیکن عبیداللہ بن زیادہ نے اس کو خلافت کی پیشکش کی اور دوسروں (امویوں اور ان کے حامیوں) نے بھی اس تجویز کا خیرمقدم کیا۔[96]

معاویہ بن یزید اور مروانیوں کو خلافت کی منتقلی

اسی زمانے میں خلافت کی سفیانیوں سے مروانیوں کو منتقلی کا موضوع سامنے آتا ہے۔ یزید کے کئی بیٹے تھے[97]۔۔[98] جو کم سنی کی وجہ سے ابن زبیر کے ساتھ مسابقت میں ان کی مداخلت کی کوئی گنجائش نہ تھی۔[99]

مروی ہے کہ یزید نے اپنی موت سے قبل حسان بن مالک کلبی کے ساتھ مشورہ کرکے اس کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ معاویہ ثانی 20 سالہ نوجوان تھا۔ وہ باپ کی موت کے بعد منبر پر چڑھا اور اپنے خاندان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا کر اپنے آپ کو خلافت سے معزول اور سفیانیوں کی خلافت کے زوال کا اعلان کیا۔ وہ کچھ ہی عرصہ بعد انتقال کرگیا۔[100] معاویہ ثانی کی داستان مبہم اور شکوک و شبہات سے بھرپور ہے۔ اس سے منسوب باتوں ـ بالخصوص آل سفیان کی حکومت کے خاتمے کے اعلان نے مروان کی حکومت کے لئے جواز پیدا کیا جو آل ابی سفیان میں سے نہ تھا۔ مروان نے بہت سی باتیں معاویہ دوئم سے منسوب کرکے اپنے آپ کو زاہد و تارک دنیا ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ دکھانے کی سعی کی ہے کہ آل ابی سفیان کے ہاتھوں سے حکومت کے خارج ہونے کا عمل جائز اور قانونی تھا۔[101]

مروان کی خلافت

ذوالقعدہ سنہ 64 ہجری / 684 عیسوی کو جابیہ کے مقام پر مروان کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔[102] اس کی سن رسیدگی خالد بن یزید پر اس کی برتری کا سبب ہوئی۔[103] مروان کے ساتھ بیعت کے وقت اس کی جانشینی کے مسئلے پر بھی گفتگو ہوئی۔ حاضرین نے اس جانشین کے کے طور پر خالد بن یزید کے ہاتھ پر اور خالد کے جانشین کے طور پر عمرو بن سعید بن عاص کے ہاتھ پر بیعت کی۔[104] مروان نے ان ہی دنوں خالد بن یزید کی ماں ام خالد سے نکاح کیا۔[105] مروان خلافت کو اپنے خاندان میں منتقل کرنے میں کامیاب رہا. اس نے سنہ 65 ہجری میں اپنے بیٹے عبدالملک اور اس کے بعد عبدالعزیز کے لئے بیعت لی۔[106] اور خالد کو خلافت سے محروم کیا؛ وہ خالد بن یزید کی تذلیل و توہین کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا تھا۔[107] روایات کے ایک مجموعے کے مطابق ام خالد نے مروان کی بے حرمتیوں کے نتیجے میں غضبناک ہوکر رمضان المبارک سنہ 65 ہجری میں اس کو ہلاک کر دیا۔[108]

ضحاک بن قیس کے ساتھ جنگ

ضحاک، مروان کی بیعت سے قبل بنو امیہ کے ساتھ تعاون کا ارادہ کئے ہوئے تھا لیکن آخر کار ابن زبیر سے جا ملا۔[109] مرج راہط کے مقام پر مروان کے لشکر نے ضحاک کے سپاہیوں کو چند روزہ شدید اور خونریز لڑائی کے دوران سخت شکست دی اور ضحاک مارا گیا۔[110] جنگ کے ایام میں مروان نے دمشق پر قبضہ کرلیا۔[111] بعدازاں شام اور فلسطین کے دوسرے شہر بھی یکے بعد دیگرے مروان کے اطاعت گزار ہوئے۔ مروان نے مصر پر لشکر کشی کرکے اس کو بھی اپنے قلمرو میں شامل کیا۔[112]

ابن زبیر کے ساتھ جنگ

مروان کی قلیل المدت خلافت کا پورا عرصہ ابن زبیر کے خلاف جنگ میں گذرا۔ مروان نے ابتداء میں فلسطین پر مصعب کے حملے کو ناکام بنایا اور پھر وہیں سے ایک لشکر حجاز روانہ کیا اور مدینہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا لیکن بعد از آں ابن زبیر کے بھیجے ہوئے لشکر کے سامنے قدم جمانے میں کامیاب نہ ہوسکا اور ناکام و نامراد ہوکر لوٹا۔[113]

عبدالملک کی خلافت

عبدالملک ـ قریش کی اموی شاخ میں ـ جدید اموی خلافت کا بانی تھا۔ خلافت کا عہدہ سنبھالنے سے قبل زہد و عبادت کی بنا پر مشہور تھا۔[114] عبدالملک چھوٹی سی چھوٹی تنقید کو برداشت نہیں کرتا تھا اور مالیاتی نظم و ضبط کے سلسلے میں بہت سختگیر تھا۔[115] عبدالملک نے خوارج بالخصوص ازارقہ کی شاخ کی سرکوبی کی سابقہ روش نیز فتوحات کے سلسلے کو سنجیدگی سے از سر نو شروع کیا۔ اسی زمانے میں دیوان کا فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا گیا اور یہ کام ایک ایرانی نے سے انجام دیا اور سنہ 75 ہجری کی حدود میں سکہ جاری کیا گیا۔

اس نے عراق میں مصعب اور حجاز میں عبداللہ بن زبیر کو شکست دے کر زبیریوں کی بساط لپیٹ دی اور حجاج بن یوسف کو ابتداء میں والی مدینہ کے طور پر مقرر کیا اور بعد ازاں اس کو عراق اور ایران کی ولایت سونپ دی۔ وہ جانشینی کو اپنے بھائی عبدالعزیز سے اپنے بیٹوں کو منتقل کرنا چاہتا تھا لیکن اس ارادے سے باز آیا۔ عبدالعزیز سنہ 85 میں انتقال کرگیا اور ولی عہدی ولید، پھر سلیمان اور اس کے بعد مروان بن عبدالملک کی طرف منتقل ہوئی۔[116] عبدالملک سنہ 86 ہجری میں انتقال کرگیا۔

عراق میں مصعب کی شکست

عبدالملک کو بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ابن زبیر اور خلافت کی دوگانگی تھی۔ اس نے ابتداء میں عراق کی طرف توجہ دی۔ عراق ان دنوں مصعب کے زیر نگین تھا اور مصعب شیعیان آل رسول(ص) اور خوارج کے ساتھ دو محاذوں میں مصروف جنگ تھا چنانچہ وہ امویوں کے خلاف لڑنے سے قاصر تھا۔ اس زمانے میں عبدالملک نے رومیوں کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا تھا اور مصعب کے خلاف جنگ کے لئے تیاری کرچکا تھا۔[117] عمرو بن سعید بن عاص نے دمشق میں عبدالملک کی غیرموجودگی کا فائدہ اٹھا کر اس کے خلاف بغاوت کی۔ عبدالملک نے دمشق پلٹ کر اسی بغاوت کو کچل ڈالا۔[118] اور ایک بار پھر عراق کی طرف روانہ ہوا۔ سردیوں کے باعث مصعب کے خلاف جنگ طویل ہوگئی۔[119] سنہ 71 یا 72 ہجری میں "دیر جاثلیق" کے مقام پر لڑی جانے والی جنگ میں مصعب بن زبیر کو شکست ہوئی اور وہ وہ مارا گیا۔[120]

حجاز میں عبداللہ بن زبیر کی شکست

ابن زبیر مکہ چلا گیا اور گمان کیا کہ حرم میں کوئی بھی اس کے خلاف جنگ نہیں لڑسکتا۔ عبدالملک نے حجاج بن یوسف ثقفی کو اس کے خلاف جنگ کے لئے روانہ کیا۔[121] حجاج نے طائف میں ابن زبیر کے عوام کی سرکوبی کے بعد[122]، حرم مکی پر چڑھ دوڑنے کے لئے وسیع تر اختیار حاصل کرکے کئی مہینوں تک مکہ یک محاصرہ کرلیا جس کے نتیجے میں قحط پڑا اور کعبہ [یزید کے آتشی تیروں کا نشانہ بننے کے بعد اس بار امویوں کے مروانی خلیفہ کے] آتشی تیروں کا نشانہ بنا[123] اور آخر کار ابن زبیر سنہ 73 میں حجاج کے ہاتھوں مارا گیا۔[124]

رومیوں کے ساتھ جنگ

عبدالملک بعدازاں رومیوں کے ساتھ نبردآزما ہوا اور انہیں سختی سے شکست دی۔[125] وہ دوران معاویہ کی طرح ہر سال تقریبا ایک بار رومیوں کے ساتھ لڑ پڑتا تھا۔[126]

حجاج

عبدالملک بن مروان نے مدینہ کی ولادیت حجاج بن یوسف ثقفی کے سپرد کردی اور اس کے بھائی بشر کو عراق کی ولایت سونپ دی۔ سنہ 74ہجری میں بشر کا انتقال ہوا تو عبدالملک نے ابتداء میں عراق کی حکمرانی اس کے سپرد کردی اور سنہ 78 ہجری میں پورے ایران اور اس کے انتہائی مشرقی علاقوں کی حکومت اس کے حوالے کردی۔[127] وہ خلیفہ کا جان نثار شریک سمجھا جاتا تھا اور اپنی نادر شدت پسندانہ روشوں کے ذریعے اپنے زیر نگین علاقوں میں امن بحال رکھتا تھا اور اس نے بعض انتظآمی اور معاشی امور میں بنیادی اصلاحات کا اہتمام کیا۔[128]

حجاج خلیفہ کو پیغمبر(ص) سے مافوق سمجھتا تھا۔[129] اور خلیفہ کی اطاعت سے خروج کو کفر اور بےدینی کے مترادف سمجھتا تھا۔[130]

حجاج نے شیعہ اور خوارج کی سرکوبی کو شدت کے ساتھ جاری رکھا۔[131]۔۔[132]

اس نے علماء اور تابعین کو جیلوں میں بند کیا۔[133] حجاج کی استبدادیت اور شدت پسندی کئی تحریکوں کا سبب ہوئی۔ سب سے اہم تحریک عبدالرحمن بن اشعث کی تھی جس کا آغاز سجستان (موجودہ سیستان) سے ہوا اور قراء کا طبقہ اس میں فعال کردار ادا کررہا تھا۔[134] تحریک نے حتی کہ بنو امیہ کی حکومت کو خطرے سے دوچار کیا تھا اور عبدالملک حجاج کی معزولی کے لئے تیار ہوچکا تھا۔[135] تین سال جنگ کے بعد ابن اشعث نے سنہ 82 میں شکست کھائی۔

ولید بن عبدالملک کی کیفیت

ولید عبدالملک کے بعد خلافت پر فائز ہوا۔ اس کی حکومت کا زیادہ تر عرصہ فتوحات میں گذرا۔ قتیبہ بن مسلم باہلی خراسان میں اور مسلمہ بن عبدالملک روم کے علاقوں میں قلمروِ خلافت کی توسیع میں مصروف تھے۔[136] ولید تعمیرات اور عمارتیں بنانے کی طرف خاص توجہ رکھتا تھا۔[137] اس زمانے میں بھی حجاج بدستور پہلے کی سی منزلت رکھتا تھا[138]اور شوال سنہ 95 ہجری میں انتقال کرگیا۔[139] ولید بھی جمادی الثانی سنہ 96 میں انتقال کرگیا۔

امام سجادؑ کا قاتل

امام سجادؑ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں شہید ہوئے۔ عمر بن عبدالعزیز کے بقول "ولید ایک جابر اور ظالم حکمران تھا اور اس کے زمانے میں خاندان رسالت کے ساتھ مروانیوں اور ان کے عاملین کا رویہ بہت ظالمانہ اور بےرحمانہ تھا۔ ہشام بن اسمعیل اگر چہ عبدالملک کے زمانے سے مدینہ کا والی تھا لیکن ولید کے زمانے میں امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ اس کا رویہ بہت ظالمانہ اور تشدد پسندانہ تھا اور جب اہلیان مدینہ کے ساتھ ظلم و ستم کے باعث معزول ہوا تو اس کے مروان کے گھر کے قریب کھڑا کردیا گیا تاکہ لوگ اس سے انتقام لیں۔ وہ اعتراف کرتا تھا کہ امام سجادؑ کے سوا کسی سے بھی خوفزدہ نہیں ہے لیکن جب امامؑ اپنے اصحاب کے ہمراہ وہاں سے گذرے تو کسی نے اس کو کچھ نہیں کہا اور اس کی شکایت نہیں لگائی۔ اس اثناء میں ہشام نے چلا کر کہا "اللّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ"؛ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی پیغمبری کا منصب کہاں [اور کس خاندان میں] رکھے[140] اور ایک روایت میں منقول ہے کہ امامؑ نے ہشام بن اسمعیل کو پیغام دیا کہ اگر اس کو مادی لحاظ سے کوئی تکلیف ہے تو ہم حل کرنے کے لئے تیار ہیں۔ امامؑ کے قاتل کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ امامؑ کو ولید نے مسموم کیا اور بعض دیگر کہتے ہیں کہ ہشام بن عبدالمک کے ہاتھوں مسموم ہوئے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہشام خلیفہ کا بھائی تھا اور وہ ولید کی اجازت کے بغیر ایسا نہیں امام علیہ السلام کے قتل کا ارتکاب نہیں کرسکتا تھا۔[141]

سلیمان بن عبدالملک کی خلافت

سلیمان جو قبل ازاں فلسطین کا والی تھا،[142] وہ ولید کے بعد خلیفہ بنا۔[143] سلیمان نے بعض والیوں کو تبدیل کیا؛ یزید بن مہلب کو عراق کا والی مقرر کیا۔[144] سلیمان نے جرجان اور طبرستان کو فتح کیا۔ مسلمہ بن عبدالملک نے سنہ 97 ہجری میں قسطنطنیہ کا محاصرہ کرلیا۔[145]

مروان بن عبدالملک کی موت کے بعد، اس کے بیٹے سلیمان نے اپنے بیٹے ایوب کو ولی عہد مقرر کیا۔[146] لیکن ایوب سنہ 98 میں مرگیا۔ خیال کیا جاتا تھا کہ سلیمان کا دوسرا بیٹا داؤد سلیمان کا جانشین ہوگا لیکن خلیفہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں عمر بن عبدالعزیز کو جانشین مقرر کیا۔[147]

خلافت عمر بن عبدالعزیز

عمر بن عبدالعزیز ولید کے دور میں مدینہ کا والی تھا اور حُجاج کی شکایت پر سنہ 93 ہجری میں معزول کیا گیا۔[148] عمر کی والدہ عمر بن خطاب کی اولاد سے تھی۔[149] اس کے خلیفہ بننے پر ہشام بن عبدالملک سمیت بعض اموی ناراض ہوئے۔[150]

عمر نے والیان عراق و خراسان کو تبدیل کیا۔ خلیفہ کے عنوان سے اس نے اہم اقدامات نہیں کئے اور بعض سابقہ اقدامات کو جاری رکھا۔ اس کی خلافات بعض اصلاحات اور بعض خاص اصولوں میں تبدیلی کے باعث سابقہ خلافتوں سے مختلف تھی۔ وہ خلیفہ کم اور عالم و فقیہ زیادہ، تھا اور علم حدیث میں اس کے اساتذہ اور شاگردوں نیز اس سے روایت کرنے والوں کی فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مذہبی تربیب ہوئی تھی اور علماء و محدثین میں اس کو خاص منزلت حاصل ہے۔[151]

عمر نے فدک علویوں کو لوٹا دیا[152] اور سبّ علیؑ پر پابندی لگائی اور اس کا سد باب کیا[153] تاہم وہ معاویہ اور حجاج پر سبّ و لعن کو بھی پسند نہیں کرتا تھا۔[154] اس نے بنو امیہ کی ناحق دولت بیت المال کو لوٹا دی۔[155] خوارج کو مذاکرات اور گفتگو کی دعوت دی اور حکم دیا کہ جب تک انھوں نے تلوار نہیں اٹھائی ان کے ساتھ رواداری کا سلوک کیا جائے۔[156]

[اموی حکومت ایرانیوں سے مسلمان ہونے کے باوجود جزیہ وصول کیا جاتا تھا اور] عمر بن عبدالعزیز نے حکم دیا کہ مسلم ایرانیوں سے جزیہ نہ لیا جائے،[157] اور مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان تعلقات کی ـ بالخصوص معاشی لحاظ سے ـ اصلاح کی جائے[158]

عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں/ نیز اس سے منقولہ/ روایات کا بڑا حصہ اس کے مکاتیب، حکمت آمیز کلام اور اس کے زاہدانہ رویے پر مشتمل ہیں۔[159] [160] [161]

عمر بن عبدالعزیز سے بعض کرامات منسوب کی گئی ہیں جن کا پس منظر صوفیانہ ہے۔[162] اس کے مناقب اور سیرت کے بارے میں کتب تالیف کی گئی ہیں[163] اس کی طرف سے ایسا کوئی نشانہ نہیں ملا ہے جس سے بنو امیہ کی حکومت کے جواز یا تردید ظاہر ہو۔[164]

عمر بن عبدالعزیز رجب سنہ 101 ہجری میں انتقال کرگیا۔[165] تاریخ کے بعض مآخذ میں ہے کہ وہ زہرخورانی کے نتیجے میں وفات پاگیا تھا[166] منقول ہے کہ عمر بن عبدالعزیز [اپنے بعد] یزید بن عبدالملک کی خلافت پر ناراض تھا،[167] اور احتمال یہ ہے کہ اسی وجہ سے قتل کئے گئے ہوں۔[168] بعض مؤرخین نے عمر بن عبدالعزیز کو پانچواں خلیفۂ راشد قرار دیا ہے۔[169]

یزید بن عبدالملک (یزید ثانی) کی خلافت

یزید ثانی عمر بن عبدالعزیز کی روش کے برعکس روش اپنائی۔ اس نے مالیاتی اصلاحات کو منسوخ کیا۔[170] اور مدینہ کے والی کو معزول کیا۔[171]

یزید ثانی کے زمانے کا سب سے بڑا واقعہ عراق میں یزید بن مہلب کا قیام تھا جس نے ازد اور ربیعہ کے قبائل کو اپنے ساتھ ملایا اور خوزستان، فارس اور کرمان کو مسخر کیا لیکن سنہ 102 میں مسلمہ بن عبدالملک نے اس کی تحریک کو کچل ڈالا۔[172]

یزید نے اپنے بھائی مسلمہ کو عراق کی ولایت سونپ دی،[173] لیکن بعد میں اس کو معزول کرکے عمر ابن ہبیره فزاری کو اس کی جگہ تعینات کیا۔[174]

آل مہلب ـ جو یمانی سمجھا جاتا تھا ـ کی سرکوبی اور ابن ہبیرہ کی تعیناتی ـ جو قیسیوں میں سے تھا ـ عراق کے یمنی قبائل کے لئے اعلان جنگ کے مترادف تھی۔[175] اس نے خوارج کی سرکوبی کا سلسلہ جاری رکھا۔[176] روم اور خراسان کی سرحدوں پر جنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔[177]

مآخذ میں دو گاین کنیزوں کے ساتھ اس کے معاشقے کی داستان، مندرج ہے۔[178] آخر کار شعبان سنہ 105 ہجری میں ان دو کنیزوں میں سے ایک مرگئی تو یزید ثانی بھی کچھ ہی عرصہ بعد شدت غم سے دنیا کو ترک کرگیا۔[179]

ہشام بن عبدالملک خلافت

ہشام بن عبدالملک پیشگی سمجھوتے کے مطابق یزید ثانی کے بعد خلیفہ ہوا۔[180] اس نے اپنی 20 سالہ حکومت کے دوران بنو امیہ کی حکومت کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ اس نے معیشت اور دیوانی نظام کے سلسلے میں بعض کوششیں کیں۔ حتی کہ بعد میں منصور عباسی نے اس کی کوششوں کو سراہا۔[181] برای آگاهی از اوضاع اقتصادی عراق در عهد او، نک: عودات، ص218؛ ولهاوزن، ص263۔</ref> اس نے روم کے علاقے میں نئی فتوحات کے نئے مرحلے کا آغاز کیا اور افواج کو سیاست سے دور رکھا۔[182] اس نے خراسان اور شروان کے علاقوں میں وسیع فتوحات کیں۔[183]

ہشام نے والیوں کی تعیناتی اور معزولی میں بنو امیہ کی پرانی پالیسی کو جاری رکھا جس کا مقصد عراق کے یمانی اور قیسی قبائل کے درمیان توازن برقرار کرنا تھا۔ عراق کے والیوں کو زیادہ تر "مکتب حجاج" (یا حجاج کی روش پر چلنے والے افراد) میں سے چنا جاتا تھا۔ ہشام نے ابن ہبیرہ کو عراق کی ولایت سے معزول کیا اور خالد بن عبداللہ قسری ـ جو یمانیوں میں سے تھا ـ کو عراق کا والی قرار دیا۔[184]

خالد نے عراق پر اپنی 15 سالہ حکمرانی کے دوران خوارج کو کچل ڈالا۔[185] کوفہ میں مغیرہ بن سعید عجلی کی سرکردگی میں شیعہ غُلات کی شورش کی سرکوبی کی۔[186]

خالد اپنے لئے مال و منال جمع کرنے کی وجہ سے، نیز خلیفہ کی توہین کے بہانے معزول کیا گیا اور سنہ 120 میں قید کرلیا گیا۔[187]

والی یمن یوسف بن عمر ثقفی کو عراق کی ولایت سپرد کی اور وہ فتنے کے خوف سے خفیہ طور پر عراق میں داخل ہوا۔[188] کوفہ میں زید بن علی کے قیام کو تمام تر شدت سے کچل دیا۔[189]

هشام در ربیع الآخر 125ق مرد.[190]

امام محمد باقرؑ کا قتل

تاریخی مآخذ کے مطابق ہشام بن عبدالملک نے 7 ذوالحجہ سنہ 114 ہجری کو مدینہ میں امام محمد باقرؑ کو مسموم کرکے شہید کیا۔[191]

ولید بن یزید کی خلافت

ہشام کے بعد یزید بن عبدالملک کی وصیت کے مطابق خلافت ولید بن یزید کو ملی۔[192] ولید ثانی ہشام کے زمانے سے ہی بےراہرو تھا؛ حتی کہ ہشام نے جانشینی اس کے بیٹے مسلمہ کو منتقل کرنا چاہی تھی۔[193] اسی بنا پر ولید اور ہشام کے تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہ تھے۔ ولید ہشام کی موت کے وقت دمشق میں حاضر نہ ہوا۔[194]

ولید ثانی کی خلافت شروع ہوتے ہی بنو امیہ کی خلافت زوال کی طرف مائل ہوئی۔ وہ اعلانیہ طور پر فسق و فجور میں ڈوبا ہوا تھا۔[195] اس کے دربار سے ـ بالخصوص کعبہ کی حرمت شکنی کے بارے میں ـ حیرت انگیز داستانیں نقل ہوئی ہیں۔[196] ولید نے ہشام کی جمع کردہ دولت شامیوں کے درمیان تقسیم کردی۔[197]

ولید نے اپنے دو کم سن بیٹوں کو جانشین مقرر کیا۔ یوسف بن محمد ثقفی کو مکہ اور مدینہ کی حکومت دی اور اپنے بھائی عمر بن یزید کو قبرص روانہ کیا۔ خلیفہ بننے کے بعد پہلے سے کہیں زیادہ سیر و تفریح اور شکار میں مصروف ہوا۔[198] بعض امویوں اور بعض یمانی فوجیوں نے احتجاج کیا۔[199]

یزید بن ولید کی بغاوت

یزید بن ولید بن عبدالملک نے ولید کے ساتھ دشمنی کا راستہ اپنایا۔ اس نے بعض افراد کو خلیفہ کے قتل پر اکسایا۔[200] ناراض یمانی بھی یزید بن ولید کو خلافت سنبھالنے پر اکساتے تھے۔[201] دوسری طرف سے عباس بن ولید اور مروان بن محمد نے یزید کو مخالفت سے بازرکھنے کی کوشش کی اور اس کو خبردار کیا۔[202] اس کے باوجود یزید خفیہ طور پر شدت سے اپنے کام میں مصروف تھا اور دمشق کے عوام سے اپنے لئے بیعت لی۔[203] اور اس کے حامی ایک ناگہانی اقدام کے نتیجے میں دمشق کو مسخر کرنے میں کامیاب ہوئے۔[204]

خلیفہ اس وقت علاج کے لئے اردن کے شہر تدمر گیا تھا اور اس نے یزید کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک شخص کو دمشق روانہ کیا لیکن قاصد نے جاکر یزید کے ہاتھ پر بیعت کی۔[205]

یزید نے ایک لشکر ولید کے خلاف جنگ کے لئے روانہ کیا اور اس کو کتاب و سنت اور شوری کی پیروی کی دعوت دی۔[206] ولید نے جابیہ میں پڑاؤ ڈالا اور جنگ میں شکست کھانے کے بعد تن تنہا ایک محل میں پناہ لی اور اس کے ٹھکانے پر مسلح افراد نے حملہ کیا اور جمادی الثانی سنہ 126 ہجری میں مارا گیا اور اس کا سر یزید کے پاس بھجوایا گیا۔[207]

خلافت یزید بن ولید

یزید بن ولید کو عطا و بخشش کی کمی کی وجہ سے یزید ناقص کہا جاتا تھا۔[208] اس کے زمانے میں حالات کے تناؤ اور اقوام و قبائل کے درمیان اختلافات نے زور پکڑ لیا۔ حالات کی بہتری کے لئے اس کی کوششیں ناکام رہیں۔ حمص میں مروان بن عبداللہ اور ابومحمد سفیانی نے بغاوت کیی اور ولید ثانی کے بیٹوں کی بیعت کا مطالبہ کیا۔[209] فلسطینیوں نے بھی بیعت سے انکار کیا۔[210] ان اشتعال انگیزیوں میں سب سے بڑا کردار ارمنیہ کے والی مروان بن محمد نے ادا کیا۔[211] لیکن یزید نے اس کو جزیرہ اور موصل، آذربائی جان اور ارمنیہ کی ولایت کا وعدہ دیا اور اس نے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی۔[212] اس کے باوجود یزید صرف دمشق کا حکمران رہا۔[213]

مروی ہے کہ اس نے ابتداء میں اپنے بھائی ابراہیم بن ولید کو اور بعدازاں اور حجاج بن عبدالملک کو اپنا جانشین قرار دیا لیکن یہ روایت مشکوک ہے۔ اس کی حکومت چھ مہینوں سے زیادہ برقرار نہ رہی اور سنہ 126 ہجری کے آخری ایام میں دنیا سے رخصت ہوا۔[214]

یزید ثانی کے بعد کے آشوب زدہ حالات

معلوم نہیں ہے کہ ابراہیم بن ولید خلیفہ تھا یا نہیں۔[215]۔۔[216] کیونکہ یزید ثانی کی موت کے بعد حکم بن ضبعان نے فلسطین میں لوگوں کو سلیمان بن ہشام بن عبدالملک کی بیعت کی دعوت دی۔[217] حمص میں حالات حالت آشوب زدہ تھے۔ [218] اور ابراہیم نے سلیمان بن ہشام کو بغاوت کی سرکوبی کے لئے حمص روانہ کیا۔[219] دوسری طرف سے مروان بن محمد بھی شام کی طرف روانہ ہوا۔[220] قنسرین کے مقام پر قیسی اس سے جاملے اور حمص کی طرف روانہ ہوئے۔ عین الجر کے مقام پر دو لشکروں کا آمنا سامنا ہوا۔ مروان (ثانی) کی صلح کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ گھمسان کی لڑائی میں سلیمان کو شکست ہوئی اور وہ دمشق کی طرف بھاگ گیا۔[221] مروان صفر المظفر سنہ 127 ہجری میں دمشق میں داخل ہوا اور ابراہیم بھاگ گیا۔[222]

مروان بن محمد کی خلافت

مروان بن محمد دمشق میں داخل ہوا تو لوگوں نے اس کے ہاتھ پر اور کچھ عرصہ بعد اس کے دو بیٹوں کے ہاتھوں پر بیعت کی۔[223] مروان نے مروان بن حکم سے شباہت پیدا کرنے کی کوشش کی۔[224] اس کا پورا دور جنگ و نزاع میں گذرا۔ پورا عالم اسلام آشوب اور بلوؤں سے دوچار تھا۔ حمص میں عوام نے بغاوت کی اور مروان نے خود شورش کی آگ بجھا دی،[225] اور کچھ ہی دنوں میں اس کو دمشق میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔[226]

تحریکیں اور آشفتگیاں

  • عراق میں عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز نے بیعت سے انکار کیا جس کے بعد یمنیوں اور مضریوں کے درمیان تناز‏عہ کھڑا ہوا۔[227]
  • بعدازاں، ابتداء میں علویوں میں سے عبداللہ بن معاویہ نے کوفہ میں خلافت کا دعوی کیا لیکن اس کو عبداللہ بن عمر کے ساتھ جنگ میں شکست ہوئی اور ایران کے علاقے جبال کی طرف بھاگ گیا اور وہاں مسلط ہوا۔[228]
  • بعد ازاں خوارج میں سے ضحاک بن قیس شیبانی نے کوفہ پر تسلط حاصل کیا۔[229] مروان، نے یزید بن عمر بن ہبیرہ کو اس کے خلاف جنگ کے لئے روانہ کیا۔[230] ابن ہبیرہ نے کوفہ کو مسخر کیا اور خوارج کو کچل ڈالا۔[231] ضحاک سنہ 128 ہجری کو "کفرتوثا" کے عہاقے میں مارا گیا۔[232]
  • حجاز میں خارجی "ابوحمزہ مختار بن عوف" لوگوں کو مروان کے خلاف اکسا رہا تھا اور اس نے "عبداللہ بن یحیی اباضی" المعروف بہ "طالب الحق" کے ساتھ مل کر سنہ 129 ہجری کے ایام حج میں مکہ اور مدینہ پر قبضہ کیا۔[233] ابوحمزہ کو مروان کے لشکر سے شکست کھانا پڑی[234] اور رجب سنہ 130 میں مکہ میں مارا گیا۔
  • عبداللہ بن معاویہ ـ جو فارس، اصفہان اور رے پر مسلط ہوچکا تھا ـ ابن ہبیرہ کے ساتھ جنگ میں شکست کھا کر بھاگ گیا۔[235]
  • بنوعباس کا قیام۔

بنو عباس کا قیام اور بنو امیہ کا زوال

اگرچہ مروان بن محمد زيادہ تر بغاوتوں کے کچلنے میں کامیاب ہوا لیکن ایک بہت طاقتور تحریک رفتہ رفتہ تشکیل پائی جس نے بنو امیہ کو تخت اقتدار سے اتار کر دم لیا۔ اس تحریک نے خراسان کو اپنی جدوجہد کا مرکزقرار دیا۔[236]

ابو مسلم خراسانی خراسان پہنچا تو اموی مخالف تحریک کا نیا مرحلہ شروع ہوا۔ اس نے یمنیوں اور قیسیوں کے درمیان موجودہ تنازعات سے فائدہ اٹھا کر اپنی دعوت آگے بڑھائی۔ مروان اور ابن ہیبرہ سے مدد مانگی لیکن انہیں دوسرے مسائل کا سامنا تھا۔[237]

ابو مسلم نے جمادی الاول سنہ 130 ہجری میں خراسان کے دارالحکومت "مرو = Marv" کو مسخر کیا اور قحطبہ بن شبیب طائی کو دوسروں شہروں کی تسخیر کے لئے روانہ کیا۔[238] قحطبہ نے طوس، جرجان اور قومس[239] کو فتح کرنے کے بعد رجب سنہ 131 ہجری میں مروان کے بھجوائے گئے ابن ضبارہ کے لشکر کو اصفہان کی حدود میں شکست دی۔ اس نے نہاوند کو فتح کرکے ذوالقعدہ سنہ 131 ہجری میں عراق کا رخ کیا۔ ابن ہبیرہ خراسان کی سپاہ کا مقابلہ کرنے کے لئے کوفہ سے باہر نکلا تو یہ شہر خراسان کے بڑے داعی ابوسلمہ خلال کے حامیوں کے قبضے میں چلا گیا اور سپاہ خراسان دس محرم سنہ 132 ہجری میں کوفہ میں داخل ہوئی۔ کچھ ہی دنوں بعد عباسی خاندان کے بعض افراد کوفہ آئے اور آخر کار سب نے ربیع الاول سنہ 132 ہجری میں ابو العباس سفاح کے ہاتھ پر بحيثیت خلیفہ، بیعت کی۔

دوسری طرف سے، سپاہ خراسان کی ایک شاخ نے ابو عون کی سرکردگی میں شہر "زور" میں مروان کے عامل کو شکست دینے کے بعد موصل میں پڑا ڈالا۔[240] مروان اس وقت حران میں تھا۔ اس نے رأس العین اور پھر موصل کا رخ کیا اور دفاع کے لئے دریائے دجلہ کے کنارے خندق کھدوائی۔[241] ابوالعباس سفاح نے اپنے بھائی عبداللہ بن علی کو ابو عون کی مدد کے لئے روانہ کیا۔[242] عباسیوں کی سپاہ پہلی جنگ میں مروان کو شکست نہ دے سکی۔[243] لیکن جنگ "رودزاب" میں مروان کو شدید شکست ہوئی اور حران تک پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوا۔[244]

بعدازاں، مروان کو مسلسل بھاگنا پڑ رہا تھا اور عبداللہ ابن علی کے مسلسل تعاقب کے نتیجے میں حران سے قنسرین اور پھر حمص اور پھر دمشق فرار ہوا۔[245] رمضان المبارک سنہ 132 ہجری میں عباسیوں نے عوام کی مزاحمت کے باوجود دمشق کے پر قبضہ کیا اور ساتھ ہی اموی سلطنت کا کام تمام ہوا۔[246] دمشق میں عبداللہ بن علی نے حکم دیا کہ معاویہ اور یزید جیسے اموی خلفاء کی قبروں کو کھول دیا جائے اور ہشام بن عبدالملک کے جسم کے باقیات پر تازیانے مارے۔[247]

مروان فرار ہوکر فلسطین چلا گیا۔ عبداللہ بن علی اگر چہ اس کو نہ پاسکا لیکن دریائے ابو فطرس کے کنارے، اس کے حکم پر 100 امویوں کو ہلاک کیا گیا۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag عبداللہ بن علی نے ذوالقعدہ سنہ 132 ہجری میں لشکر اپنے بھائی صالح کے سپرد کیا۔[248] مروان اس زمانے میں مصر بھاگ کر چلا گیا اور نیل کو پار کرنے میں کامیاب ہوا۔[249] وہ آخر کار ذوالحجہ سنہ 132 ہجری میں "بوبصیر" کے علاقے میں مارا گیا اور اس کا سر عباسی خلیفہ کے لئے بھجوایا گیا۔[250]

بیرونی ربط

حوالہ جات

  1. تفصیل کے لئے رجوع کریں: زریاب، سیره رسول الله، 44-47
  2. بلاذری، جمل من انساب الاشراف، ج1، ص64
  3. بلاذری، وہی ماخذ، ج1، ص65، 67-68۔
  4. سدوسی، حذف من نسب قریش، ص30۔،کلبی، جمهرة النسب، ص37۔،بلاذری، وہی ماخذ، ج5، ص7۔
  5. طبری، تاریخ، ج2، ص252۔
  6. ابن عساکر، ج1، ص76۔،بلاذری، وہی ماخذ، ج1، ص68۔،طبری، وہی ماخذ، ج2، ص253۔
  7. تفصیل کے لئے رجوع کریں: مونس، تاریخ قریش، ص142۔
  8. کلبی، ص27، 37-38۔
  9. ابن هشام، التیجان، ص306۔،ابن عبد ربہ، ج2، ص23۔
  10. علی، جواد، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج3، ص526 نیز EI1,VIII, 991-997۔
  11. ابن حبیب، ص371، نیز 405۔
  12. . کلبی، ص38؛ بلاذری، وہی ماخذ، ج5، ص8 9-10۔
  13. بلاذری، وہی ماخذ، ج5، ص9۔
  14. ازرقی، ج1، ص115۔
  15. بلاذری، وہی ماخذ، ج6، ص95۔
  16. وہی ماخذ، ج6، ص72-74۔
  17. وہی ماخذ، ج1، ص41، 55، 67-70۔
  18. کلبی، ص51-52۔
  19. وہی ماخذ، ص53-54۔
  20. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج2، ص715۔
  21. بلاذری، فتوح... ص129۔
  22. ابن هشام، سیره... ج1 ص276، 315، ج2، ص26، 93۔
  23. . بلاذری، جمل، ج1، ص141۔
  24. دیکھیں: ابن حبیب، ص388۔
  25. ابن قتیبه، المعارف، ص334-345۔
  26. مونس،، تاریخ قریش ص143۔
  27. بلاذری، وہی ماخذ، ج2، ص271۔
  28. طبری، تاریخ، ج3، ص387، 604-605، ج4، 62، 64، 67۔
  29. بلاذری، وہی ماخذ، ج10، ص434-435۔
  30. ذهبی، ج2، ص107۔
  31. بلاذری، وہی ماخذ، ج5 ، ص17۔
  32. بلاذری، جمل، ج6، ص124-125، ج10، ص30۔
  33. وہی ماخذ، ج6، ص119۔
  34. طبری، وہی ماخذ، ج4، 227۔
  35. وہی ماخذ، ج4، ص231۔
  36. بلاذری، وہی ماخذ، ج5، ص19۔،ابوالفرج، الاغانی، ج6، ص356۔
  37. طبری، وہی ماخذ، ج4، ص251-258، 269۔
  38. بلاذری،وہی ماخذ، ج6، ص133، 134، 208۔،طبری، وہی ماخذ، ج4، 348، 365۔
  39. . یعقوبی، ج2، ص195-196۔
  40. قس: مادلونگ (Madelung)، The Succession to Muhammad ص129-128۔
  41. ابن سعد، ج5، ص36؛ بلاذری، وہی ماخذ، ج6، ص138، 181۔
  42. وہی ماخذ، ج6، ص184۔
  43. مادلونگ، 137۔
  44. طبری، تاریخ، ج4، ص362۔
  45. وہی ماخذ، ج4، ص433، 448۔
  46. ابن سعد، ج5، ص38۔
  47. بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص43، ج10، ص127۔
  48. طبری، وہی ماخذ، ج4، ص440-441۔
  49. بلاذری، فتوح، 152-153۔
  50. طبری، وہی ماخذ، ج4، ص434۔
  51. بلاذری، جمل، ج3، ص197۔،ابراهیم بن محمد، سراسر کتاب۔،یعقوبی، ج2، ص231۔،مسعودی، ج3، ص211۔
  52. . ولهاوزن، الدولة العربیة و سقوطها، ص100۔
  53. بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص286-287۔
  54. طبری، وہی ماخذ، ج5، ص161۔، سنہ 37 ہجری معاویہ کے ہاتھ پر میں شامیوں کی بیعت سے آگہی کے لئے رجوع کریں: بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص293۔، سنہ 37 ہجری میں معاویہ کے ہاتھ پر شامیوں کی بیعت: طبری، وہی ماخذ، ج5، ص324۔
  55. اس موضوع کا تجزیہ دیکھنے کے لے رجوع کریں: خماش، الادارة فی المصر الاموی، 29-30۔
  56. بلاذری، وہی ماخذ، ج5، ص28،31،54،232-233۔،طبری، وہی ماخذ، ج5، ص328،336۔،یعقوبی، ج2، ص276۔
  57. بلاذری، وہی ماخذ، ج5، ص155۔
  58. نیز دیکھیں: طبری، وہی ماخذ، ج5، ص330۔
  59. ولهاوزن، ص108۔
  60. برای تفصیل، نک: خماش، الشام...، 157۔
  61. ولهاوزن، ص112۔
  62. طبری، وہی ماخذ، ج5، ص172۔
  63. وہی ماخذ، ج5، ص231؛ برای مطالب مربوط به دوبار عزل مروان از حکومت مدینه، نک: وہی ماخذ، ج5، ص232،308۔، خلیفه، تاریخ، ج1، ص245،265،269،ابن سعد، ج5، ص38۔، مسعودی، ج3، ص215۔
  64. طبری، ج5، ص483۔،بعد کے ادوار میں امویوں کے شام میں قیام کے سلسلے میں معلومات کے لئے رجوع کریں: خماش، وہی ماخذ، 106-109۔
  65. طبری، وہی ماخذ، ج5، ص170-171،212-214۔۔،مامورین کے انتخاب کے سلسلے میں معاویہ کی پالیسی سے آگہی کے لئے رجوع کریں: خماش، وہی ماخذ، ص103۔
  66. بلاذری، جمل، ج5، ص202۔،یعقوبی، ج2، ص259۔،طبری، تاریخ، ج5، ص214-215۔
  67. ولهاوزن، ص100-101۔
  68. طبری، وہی ماخذ، ج5، ص17۔،تفصیل کے لئے رجوع کریں: خماش، الادارة، ص63۔
  69. اس کی اصلاحات کے سلسلے میں جاننے کے لئے رجوع کریں: یعقوبی، ج2، ص279۔،نیز رجوع کریں: خماش، وہی ماخذ، ص121-123۔
  70. طبری، وہی ماخذ، ج5، ص292۔
  71. خلیفه، ج1، ص236؛ یعقوبی، ج2، ص257۔
  72. خلیفه، ج1، ص237۔
  73. مثال کے طور پر رجوع کریں: بلاذری، فتوح، 152،235۔،یعقوبی، ج2، 278،272۔،طبری، وہی ماخذ، ج5، ص162-321۔،اس زمانے میں فتوحات کی فہرست کے لئے رجوع کریں: یعقوبی، ج2، ص285-286۔،نیز دیکھیں: خماش، الشام، ص200؛ فرج، العلاقات بین الامبراطوریة البیزنطیة و الدولة الامویة، اسکندریه، ص88۔
  74. خلیفه، ج1، ص251۔،طبری، وہی ماخذ، ج5، ص301، 322۔
  75. یعقوبی، ج2، ص271۔،طبری، وہی ماخذ، ج5، ص303۔
  76. مثلاً دیکھیں: بلاذری، جمل، ج5، ص299۔،طبری، وہی ماخذ، ج5، ص480۔
  77. وہی ماخذ، ج5، ص400-477۔
  78. طبری، تاریخ، ج5، ص479۔
  79. خلیفہ، ج1، ص289-292۔،ابن سعد، طبقات، 5، ص38۔،طبری، وہی ماخذ، ج5، ص482-486۔
  80. طبری، وہی ماخذ، ج5، ص474۔
  81. وہی ماخذ، ج5، ص484۔
  82. وہی ماخذ، ج5، ص496-499۔
  83. خلیفه، ج1، ص320۔،طبری7 وہی ماخذ، ج5، ص499۔،مسعودی، ج3، ص281۔
  84. مسعودی، ج3، ص282۔
  85. طبری، وہی ماخذ، ج5، ص540۔
  86. وہی ماخذ، ج5، ص504۔
  87. وہی ماخذ، ج5، ص503۔،مسعودی، ج3، ص283-284۔
  88. بلاذری، وہی ماخذ، ج6، ص258۔
  89. طبری، تاریخ، ج5، ص531۔
  90. خماش، الشام، ص161۔
  91. بلاذری، وہی ماخذ، ج5، ص297۔،طبری، وہی ماخذ، ج5، ص329،610۔
  92. بلاذری، وہی ماخذ، ج6، ص259۔
  93. طبری، وہی ماخذ، ج5، ص531، 535۔
  94. بلاذری، وہی ماخذ، ج5، ص385، 282۔
  95. بلاذری، وہی ماخذ، ج6، ص275۔،ابن عساکر، ج24، ص294۔
  96. ابن سعد، ج5، ص40؛ بلاذری۔،وہی ماخذ، ج6، ص263، 272، 280۔،نیز دیکھیں: ولهاوزن، 146۔
  97. دیکھیں: بلاذری، جمل، ج5، ص377۔،طبری، وہی ماخذ، ج5، ص499۔
  98. مسعودی، ج3، ص290۔
  99. طبری، وہی ماخذ، ج5، ص532، 534، 536۔
  100. بلاذری، وہی ماخذ، ج5، ص379۔، نیز نک: خلیفه، ج1، ص321، طبری، تاریخ، ج5، ص530۔
  101. مثلاً دیکھیں: بلاذری، وہی ماخذ، ج5، ص379-383۔
  102. خلیفہ، ج1، ص318، 326۔،ابن سعد، ج5، ص41۔،طبری، وہی ماخذ، ج5، ص534۔
  103. وہی ماخذ۔،نیز دیکھیں: ابن سعد، ج5، ص41۔،بلاذری، جمل، ج6، ص278۔
  104. وہی ماخذ، ج6، ص267۔،طبری، وہی ماخذ، ج5، ص537۔،نیز دیکھیں: خلیفہ، ج1، ص326۔،مسعودی، ج3، ص285۔
  105. ابن سعد، ص405۔،بلاذری، جمل، ج6، ص295۔
  106. وہی ماخذ، ج6، ص278۔،طبری، تاریخ، ج5، ص610۔،مسعودی، وہی ماخذ۔
  107. بلاذری، وہی ماخذ، ج6، ص280۔
  108. بلاذری، وہی ماخذ، ج6، ص280، 297-300۔،طبری، وہی ماخذ، ج5، ص610-611۔،ابن سعد، ج5، ص42-43؛ مسعودی، ج3، ص289۔
  109. بلاذری، وہی ماخذ، ج6، ص266۔،طبری، تاریخ، ج5، ص534۔
  110. خلیفہ، وہی ماخذ۔،ابن سعد، ج5، ص42۔،بلاذری، وہی ماخذ، ج6، ص296۔،طبری، تاریخ، ج5، ص534۔
  111. وہی ماخذ، ج5، ص537۔
  112. بلاذری، وہی ماخذ، ج6، ص279۔،طبری، تاریخ، ج5، ص540۔،نیز دیکھیں: خلیفه، ج1، ص329۔،مسعودی، ج3، ص288۔
  113. بلاذری، وہی ماخذ، ج6، ص286-297۔
  114. بلاذری، جمل، ج7، ص194، 203، 204۔
  115. وہی ماخذ، ج7، ص206۔
  116. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص123۔،طبری، وہی ماخذ، ج8، ص416-417۔،نیز نک: خلیفه، ج1، ص377۔،یعقوبی، ج2، ص334-335۔
  117. طبری وہی ماخذ، ج6، ص127، 150 در 69-70۔
  118. بلاذری، جمل، ج6، ص58۔،طبری، وہی ماخذ، ج6، ص140۔
  119. وہی ماخذ، ج6، ص151۔
  120. وہی ماخذ، ج6، ص159-160۔،یعقوبی، ج2، 2 317۔
  121. وہی ماخذ، ج7، ص1157۔،طبری، وہی ماخذ، ج6، ص174۔
  122. وہی ماخذ، ج6، ص174-175۔
  123. بلاذری، وہی ماخذ، ج7، ص120-121، 128۔،طبری، وہی ماخذ، ج6، ص187۔،نیز نک: یعقوبی، ج3، ص318۔
  124. وہی مآخذ۔
  125. طبری، وہی ماخذ، ج6، ص194۔،تفصیل کے لئے دیکھیں: فرج، 49-51۔،ولهاوزن، ص176-177۔
  126. طبری، وہی ماخذ، ج6، ص202، 318۔
  127. طبری، وہی ماخذ، ج6، ص202۔
  128. عمد، الحجاج بن یوسف الثقفی، ص367، 443، 454۔
  129. بلاذری، وہی ماخذ، ج13، ص381۔،مسعودی، ج3، ص355۔
  130. مسعودی، ج3، ص337، 351۔
  131. کشی، الرجال، ص75۔
  132. شیخ مفید، ج1، ص327۔،علیؑ کو دشنام دینے کے سلسلے میں حجاج کے حکم کے لئے رجوع کریں: کشی، ص101۔
  133. بلاذری، وہی ماخذ، ج14، ص384-386۔
  134. خلیفه، ج1، ص365، 371۔
  135. طبری، وہی ماخذ، ج6، ص247۔
  136. طبری، وہی ماخذ، ج6، ص424-469۔
  137. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص71؛ طبری، وہی ماخذ، ج6، ص496۔،خلیفه، ج1، ص397۔،یعقوبی، ج2، ص339۔
  138. بلاذری، ج8، ص113۔
  139. طبری، وہی ماخذ، ج6، 498-499۔
  140. سورہ انعام آیت 124۔
  141. طبرسی، اعلام الورى ج1 ص481۔،مجلسی، بحارالانوار، ‌ج 46، ص 152، حدیث 12 و ص 153 و 154۔
  142. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص99۔
  143. طبری، وہی ماخذ، ج6، ص505۔
  144. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص113 د 98ہجری۔
  145. طبری، ج6، ص530۔
  146. وہی ماخذ، ج6، ص531۔
  147. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص102، 126۔،طبری، وہی ماخذ، ج6، ص550۔،ذهبی، ج5، ص123-124۔
  148. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص76۔
  149. بلاذری، جمل، ج8، ص125۔
  150. وہی ماخذ، ج6، ص550-551۔
  151. ابن عساکر، ج45، ص126؛ ذهبی، ج5، 114۔
  152. یعقوبی، ج2، ص366۔،ذهبی، ج5، ص128۔،مسعودی، ج4، ص18۔
  153. همو، ج4ف ص17۔،ذهبی، ج5، ص147۔
  154. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص184۔
  155. وہی ماخذ، ج8، ص130۔،دینوری، ص331۔
  156. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص216۔،طبری، وہی ماخذ، ج6، ص555۔
  157. طبری، وہی ماخذ، ج6، ص559۔
  158. تفصی کے لئے رجوع کریں: ولهاوزن، ص217۔،ابن عبدالعزیز کی بعض مالیاتی پالیسیوں کے بارے میں مزید آگہی کے لئے رجوع کریں: همشری، النظام الاقتصادی فی الاسلام، ص546۔
  159. بلاذری، جمل، ص130۔
  160. طبری، تاریخ، ج6، ص567۔
  161. اس کے بارے میں اخبار و روایات کے مجموعے کے لئے رجوع کریں: ابن عساکر، ج45، ص126۔
  162. ابن عساکر، ج45، ص142۔
  163. دیکھیں: ابن جوزی، فهرست آثار، نیز ابن عبدالحکم، شمارہ 2، بخش آثار۔
  164. ولهاوزن، ص250۔
  165. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص126۔،طبری، وہی ماخذ، ج6، ص565۔،ابن عساکر، ج45، ص264۔
  166. یعقوبی، ج2، ص370؛ ابن عبدالحکم، ص102۔
  167. بلاذری، وہی ماخذ۔
  168. یعقوبی وہی ماخذ۔
  169. خلافت و اقدامات عمربن عبدالعزیز۔
  170. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص244۔،ولهاوزن، ص295۔
  171. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص245۔،یعقوبی، ج2، ص372۔،طبری، وہی ماخذ، ج6، ص574۔
  172. برای تفصیل نک: بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص279۔،یعقوبی، وہی ماخذ۔،طبری، وہی ماخذ، ج6، ص590۔
  173. طبری، وہی ماخذ، ج6، ص604۔
  174. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص31۔،یعقوبی، ج2، ص347۔،طبری، وہی ماخذ، ج6، ص615۔
  175. ولهاوزن، ص258-259۔
  176. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، 353۔،طبری، وہی ماخذ، ج6، 575۔
  177. وہی ماخذ، ج7، ص244۔
  178. مثلاً دیکھیں: وہی ماخذ، ج8، ص256۔،طبری، تاریخ، ج7، ص22۔،مسعودی، ج4، ص30۔،ابوالفرج، الاغانی، ج15، 124۔
  179. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص243۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص21۔
  180. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص370۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص25۔،مسعودی، ج4، ص41۔
  181. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص115، 378، 379، 391۔،طبری وہی ماخذ، ج7، ص203۔
  182. طبری، وہی ماخذ، ذیل سالهای 107 تا 124 ق۔
  183. وہی ماخذ، ج7، ص54، 113۔
  184. طبری، وہی ماخذ، ج7، ص26۔
  185. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص75۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص128۔
  186. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص75۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص128۔
  187. طبری، وہی ماخذ، ج7، ص142۔،خالد کے بارے میں مزید جاننے کے لئے رجوع کریں: ولهاوزین، 263-266۔
  188. طبری، وہی ماخذ، ج7، ص147 در 121-122۔
  189. بلاذری، جمل، ج3، ص427؛ ج8، ص422۔،طبری، تاریخ، ج7، ص160۔،مسعودی، ج4، ص42۔،ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، ص127۔
  190. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص36؛ طبری، وہی ماخذ، ج7، ص200۔
  191. مآثر الانافة فی معالم الخلافة ج1 ص152۔، کفعمی، جنة الأمان الواقية، مصباح الکفعمی، 522۔
  192. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص370۔،ابن عساکر، ج74، ص23۔
  193. طبری، وہی ماخذ، ج7، ص209۔
  194. طبری، ج7، ص211۔
  195. ولید ثانی کے بارے میں مزید جاننے کے لئے رجوع کریں: ابوالفرج، الاغانی، ج7، ص1۔
  196. مثلاً دیکھیں: طبری، وہی ماخذ، ج7، ص209۔،ابوالفرج، وہی ماخذ، ج7، ص47۔،ابن منظور، ج26، ص371۔
  197. طبری، وہی ماخذ، ج7، ص217۔
  198. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص160۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص231۔
  199. وہی ماخذ، ج7، ص231۔
  200. وہی ماخذ، ج7، ص232۔،یزید کے بارے میں مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص190۔
  201. وہی ماخذ، ج9، ص169۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص237۔
  202. بلاذری، جمل، ج9، ص169۔،طبری، تاریخ، ج7، ص237۔،نیز رجوع کریں: ابن منظور، ج26، ص372۔
  203. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص171۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص239۔
  204. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص172۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص240۔
  205. بلاذری، مان، ج9، ص179،175،182،185۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص243۔
  206. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص180۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص244۔
  207. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص179۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص245،252،270۔
  208. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص189۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص261،299۔
  209. وہی ماخذ، ج7، ص262۔،بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص203۔
  210. طبری، وہی ماخذ، ج7، ص266۔
  211. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص199۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص281۔
  212. وہی ماخذ، ج7، ص298۔،بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص220۔
  213. وہی ماخذ، ج9، ص196۔
  214. بلاذری، جمل، ج8، ص227؛ ج9، ص197، 298۔،طبری، وہی ماخذ۔
  215. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص199ف 204۔
  216. طبری، تایخ، ج7، ص299۔
  217. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص196۔
  218. وہی ماخذ، ج9، ص203۔
  219. طبری، وہی ماخذ، ج7، ص300۔
  220. وہی ماخذ، ج7، ص300۔
  221. وہی ماخذ، ج7، ص301۔،نیز دیکھیں: بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص200۔
  222. بلاذری، وہی ماخذ، ج8، ص227، ج9، 22۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص302۔
  223. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص200، 201، 217۔
  224. وہی ماخذ، ج9، ص224۔
  225. وہی ماخذ، ج9، ص227۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص312۔
  226. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص230۔
  227. وہی ماخذ، ج8، ص229۔
  228. طبری، وہی ماخذ، ج7، ص302۔
  229. وہی ماخذ، ج7، ص316۔
  230. وہی ماخذ، ج7، ص329۔
  231. وہی ماخذ، ج7، ص329۔
  232. وہی ماخذ، ج7، ص329، 345۔
  233. طبری، وہی ماخذ، ج7، ص374، 393،خلیفه، ج2، 583،ابوالفرج، الاغانی، ج20، ص99۔
  234. طبری، تاریخ، ج7، ص398۔
  235. طبری، وہی ماخذ، ج7، ص371-374۔
  236. اخبار الدولة العباسیة، ص197۔
  237. طبری، وہی ماخذ، ج7، ص369۔
  238. اخبار، ص321۔
  239. وہی ماخذ، ص323۔
  240. طبری، تاریخ، ج7، ص432۔
  241. همانجا۔
  242. بلاذری، جمل، ج4، ص143،یعقوبی، ج2، ص413،طبری، وہی ماخذ۔
  243. وہی ماخذ، ج7، ص432۔،ابن اعثم، ج4، ص361۔،ازدی، ص127۔
  244. بلاذری، وہی ماخذ، ج4، ص143، ج9، ص318۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص433۔
  245. وہی ماخذ، ج7، ص437۔
  246. بلاذری، وہی ماخذ، ج4، 143۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، 440۔،فتوح، 126۔،مسعودی، ج4، ص86۔
  247. ابن سعد، ج5، ص326۔، بلاذری، جمل، ج4، ص144۔، یعقوبی، ج2، ص426۔
  248. طبری، وہی ماخذ، ج7، ص439۔
  249. وہی ماخذ، ج7، ص440۔
  250. بلاذری، وہی ماخذ، ج9، ص322۔،طبری، وہی ماخذ، ج7، ص442۔

مآخذ

  • ابراهیم بن محمد ثقفی، الغارات، بہ کوشش عبد الزهرا حسینی، بیروت، 1407 ہجری۔
  • ابن ابی شیبہ، عبدالله، المصنف، بہ کوشش کمال یوسف حوت، ریاض، 1409 ہجری۔
  • ابن اعثم کوفی، احمد، الفتوح، بیروت، دار الکتب العلمیہ۔
  • ابن حبیب، محمد، المنمق، بیروت، 1405 ہجری۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد، الدرر الکامنة، حیدر آباد دکن، 1945ء
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر۔
  • ابن عبدالبر، یوسف، الاستیعاب، بہ کوشش علی محمد بجاویف قاهره، 1960 عیسوی۔
  • ابن عبدالحکم، عبدالله، سیرة عمر بن عبدالعزیز، بہ کوشش احمد امین و دیگران، قاهره، 1359 ہجری۔
  • ابن عساکر، علی، تاریخ مدینة دمشق، بہ کوشش علی شیری، بیروت، 1415 ہجری۔
  • ابن قتیبہ، عبدالله، عیون الاخبار، دارالکتب المصریہ۔
  • همو، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشه، قاهره، 1969 ہجری۔
  • ابن کثیر، تفسیر، بیروت، 1401 ہجری۔
  • ابن منظور، محمد، مختصر تاریخ دمشق ابن عساکر، بہ کوشش ابراهیم صالح و دیگران، دمشق، 1409 ہجری۔
  • ابن هشام، عبدالملک، التیجان، حیدر آباد دکن، 1347 ہجری۔
  • همو، سیرة النبی، بہ کوشش محمد محی الدین عبدالحمید، قاهره، المکتبة التجاریة۔
  • ابو عمور دانی، عثمان، السنن الواردة فی الفتن، بہ کوشش رضاء الله مبارکفوری، ریاض، 1416 ہجری۔
  • ابو الفررج اصفهانی، الاغانی، ج5، 7، 15، دارالکتب المصریہ، ج20، بیروت، 1390 ہجری۔
  • همو، مقاتل الطالبیین، بہ کوشش احمد سقر، قاهره، 1368 ہجری۔
  • ابو یعلی موصلی، احمد، مسند، بہ کوشش حسین سلیم اسد، دمشق، 1404 ہجری۔
  • احمد بن حنبل، مسند، قاهره، 1313 ہجری۔
  • اخبار الدولة العباسیة بہ کوشش عبدالعزیز دوری و عبدالجبار مطلبی، بیروت 1971 ہجری۔
  • ازدی، یزید، تاریخ الموصل، بہ کوشش علی حبیبہ، قاهره، 1387 ہجری۔
  • ازرقی، محمد، اخبار مکة، بہ کوشش رشدی صالح ملحس، بیروت، 1982 ہجری۔
  • بلاذری، احمد، جمل من انساب الاشراف، بہ کوشش سهیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، 1417 ہجری۔
  • همو، فتوح البلدان، بہ کوشش دخویہ، لیدن، 1836 ہجری۔
  • بیضاوی، عمر، تفسیر، بہ کوشش عبدالقادر حسونه، بیروت، 1416 ہجری۔
  • حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصحیحین فی الحدیث، بہ کوشش مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، 1411 ہجری۔
  • خطیب بغدادی، احمد، تاریخ بغداد، قاهره، 1949 عیسوی۔
  • خلال، احمد، السنة، بہ کوشش عطیہ زهرانی، ریاض، 1410 ہجری۔
  • خلیفہ بن خیاط، تاریخ، بہ کوشش سهیل زکار، دمشق، 1967 عیسوی۔
  • خماش، نجده، الادارة فی المصر الاموی، دمشق، 1400 ہجری۔
  • همو، الشام فی صدر الاسلام، دمشق، 1987 عیسوی۔
  • دینوری، احمد، الاخبار الطوال، بہ کوشش عبدالمنعم عامر، قاهره، 1959 عیسوی۔
  • ذهبی، احمد، سیر اعلام النبلاء، بہ کوشش شعیب ارنووط و دیگران، بیروت، 1404 ہجری۔
  • زبیر بن بکار، الاخبار الموفقیات، بہ کوشش سامی مکی عانی، بغداد، 1972 عیسوی۔
  • زریاب، عباس، سیره رسول الله، تهران، 1370 ہجری شمسی۔
  • سدوسی، مورج، حذف من نسب قریش، بیروت، 1396 ہجری۔
  • شیخ طوسی، محمد، مصباح المتهجد، بیروت، 1411 ہجری۔
  • شیخ مفید، محمد، الارشاد، قم، 1413 ہجری۔
  • طبرسی، فضل، مجمع البیان، بیروت، 1415 ہجری۔
  • طبری، تاریخ۔
  • وہی مؤلف، تفسیر۔
  • عباس، احسان، العلاقات التجاریة بین مکة و الشام حتی بدایات الفتح الاسلامی، الابحاث، 1990 عیسوی، س38۔
  • عبدالله بن احمد، مسائل احمد، بہ کوشش فضل الرحمان دین محمد، دهلی، 1988 عیسوی۔
  • عطوان، حسین، الشوری فی العصر الاموی، بیروت، 1410 ہجری۔
  • علامہ حلی، حسن، کشف الیقین، بہ کوشش حسین درگاهی، تهران، 1411 ہجری۔
  • علی، جواد، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بغداد/بیروت، 1968 عیسوی۔
  • عمد، احسان صدقی، الحجاج بن یوسف الثقفی، بیروت، 1973 عیسوی۔
  • عودات، احمد عبدالله، الحیاة الاقتصادیة فی العراق فی عهد الخلیفہ هشام بن عبدالملک، المؤرخ العربی، 1409 ہجری، س 13، شمـ 34۔
  • فرج، دسام عبدالعزیز، العلاقات بین الامبراطوریة البیزنطیة و الدولة الامویة، اسکندریہ، 1981 عیسوی۔
  • قرآن کریم
  • قلقشندی، احمد، مآثر الانافة فی معالم الخلافة، کویت، 1985 عیسوی۔
  • کشی، محمد، معرفة الرجال، اختیار شیخ طوسی، بہ کوشش حسن مصطفوی، مشهد، 1348 ہجری شمسی۔
  • کلبی، هشام، جمهرة النسب، بہ کوشش ناجی حسن، بیروت، 1407 ہجری۔
  • مبرد، محمد، الکامل، به کوشش زکی مبارک، قاهره، 1355 ہجری۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، 1403 ہجری۔
  • محقق کرکی، علی، تعیین المخالفین لامیرالمؤمنین، رسائل، بہ کوشش محمد حسون، قم، 1409 ہجری۔
  • محمدی ملایری، محمد، تاریخ و فرهنگ ایران (پیوستها)، تهران، 1379 ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی، مروج الذهب، بہ کوشش شارل پلا، بیروت، 1966 عیسوی۔
  • معمر بن راشد، الجامع، همراه المصنف عبد الرزاق صنعانی، بہ کوشش حبیب الرحمان اعظمی، بیروت، 1403 ہجری۔
  • مقریزی، احمد، النزاع و التخاصم فیما بین امیة و بنی هاشم، بہ کوشش محمود عرنوس، قاهره، 1937 عیسوی۔
  • مونس حسین، تاریخ قریش، جده، 1408 ہجری۔
  • نعیم بن حماد، الفتن، بہ کوشش سمیر امین زهیری، قاهره، 1412 ہجری۔
  • ولهاوزن، یولیوس، الدولة العربیة و سقوطها، ترجمہ یوسف عش، دمشق، 1376 ہجری۔
  • همشری، مصطفی، النظام الاقتصادی فی الاسلام، ریاض، 1405 ہجری۔
  • یعقوبی، احمد، تاریخ، بہ کوشش هوتسما، لیدن، 1969 عیسوی۔
  • المجلسي، محمد باقر، بحار الانوار الجامعة لدرر أخبار الائمة الاطهار، مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان الطبعة الثانية المصححة 1403 ہجری - 1983 عیسوی۔
  • الطبرسي، الفضل بن الحسن، إعلام الورى بأعلام الهدى، تحقيق مؤسسة ال البيت لإحياء التراث - قم۔ الطبعة: الأولى - ربيع الأولى- 1417 هجری۔

٭ تقي الدين ابراهيم بن علي كفعمي (متوفی 925 ہجری)، جنة الأمان الواقية و جنة الإيمان الباقية= مصباح الكفعمي، طبع ايران سنہ 1916 عیسوی۔

  • Madelung، «'Alī: The counter-caliphate of Hāshim»، The Succession to Muhammad: A Study of the Early Caliphate،