کتاب التوحید ، روائی کتاب ہے کہ جو شیعہ عقائد کے بارے میں عربی زبان میں لکھی گئی، اس کے مولف چوتھی صدی ہجری قمری کے مشہور شیعہ محدّث شیخ صدوق ہیں۔ کتاب کا اصلی موضوع، شیعہ نقطہ نظر سے توحید کی شناخت ہے جس میں متعلقہ بحث و موضوعات جیسے صفات ثبوتیہ اور سلبیہ، ذاتی و فعلی اور ان کی ذات الہی سے نسبت اور حدوث و قدم اور جبر و تفویض بیان ہوئے ہیں۔

توحید صدوق
کتاب التوحید
مشخصات
مصنفمحمد بن علی بن بابویہ شیخ صدوق
موضوعتوحید و خدا شناسی
زبانعربی

مولف کی نظر میں کتاب کی تالیف کا مقصد، شیعہ عقائد کے بارے میں مخالفین کی بے بنیاد تہمتوں کا جواب دینا تھا۔ کتاب التوحید کا شمار احادیث کی معتبر کتابوں میں ہوتا ہے۔ یہ کتاب علمائے شیعہ کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور [ان کے بعد علماء کے] آثار میں اسی کتاب کی روایات سے استناد کیا جاتا ہے۔

کتاب کے مولف

تفصیلی مضمون: شیخ صدوق
اس کتاب کے مولف محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی شیخ صدوق کے نام سے مشہور ہیں وہ چوتھی صدی ہجری کے بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں۔[1] ان کی تاریخ ولادت کے بارے میں دقیق طور پر معلومات دستیاب نہیں ہیں لیکن اندازہ کے مطابق (سنہ ۳۰۵ ھ) کے بعد ہوِئی ہے ۔ شیخ صدوق کی قبر، شہر رے میں ہے۔ ان کو شہر قم کے مکتب حدیثی کے محدثین اور فقہاء میں شمار کیا گیا یے اور تقریبا تین سوعلمی آثار اور تالیفات ان کی طرف منسوب ہیں جن میں کے بہت سے آثار آج موجود نہیں ہیں اس کتاب کے علاوہ، کتاب من لا یحضرہ الفقیہ جوکتب اربعہ شیعہ میں شمار ہوتی ہے،اورمعانی الاخبار، عیون الاخبار، الخصال، علل الشرائع اور صفات الشیعۃ ان کے آ ثار میں سے ہیں۔

ان کے بعض مشہور شاگردوں میں حسب ذیل افراد ہیں: سید مرتضی، شیخ مفید و تلعکبری۔

تالیف کامقصد

ابن بابویہ [2] نے اپنی اس تالیف کا مقصد، مخالفین کی طرف سے اہل تشیع پر، تشبیہ اور جبر سے متعلق،کیے گئے اعتراضات کا جواب ذکر کیاہے۔

غالیوں، نے جبر و تشبیہ سے متعلق حدیثیں جعل کرکے ان کو شیعوں کی طرف منسوب کردیں۔ [3] یہ تہمت اور نسبت، زیادہ تر اس زمانے کے معتزلی فرقہ کے لوگ لگا یا کرتے تھے جیسا کہ خیاط نامی مولف نے اپنی کتاب «انتصار»،[4] میں بارہا اس بات کو ذ کر کیا ہے۔[5]کبھی کبھی بعض علم کلام کی شیعہ ماہر شخصیتیں، قم کے مکتب حدیث کے گروہ کی رد وتنقید میں یہ اعتراضات بیان کرتی تھیں۔[6] چوتھی ہجری کے اوایل میں، ابوالحسن اشعری نے تجسیم (خدا کے جسم ہونے کا عقیدہ) اور تشبیہ (مخلوقات سے خدا کی تشبیہ دینا) کی نسبت شیعوں کی طرف دی ہے [7] اور یہاں تک کہ اہل سنت کے روایت پسند اور حدیث پسند گروہ بھی با وجود اس کے کہ خود بھی اسی تہمت اور نسبت کے دائرہ میں آتے تھے اہل تشیع کو صفات خدا کے اثبات میں زیادتی کرنے والوں اور تشبیہ دینے والوں کے عنوان سے پہچانتے تھے۔[8]۔

کتاب التوحید کی اہمیت

تالیف کا سبب

اسلام کی ابتدائ صد یوں میں، عقائد سے متعلق «کتاب التوحید» کے عنوان سے کتابیں لکھی جاتی تھیں کہ جو مختلف مسلک و مذہب کے اعتقادی مسائل کو بیان کرتی تھیں۔[9] چوتھی صدی میں، معتزلہ کے کمزور ہونے اور فرقہ اشاعرہ کی پیدا ئش کے ساتھ ساتھ، حدیث پسند گروہ، عقائد سے متعلق بحث و درس کا ذمہ دار بن گیا تھا اور اس گروہ کے عقائد کے موضوع پرمختلف کتب کے درمیان، امکان ہے کہ ابن خزیمہ کی کتاب "التوحید" اور کافی کی کتاب التوحید، شیخ صدوق کے زیادہ پیش نظر تھیں۔

علمائے شیعہ کے نزدیک کتاب کا مقام

علامہ مجلسی نے اپنی کتاب، بحار الانوار (توحید اورعدل سے متعلق جلدوں میں ) اس کتاب کی روایات سے بہت استفادہ کیا ہے۔ شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ [10] اور اسی طرح محدث نوری نے، مستدرک الوسائل[11] میں اس کتاب سے روایات نقل کی ہیں۔

کتاب کے مندرجات پر ایک نظر

شیخ صدوق نے کتا ب التوحید میں، روایات کی روشنی میں عقائد سے متعلق مفاہیم بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، در پیش عقائدی و کلامی مسائل کو دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ہے انھوں نے در حقیقت، احادیث کی روشنی میں عقائد کے موضوع پر ایک منظم نیا کورس پیش کیا یے اوراس سلسلے میں، جہاں تک ممکن ہوسکا اپنی آراء کو استعمال نہیں کیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہےکہ مرحوم صدوق، معرفت خدا اور توحید جیسے مختلف مسائل کے درمیان، اسماء و صفات الہی کی بحث پر زیادہ زور دیتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس دور کے مخالفین شیعہ کے نظریات کے مقابل آپ دفاع طلبسلبی و جدلی خصلت کے مالک تھے یا پھر آپ کا مقصد، تشیع پر لگائے گئے بعض اعتراضات کا جواب دینا تھا۔ ان بحثوں کے مقابل، پہلے مرحلہ میں وہ لوگ ہیں کہ جو تشبیہ اور جسمانیت کا عقیدہ رکھنے والے ہوں اگرچہ اس کا مطلب، قطعی معتزلہ کی ہمراہی نہیں ہے۔

اس کتاب کا موضوع، توحید عام معنی میں ہے اسی بنا پرمولف محترم نے وحدانیت ذات الہی اور صفات الہی، حدوث و قدم جیسے مسائل بیان کرنے کے علاوہ، قضا و قدر، جبر و تفویض اور جبرواختیار سے متعلق مسائل و عناوین کو بھی بیان کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شیخ صدوق نے توحید کے اس اصطلاحی معنی کے سلسلے میں کہ جو معرفت خدا کے موضوع پر مفصل بحثوں پر شامل ہے مرحوم کلینی کی کتاب « کافی، کتاب التوحید [۱۲] کو نمونہ قرار دیا ہے۔ جبکہ ابن خزیمہ (متوفی ۳۱۱ھ) کتاب التوحید کے مولف جو مرحوم کلینی کے ہم عصرہیں نے اپنی کتاب «کتاب القدر» [۱۳] میں قضا وقدر اور جبر و اختیار جیسے موضوعات کو بیان کیا ہے۔

معتزلہ کے نظریات کی مخالفت و موافقت

کتاب التوحید میں، صفات خدا کا عین ذات ہونے کا عقیدہ اور زیادتی صفات کی نفی [12] اور تشبیہ کی نفی[13] اور صفات خدا کے سلبی معنی کرنا جیسے قدرت، عاجزی کی نفی کے معنی میں [14] اور کلام خدا کے محدَث ہونے اور قرآن کے حادث ہونے کا عقیدہ؛[15] [مخلوق کا لفظ استعمال کیے بغیر،چونکہ حادث، مخلوق ہی کے معنی میں ہے] اگرچہ معتزلہ کے نظریہ کے مطابق ہے، لیکن حسب ذیل نظریات میں معتزلہ کی مخالفت ہوئی ہے: تفویض کی نفی اور اس کے معنی و مفہوم کی رد]۱۸]]، [16] بہت سی چیزوں کی حکمتوں، نیزافعال کے ذاتی حسن کی شناخت میں عقل کو ناکافی سمجھنا،،[17] خدا کے لیے وعدہ پر عمل کرنے کو غیرضروری سمجھنا[18] اورگناہان کبیرہ کو قابل بخشش سمجھنا۔ [19] اس کے علاوہ،خداوندعالم کے بارے میں اور علم اسماء کے سلسلے میں،فکرانسانی کی صلاحیت کو محدود قرار دینا اوراس نظریہ پر زور دینا »[20]اورفکرانسانی کو صرف عظمت الہی اور عرش [بلند و برتری جو خدا سے مخصوص ہے]کے علاوہ مسائل سے مخصوص کردینا »[21] اور مجموعی طورپر،معرفت خدا کے سلسلے میں عقل و نظر کے استعمال کو نا کافی سمجھنا [22] یہ چیزیں، واضح طور پرمعتزلہ کی نظریہ کے سراسر خلاف ہیں چونکہ یہ فرقہ، شدت کے ساتھ عقل پسندی کا قائل ہے۔

کلام اور متکلمین کی مخالفت

مرحوم صدوق نے اس کتاب میں، کلام اور متکلمین دونوں پر تنقید کی ہے؛ قابل غور بات یہ ہے کہ کلام کی مخالفت اور یہاں تک کہ متکلمین کو، اہل شرک و بدعت کے ہم پلہ قرار دینا [23] اور"خدا کے بارے میں کلام ممنوع" کے عنوان سے ایک باب قائم کرنا اوراہل کلام کو اہل ہلاکت قراردینا[24] اوراس کی مطلق نفی کرنا،[25] یہ ساری چیزیں معتزلہ اورجہمیہ جیسے فرقوں کے غلط نظریے پر ناظر و گواہ ہیں؛ چونکہ امام باقر(ع) کے زمانے سے لیکر امام رضا(ع) کے زمانے تک کوئی دوسرا کلامی مکتب موجود ہی نہیں تھا۔ البتہ خود مولف محترم، عقلی ابحاث کومختلف مقامات پر ذکر کرتے ہیں اورجہاں وہ احادیث کی وضاحت کرتے ہیں،[26]

اس کے علاوہ، کتاب التوحید اسلام کی ابتدائی صدیوں میں شیعہ معاشرہ کے عقائد سے متعلق اختلافی آراء سے جانکاری کے لئے ایک عمدہ اور قیمتی کتاب ہے، مثال کے طور پر ہشام بن سالم جوالیقی[27] اور میثمی اور ابوجعفر الطاق[28] کی طرف منسوب تشبیہ سے متعلق نظریہ سے جانکاری حاصل کرنے کے لئے اور بعض دوسرے افراد کے تجسیم(یعنی خدا کے جسم ہونے کا عقیدہ) کے بارے میں نظریات کی جانکاری،[29] صفات زائد بر ذات خدا، کا نظریہ،[30] امام محمد باقرعلیہ السلام کے دوستوں اور شاگردوں کا 'علم خدا خلقت سےپہلے' کے بارے میں اختلاف نظر،[31] قرآن کا مخلوق یا غیر مخلوق ہونا (یہ وہی، قرآن کریم کے بارے میںحدوث یا قدم جیسا نظریہ ہے)، [32] اور جبر و تفویض سے متعلق اختلاف کے بارے میں جانکاری۔

التوحید میں شیخ صدوق کا شیوہ تالیف

شیخ صدوق اپنی روائی کتاب التوحید میں، خاص شیوہ تالیف استعمال کرتے ہیں کہ جو حسب ذیل ہیں: بعض صحابہ سے منقول، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی احادیث سے استفادہ۔ اس کتاب میں عبداللہ بن عمر،[33] ابوہریرہ[34] اور عثمان بن عفان[35] سے منقولہ روایات موجود ہیں۔ موضوع اور باب کے ذیل میں روایات کے انتخاب میں مرحوم شیخ صدوق اتنی زیادہ دقت نظری سے کام لیتے ہیں کہ کتاب میں ذرہ برابر بھی، مطالب کے درمیان بے ربطی و بے نظمی یا تکرار نہیں ہے۔ بعض خاص مقامات پر جہاں مطالب کے درمیان، ذرا بھی ظاہری ٹکراو نظر آیا بلا فاصلہ ضروری وضاحت کرکے اس کو برطرف کرتے ہیں۔ [36] اگر مذکورہ کتاب اور اہل سنت کی ان جیسے موضوعات پر لکھی جانے والی کتب کےباب توحید، کا سرسری مقائسہ کیا جائے تو اس بات کو بخوبی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ کتاب التوحید کی معقولیت کا مرتبہ بہت بلند ہے اورعقلی و منطقی معیار کے مطابق مفاہیم کے درمیان آپسی ربط اور نظم و نسق ان کتب سے کہیں زیادہ ہے۔

اس کتاب کے ابحاث میں،خدا کے «صفات ذات» جیسے: (سمع، بصر، علم، قدرت و غیرہ) اور«صفات فعل» جیسے: (کلام، ارادہ، خلق و غیرہ) میں فرق کی وضاحت کرنا شامل ہے۔ خدا کے صفات ذاتی اس کے عین ذات ہیں، ( اس کے صفات اس کی ذات سے الگ نہیں بلکہ اس کی ذات ہیں) ورنہ شرک اور متعدد چیزوں کا قدیم ہونے کا نظریہ لازم آئیگا، درحالیکہ صفات فعل، زائد بر ذات ہیں۔ مولف محترم کی نظر میں صفات ذات، سلبی معنی رکھتے ہیں(جیسے خدا کاعلم = جاہل نہ ہونا) یہاں ہر علم، صفت ذات ہے اور جاہل نہ ہونا اس کے سلبی(جو خدا میں نہ پایا جائے ضد اور مخالف معنی میں) معنی کو بیان کرتا ہے لیکن صفات فعل، ایجابی معنی( یعنی جو خدا میں پایا جائے) کو بیان کررہا ہے اور ان میں سے صرف صفات ذات، ازلی(یعنی جو ہمیشہ سے تھے، ہیں اوررہینگے) ہیں۔[37]

اس کے علاوہ،شیخ صدوق، روایات کے ذریعہ ان آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ جو ظاہری طور پر،تشبیہ اور تجسیم کی تصدیق وتائید کرتی ہیں؛وہ آیتیں جو ایک طرح سے اعضاء و جوارح جیسے: ( ہاتھ،چہرہ، پنڈلی،آنکھ،کان)، اورجسما نی صفات اور انسانی حالات جیسے: ( پہلو،عرش، کرسی، دھوکا،مذاق اڑانا، انجام دینا،رضامندی، ناراضگی و۔۔۔) کو خدا کے لئے ثابت کرتی ہیں۔ مرحوم صدوق، ان آیات کے ظاہری ٹکراو اور ضد و خلاف کو حل کرنے کے علاوہ، اپنے دعوے کی تائید وتصدیق کے لئے توحید سے متعلق مقبول شیعہ نظریہ کو تفسیر کی بحث سے قرآنی الفاظ جیسے : «سبحان اللّہ»[38] اور «اللّہ اکبر»[39] سے استفادہ کرتے ہیں اور قرآن کریم کی آیت: «فِطْرَتَ اللّہ اَلَّتی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیہا»[40] سے استناد کرتے ہوئے توحید کے فطری ہونے پر تاکید کرتے ہیں۔[41] یہ ابواب کہ جو کتاب کے اچھے خاصے حصے کو شامل ہیں ان میں مولف محترم کی توضیحات کے ذیل میں تفسیری روایات کے علاوہ، ان کے تفسیری نظریات یہاں تک کہ تأویل سے متعلق نظریات کو بھی ایک حد تک سمجھا جا سکتا ہے۔ خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tagاسکے بعد وضاحت کرتے ہیں کہ عقلی ہونے کا مطلب، حکمت اور معقول علت رکھنے کے ہیں کہ عقل، جس کی بنیاد پرعمل کے نیک اور اچھے ہونے کا حکم دیتی ہے۔

کتاب التوحید سے متعلق آثار

اس کتاب کی کلامی اور اعتقادی اہمیت و افادیت کے پیش نظر، اس پر بہت سی شرحیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے بعض شرحیں حسب ذیل ہیں:

  • شرح سید محمد خلیل بن رکن الدین حسینی کاشانی، یہ ملا محسن فیض کاشانی (۱۰۸۳ ق) کے شاگردوں میں تھے۔ یہ شرح، مختصر ہے اور کلامی و فلسفی طرز پر لکھی گئی ہے۔[42] سے نقل کے حوالہ کے ساتھ۔
  • شرح شاہ محمد بن شمس الدین محمد اصطہباناتی شیرازی گیارہویں ہجری میں لکھی گئی۔ ان کی یہ شرح "حل العقائد" کے نام سے ہے کہ جو کتاب التوحید کا ترجمہ اورشرح مختصر ہے؛[43]
  • شرح ملا محمد باقر کہ جو محقق سبزواری کے نام سے مشہور ہیں (متوفی ۱۰۹۰) یہ کتاب فاسی زبان میں ہے؛[44]
  • شرح مفصل قاضی سعید قمی (متوفی ۱۱۰۷)؛ انھوں نے اس کتاب میں، کتاب التوحید کے فلسفی و کلامی اور ذوقی و عرفا نی ابحاث کی

شرح کی ہے۔ یہ شرح، نجف قلی حبیبی کے تعاون سے تین جلدوں میں (۱۳۷۳ ش) شایع ہوئی ہے۔

  • شرح سید نعمت اللہ جزایری (متوفی ۱۱۱۲)، اس شرح کے دو نام ہیں: ایک: نور البراہین فی بیان اخبار السادۃ الطاہرین" اور دوسرے: انیس الوحید فی شرح التوحید۔ [45] یہ کتاب، سنہ ۱۴۱۷ ہجری میں شہر قم سے شائع ہوئی اور دو جلدوں پر مشتمل ہے۔
  • امیر محمد علی نائب الصدارۃ نے بھی کتاب التوحید پر شرح لکھی ہے۔[46]
  • ترجمہ اور مختصر شرح، مولف: محمد علی بن محمد حسن اردکانی (تیرہویں صدی ہجری) یہ کتاب "اسرار التوحید" کے نام سے بھی، ۱۳۳۷ ہجری شمسی میں تہران سے شایع ہوئی۔
  • آقا نجفی اصفہانی (متوفی ۱۳۳۲)؛ انھوں نے کتاب التوحید کا ترجمہ، ۱۲۹۷ ہجری شمسی میں شایع کیا۔[47]
  • کتاب التوحید کی احادیث پر، چار معجم(الفاظ و جملات کی تنظیم و ترتیب پر مشتمل کتب) اور فہرست (الف با کے اساس پر احادیث کی فہرست کتاب کی شکل میں) بھی لکھی جا چکی ہیں۔
  • علی آدام نے اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ ترجمہ، موسسہ المہدی بیرمنگہام کی طرف سے شایع ہوا ہے۔

حوالہ جات

  1. صدوق، ۱۳۶۱ش ، ص ۸؛ صدوق، ۱۳۶۲ش، ج ۲، ص ۵۹۴؛ صدوق، ۱۴۱۴، ص ۲۲؛ نجاشی ، ص ۳۸۹
  2. ۱۳۵۷ ش، ص ۱۷ـ ۱۸
  3. صدوق، ۱۳۵۷ش، ص ۳۶۴،امام رضا (ع)سے ایک حدیث کے ذیل میں
  4. خیاط، الانتصار،‌ ص ۱۳، ۱۰۴ـ ۱۰۵
  5. اس کے علاوہ مزید معلومات کے لیے رجوع کریںابن ندیم، ص ۲۰۸
  6. نمونہ کے طور پر رجوع کریں: علم الہدی، ج ۳، ص ۳۱۰
  7. اس سلسلے میں رجوع کریں صفحہ نمبر ۳۱ سے ۳۵ تک
  8. ابن خزیمہ، ج ۱، ص ۲۱
  9. نمونہ کے طور پر دیکھیں: ابن ندیم، ص ۲۳۳،۲۳۴؛ص ۲۰۲ـ ۲۰۳، ۲۰۶ـ ۲۰۸، ۲۱۴-۲۱۵؛نجاشی، ص ۲۶۱،۳۳۴، ۴۳۳
  10. میں اس کتاب کی روایات کو نقل کیا ہے مثال کے طور پہ دیکھیں: وسائل الشیعہ، ج ۱، ص ۲۰، ج ۳، ص ۱۰۱، ج ۷، ص ۱۴۰۔
  11. مستدرک الوسائل، ج ۵، ص ۲۶۴۔
  12. ص ۱۳۱، ۱۴۰، ۱۴۸، ۲۲۳
  13. ص ۳۱۸۲: «باب التوحید و نفی التشبیہ»
  14. ص ۱۳۱، ۱۳۵، ۱۳۷ـ ۱۳۸، ۱۴۸
  15. ص ۲۲۵۲۲۶
  16. ص ۳۳۷، ۳۶۲،۳۶۴
  17. ص ۳۹۵،۳۹۷
  18. ص ۴۰۶
  19. ص ۳۹۵،۳۹۷
  20. ص ۴۵۴ـ ۴۵۵
  21. ص ۴۵۴ـ ۴۵۵
  22. ص ۲۸۵ ـ۲۹۱
  23. ص ۴۱۹، ۴۴۰
  24. ص ۴۵۸
  25. ص ۴۵۹
  26. وہاں مکمل طور پرکلامی رنگ غالب ہے اوراس میں متکلمین کی روش اور مفاہیم سے استفادہ ہوا ہے مثال کے طور پردیکھیں ص ۸۴، ۱۳۴، ۱۳۷، ۲۲۵۲۲۷، ۲۶۹، ۲۹۸۲۹۹
  27. ص ۹۷-۹۹
  28. ص ۱۱۳ـ ۱۱۵
  29. ص ۱۰۰-۱۰۱
  30. ص ۱۴۴
  31. ص ۱۴۴
  32. ص ۲۲۶
  33. ص ۳۴۰
  34. ص ۲۶، ۲۱۹، ۴۰۰
  35. ص ۲۹
  36. مانند ص۳۴۵-۳۴۷
  37. ص ۱۳۹۱۴۹
  38. ص ۳۱۱-۳۱۲
  39. ص ۳۱۲-۳۱۳
  40. روم : ۳۰
  41. ص ۳۲۸-۳۳۱
  42. حسینی اشکوری، ج ۴، ص ۱۴آیت اللّہ مرعشی نجفی مرحوم
  43. حسینی اشکوری، ج ۱، ص ۲۳۸
  44. آقا بزرگ طہرانی، ج ۴، ص ۴۸۲، ج ۱۳، ص ۱۵۳
  45. جزایری، ج ۱، مقدمہ رجایی ، ص ۳۲ـ ۳۳
  46. آقا بزرگ طہرانی، ج ۴، ص ۴۸۲
  47. تفضلی ، ص ۵۷

مآخذ

  • محمد محسن آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، چاپ علی نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳ / ۱۹۸۳۔
  • صدوق، الاعتقادات، چاپ عصام عبدالسید، قم ۱۴۱۴۔
  • صدوق، التوحید، چاپ ہاشم حسینی طہرانی، قم، ۱۳۵۷ ش۔
  • صدوق، کتاب الخصال، چاپ علی اکبر غفاری ، قم ۱۳۶۲ ش۔
  • صدوق، معانی الاخبار، چاپ علی اکبر غفاری ، قم ۱۳۶۱ ش۔
  • ابن خزیمہ ، کتاب التوحید و اثبات صفات الرّب عزّ و جلّ ، چاپ عبد العزیز بن ابراہیم شہوان ، ریاض ۱۴۱۸/۱۹۹۷۔
  • ابن ندیم، کتاب الفہرست، چاپ محمدرضا تجدد، تہران ۱۳۵۰ش۔
  • علی بن اسماعیل اشعری، کتاب مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلّین، چاپ ہلموت ریتر، ویسبادن ۱۴۰۰/۱۹۸۰۔
  • علی رضا برازش، المعجم: المعجم المفہرس لالفاظ احادیث کتاب التوحید للشیخ الصدوق، تہران ۱۳۷۴ ش۔
  • مریم تفضلی، کتاب شناسی نسخہ‌ہای خطی آثار شیخ صدوق در ایران، تہران ۱۳۸۱ ش۔
  • نعمت اللہ بن عبداللہ جزایری، نور البراہین، او، انیس الوحید فی شرح التوحید، چاپ مہدی رجائی ، قم ۱۴۱۷۔
  • حرّ عاملی؛ احمد حسینی اشکوری، فہرست نسخہ‌ہای خطی کتابخانہ عمومی حضرت آیت اللّہ العظمی مرعشی نجفی مدّظلّہ العالی ، قم ۱۳۵۴۱۳۷۶ ش۔
  • عبدالرحیم بن محمد خیاط، کتاب الانتصار و الرّد علی ابن الروندی الملحد، بیروت ۱۹۵۷۔
  • محمد تقی دانش پژوہ و علی نقی منزوی، فہرست کتابخانہ سپہ سالار، بخش ۳، تہران ۱۳۴۰ ش۔
  • علی بن حسین علم الہدی، رسائل الشریف المرتضی، چاپ مہدی رجائی، رسالۃ ۴۸: «مسألۃ فی ابطال العمل باخبار الاحاد»، قم ۱۴۰۵۱۴۱۰۔
  • محمد بن یعقوب کلینی، الکافی، چاپ علی اکبر غفاری، بیروت ۱۴۰۱۔
  • محمد باقر بن محمد تقی مجلسی، بحارالانوار، بیروت ۱۴۰۳ / ۱۹۸۳۔
  • احمد بن علی نجاشی، فہرست اسماء مصنفی الشیعۃ المشتہر ب رجال النجاشی، چاپ موسی شبیری زنجانی ، قم ۱۴۰۷۔
  • محمد بن محمد نصیر الدین طوسی ، تجریدالاعتقاد ، چاپ محمد جواد حسینی جلالی، قم، ۱۴۰۷۔
  • حسین بن محمد تقی نوری، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ، قم ۱۴۰۷ـ ۱۴۰۸۔