احمد الحسن

ویکی شیعہ سے
احمد الحسن بصری
مدعی یمانی
کوائف
ناماحمد اسماعیل بصری
مذہبشیعہ
تاریخ پیدائش1968ء
سکونتبصرهنجف
علمی معلومات
مادر علمینجف
آثارالأجوبۃ الفقہیۃ • الجواب المنیر عبر الأثیر (6 جلدیں) • حاکمیۃ اللہ لا حاکمیۃ الناس • بیان الحق والسداد من الأعداد
دیگر معلومات


احمَد الحسن یا احمد اسماعیل بَصری (1968ء-؟) جو خود کو احمَد الحَسَن الیَمانی سمجھتا ہے اور یمانی کا دعوے دار ہے۔ وہ خود کو شیعوں کے بارہویں امام حضرت مہدیؑ کا سفیر و وزیر، پہلا وصی، امام مہدی کی حکومت آنے کے بعد آنے والے بارہ مہدیوں میں سے پہلا مہدی کے عنوان سے تعارف کراتے ہوئے اپنے آپ کو امام مہدی کا بالواسطہ بیٹا اور امامؑ کی طرف سے مأمور سمجھتا ہے۔ احمد الحسن روایات سے استناد کرتے ہوئے اپنے لئے بہت ساری صفات کا حامل خیال کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کرنے والا، آل محمدؐ کا بچا ہوا فرد اور حجرالاسود کی حیثیت کا حامل انسان ہے جس کا نام تورات اور انجیل میں ذکر ہوا ہے۔

احمد الحسن اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے خواب، استخارہ اور اپنے دوستوں کے مکاشفوں کو دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے اور اسی طرح خود کو حدیث وصیت کا مصداق سمجھتا ہے۔ ان کے مدعا کی توضیح اور تشریح، نیز ان کے فقہی اور تفسیری نظریات کی تشریح کرنے کے لئے کم سے کم 20 کتابیں احمد الحسن یا ان کے حامیوں کی طرف سے لکھ کر شائع کی گئی ہیں۔ البتہ بعض کتابیں ان کے نظریات کے نقد میں بھی لکھی گئی ہیں جن میں علی کورانی کی "دجال البصرہ"(عربی) اور "مرکز تخصصی مہدویت" کی طرف سے لکھی گئی کتاب "ستیز با آفتاب"(فارسی) شامل ہیں جس کی قم میں طباعت ہوئی ہے۔

احمد الحسن کے استدلال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ جعلی اور غیر معتبر احادیث کو اپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے، احادیث میں تقطیع اور تحریف کرتا ہے۔ احمد الحسن ضروریات مذہب شیعہ کو مورد حملہ قرار دیتا ہے حتی کہ ائمہ معصومینؑ کی تعداد پر بھی خدشہ ظاہر کرتا ہے۔ حدیث کی سند پر اعتراض سے بچنے کے لئے وہ علم رجال کو بدعت سمجھتا ہے اور اسے علمائے معاصر کا خود ساختہ علم خیال کرتا ہے۔ نصر اللہ آیتی کا کہنا ہے کہ احمد الحسن علم لدنی کا دعوے دار ہونے کے باوجود قرآن مجید کو صحیح سے نہیں پڑھ سکتا ہے اور بے شمار ادبی اشتباہات کا مرتکب ہوتا ہے۔

اہمیت

احمد اسماعیل بصری (1968ء-نامعلوم) المعروف احمد الحسن الیمانی، امام مہدیؑ کے وصی ہونے کا دعوے دار ہے اور خود کو یمانی اور شیعوں کے بارہویں امامؑ کا سفیر سمجھتا ہے اسی کے بدولت اس کے بعض حامی اور ماننے والے بھی موجود ہیں۔[1] احمد الحسن نے شروع میں فقہا کی نیابت عامہ کی نفی کی اور حوزہ علمیہ نجف میں مالی بدعنوانی ہونے کا دعوا کیا۔[2] سنہ 2003ء میں حیدر مشتت کے ساتھ یہ دعوا کیا کہ حیدر مشتت، یَمانی ہے اور احمد الحسن، امام عصر کا بیٹا اور ان کا بھیجا ہوا سفیر ہے اور مسجد سہلہ کے قریب انہوں نے اپنا ایک اڈا بنا دیا۔[3] سنہ 2005ء میں وہ حیدر مشتت سے الگ ہوا اور یمانیِ موعود اور بارہ مہدیوں میں سے پہلا مہدی کے عنوان سے اپنا تعارف کرایا۔[4]

احمد الحسن نے سنہ 2008ء میں قیام کا اعلان کیا لیکن نجف سے باہر "الزرگہ چھاؤنی" میں ان کو شکست سے دچار ہوا۔[5] اس کے بعد سے وہ لوگوں کے سامنے نہیں آیا اور ان کے بعض حامی ان کی غیبت پر یقین کرتے ہوئے خود کو "انصار احمد الحسن" نامی گروہ سے الگ کیا۔[6] احمد الحسن زندہ ہونے کی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے اور ان سے بلاواسطہ رابطہ بھی ممکن نہیں ہے۔[7] اس نے یہ دعوا کیا تھا کہ سنہ 1420 ہجری کو کربلا میں شیعوں کے بارہویں امام حضرت مہدی سے ہونے والی ملاقات کے بعد حوزہ علمیہ میں ہونے والی مالی بدعنوانیوں کے خلاف تحریک کا آغاز کیا ہے۔[8] اور اسی طرح کہتا ہے کہ سنہ 2002ء میں امام مہدیؑ کی طرف سے مأمور ہوئے کہ وہ لوگوں کو یہ بتائے کہ وہ خود امام مہدی کا وصی اور سفیر ہے۔[9]

زندگی نامہ اور شجرہ نسب

احمد الحسن کی عراق کے شہر بصرہ سے باہر ایک قصبے میں پیدائش ہوئی[10] اور سنہ 1992ء کو سول انجینرینگ کے شعبے سے فارغ التحصیل ہوا۔[11] ان کی سنہ 1999ء تک کی زندگی کے بارے میں کوئی اطلاعات میسر نہیں ہیں،[12] لیکن اسی سال وہ نجف گیا اور مختصر عرصہ سید محمد صادق صدر کے درس میں شریک ہوا ہے۔[13] اسی سال حکومت کے خلاف کی جانے والی سیاسی سرگرمیوں میں حیدر مشتت المنشداوی کے ہمراہ جیل گیا اور سنہ 2001ء تک ابوغریب قیدخانے میں محبوس رہا،[14] پھر سنہ 2004ء تک حوزہ علمیہ نجف میں حصول علم میں مشغول رہا۔[15]

وہ اپنا سلسلہ نسب کچھ اس طرح بیان کرتا ہے: احمد بن اسماعیل بن صالح بن حسین بن سلمان بن الامام محمد بن الحسن العسکری، اور کہتا ہے کہ امام کی ملاقات سے پہلے وہ اس نسب کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔[16] اور اس کے باپ دادا بھی اسے نہیں جانتے تھے۔[17] اس کے مخالفین احمد الحسن کو قبیلہ آل بو سلیم کی صیامرہ شاخ سے سمجھتے ہیں اور اس کا نسب یوں بیان کرتے ہیں: احمد بن اسماعيل بن صالح بن حسين بن سلمان بن داوود بن ہمبوش۔[18] عراق کی داخلی سکیورٹی کے وزیر شیروان الوائلی نے احمد الحسن کے گروہ کے مسلحانہ حملوں کے بعد اس کے اصلی نام کو «احمد اسماعیل کاطع الہمبوش» کہا۔[19]

تالیفات

20 سے زائد کتابوں کو احمد الحسن سے منسوب کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض کتابیں ان کے دعؤوں کی وضاحت اور بعض کتابیں ان کے فقہی اور تفسیری نظریات کی تشریح پر مشتمل ہیں۔ وہ کتابیں درج ذیل ہیں:

  • الأجوبۃ الفقہیۃ
  • الجواب المنیر عبر الأثیر (6 جلد)
  • حاکمیۃ اللہ لا حاکمیۃ الناس
  • بیان الحق والسداد من الأعداد
  • وصی و رسول الإمام المہدی ینتج فی التوراۃ والإنجیل والقرآن
  • إضاءات حول دعوات المرسلین (5 جلد)
  • المتشابہات
  • نصیحۃ الی طلبۃ الحوزۃ العلمیۃ و الی کل من یطلب الحق
  • الرجعۃ ثالث أیام اللہ الکبری
  • رسالۃ الی فقہ الخمس و ما یلحق بہ
  • رسالۃ الہدایۃ
  • التیہ أو الطریق الی اللہ
  • کتاب التوحید فی تفسیر سورۃ التوحید
  • الوصیۃ المقدسۃ الکتاب العاصم من الضلال
  • عقائد الاسلام و وہم الالحاد

احمد الحسن کے دعوے

احمد اسماعیل بصری کے تین بنیادی دعوے جبکہ دسیوں فرعی دعوے ہیں۔ آل محسن نے اپنی کتاب "الرد القاصم" میں اس کے پچاس سے زائد دعوے بیان کیے ہیں۔[20] احمد الحسن اپنے تین کلیدی کردار بیان کرتا ہے: 1. ظہور سے پہلی یمانیِ موعود، 2. ظہور اور امام مہدی کی حکومت کے دوران ان کا سفیر اور وزیر، اور 3. امام عصرؑ کی حکومت کے بعد پہلا وصی اور بارہ مہدیوں میں سے پہلا مہدی۔ وہ خود کو امام عصر کی نسل سے قرار دیتا ہے اور احادیث میں قائم کے لیے ذکر ہونے والی صفات اور خصوصیات کو وہ اپنی صفات سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کے ظہور کی آسمانی کتابوں نے بشارت دی ہے۔

بنیادی دعوے

  1. یمانیِ موعود ہونا:

احمد الحسن کا یہ دعوا ہے کہ وہ یمانیِ موعود ہے[21] جو احادیث کے مطابق امام زمانہؑ کے ظہور سے پہلے قیام کرتا ہے، لوگوں کو امام کی طرف بلاتا ہے[22] اور امام مہدی کے لئے راستہ ہموار کرنے والا ہے۔[23]

  1. امام عصر کا سفیر اور وزیر:

امام کے ظہور اور عالَمی حکومت کے دوران وہ امام کا سفیر اور وزیر ہے۔[24]

  1. بارہ مہدیوں میں سے پہلا:

احمد الحسن کا یہ دعوا بھی ہے کہ وہ بارہ مہدیوں میں سے پہلا مہدی،[25] اور بارہویں امامؑ کا وصی بھی ہے[26]شیخ طوسی کی کتاب الغیبۃ میں منقول ایک روایت کے مطابق احمد الحسن یہ دعوا کرتا ہے کہ امام مہدی کی حکومت کے بعد بارہ مہدی آئیں گے؛ اس نظریے کے مطابق بارہ امامؑ پیغمبر اکرمؐ کے جانشین ہیں اور بارہ مہدی، بارہویں امام کے جانشین ہیں۔ شیعہ علما میں سے فضل بن حسن طبرسی، علی بن عیسی اربلی، علامہ مجلسی اور حر عاملی جیسے علما نے اس روایت کو مشہور کا مخالف اور ضعیف سمجھا ہے۔[27]

  1. امام زمان کا بیٹا: اس کا یہ دعوا ہے کہ وہ امام عصر کی نسل سے ہے اور چند واسطوں سے وہ امام کی اولاد میں سے ہے۔[28]

فرعی دعوئے

احمد الحسن کے فرعی اور غیر اصلی دعوؤں میں کچھ صفات اور خصوصیات شامل ہیں جنہیں وہ خود سے منسوب کرتا ہے۔ ان میں سے ایک قائم کی صفت ہے جسے وہ خود سے منسوب کرتا ہے اور خود کو زمین کو عدل و انصاف سے پر کرنے والا،[29] اور آل محمد کی باقیماندہ نشانی سمجھتا ہے۔[30] وہ کبھی اپنے آپ کو ایک معجزہ یا ایسا واقعہ کے طور پر پیش کرتا ہے جس میں کسی پیغمبر کا کردار رہا ہے؛ مثلاً اپنے آپ کو ایک پتھر سے تعارف کرتا ہے جس کے ذریعے علی بن ابیطالبؑ نے حضرت نوح کی کشتی کو طوفان سے، حضرت ابراہیمؑ کو آتش نمرود سے، حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دی اور حضرت موسی کے ساتھ کوہ طور پر گفتگو کی۔[31]

احمد الحسن کے دعوئے کے مطابق وہ حجرالاسود ہے،[32] اور اپنے آپ کو وہ شخص سمجھتا ہے جو عیسی بن مریم کی جگہ صلیب پر چڑھایا گیا،[33] اور ان کا نام تورات اور انجیل میں بھی آیا ہے[34] اسی طرح خود کو حضرت عیسی سے برتر اور بہتر سمجھتا ہے،[35] اور تورات، انجیل اور قرآن کو سب سے زیادہ سمجھنے والا فرد قرار دیتا ہے۔[36]

اس نے یہ بھی دعوا کیا ہے کہ شیعوں کے بارہویں امامؑ نے انہیں حوزہ علمیہ کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے،[37] انہیں امام نے درس دیا ہے،[38] اس کی دعوت اولوالعزم انبیاء کی دعوت کی طرح ہے،[39] رسول اللہؐ نے اس کا نام اپنی وصیت میں ذکر کیا ہے۔[40] وہ معصوم ہے اور اس کی عصمت پر احادیث دلالت کرتی ہیں،[41] اسی طرح وہ بہشت کی جانب سیدھا راستہ ہے[42] اور جو اس سے روگردانی کرے گا ہلاک ہو جائے گا۔[43]

علم رجال کی مخالفت

احمد الحسن اور اس کے پیروکار علم رجال کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں اور جو لوگ ضعیف روایات کو رد کرتے ہیں ان پر اہل بیتؑ کے کلام کو رد کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔[44]وہ اپنی کتاب «مع العبد الصالح» میں علم رجال کو بڑا جھوٹ سمجھا جاتا ہے جس سے فقہاء لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔[45]

خواب اور استخارہ کے ذریعے تبلیغ

کتاب «بیان الحق و السداد» کے مطابق احمد الحسن اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے خواب، استخارہ اور دوستوں کے مکاشفات کو دلیل بنا کر پیش کرتا ہے اور اسی طرح علم و معجزہ کا دعوا بھی کرتا ہے۔[46] اس کے علاوہ سب سے اہم استدلال جو وہ اور ان کے حامیوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے وہ حدیث وصیت کا ان پر تطبیق دینا ہے۔[47]

احمد الحسن نے اپنے دعوؤں کو ثابت کرنے کے لیے جو وجوہات پیش کی ہیں وہ یہ ہیں: مومنین کے پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ سے ملاقات کے خواب اور احمد الحسن کی سچائی کو بیان کرنا، بیداری کی حالت میں مومنین کا مکاشفہ، [[حدیث وصیت]] اور اس روایت میں اس کے نام اور صفت کا ذکر، استخارہ اور یہ کہ اللہ تعالی استخارہ کے ذریعے کسی کو گمراہ نہیں کرتا ہے، قرآن اور علم و حکمت میں محکم و متشابہ کی پہچان، غیب اور معجزوں کی خبریں، حق اور صراط مستقیم کی طرف دعوت، مناظرے کی دعوت، پیغمبر اکرمؐ کا نجران کے نصاری سے مباہلہ، قسم البرائۃ اور علما کی طرف سے معجزہ طلب کرنے کی دعوت۔[48] وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ان کے علاوہ کسی ایسے شخص نے پہلا مہدی، یمانی اور امام مہدیؑ کے وصی ہونے کا دعوا نہیں کیا ہے جس کا نام اور جسمانی اوصاف وہی ہو۔[49] اسی طرح وہ ادعا کرتے ہیں کہ ان کی حقانیت کی بہترین دلیل ریاضیات پر مبتنی ہے اور حروف ابجد کے حساب سے یہ ثابت کرنے کے درپے ہے کہ وہ ہی یمانیِ موعود ہے؛ مثلا «احمد الحسن» اور «جندنا الغالبون» کا ابجدی عدد یکساں ہے۔[50]

احمد الحسن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ احمد الحسن کی طرف سے مناظرہ اور مباہلے کی دعوت اس کی حقانیت کی دلیل ہے اور ابھی تک کسی نے بھی احمد الحسن کے رد میں ایسی دلیل پیش نہیں کی جسے کسی بزرگ نے تائید کی ہو[51] اور ان سے مباہلہ کرنے کی بھی کسی نے جرأت نہیں کی۔[52] اس کے پیروکاروں کا دعوا ہے کہ حیدر مشتت قسم برائت کو قبول کرنے کے چند دن بعد مرگیا ہے۔[53] یہ بھی دعوا کیا گیا ہے کہ احمد الحسن نے سید علی سیستانی، سید محمد سعید حکیم، محمد اسحاق فیاض اور سید محمد حسین فضل اللہ کو یہ دعوت دی کہ وہ اس سے معجزے کی درخواست کریں لیکن انہوں نے نہیں مانا۔[54]

مخالفتیں اور اعتراضات

احمد الحسن کے استدلال کے طریقے پر بہت سارے اعتراضات ہوئے اور اس کے کئی دعوئے رد کئے گئے ہیں۔ ان کے استدلال پر ہونے والے اعتراضات میں سے بعض درج ذیل ہیں: غیر معتبر اور جعلی احادیث سے استفادہ کرنا،[55] اپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے حدیث کی تقطیع[56] اور اس میں تحریف،[57] اور اسی طرح اپنی امامت کے اثبات کے لئے استخارہ پر اعتماد[58] اور بعض دعوؤں کو مستقل طور پر نقد کیا گیا ہے جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

ائمہؑ کی تعداد میں تبدیلی

محمد علی محمدی ہوشیار لکھتے ہیں کہ احمد الحسن اور اس کے پیروکاروں نے شیعہ مذہب کے ضروری اور یقینی مسائل کو نشانے پر لیا ہے؛ جن میں ائمہ معصومینؑ کی تعداد میں تبدیلی، عصمت کے مفہوم اور دائرہ کار میں تبدیلی اور مہدیت و قائمیت کے تصور کو اپنے حق میں تفسیر کرنا شامل ہیں۔[59] محمدی ہوشیار نے یہ بھی کہا ہے کہ احمد الحسن کے پیروکاروں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ قائم ہے اور تلوار کے ساتھ قیام کرے گا اور 8 مہینے لوگوں کا قتل عام کرے گا اور اس کے تحت اگر مزید طاقت میسر آئی تو 8 مہینے مسلسل قتل عام کرے گا۔[60]محمدی ہوشیار کے مطابق احمد الحسن اپنے ایک استفتاء میں مخالفوں کے مال کو محترم نہیں سمجھتا ہے یعنی ان کا مال ان سے چھیننے کو جائز سمجھا ہے۔[61]

ضعیف احادیث سے استناد اور علم رجال پر اعتراض

نصرت اللہ آیتی نے اپنی کتاب ناقوس گمراہی میں جو کہا ہے اس کے مطابق احمد الحسن اپنے دعوؤں کو ثابت کرنے کے لئے زیادہ تر ضعیف اور غیر معتبر روایات سے استناد کرتا ہے اور سند پر اعتراض آنے سے بچنے کے لئے علم رجال کو بدعت شمار کیا ہے۔ اور آیتی کے مطابق بارہویں امام کی بیوی اور بچے ہونا، ظہور کی اکثر علامات کا متحقق ہونا اور انسان کا ظہور کے قریب ہونا، ان دعوؤں میں سے ہیں جو ان ضعیف روایات سے مستند ہیں۔[62]

احمد الحسن، علم رجال کو معاصر علما کا خود ساختہ علم قرار دیتے ہوئے اس کو دین میں بدعت سے تعبیر کیا ہے۔[63]محمدی ہوشیار ان کے جواب میں کہتا ہے کہ اس طرح سے راویوں کی صف میں دشمنان اہل بیتؑ اور جھوٹے لوگوں کے ہوتے ہوئے معصومینؑ کی احادیث کی تحریف، جعل اور فراموشی سے مصون رہنے کی کوئی سند نہیں ہوگی لہذا تمام روایات کو قابل اعتماد قرار دینا قبول نہیں ہے۔[64]

آیتی احمد الحسن کا امام مہدیؑ سے ملاقات کے ادعا کو جھٹلانے کے لئے امام مہدیؑ کی اپنے چوتھے نائب کو دی جانے والی توقیع کو بیان کرتے ہیں جس میں سفیانیوں کے خروج اور ندائے آسمانی سے پہلے امام کو دیکھنے کا ادعا کرنے والوں کو جھوٹے اور تمہت لگانے والے قرار دیے ہیں۔۔ اسی وجہ سے احمد الحسن اس توقیع کے مضمون کی نفی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خروج سفیانی اور صیحہ آسمانی سے پہلے امام کو دیکھنے کا دعوا کرنے والے «بعض» لوگ جھوٹے اور تہمت لگانے والے ہیں۔[65] احمد الحسن نے منطق کے ایک قاعدے سے استناد کرتے ہوئے (قضیہ مہملہ، قضیہ جزئیہ کے حکم میں ہے) یوں ادعا کیا ہے جبکہ آیتی نے احمد الحسن کے مدعا کی نفی میں بعض قرآنی آیات کی طرف اشارہ کیا ہے جس کی ترکیب اس توقیع کے مشابہ ہے، لیکن اس سے عام معنی استفادہ ہوا ہے۔[66] مثال کے طور پر آیتی کہتا ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت 108 (وَمَن یَتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالْإِیمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیلِ) میں مراد یہ نہیں ہے کہ «بعض» لوگ جنہوں نے ایمان کو کفر میں تبدیل کیا ہے وہ سیدھے راستے سے گمراہ ہیں، بلکہ سیدھے راستے سے انحراف کی صفت ان تمام لوگوں کے لئے ہے جو ایمان سے کفر کی طرف چلے گئے ہیں۔[67]

ادبی غلطیاں اور قرآن کی قرائت سے عاجز

نصرت اللہ آیتی کا کہنا ہے کہ احمد الحسن اپنی تقریروں میں قرآنی آیات کو غلط پڑھتا تھا اور ادبی غلطیاں بھی نظر آتی تھیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ علم لدنی کا دعوا جھوٹا ہے وہ تو قرآن کریم کی قرائت تک صحیح سے نہیں کرسکتا ہے۔ البتہ احمد الحسن کے حامیوں نے دو احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ معصومینؑ کے کلام میں بھی غلطیاں پائی جاتی تھیں، اس کے جواب میں آیتی کا کہنا ہے کہ یہ دونوں روایات سندی اعتبار سے ضعیف ہیں اور انہی دونوں روایات میں کوئی ادبی غلطی بھی نہیں نظر آتی ہے اور ان دو روایتوں کا حوالہ دیتے ہوئے معصومین کے کلام میں اشتباہ کے وجود کو بھی ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔[68]

انتقادی تالیفات

احمد الحسن اور ان سے وابستہ شخصیات کے دعوے اور اقدامات کے نقد میں بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں اور علمی نشستیں منعقد ہوئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • کتاب «دجال البصرہ: احمد اسماعیل المسمی نفسہ الامام»،[69] اس کتاب کو علی کورانی نے عربی زبان میں لکھا ہے جس کا فارسی میں ترجمہ ہوچکا ہے۔[70]
  • کتاب «بررسی نقد مستندات قرآنی جریان انحرافی احمد اسماعیل»، بقلم جواد اسحاقیان درچہ۔[71]
  • کتاب «ستیز با آفتاب: نقد جریان انحرافی احمد الحسن مدعی یمانی»، حجت حیدری چراتی اور محمدعلی فلاح اس کے مؤلفیں ہیں جو مرکزِ تخصصی مہدویت کی طرف سے چھپ گئی ہے۔[72]
  • کتاب «رہ افسانہ: نقد و بررسی فرقہ یمانی بصری»، بقلم محمد شہبازیان جو مسجدنا نامی سائٹ پر نشر ہوئی ہے۔
  • کتاب «درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن البصری: مدعی دروغین وصایت و سفارت امام دوازدہم»، بقلم علی محمدی ہوشیار
  • ہمایش «تحلیل و نقد علمی جریان انحرافی احمد الحسن البصری» اور علمی کانفرنس «مہدویت و جریان­ ہای نوپدید با تأکید بر احمد الحسن» جس میں محمد شہبازیان نے خطاب کیا۔ اسی طرح مؤسسہ تحقیقاتی حضرت ولی عصر(عج) کی طرف سے علمی نشست «نقد جریان انحرافی احمد الحسن یمانی» منعقد ہوئی جس میں علی رضا اعرافی نے خطاب کیا۔[73]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. شہبازیان، رہ افسانہ...، سایت مسجدنا، ص13.
  2. ذوالفقار علی، الحرکات المہدویۃ، 2014ء، ص152.
  3. محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن، 1395شمسی، ص27.
  4. فرج اللہ، ادعیاء المہدویۃ، 2014ء، ص121.
  5. محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن، 1395شمسی، ص29.
  6. محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن، 1395شمسی، ص30.
  7. آل محسن، الرد القاصم، 1434ھ، ص11.
  8. احمد الحسن، «خطاب قصۃ اللقاء...»، سایت المہدیون؛ ادلہ جامع دعوت یمانی، 1435ھ، ص12.
  9. ادلہ جامع دعوت یمانی، 1435ھ، ص13.
  10. ادلہ جامع دعوت یمانی، 1435ھ، ص10.
  11. محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن، 1395شمسی، ص25.
  12. محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن، 1395شمسی، ص25.
  13. محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن، 1395شمسی، ص25.
  14. محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن، 1395شمسی، ص26.
  15. فرج اللہ، ادعیاء المہدویۃ، 2014ء، ص144.
  16. سلمان، الشہب الاحمدیۃ، 1436ھ، ص14.
  17. ادلہ جامع دعوت یمانی، 1435ھ، ص11.
  18. النظامي، «ہویۃ المدعو ابن کویطع»، سایت صدی المہدی.
  19. داخل، «التيار المہدوي يقسم العراقيين بين رافض لطروحاتہ.. ومتفہم لہا»، سایت الشرق الاوسط.
  20. آل محسن، الرد القاصم، 1434ھ، ص10.
  21. احمد الحسن، بیان الحق و السداد، 1431ھ، ص46.
  22. احمد الحسن، بیان الحق و السداد، 1431ھ، ص14.
  23. احمد الحسن، المتشابہات، 1431ھ، ص225-232، س 144.
  24. احمد الحسن، بیان الحق و السداد، 1431ھ، ج1، ص46.
  25. فرج اللہ، ادعیاء المہدویۃ، 2014ء، ص121.
  26. احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، 1431ھ، ج1، ص33.
  27. محمدی ہوشیار، «تمسّک مدعی وصایت احمد الحسن بہ حدیث وصیت نبوی...»، سایت اطلاع رسانی مکارم شیرازی.
  28. احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، 1431ھ، ج1، ص33.
  29. احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، 1431ھ، ج2، ص83.
  30. احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، 1431ھ، ج1، ص41.
  31. احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، 1431ھ، ج1، ص16.
  32. احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، 1431ھ، ج4، ص68.
  33. احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، 1431ھ، ج1، ص16.
  34. احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، 1431ھ، ج1، ص25.
  35. احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، 1431ھ، ج1، ص25.
  36. احمد الحسن، المتشابہات، 1431ھ، ص225-232، س 144.
  37. احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، 1431ھ، ج1، ص37.
  38. احمد الحسن، المتشابہات، 1431ھ، ص225-232، س 144.
  39. احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، 1431ھ، ج1، ص7.
  40. احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، 1431ھ، ج1، ص18.
  41. احمد الحسن، المتشابہات، 1431ھ، ص225-232، س 144.
  42. محمدی ہوشیار، «ادعاہای احمدالحسن دجّال بصری»، سایت دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی.
  43. محمدی ہوشیار، «ادعاہای احمدالحسن دجّال بصری»، سایت دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی.
  44. آل محسن، الرد القاصم، 1434ھ، ص15؛ شاکری زواردہی و کریمی، «بررسی و نقد شگردہای حدیثی احمد الحسن البصری»، ص72-74.
  45. احمد الحسن، مع العبد الصالح، 1434ھ، ج2، ص72.
  46. احمد الحسن، بیان الحق و السداد، 1431ھ، ص33-34.
  47. سلمان، الشہب الاحمدیۃ، 1436ھ، ص20-21.
  48. احمد الحسن، بیان الحق و السداد، 1431ھ، ص33-34.
  49. احمد الحسن، بیان الحق و السداد، 1431ھ، ص34.
  50. احمد الحسن، بیان الحق و السداد، 1431ھ، ص41-53.
  51. ادلہ جامع دعوت یمانی، 1435ھ، ص434-435.
  52. ادلہ جامع دعوت یمانی، 1435ھ، ص435.
  53. ادلہ جامع دعوت یمانی، 1435ھ، ص435.
  54. ادلہ جامع دعوت یمانی، 1435ھ، ص436.
  55. شہبازیان، رہ افسانہ...، سایت مسجدنا، ص32-47.
  56. شہبازیان، رہ افسانہ...، سایت مسجدنا، ص48-67.
  57. شہبازیان، رہ افسانہ...، سایت مسجدنا، ص68-78.
  58. شہبازیان، رہ افسانہ...، سایت مسجدنا، ص79-91.
  59. محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن البصری، 1395شمسی، ص39.
  60. محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن البصری، 1395شمسی، ص40.
  61. محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن البصری، 1395شمسی، ص40-41.
  62. آیتی، ناقوس گمراہی...، 1396شمسی، ص16.
  63. محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن البصری، 1395شمسی، ص391.
  64. محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن البصری، 1395شمسی، ص396.
  65. آیتی، ناقوس گمراہی...، 1396شمسی، ص45-46.
  66. آیتی، ناقوس گمراہی...، 1396شمسی، ص45-47.
  67. آیتی، ناقوس گمراہی...، 1396شمسی، ص48.
  68. آیتی، ناقوس گمراہی...، 1396شمسی، ص168-169.
  69. کورانی، دجال البصرہ، [1433ھ].
  70. کورانی، دجال بصرہ، 1394شمسی.
  71. اسحاقیان درچہ، بررسی و نقد مستندات قرآنی جریان انحرافی احمد اسماعیل، 1400شمسی.
  72. حیدری چراتی و فلاح، ستیز با آفتاب، 1394شمسی.
  73. «مشہد | ہمایش تحلیل و نقد علمی "جریان انحرافی احمد الحسن البصری"»، خبرگزاری رسا؛ «ہمایش مہدویت و جریان ہای نوپدید با تأکید بر احمد الحسن»، سایت مؤسسہ علمی تحقیقی مکتب نرجس؛ «آیت اللہ اعرافی: راہکار مقابلہ با انحرافات در زمینہ ظہور آگاہی بخشی است»، سایت شفقنا.

مآخذ

  • «اعرافی: راہکار مقابلہ با انحرافات در زمینہ ظہور آگاہی بخشی است»، سایت شفقنا، تاریخ اشاعت: 19 مہر 1397شمسی، تاریخ مشاہدہ: 21 فروردین 1402ہجری شمسی۔
  • «مشہد | ہمایش تحلیل و نقد علمی "جریان انحرافی احمد الحسن البصری"»، خبرگزاری رسا، تاریخ اشاعت: 21 بہمن 1397شمسی، تاریخ مشاہدہ: 21 فروردین 1402ہجری شمسی۔
  • «ہمایش مہدویت و جریان ہای نوپدید با تأکید بر احمد الحسن»، سایت مؤسسہ علمی تحقیقی مکتب نرجس، تاریخ اشاعت: 6 مرداد 1398شمسی، تاریخ مشاہدہ: 21 فروردین 1402ہجری شمسی۔
  • آل محسن، علی، الرد القاصم لدعوۃ المفتری علی الامام القائم، نجف، مرکز الدراسات التخصصیہ، 1434ھ۔
  • آیتی، نصرت اللہ، ناقوس گمراہی: نقد مدعی یمانی، قم، بنیاد فرہنگی حضرت مہدی موعود(عج)، 1396ہجری شمسی۔
  • احمد الحسن، «خطاب قصۃ اللقاء الإمام احمد الحسن عليہ السلام بالإمام المہدي عليہ السلام ـ مكتوب»، سایت المہدیون، تاریخ اشاعت: 11 ژانویہ 2015ء، تاریخ مشاہدہ: 7 شہریور 1401ہجری شمسی۔
  • احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، ج1-3، 1431ھ/2010ء، سایت المہدیون.
  • احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، ج4، 1432ھ/2011ء، سایت المہدیون.
  • احمد الحسن، المتشابہات، چہار جلد در یک جلد، 1431ھ، سایت المہدیون.
  • احمد الحسن، بیان الحق و السداد من الاعداد، دو جلد در یک جلد، 1431ھ/2010ء، سایت المہدیون.
  • احمد الحسن، مع العبد الصالح، 1434ھ/2013ء، سایت المہدیون.
  • ادلہ جامع [دعوت یمانی]، بی جا، انتشارات انصار امام مہدی، 1435ھ/1393ہجری شمسی۔
  • اسحاقیان درچہ، جواد، بررسی و نقد مستندات قرآنی جریان انحرافی احمد اسماعیل، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1399ہجری شمسی۔
  • النظامي، یوسف کلیم، «ہویۃ المدعو ابن کویطع»، سایت صدی المہدی.
  • حیدری چراتی، حجت، و محمدعلی فلاح، ستیز با آفتاب: نقد جریان انحرافی احمد الحسن مدعی یمانی، قم، مرکز تخصصی مہدویت حوزہ علمیہ قم، 1394ہجری شمسی۔
  • داخل، جاسم، «التيار المہدوي يقسم العراقيين بين رافض لطروحاتہ.. ومتفہم لہا»، سایت الشرق الاوسط، تاریخ اشاعت: 24 محرم 1429ھ۔
  • ذوالفقار علی، ذوالفقار، الحرکات المہدویۃ، بی جا، مرکز بانقیا للأبحاث و الدراسات، 2014ء۔
  • سلمان، احمد، الشہب الاحمدیۃ: فی الرد علی مدعی المہدویہ، بیروت، مؤسسۃ البلاغ، 1436ھ/2015ء۔
  • سلمان پور، مہدی، رسول ابلیس: نگاہی بہ تحریفات مدعی یمانی احمد اسماعیل بصری، قم، کتاب جمکران، 1396ہجری شمسی۔
  • شاکری زواردہی، روح اللہ، و مرتضی کریمی، بررسی و نقد شگردہای حدیثی احمد الحسن البصری، در فصلنامہ انتظار موعود، ش57، تابستان 1396.
  • شہبازیان، محمد، رہ افسانہ: نقد و بررسی فرقہ یمانی بصری، بر اساس نسخہ سایت مسجدنا، منتشر شدہ در: https://masjedona.ir/wp-content/uploads/2021/07/یمانی-ره-افسانهپ.pdf.
  • فرج اللہ، احمد، ادعیاء المہدویۃ، بی جا، المرکز الاسلامی للدراسات الاستراتیجیہ، 2014ء۔
  • کورانی عاملی، علی، دجال البصرہ: احمد اسماعیل المسمی نفسہ الامام احمد الحسن، بی جا، بی نا، [1433ق]، قابل دسترسی در: https://download1640.mediafire.com/f2zt9rya079g/4y96sd0gy4695a9/دجال+البصرة،+أحمد+إسماعيل+المسمي+نفسه+الإمام+أحمد+الحسن+-+الشيخ+علي+الكوراني+العاملي.pdf
  • کورانی عاملی، علی، دجال بصرہ: در رد ادعاہای احمد اسماعیل معروف بہ احمد حسن یمانی، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، 1394ہجری شمسی۔
  • محمدی ہوشیار، «تمسّک مدعی وصایت احمد الحسن بہ حدیث وصیت نبوی: بررسی حدیث وصیت مذکور در الغیبہ طوسی»، سایت اطلاع رسانی مکارم شیرازی، تاریخ اشاعت: 27 تیر 1397شمسی، تاریخ مشاہدہ: 21 فروردین 1402ہجری شمسی۔
  • محمدی ہوشیار، علی، «ادعاہای احمدالحسن دجال بصری»، سایت دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی، تاریخ اشاعت: 23 تیر 1397، تاریخ مشاہدہ: 21 شہریور 1401ہجری شمسی۔
  • محمدی ہوشیار، علی، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن البصری: مدعی دروغین وصایت و سفارت امام دوازدہم، قم، تولی، 1395ہجری شمسی۔.

بیرونی روابط