حجر اسماعیل
حِجْرِ اسماعیل، خانہ کعبہ اور اس نیم دائرے کی درمیانی جگہ کو کہا جاتا ہے جو رکن عراقی سے رکن شامی تک پھیلی ہوئی ہے۔ بعض اسے حظیره بھی کہتے ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ اور ہاجرہ جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ مکہ پہنچے تو جبرئیل کی ہدایات پر اسی مقام پر سکونت اختیار کی جہاں پر اس وقت حجر اسماعیل ہے۔ بعد میں اس مقام پر لکڑیوں کا ایک سائباں بنایا گیا جہاں پر حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ اپنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔ وفات کے بعد بھی ان دونوں ہستیوں کو اسی مقام پر دفنایا گیا۔
ظہور اسلام سے پہلے بھی حجر اسماعیل کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ بعثت کے بعد پیغمبر اکرمؐ بھی اسی مقام پر تشریف فرما ہو کر عبادت اور تلاوت قرآن کے علاوہ لوگوں کے سوالات کے جوابات بھی دیتے تھے۔
مشہور شیعہ فقہاء معتبر احادیث کی روشنی میں یہ فتوی دیتے ہیں کہ حجر اسماعیل خانہ کعبہ کا جزء نہیں ہے۔
وجہ تسمیہ
حِجر کے معنی منع کرنا، روکنا، حمایت کرنا، نگہداری کرنا اور حرام کے ہیں۔ اسی مادے سے "حَجْر" اور "حُجْر" بھی اسی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔[1] خانہ کعبہ اور اس نیم دائرے کے درمیانی جگہ کو جو رکن عراقی سے رکن شامی تک پھیلی ہوئی ہے، اس لئے حِجر کہا جاتا ہے کہ یہ دیوار طواف کرنے والوں اور خانہ کعبہ کے درمیان حائل ہوکر لوگوں کو خانہ کعبہ تک پہنچنے سے منع کرتی ہے۔[2]
احادیث میں معمولاً حجر اسماعیل کو "حِجر" سے تعبیر کیا جاتا ہے اور بعض اوقات "جَدْر" (دیوار)[3] اور حَطیم[4] بھی کہا جاتا ہے۔ مذہب حنفی کے پیروکار حِجْر اسماعیل کے داخلی حصے کو "حطیم" قرار دیتے ہیں۔[5] بعض حجر اسماعیل کو حَظیرۃ (حصار، محوطہ) بھی کہتے ہیں۔[6]
تاریخ کے آئینے میں
حضرت اسماعیل اور ہاجرہ کی سکونت
بعض منابع کے مطابق جب حضرت ابراہیمؑ اور ہاجرہ اپنے فرزند حضرت اسماعیلؑ) کے ساتھ مکہ پہنچے تو جبرئیل کی ہدایات پر حجر اسماعیل کے مقام پر سکونت اختیار کی۔ بعد میں اس مقام پر لکڑیوں کا ایک سائباں بنایا گیا جہاں پر حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ اپنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ زندگی گزارتے تھے؛[7] اسی بنا پر بعض احادیث میں اس مقام کو "بیت اسماعیل" کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔[8]
مدفن انبیاء
احادیث اور تاریخی منابع کے مطابق حضرت ہاجرہ کی وفات کے بعد انہیں حجر اسماعیل کے مقام پر دفن کیا گیا اور حضرت اسماعیل(ع) نے اپنی ماں کی قبر کو اس نیت سے کہ لوگوں کے پاوں تلے نہ آئے، زمین سے تھوڑا اوپر بنایا اور اس کے اطراف کو محصور کیا۔[9] بعد میں حضرت اسماعیل کو بھی اسی مقام پر ہی دفن کیا گیا۔[10] اسی طرح بعض احادیث کے مطابق حضرت اسماعیل(ع) کی بعض بیٹیاں اور بعض انبیاء بھی یہاں دفن کئے گئے ہیں۔[11]
ظہور اسلام سے پہلے اس کی تعمیر
بعض منابع کے مطابق پیغمبر اکرم(ص) کی بعثت سے پانچ سال پہلے کعبہ کی ویرانی کے بعد جب قریش نے اس کی تعمیر شروع کی تو یہ شرط رکھی کہ اس کام میں فقط مال حلال صرف کیا جائے گا لیکن مالی اعتبار سے مکمل تعمیر کی استطاعت نہ رکھنے کی بناء پر خانہ کعبہ کی وسعت میں کچھ کمی کر دی اور حجر اسماعیل کی طرف سے تقریبا تین میٹر حجر اسماعیل میں اضافہ کیا گیا۔[12] اسی طرح حجر اسماعیل کے اطراف میں پتھر لگایا گیا تاکہ طواف کرنے والے اس کے پیچھے سے کعبہ کا طواف کریں۔ [13]
ظہور اسلام کے بعد لانے والی تبدیلیاں
سنہ 64ھ میں عبداللّہ بن زبیر نے خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے ساتھ جسے یزید کی فوج نے مکہ کے محاصرے کے وقت ویران کیا تھا، عایشہ سے منقول پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث سے استناد کرتے ہوئے حجر اسماعیل کے اضافی حصے کو دوبارہ خانہ کعبہ میں شامل کر دیا۔[14] حَجّاج بن یوسف ثقفی نے عبداللّہ بن زبیر کے قبضے سے مکہ کو چھڑانے کے بعد سنہ 74ھ میں عبدالملک بن مروان کے حکم سے خانہ کعبہ اور حجر اسماعیل کو ان کی پہلی حالت میں لوٹا دیا اور اسے جس طرح قریش نے تعمیر کیا تھا اسی طرح تعمیر کیا۔ عبدالملک بعد میں عایشہ سے منقول حدیث سے مطلع ہونے کے بعد اپنے کئے پر نادم ہوا۔[15] خانہ کعبہ اور حجر اسماعیل میں انجام پانے والی تغییرات ان سے متعلق احکام میں فقہاء کے درمیان اختلاف کا سبب بنا اور یہ سوال پیش آیا کہ آیا حجر اسماعیل کا پورا حصہ خانہ کعبہ کا جز ہے یا اس کا بعض حصہ۔
دیوار
حجر اسماعیل کی دیوار منصور عباسی کی خلافت تک عام پتھروں کی تھی۔ سنہ 140ھ کو منصور نے حج کے ماسک کے دوران اسے سنگ مرر لگانے کا حکم دیا۔[16] اس وقت سے اب تک سیلاب یا دیگر اسباب علل کی وجہ سے حجر اسماعیل کئی دفعہ تعمبر نو کی گئی ہے اور ہر دفعہ اس کی دیورا اور فرش لگائے گئے سنگ مرر بھی تبدیل ہوتا رہا ہے۔[17]
اندازہ
خانہ کعبہ کے شمالی دیورا سے حجر اسماعیل کی دیوار تک کا فاصلہ تقریبا 44.8 میٹر اور حجر اسماعیل کی دیورا کی انچائی تقریبا 31.1 میٹر اور حجر اساعیل کے مشرقی اور مغربی داخل ہونے کی جگہ ایک دوسرے سے تقریبا 8 میتر کے فاصلے پر واقع ہے۔ حجر اسماعیل کا مشرقی راستہ شاذَروان سے تقریبا 30.2 میٹر اور مغربی راستہ تقریبا 23.2 میٹر کے فاصلے پر ہے۔[18] حجر اسماعیل کے ابعاد اور فاصلوں میں مولفین کے درمیان پائے جانے والا اختلاف شاید مختلف مواقع پر اس میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے۔[19] خانہ کعبہ کا پرنالہ حجر اسماعیل کی طرف ہے اور بارش کا پانی خانہ کعبہ کی چھت سے حجر اسماعیل کے اندر گرتا ہے۔
تقدس اور احترام
حجر اسماعیل ظہور اسلام سے پہلے احترام اور تقدس کا حامل تھا۔ عبدالمطلب جو مکہ کا سردار اور پیغمبر اکرمؐ کے جد گرامی تھے، کے لئے حجر اسماعیل کے اندر ایک خاص جگہ متعین تھی جہاں پر صرف ان کے لئے بیٹھنے اجازت تھی کسی اور کو وہاں بیٹھنے اجازت نہیں تھی۔[20] کہا جاتا ہے کہ عبدالمطلب نے اپنے کئی سچے خواب (آب زمزم کے کنواں کا دوبارہ کھودا جانا، حضرت محمدؐ کا دنیا میں آنا اور ان کی نبوت کا عالمگیر ہونا) کو حجر اسماعیل کے اندر دیکھا تھا۔[21] احادیث کے مطابق ابوطالب نے بھی حضرت علیؑ کی ولادت کی بشارت اور آپ کے روشن مستقل پر مشتمل خواب حجر اسماعیل کے اندر دیکھا تھا۔[22]
پیغمبر اکرمؐ بھی بعثت کے بعد حجر اسماعیل کی اندر بیتھ کر عبادت اور قرآن کی تلاوت نیز لوگوں کے سؤالات کا جواب دیتے تھے[23] اور اسی حجر اسماعیل کے اندر تھا کہ قریش کے بعض افراد نے آپ کے ہاتھوں شَقُّ القَمَر کا معجزہ دیکھنے کی درخواست کی تھی۔[24] اسی طرح احادیث کی بناء پر پیغمبر اکرمؐ کی معراج کا آغاز مسجدالحرام اور حجر اسماعیل سے ہوا تھا۔[25] ائمہ معصومینؑ نیز حجر اسماعیل کے اندر دعا اور عبادت میں مشغول ہوتے تھے یا وہاں بیٹھ کر لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے تھے۔[26]
قرآن میں تذکرہ
حجر اسماعیل کا لفظ قرآن میں نہیں آیا ہے لیکن عیاشی کے مطابق امام صادقؑ[27] کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ "آیات بَینات" (واضح اور آشکار نشانیاں) جس کا تذکرہ سورہ آل عمران کی آیت نمر 97 میں ہوا ہے، کا مصداق مسجد الحرام کے اندر واقع ہے، اس سے مراد یہی حجر اسماعیل ہے۔[28]
مربوطہ فقہی مباحث
خانہ کعبہ سے الحاق یا عدم الحاق کا مسئلہ
حجر اسماعیل سے مربوط فقہی مباحث میں سے ایک یہ ہے کہ آیا حجر اسماعیل خانہ کعبہ کا جزء شمار ہوتا ہے یا نہیں؟ اہل سنّت کے ایک گروہ کل حجر اسماعیل کو خانہ کعبہ کا جزء قرار دیتے ہیں[29] جبکہ ان کے مقابلے میں بعض لوگ حجر اسماعیل کا کچھ حصہ خانہ کعبہ کا جزء قرار دیتے ہیں۔[30]
مشہور شیعہ فقہاء معتبر احادیث سے استناد کرتے ہوئے حجر اسماعیل کو خانہ کعبہ کا جزء نہیں سمجھتے ہیں۔[31] اس نظریے کی دوسری دلیل حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل نیز بعض پیغمبروں کا یہاں دفن ہونا ہے کیونکہ خانہ کعبہ کی تقدس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات بہت بعید ہے کہ مذکورہ اشخاص اس میں دفن ہوں۔[32] لیکن بعض شیعہ فقہاء بھی حجر اسماعیل کو خانہ کعبہ کا جزء سمجھتے ہیں،[33] یہاں تک کہ شہید اول اس نظریے کو مشہور نظریہ قرار دیتے ہیں۔[34] اس نظریے کے دلائل شاید وہ احادیث ہیں جس میں طواف کو حجر اسماعیل کے باہر سے انجام دینا ضروری قرار دیتے ہیں اسی طرح پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں حجر اسماعیل کو خانہ کعبہ کا جزء اور حصہ قرار دیا گیا ہے۔[35]
طواف کا حجر اسماعیل کے باہر سے ہونا ضروری ہونا
فقہ امامیہ (نیز اہل سنّت) میں اکثر فقہاء کا نظریہ یہ ہے کہ طواف کرنے والے کو چاہئے کہ وہ طواف کے دوران حجر اسماعیل کے باہر سے طواف کریں ورنہ اس کا طواف اگرچہ حجر اسماعیل کی دیورا کے اوپر سے بھی انجام دیا گیا ہو تو اس کا طواف باطل ہے اور اسے دوبارہ انجام دینا واجب ہے۔[36]
فقہاء امامیہ اپنے نظریے کی تأیید میں سیرہ نبوی سے استناد کرنے کے علاوہ ائمہ معصومینؑ کی متعدد احادیث اور اجماع سے بھی استناد کرتے ہیں۔[37]
اس کی طرف نماز کا صحیح ہونا
حجر اسماعیل سے مربوط فقہی مباحث میں سے ایک مسجدالحرام میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کئے بغیر حجر اسماعیل کی طرف رخ کر کے پڑھی جانے والی نمازوں کا صحیح ہونا اور نہ ہونا بھی ہے۔
بعض شیعہ فقہاء حجر اسماعیل کی طرف رخ کر کے پڑھی جانے والی نماز کو صحیح سمجھتے ہیں؛[38] لیکن بعض اس نماز کو صحیح نہیں سمجھتے کیونکہ بعض احادیث میں حجر اسماعیل کا خانہ کعبہ کا جزء ہونے کی نفی کی گئی ہے اور اکثر شیعہ علماء کے مطابق حجر اسماعیل کا خانہ کعبہ کا جزء ہونے کے بارے میں یقین نہیں ہے جبکہ دوسری طرف اس بات پر یقین ہے کہ نماز پڑھنے کیلئے خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنا واجب ہے اس بنا پر اس یقین کو ظن پر ترجیح دی جانی چاہئے۔[39]
مربوطہ مستحب اعمال
حِجْر اسماعیل سے مربوط بعض مستحب اعمال درج ذیل ہیں:
- دعا و مناجات: احادیث اور پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کی سیرت کے مطابق نماز اور دعا کیلئے بہترین جگہ حجر اسماعیل میں خانہ کعبہ کے پرنالے کے نیچے ہے؛[40]
- حج تمتع میں حجر اسماعیل یا مقام ابراہیم سے مُحرم ہونا اور احرام سے پہلے وہاں دو رکعت نماز پڑھنا۔[41]
حوالہ جات
- ↑ جوہری، الصحاح؛ فیومی، المصباح المنیر، ذیل واژہ
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ، ص۱۹۹.
- ↑ دارمی، سنن الدارمی، سنن الدارمی، ج۲، ص۵۴
- ↑ رجوع کنید به حرّعاملی، ج۱۳، ص۳۵۵.
- ↑ رسول جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص۱۱۶ بہ نقل از الزہور المقتطفہ، ص۷۳
- ↑ ابن نجیم، البحر الرائق، ج۲، ص۵۷۴.
- ↑ ازرقی، اخبار مکہ و ماجاء فیہا، ج۱، ص۵۴؛ کلینی، الکافی، ج۴، ص۲۰۱؛ حرّعاملی، وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۵۵.
- ↑ کلینی، الکافی، ج۴، ص۲۱۰؛ حرّعاملی، وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۵۴.
- ↑ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۱، ص۶؛ ابن سعد، الطبقات، ج۱، ص۵۲؛ کلینی، الکافی، ج۴، ص۲۱۰؛ حرّعاملی، وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۵۴ ۳۵۵
- ↑ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، ج۱، ص۶؛ کلینی، الکافی، ج۴، ص۲۱۰؛ ابن بابویہ، علل الشرایع، ج۱، ص۳۸؛ ازرقی، اخبار مکہ، ج۱، ص۳۱۲، ۳۱۷.
- ↑ ازرقی، اخبار مکہ، ج۲، ص۶۶؛ کلینی، الکافی، ج۴، ص۲۱۰؛ حرّعاملی، وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۵۴ ۳۵۵.
- ↑ ازرقی، اخبار مکہ، ج۱، ص۱۵۹۱۶۰، ۱۶۳؛ فاسی، شفاء الغرام، ج۱، ص۱۸۲۱۸۳
- ↑ ازرقی، اخبار مکہ، ج۱، ص۲۸۸۲۸۹.
- ↑ ازرقی، اخبار مکہ، ج۱، ص۲۰۶؛ بیہقی، السنن الکبری، ج۵، ص۸۹۔
- ↑ ازرقی، اخبار مکہ، ج۱، ص۲۱۰۲۱۱؛ فاسی، شفاء الغرام، ج۱، ص۱۸۹۱۹۰۔
- ↑ ازرقی، اخبار مکہ، ج۱، ص۳۱۳؛ فاسی، شفاء الغرام، ج۱، ص۴۰۸۴۰۹۔
- ↑ ازرقی، اخبار مکہ، ج۱، ص۳۱۳۳۱۴، ۳۱۷، ۳۲۱؛ فاسی، شفاء الغرام، ج۱، ص۴۰۹ ۴۱۰؛ حسین عبداللّہ باسلامہ، تاریخ الکعبۃ المعظمۃ، ص۱۳۲۱۳۳؛ محمدطاہر کردی، التاریخ القویم، ج۲، جزء۳، ص۶۷۔
- ↑ ازرقی، اخبار مکہ، ج۱، ص۳۲۰۳۲۲؛ فاسی، شفاء الغرام، ج۱، ص۴۱۱۴۱۲
- ↑ حسین عبداللّہ باسلامہ، تاریخ الکعبۃ المعظمۃ، ص۱۲۲۱۲۳، ۱۳۸۱۳۹
- ↑ ازرقی، اخبار مکہ، ج۱، ص۳۱۴ ۳۱۵۔
- ↑ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۱، ص۹۲ ۹۴؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۱۵، ص۲۵۴۲۵۵۔
- ↑ رجوع کنید بہ ابن شہرآشوب، مناقب، ج۲، ص۲۵۴ ۲۵۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۳۸، ص۴۷۴۸۔
- ↑ ابن شہرآشوب، مناقب، ج۱، ص۷۶۷۷۔
- ↑ قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، ج۱، ص۱۴۱۱۴۲۔
- ↑ ابن طاووس، سعدالسعود، ص۱۹۵۱۹۶؛ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۷، ص۱۵۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۱۸، ص۳۱۷، ۳۹۰۔
- ↑ حمیری، قرب الاسناد، ص۳۱۶؛ عیاشی، التفسیر، ج۳، ص۱۰۶۱۰۷؛ کلینی، الکافی، ج۴، ص۱۸۷۱۸۸؛ ابن بابویہ، علل الشرایع، ج۲، ص۴۴۸؛ نوری، مستدرک الوسائل، ج۹، ص۴۲۷۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج۴، ص۲۲۳۔
- ↑ عیاشی، التفسیر، ج۱، ص۳۲۶۔
- ↑ نووی، المجموع، ج۸، ص۲۵۔
- ↑ نووی، المجموع، ج۸، ص۲۵؛ ابن نجیم، البحر الرائق، ج۲، ص۵۷۴۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج۴، ص۲۱۰؛ موسوی عاملی، مدارک الاحکام، ج۸، ص۱۲۸۱۲۹؛ حرّعاملی، وسائل الشیعہ، ج۵، ص۲۷۶ و ج۱۳، ص۳۵۳، ۳۵۵؛ نجفی، جواہر الکلام، ج۱۹، ص۲۹۳۔
- ↑ حسن زادہ آملی، دروس معرفۃ الوقت و القبلۃ، ص۵۱۷ ۵۱۹۔
- ↑ علامہ حلّی، کتاب منتہی المطلب، ج۲، ص۶۹۱؛ ہمو، تذکرۃ الفقہا، ج۳، ص۲۲۔
- ↑ الدروس الشرعیۃ، ج۱، ص۳۹۴۔
- ↑ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، ج۱۶، ص۱۰۴۱۰۵، ۱۰۸؛ نجفی، جواہر الکلام، ج۱۹، ص۲۹۲۲۹۴۔
- ↑ حرّعاملی، وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۵۶۳۵۷؛ خمینی، مناسک حج، ص۲۴۴۲۴۶؛ نووی، المجموع، ج۸، ص۲۵۲۶۔
- ↑ شہیدثانی، الروضۃ البہیۃ، ج۲، ص۲۴۹۲۵۰؛ حرّعاملی، وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۵۶ ۳۵۷؛ نجفی، جواہر الکلام، ج۱۹، ص۲۹۲۔
- ↑ علامہ حلّی، نہایۃ الاحکام، ج۱، ص۳۹۲، ۳۹۷؛ ہمو، تذکرۃ الفقہا، ج۳، ص۲۲۔
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، ج۷، ص۳۲۶ ۳۲۹؛ حسن زادہ آملی، دروس معرفۃ الوقت و القبلۃ، ص۵۲۰ ۵۲۱۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج۴، ص۲۱۴، ۵۲۵، ۵۲۶؛ الفقہ المنسوب للامام الرضا علیہالسلام، ص۲۲۲؛ فاسی، شفاء الغرام، ج۱، ص۴۱۲۴۱۳؛ حرّعاملی، وسائل الشیعہ، ج۵، ص۲۷۴۲۷۶، ج۱۳، ص۳۳۴ ۳۳۵، ۴۲۵؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۹۰، ص۳۴۹۔
- ↑ بہ حرّعاملی، وسائل الشیعہ، ج۱۱، ص۳۳۹؛ نجفی، جواہر الکلام، ج۱۹، ص۲۳۔
مآخذ
- ابن بابویہ، علل الشرایع، نجف، ۱۳۸۵ ۱۳۸۶، چاپ افست قم، [بی تا]۔
- ابن حجر عسقلانی، فتح الباری: شرح صحیح البخاری، بولاق ۱۳۰۰۱۳۰۱، چاپ افست بیروت، [بی تا]۔
- ابن سعد، الطبقات، (بیروت)۔
- ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، چاپ ہاشم رسولی محلاتی، قم، [بی تا]۔
- ابن طاووس، سعدالسعود للنفوس، قم، ۱۳۸۰ش۔
- ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، بیروت، ۱۴۱۸/ ۱۹۹۷۔
- ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، چاپ مصطفی سقا، ابراہیم ابیاری، و عبدالحفیظ شلبی، بیروت: داراحیاء التراث العربی، [بی تا]۔
- ازرقی، محمد بن عبداللّہ، اخبار مکہ و ماجاء فیہا من الآثار، چاپ رشدی صالح ملحس، بیروت، ۱۴۰۳/ ۱۹۸۳، چاپ افست قم، ۱۳۶۹ش۔
- الفقہ المنسوب للامام الرضا علیہالسلام، و المشتہر ب فقہ الرضا، مشہد: مؤسسہ آل البیت، ۱۴۰۶ق۔
- بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرۃ، قم، ۱۳۶۳۱۳۶۷ش۔
- بیہقی، حسین، السنن الکبری، بیروت: دارالفکر، [بی تا]۔
- جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح: تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، چاپ احمدبن عبدالغفور عطار، قاہرہ، ۱۳۷۶، چاپ افست بیروت، ۱۴۰۷ق۔
- حرّعاملی، وسائل الشیعہ۔
- حسن زادہ آملی، حسن، دروس معرفۃ الوقت و القبلۃ، قم، ۱۴۱۶ق۔
- حسین عبداللّہ باسلامہ، تاریخ الکعبۃ المعظمۃ: عمارتہا و کسوتہا و سدانتہا، چاپ یحیی حمزہ وزنہ، [قاہرہ]، ۱۴۲۰/ ۲۰۰۰۔
- حمیری، عبداللّہ بن جعفر، قرب الاسناد، قم، ۱۴۱۳ق۔
- خمینی، روح اللہ، مناسک حج: مطابق با فتاوای حضرت آیت اللّہ العظمی امام خمینی سلام اللّہ علیہ، با حواشی مراجع معظم تقلید، تہران، ۱۳۸۴ش۔
- دارمی، عبداللّہ بن عبدالرحمان، سنن الدارمی، چاپ محمد احمد دہمان، دمشق: مکتبۃالاعتدال، [بی تا]۔
- شہید اول، محمدبن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ، قم، ۱۴۱۲۱۴۱۴ق۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، چاپ محمد کلانتر، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
- علامہ حلّی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہا، قم ۱۴۱۴ق۔
- علامہ حلّی، حسن بن یوسف، کتاب منتہی المطلب، چاپ سنگی تبریز [ ۱۳۱۶۱۳۳۳]، چاپ افست [بی جا، بیتا]۔
- علامہ حلّی، حسن بن یوسف، نہایۃ الاحکام فی معرفۃ الاحکام، چاپ مہدی رجائی، قم، ۱۴۱۰ق۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، قم، ۱۴۲۱ق۔
- فاسی، محمد بن احمد، شِفاء الغَرام بأخبار البلد الحرام، چاپ ایمن فؤاد سید و مصطفی محمد ذہبی، مکہ ۱۹۹۹۔
- فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر للرافعی، [بیروت]: دارالفکر، [بی تا]۔
- قطب راوندی، سعید بن ہبۃاللّہ، الخرائج و الجرائح، قم، ۱۴۰۹ق۔
- کلینی، الکافی۔
- مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار۔
- محمد طاہر کردی، التاریخ القویم لمکۃ و بیت اللّہ الکریم، بیروت، ۱۴۲۰/۲۰۰۰۔
- مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، قم، ۱۳۷۷ش۔
- موسوی عاملی، محمد بن علی، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، قم، ۱۴۱۰ق۔
- نجفی، محمدحسن بن باقر، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، ۱۹۸۱۔
- نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، ۱۴۰۷ ۱۴۰۸ق۔
- نووی، یحیی بن شرف، المجموع: شرح المہذّب، بیروت: دارالفکر، [بی تا]۔