علی حبہ جنہ

ویکی شیعہ سے
(شعر علی حبہ جنۃ سے رجوع مکرر)
علی حبہ جنہ
کوائف شعر
شعر کا نامعلی حبہ جنہ
دوسرے اسامیقسیم النار و الجنۃ
شاعرمحمد بن ادریس شافعی
موضوعامام علیؑ کی مدح اور فضیلت
مناسبتفضیلت اہل بیتؑ
زبانعربی
تاریختقریبا دوسری صدی ہجری
تعداد ابیات2
مشہور اشعار
قصیدہ لامیہ ابوطالب تائیہ دعبل محتشم کا بارہ بند همائے رحمت بہشت کا ایک ٹکڑا اے اہل حرم با آل علی ہرکہ درافتاد ورافتاد مکن ای صبح طلوع ہا علی بشر کیف بشر


علی حُبُّہ جُنَّۃ امام علیؑ کی فضیلت میں اہل‌ سنت شافعی مذہب کے پیشوا محمد بن ادریس شافعی سے منسوب شعر ہے۔ اس شعر کے چار مصرعے ہیں جس میں امام علیؑ کی محبت کو جہنم کی آگ سے محفوظ رہنے کا ذریعہ اور آپؑ کو بہشت اور جہنم کا تقسیم کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح آپؑ کا پیغمبر اکرمؐ کا حقیقی جانشین اور جن و انس کا امام ہونا اس شعر کے دوسرے مضامین میں سے ہے۔ شافعی کے علاوہ دوسری شخصیات کی طرف بھی اس شعر کی نسبت دی گئی ہے۔

اس شعر کا مضمون شیعہ اور اہل‌ سنت منابع میں منقول احادیث میں نقل ہوا ہے۔ اسی طرح اس شعر یا اس کے بعض مصرعوں کو دوسرے شاعروں نے بھی اپنے اشعار میں استعمال کئے ہیں۔ یہی شعر حرم امام علیؑ کے دروازے پر بھی منقش ہے۔

اس موضوع پر اس شعر سے مشابہ دوسرے شعراء کے اشعار بھی موجود ہیں۔

مضمون

عَلیٌّ حُبُّہ جُنَّۃ قَسیمُ النّارِ و الجَنَّۃ
وَصیُّ المصطفی حَقّاً إمامُ الإنسِ و الجِنَّۃ[1]
علیؑ کی محبت (دوزخ کی آگ سے) ڈھال ہے آپؑ دوزخ اور بہشت کے تقسیم کرنے والے ہیں۔
آپؑ حضرت محمدؐ کے حقیقی وصی اور تمام جن و انس کے امام ہیں۔[2]

پہلے مصرعے میں امام علیؑ کی محبت کو "جُنَّۃ" قرار دیا ہے۔ جنۃ عربی لغت میں اسلحہ[3] یا سپر اور ڈھال[4] کو کہا جاتا ہے جو انسان کی حفاظت کرتا ہے۔ بعض لوگ اس سے مراد ہر وہ چیز لیتے ہیں جو انسان کی حفاظت کرتی ہے۔[5]

پہلے مصرعے کا مضمون یہ ہے کہ امام علیؑ کی محبت جہنم کی آگ سے نجات کا سبب ہے جس کی طرف شیعہ[6] اور اہل‌ سنت منابع[7] میں نقل شدہ پیغمبر اسلامؐ کی احادیث میں اشارہ ہوا ہے۔ البتہ یہ مطلب عمر بن خطاب سے بھی نقل ہوا ہے[8] اور بعض شعری منابع میں اس مضمون کو اہل سنت کے دوسرے خلیفہ کی طرف بھی منسوب ہے۔[9]

امام علیؑ کے توسي سے بہشت و جہنم کی تقسیم بھی رسول خداؐ کی احادیث میں نقل ہوئی ہے[10] اور خود امام علیؑ[11] اور دوسرے ائمہ[12] کے کلمات میں بھی اس مطلب کا بیان آیا ہے۔ چنانچہ اہل‌ سنت منابع میں بھی اس مطلب کا انعکاس ہوا ہے[13] اسی طرح بعض علماء جیسے ابن‌ ابی‌ الحدید نے نہج‌ البلاغہ کی شرح میں اس مطلب کو مستفیض قرار دیا ہے۔[14] کہا جاتا ہے کہ ابن‌ حنبل اس مطلب کی دفاع کرتے تھے۔[15][یادداشت 1]

شاعر

شعر "علی حبہ جنہ" کو منابع میں اہل‌ سنت کے شافعی مذہب کے پیشوا اور فقیہ محمد بن ادریس شافعی (150-204ھ) کی طرف نسبت دی گئی ہے۔[16] عامر بن ثعلبہ[17] یا عمّار بن تغلبہ[18] کو بھی اس شعر کے شاعر کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔ اسی طرح بعض آثار میں شاعر کا نام لئے بغیر صرف شعر نقل کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے۔[19]

مشابہ اشعار

مذکورہ شعر کے مضمون سے مشابہ اشعار دوسرے شعراء کے ذریعے بھی کہے گئے ہیں۔[20] ان اشعار میں سے بعض درج ذیل ہیں:

بعض کے مطابق اس سلسلے میں سب سے قدیمی‌ شعر سید حمیری کی شعر کو قرار دیتے ہیں جو یہ ہے:

ذاکَ قَسیمُ النّارِ مِن قیلِہ خُذی عَدُوّی و ذَری ناصِری
ذاک علیِّ بنُ أبی طالب صِہرُ النبیِّ المصطفی الطاہرِ[21]
آپؑ جہنم کا تقسیم کنندہ ہےاور [اس سے] کہے گا میرے دشمن کو جلاؤ اور میرے دوستوں کو چھوڑو۔
آپ علی بن ابی‌ طالب ہیں جو برگزیدہ اور پاکیزہ نبی کے داماد ہیں۔

اسی طرح اس سلسلے میں صاحب بن عباد کی طرف درج ذیل شعر کی نسبت دی گئی ہے۔

أبا حسنٍ لُو کانَ حُبُّکَ مُدخِلی جہنمَ کانَ الفوزَ عندی جحیمُہا
و کیف یَخافُ النارَ مَن ہُوَ موقنٌ بِأنکُ مُولاہُ و أنتَ قسیمُہا[22]
اے اباالحسن اگر آپ کی محبت میرے جہنم میں جانے کا سبب ہے تو جہنم کے آگ کے شعلے میری نجات کے لئے کافی ہے
اور اس شخص کو کیا خوف ہے جہنم کا جسے یقین ہےکہ آپ اس کا مولا اور جہنم کا تقسیم کنندہ ہے

دعبل خزاعی نے بھی اسی موضوع پر درج شعر کہا ہے:

قسیمُ الجحیمِ فَہذا لہ و ہذا لہا باعتدال القسمِ[23]
[امام علیؑ] تقسیم‌ کنندہ [بہشت و] جہنم ہے جو فرمائے گا یہ کہ یہ فرد میرے لئے اور وہ جہنم کے لئے ہے اور عدالت کے ساتھ تقسیم کرے گا۔

امام علیؑ کی فضیلت میں شعر علی حبہ جنۃ کا مضمون دوسرے شعراء کے توسط سے بھی کہے گئے ہیں[24] اور بعد میں بعض شعراء جیسے عطار نیشابوری[25] اور موسی بن جعفر حسینی طالقانی[26] نے اس شعر کے دو مصرعے یا مطلع کو اپنے اشعار میں استعمال کیا ہے۔

سنہ 1376ھ کو حرم امام علیؑ میں سونے کے دو دروازے نصب کئے گئے جس پر "علی حبہ جنہ" منقش ہے۔[27]

نوٹ

  1. ایک روایت میں احمد بن حنبل نے اس مطلب کو اس کے سلسلہ سند میں ایک ضعیف شخص کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ اس سے مشابہ ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے امام علیؑ کی محبت اور دشمنی کو ایمان اور نفاق کی نشانی قرار دئیے جانے کی تأیید کی ہیں اور سورہ نساء کی آیت نمبر 145 کے مطابق منافق کا مقام جہنم کی آگ قرار دیتے ہیں۔ ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج42، ص301۔

حوالہ جات

  1. قندوزی، ینابیع المودۃ‏، 1422ھ، ج1، ص254۔
  2. شاہ‌محمدی، علی و شکوہ غدیر بر فراز وحی و رسالت، 1384ہجری شمسی، ص235۔
  3. ابن‌درید، جمہرۃ اللغۃ، 1987ء، ج1، ص93؛ جوہری، الصحاح، 1956ء، ج5، ص2094۔
  4. ابن‌منظور، لسان العرب، بیروت، ج13، ص94؛ زبیدی، تاج العروس، 1414ھ، ج18، ص115۔
  5. ابن‌منظور، لسان العرب، بیروت، ج13، ص94؛ فیروزآبادی، القاموس المحیط، بیروت، ج4، ص195۔
  6. شیخ صدوق، الامالی، 1376ہجری شمسی، ص657؛ طبری آملی، بشارۃ المصطفی، 1383ھ، ص75؛ علامہ حلی، کشف الیقین، 1411ھ، ص225–226۔
  7. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج3، ص380؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج42، ص243-244؛ ابن‌حجر عسقلانی، لسان المیزان، 1407ھ، ج4، ص497۔
  8. دیلمی، الفردوس بمأثور، 1406ھ، ج2، ص142۔
  9. ابن‌شہر آشوب، مناقب آل أبی‌طالب(ع)، 1379ھ، ج3، ص200۔
  10. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، ص389–390؛ خزاز، کفایۃ الاثر، 1401ھ، ص151؛ شیخ صدوق، الامالی، 1376ہجری شمسی، ص31، 46، 89، 361، 671۔
  11. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ج1، ص191، 192، 199، 200، 201، 415، 416؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص17–18؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص196–198۔
  12. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، ص324؛ صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ج1، ص415؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج2، ص85–86۔
  13. مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: طباطبایی، أہل البیت فی المکتبۃ العربیۃ، 1417ھ، ص561–567۔
  14. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغۃ، 1404ھ، ج9، ص165۔
  15. ابن‌ابی یعلی، طبقات الحنابلۃ، بیروت، ج1، ص319–320؛ ابن‌فوطی، مجمع الآداب، 1416ھ، ج3، ص352۔
  16. قندوزی، ینابیع المودۃ‏، 1422ھ، ج1، ص254؛ مرعشی، إحقاق الحق، 1409ھ، ج15، ص188، ج20، ص252، 328، 392–393، 394–395، ج21، ص652؛ کشفی، مناقب مرتضوی، 1380ہجری شمسی، ص161۔
  17. ابن‌عبدالوہاب، عیون المعجزات، قم، ص31؛ طبری آملی صغیر، نوادر المعجزات، 1427ھ، ص121۔
  18. بحرانی، مدینۃ معاجز، 1413ھ، ج1، ص260۔
  19. حموی شافعی، فرائد السمطین، 1400ھ، ج1، ص326؛ ابن‌شہر آشوب، مناقب آل أبی طالب(ع)، 1379ھ، ج2، ص160؛ ابن‌طاووس، طرف من الأنباء و المناقب، 1420ھ، ص293–294۔
  20. اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: ابن‌شہر آشوب، مناقب آل أبی طالب(ع)، 1379ھ، ج2، ص159–160؛ طباطبایی، أہل البیت فی المکتبۃ العربیۃ، 1417ھ، 566–567۔
  21. طباطبایی، أہل البیت فی المکتبۃ العربیۃ، 1417ھ، ص566؛ امین، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج3، ص423۔ سید حمیری سے منسوب اشعار دیکھنے کے لئے رجوع کریں: ابن‌شہر آشوب، مناقب آل أبی طالب(ع)، 1379ھ، ج2، ص159؛ ابن‌طاوس، طرف من الأنباء و المناقب، 1420ھ، ص293۔
  22. شبر، أدب الطف، 1409ق، ج2، ص146۔
  23. ابن‌شہر آشوب، مناقب آل أبی طالب(ع)، 1379ق، ج2، ص160؛ طباطبایی، أہل البیت فی المکتبۃ العربیۃ، 1417ق، ص566۔
  24. قلقشندی، صبح الأعشی، 1987م، ج8، ص240 – 241؛ مدرسی طباطبایی، برگی از تاریخ قزوین، 1361ہجری شمسی، ص136۔
  25. رادفر، مناقب علوی در آئینہ شعر فارسی، 1381ہجری شمسی، ص32۔
  26. سماوی، الطلیعۃ من شعراء الشیعۃ، 1422ھ، ج2، ص336–337۔
  27. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ھ، ج2، ص66؛ خلیلی، موسوعۃ العتبات المقدسۃ، 1407ھ، ج1، ص98۔

مآخذ

  • قرآن کریم
  • ابن‌ابی یعلی، محمد، طبقات الحنابلۃ، بیروت، دار المعرفۃ، بی‌تا۔
  • ابن‌أبی‌الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ لابن‌أبی الحدید، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی‏، 1404ھ۔
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، لسان المیزان، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔
  • ابن‌درید، محمد بن حسن، جمہرۃ اللغۃ، بیروت، دار العلم للملایین‏، 1987ء۔
  • ابن‌شہر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب(ع)، قم، علامہ، 1379ھ۔
  • ابن‌طاوس، علی بن موسی، طرف من الأنباء و المناقب‏، مشہد، تاسوعا، 1420ھ۔
  • ابن‌عبد الوہاب، حسین بن عبد الوہاب، عیون المعجزات‏، قم، مکتبۃ الداوری، بی‌تا۔
  • ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق‏، بیروت‏، دار الفکر، 1415ھ۔
  • ابن‌فوطی، عبد الرزاق بن احمد، مجمع الآداب فی معجم الألقاب‏، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1416ھ۔
  • ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب‏، بیروت، دار صادر، چاپ سوم، بی‌تا۔
  • امین، محسن، أعیان الشیعۃ، لبنان، دار التعارف للمطبوعات‏، 1403ھ۔
  • بحرانی، سید ہاشم بن سلیمان، مدینۃ معاجز الأئمۃ الإثنی عشر(ع)، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
  • جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح(تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ)‏، بیروت، دار العلم للملایین‏، 1956ء۔
  • حکیم، حسن عیسی، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف‏، قم، المکتبۃ الحیدریۃ، 1427ھ۔
  • حموی شافعی، ابراہیم بن محمد جوینی، فرائد السمطین فی فضائل المرتضی و البتول و السبطین و الأئمۃ من ذریتہم(ع)، بیروت، مؤسسۃ المحمود،1400ھ۔‏
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الأثر فی النصّ علی الأئمۃ الإثنی عشر(ع)، قم،‏ بیدار، 1401ھ۔
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد او مدینۃ السلام، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1417ھ۔
  • خلیلی، جعفر، موسوعۃ العتبات المقدسۃ، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات‏، چاپ دوم، 1407ھ۔
  • دیلمی، شیرویہ بن شہردار، الفردوس بمأثور الخطاب، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1406ھ۔
  • رادفر، ابوالقاسم، مناقب علوی در آئینہ شعر فارسی، تہران، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی‏، 1381ہجری شمسی۔
  • زبیدی، سید مرتضی حسینی، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دار الفکر، 1414ھ۔
  • سماوی، محمد، الطلیعۃ من شعراء الشیعۃ، بیروت، دار المؤرخ العربی‏، 1422ھ۔
  • شاہ محمدی، محمدعلی، علی و شکوہ غدیر بر فراز وحی و رسالت(ترجمہ ینابیع المودہ)، قم، مہر امیر المؤمنین(ع)، 1384ہجری شمسی۔‏
  • شبر، جواد، أدب الطف، لبنان، دار المرتضی، 1409ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا(ع)، تہران، نشر جہان، 1378ھ۔‏
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد(ع)، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی‏، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • طباطبایی، عبدالعزیز، أہل البیت(ع) فی المکتبۃ العربیۃ، قم، آل البیت، 1417ھ۔
  • طبری آملی صغیر، محمد بن جریر بن رستم، نوادر المعجزات فی مناقب الأئمۃ الہداۃ(ع)، تحقیق باسم محمد اسدی، قم، دلیل ما، 1427ھ۔
  • طبری آملی، عماد الدین محمد بن أبی القاسم‏، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، چاپ دوم، 1383ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف بن مطہر، کشف الیقین فی فضائل أمیر المؤمنین(ع)‏، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1411ھ۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی‏، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، 1380ھ۔
  • فیروز آبادی، محمد بن یعقوب، القاموس المحیط، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، بی‌تا۔
  • قلقشندی، أحمد بن عبداللہ، صبح الأعشی فی صناعۃ الإنشاء، بیروت‏، دار الکتب العلمیۃ، 1987ء۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی‏، قم، دار الکتاب‏، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • قندوزی، سلیمان بن ابراہیم ، ینابیع المودۃ لذوی القربی‏، قم، اسوہ، چاپ دوم، 1422ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الکافی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • کشفی، محمد صالح حسینی، مناقب مرتضوی‏، تہران، روزنہ، 1380ہجری شمسی۔
  • مدرسی طباطبایی، سید حسین، برگی از تاریخ قزوین، قم، کتابخانہ حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، 1361ہجری شمسی۔
  • مرعشی، قاضی سید نوراللہ، إحقاق الحق و إزہاق الباطل، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی،‏ 1409ھ۔