"عمرو بن عبدود" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Abbashashmi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Abbashashmi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 15: | سطر 15: | ||
از علی آموز اخلاص عمل/ شیر حق را دان منزه از دغل»، | از علی آموز اخلاص عمل/ شیر حق را دان منزه از دغل»، | ||
انہوں نے عمرو بن عبدود کی جانب سے امام علیؑ کے چہرے پر لعاب ڈالنے کا ماجرا بیان کیا ہے کہ اس وجہ سے [[ علی بن ابی طالب ]] اسے ذاتی غصے میں قتل کرنے سے پرہیز کی خاطر چند لمحات کیلئے لڑائی سے علیٰحدہ ہو جاتے ہیں اور اپنا ذاتی غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد عمرو کو راہ [[ خدا ]] میں قتل کرتے ہیں ۔ <ref>مهدوی دامغانی، «مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیهالسلام...»، ص61-63. </ref> مگر [[ بدیع الزمان فروزانفر ]] کا خیال ہے کہ یہ روایت جس صورت میں مثنوی میں وارد ہوئی ہے کسی اور منبع میں نہیں مل سکی ۔ <ref>فروزانفر، احادیث و قصص مثنوی، 1387ش، ص143. </ref> اس کے باوجود بعض محققین نے اس روایت کیلئے کچھ منابع کا ذکر کیا ہے منجملہ [[ ابن شھر آشوب ]] (متوفی [[ 588ھ ]] ) کی کتاب [[ مناقب آل ابی طالب ]] کہ جس میں مذکورہ روایت نقل کی گئی ہے۔ <ref>مهدوی دامغانی، «مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیهالسلام...»، ص65؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1375ق، ج1، ص381. </ref> | انہوں نے عمرو بن عبدود کی جانب سے امام علیؑ کے چہرے پر لعاب ڈالنے کا ماجرا بیان کیا ہے کہ اس وجہ سے [[ علی بن ابی طالب ]] اسے ذاتی غصے میں قتل کرنے سے پرہیز کی خاطر چند لمحات کیلئے لڑائی سے علیٰحدہ ہو جاتے ہیں اور اپنا ذاتی غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد عمرو کو راہ [[ خدا ]] میں قتل کرتے ہیں ۔ <ref>مهدوی دامغانی، «مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیهالسلام...»، ص61-63. </ref> مگر [[ بدیع الزمان فروزانفر ]] کا خیال ہے کہ یہ روایت جس صورت میں مثنوی میں وارد ہوئی ہے کسی اور منبع میں نہیں مل سکی ۔ <ref>فروزانفر، احادیث و قصص مثنوی، 1387ش، ص143. </ref> اس کے باوجود بعض محققین نے اس روایت کیلئے کچھ منابع کا ذکر کیا ہے منجملہ [[ ابن شھر آشوب ]] (متوفی [[ 588ھ ]] ) کی کتاب [[ مناقب آل ابی طالب ]] کہ جس میں مذکورہ روایت نقل کی گئی ہے۔ <ref>مهدوی دامغانی، «مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیهالسلام...»، ص65؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1375ق، ج1، ص381. </ref> | ||
== مآخذ == | == حوالہ جات == | ||
{{حوالہ جات|2}} | |||
== مآخذ == | |||
<div class="reflist4" style="height: 200px; overflow: auto; padding: 3px" > | |||
{{ستون آ}} | |||
*ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر و دار بیروت، 1385ق/1965م. | *ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر و دار بیروت، 1385ق/1965م. | ||
*ابن تیمیه، احمد بن عبدالحلیم، منهاج السنة النبویة فی نقض کلام الشیعة القدریة، تحقیق محمد رشاد سالم، [ریاض]، جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامیة، 1406ق/1986م. | *ابن تیمیه، احمد بن عبدالحلیم، منهاج السنة النبویة فی نقض کلام الشیعة القدریة، تحقیق محمد رشاد سالم، [ریاض]، جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامیة، 1406ق/1986م. | ||
سطر 32: | سطر 36: | ||
*فروزانفر، احادیث و قصص مثنوی: تلفیقی از دو کتاب احادیث مثنوی و مآخذ قصص و تمثیلات مثنوی، ترجمه حسین داوودی، تهران، امیرکبیر، 1387ء۔ | *فروزانفر، احادیث و قصص مثنوی: تلفیقی از دو کتاب احادیث مثنوی و مآخذ قصص و تمثیلات مثنوی، ترجمه حسین داوودی، تهران، امیرکبیر، 1387ء۔ | ||
*مهدوی دامغانی، محمود، [https://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/369330 مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیهالسلام در بیت "او خدو انداخت بر روی علی/ افتخار هر نبی و هر ولی"»]، در فصلنامه تخصصی ادبیات فارسی، ش1و2، بهار و تابستان 1383ء۔ | *مهدوی دامغانی، محمود، [https://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/369330 مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیهالسلام در بیت "او خدو انداخت بر روی علی/ افتخار هر نبی و هر ولی"»]، در فصلنامه تخصصی ادبیات فارسی، ش1و2، بهار و تابستان 1383ء۔ | ||
{{ستون خ}} | |||
{{سانچہ:امام علی-افقی}} | {{سانچہ:امام علی-افقی}} |
نسخہ بمطابق 14:47، 29 اگست 2018ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم [[صارف:imported>Abbashashmi|imported>Abbashashmi]] ([[Special:Contributions/imported>Abbashashmi|حصہ]] · [[Special:Log/imported>Abbashashmi|شراکت]]) نے 6 سال قبل کی۔ |
عمرو بن عبدوُد یا عمرو بن عبددِوَد (مقتول در سنہ 5ھ ) قریش کے برترین جنگجوؤں میں سے تھا کہ جو جنگ خندق میں امام علیؑ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ بعض روایات کے مطابق ، پیغمبرؐ نے اس جنگ میں علی بن ابی طالبؑ کی عمرو بن عبدود پر ضرب کو تمام جنوں اور انسانوں کی عبادت سے افضل قرار دیا ہے۔ سلفنی تفکر کے بانی ، اہل سنت عالم ابن تیمیہ نے عمرو بن عبدود کے وجود کا انکار کیا ہے۔ بعض محققین نے ابن تیمیہ کا ہدف امام علیؑ کے فضائل کا انکار قرار دیا ہے۔
مولوی کی مثنوی کے ایک شعر میں آیا ہے کہ امام علیؑ کیساتھ جنگ کے دوران جب عمرو بن عبدود نے آپؑ کے چہرے پر تھوکا تو آپؑ چند لمحات کیلئے اس سے الگ ہو گئے، اپنا غصہ ٹھنڈا کیا اور پھر عمرو کو قتل کیا۔ کچھ لوگوں نے اس روایت کو جعلی قرار دیا ہے اس کے باوجود ، [[ ابن شھر آشوب (588۔488ھ ) نے اپنی کتاب مناقب آل ابی طالب میں مذکورہ روایت کو نقل کیا ہے ۔
جنگ خندق میں قتل
عمرو بن عبدود کی ولادت اور زندگی نامے کے بارے میں تاریخی اور روائی منابع میں معلومات موجود نہیں ہیں سوائے اس بات کے کہ وہ قریش کی شاخ بنی عامر بن لؤی سے تھا۔ [1] شیعہ سنی منابع کی نقل کے مطابق سنہ پانچ ہجری قمری ، کی جنگ احزاب (خندق) میں اس نے عکرمۃ بن ابی جهل، هبیرة بن ابی وهب، نوفل بن عبدالله بن مغیرة اور ضرار بن خطاب کے ہمراہ مسلمانوں کی کھودی ہوئی خندق بمشکل پار کی۔ [2] عمرو بن عبدود جو قریش کا تیسرا جنگجو [3] اور ہزار جنگجوؤں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ [4] مقابلے کیلئے للکارتا رہا اور مسلمانوں کی توہین کرتا رہا یہاں تک کہ کہنے لگا : «و لقد بححت من النداء بجمعهم هل من مبارز»؛ [5] یعنی میں نے انہیں مقابلے کیلئے اس قدر للکارا ہے کہ میری آواز بیٹھ گئی ہے۔ [6] ایک نقل کے مطابق علی بن ابی طالبؑ عمرو بن عبدود کی ہر للکار پر کھڑے ہوتے تھے مگر پیغمبرؐ کے حکم پر بیٹھ جاتے تھے یہاں تک کہ پیغمبرؐ نے امام علیؑ کو مقابلے کی اجازت دی۔ اپنا عمامہ آپؑ کے سر پر رکھ دیا اور اپنی تلوار انہیں عطا کی تاکہ عمرو کے ساتھ جنگ کریں۔ [7]
امام علیؑ کی ضربت
امام علیؑ نے پہلے عمرو بن عبدود کو دعوت دی کہ خدا کی وحدانیت اور محمدؐ کی رسالت کی گواہی دے اور جب اس نے قبول نہیں کیا تو اسے کہا کہ گھوڑے سے اتر آؤ اور مقابلہ کرو۔ [8] جابر بن عبد اللہ انصاری کی نقل کے مطابق کہ جو امام علیؑ کے ہمراہ تھے ، علی بن ابی طالب اور عمرو بن عبدود کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی کہ اتنے میں علیؑ کی صدائے تکبیر بلند ہوئی اور مسلمان سمجھ گئے کہ عمرو بن عبدود مارا گیا ہے ۔ [9] تاریخی منابع کی بنیاد پر عمرو بن عبدود کے علاوہ اس کا بیٹا حسل بھی امام علیؑ کے ہاتھوں مارا گیا ۔ [10] روائی منابع میں پیغمبرؐ سے نقل ہوا کہ علی ؑ کی جنگ خندق میں عمرو بن عبدود پر ضربت جن و انس کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔ [11]
عمرو کے وجود میں تشکیک
اہل سنت عالم اور سلفی تفکر کے بانی ابن تیمیہ نے عمرو بن عبدود کے وجود میں تشکیک اور تردید ایجاد کی ہے ۔ [12] اس کے خیال میں بدر اور احد اور اسی طرح دیگر غزووں اور سریوں میں عمرو بن عبدود کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور اس کے متعلق جنگ خندق میں جو کچھ نقل کیا گیا ہے ، اس میں سے کچھ بھی صحیحین ، یعنی صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں نقل نہیں ہوا ہے ۔ [13] اس کے باوجود عمرو بن عبدود کی غزوہ خندق میں موجودگی تاریخ طبری [14] اور ذہبی کی تاریخ الاسلام [15] جیسے تاریخی منابع میں ذکر کی گئی ہے اور اہل سنت عالم حاکم نیشاپوری نے کتاب المستدرک علی الصحیحین میں عمرو بن عبدود کی غزوہ بدر میں موجودگی اور زخمی ہونے کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے۔ [16] اسی طرح تاریخی منابع میں صحابی پیغمبرؐ حسان بن ثابت کے امام علیؑ کے ہاتھوں عمرو کے قتل ہونے سے متعلق کچھ فخریہ اشعار [17] اور اسی طرح عمرو کے ہمراہ خندق پار کرنے والے اس کے ساتھیوں مسافع بن عبد مناف[18] اور ھبیرہ بن وھب [19] اور عمرو کی بہن [20] کے اس کے سوگ میں کچھ اشعار نقل کیے گئے ہیں۔ بعض محققین نے ابن تیمیہ کی تشکیک و تردید کا ہدف امام علیؑ کے فضائل کا انکار قرار دیا ہے ۔ [21]
قتل عمرو سے پہلے امام علیؑ کی بردباری
مولوی (متوفی 672ھ ) کی مثنوی کے دفتر اول میں 120 اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ امام علیؑ کی شان میں آیا ہے کہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے : از علی آموز اخلاص عمل/ شیر حق را دان منزه از دغل»، انہوں نے عمرو بن عبدود کی جانب سے امام علیؑ کے چہرے پر لعاب ڈالنے کا ماجرا بیان کیا ہے کہ اس وجہ سے علی بن ابی طالب اسے ذاتی غصے میں قتل کرنے سے پرہیز کی خاطر چند لمحات کیلئے لڑائی سے علیٰحدہ ہو جاتے ہیں اور اپنا ذاتی غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد عمرو کو راہ خدا میں قتل کرتے ہیں ۔ [22] مگر بدیع الزمان فروزانفر کا خیال ہے کہ یہ روایت جس صورت میں مثنوی میں وارد ہوئی ہے کسی اور منبع میں نہیں مل سکی ۔ [23] اس کے باوجود بعض محققین نے اس روایت کیلئے کچھ منابع کا ذکر کیا ہے منجملہ ابن شھر آشوب (متوفی 588ھ ) کی کتاب مناقب آل ابی طالب کہ جس میں مذکورہ روایت نقل کی گئی ہے۔ [24]
حوالہ جات
- ↑ بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے: ابن هشام الحمیری، سیرة النبی، 1383ق، ج3، ص732؛ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، 1415ق، ج42، ص78؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ق، ج2، ص181.
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج2، ص573-574؛ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص100.
- ↑ الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ق، ج3، ص34، ح4329.
- ↑ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1375ق، ج2، ص324.
- ↑ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص100.
- ↑ شیخ مفید، ترجمه ارشاد شیخ مفید، 1388ش، ص92.
- ↑ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص100.
- ↑ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص100و101.
- ↑ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص102.
- ↑ عاملی، الصحیح من سیرة النبی الأعظم، 1426ق، ج11، ص160.
- ↑ علامه حلی، نهج الحق و کشف الصدق، 1982م، ص234.
- ↑ ابن تیمیة، منهاج السنة النبویة، 1406ق، ج8، ص105-110.
- ↑ ابن تیمیة، منهاج السنة النبویة، 1406ق، ج8، ص109.
- ↑ طبری، تاریخ الطبري، 1387ق، ج2، ص573.
- ↑ ذهبی، تاریخ الإسلام، 1410ق، ج2، ص290.
- ↑ الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ق، ج3، ص34، ح4329.
- ↑ ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفه، ص268-269.
- ↑ ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفه، ج2، ص266-267.
- ↑ ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفه، ج2، ص267-268.
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص106-109.
- ↑ جمعی از نویسندگان، امام علی(ع)، سازمان حج و زیارت، ج2، ص148.
- ↑ مهدوی دامغانی، «مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیهالسلام...»، ص61-63.
- ↑ فروزانفر، احادیث و قصص مثنوی، 1387ش، ص143.
- ↑ مهدوی دامغانی، «مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیهالسلام...»، ص65؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1375ق، ج1، ص381.
مآخذ
- ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر و دار بیروت، 1385ق/1965م.
- ابن تیمیه، احمد بن عبدالحلیم، منهاج السنة النبویة فی نقض کلام الشیعة القدریة، تحقیق محمد رشاد سالم، [ریاض]، جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامیة، 1406ق/1986م.
- ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، نجف، المطبعة الحیدریة، 1375ق/1956م.
- ابن عساکر، علی بن الحسن، تاریخ مدینة دمشق، بیروت، دار الفکر، 1415ق/1995م.
- ابن هشام الحمیری، عبدالملک، سیرة النبی، تحقیق محمد محیی الدین عبدالحمید، قاهره، مکتب محمدعلی صبیح، 1383ق/1963م.
- ابن هشام الحمیری، عبدالملک،السیرة النبویة، تحقیق مصطفی السقا و ابراهیم الابیاری و عبدالحفیظ شلبی، بیروت، دار المعرفه، بیتا.
- جمعی از نویسندگان، امام علی(ع)، قم، سازمان حج و زیارت، بیتا.
- الحاکم النیسابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمية، 1411ق/1990م.
- ذهبی، محمد بن احمد، تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر والأعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربي، 1410ق/1990م.
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفة حجج الله علی العباد، تحقیق موسسة آل البیت علیهم السلام لإحیاء التراث، قم، المؤتمر العالمي لألفیة الشیخ المفید، 1413 ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، ترجمه ارشاد شیخ مفید، ترجمه سید حسن موسوی مجاب، قم، سرور، 1388ء۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبري: تاریخ الرسل والملوک: وصلة تاریخ الطبري، بیروت، دار التراث، 1387ھ۔
- عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی الأعظم، قم، موسسه علمی فرهنگی دار الحدیث، 1426ق/1385ء۔
- علامه حلی، حسن بن یوسف، نهج الحق وکشف الصدق، با تعلیقه فرجالله حسنی و مقدمه سید رضا صدر، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، 1982م.
- فروزانفر، احادیث و قصص مثنوی: تلفیقی از دو کتاب احادیث مثنوی و مآخذ قصص و تمثیلات مثنوی، ترجمه حسین داوودی، تهران، امیرکبیر، 1387ء۔
- مهدوی دامغانی، محمود، مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیهالسلام در بیت "او خدو انداخت بر روی علی/ افتخار هر نبی و هر ولی"»، در فصلنامه تخصصی ادبیات فارسی، ش1و2، بهار و تابستان 1383ء۔