باقر العلوم
باقِرُ الْعُلوم یا باقِر امام محمد باقرؑ کا سب سے مشہور لقب ہے۔[1] کتاب علل الشرائع میں جابر بن یزید جعفی سے اس طرح نقل ہوا ہے کہ آخر کیوں پانچویں امام کو باقر کہا جاتا ہے؟ جواب دیا: کیونکہ انہوں نے درحقیقت علم کے ابواب کھولے ہیں۔[2]
جیسا کہ نویں اور دسویں ہجری کے عالم اہل سنت فضل بن روزبہان کی کتاب وسیلۃ المخدوم میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے پانچویں امامؑ کو یہ لقب دیا تھا۔[3] امام صادقؑ سے ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ان کے والد کو خاص فضیلت کی بنا پر لقب باقر عطا کیا تھا۔[4] پیغمبر اکرمؐ نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے وعدہ کیا تھا کہ تم اس وقت تک زندہ رہوگے کہ میرے فرزند «محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب» سے ملاقات کرو کہ جسے توریت میں باقر کے لقب سے یاد کیا گیا ہے اور جب تم ان سے ملنا تو انہیں میرا سلام کہنا۔[5]
اسی طرح سے سبط ابن جوزی (متوفی 654 ھ) کی کتاب تذکرۃ الخواص میں آیا ہے کہ کثرت سجدہ کی وجہ سے آپ کی پیشانی پر گہرا نشان پڑ گیا تھا اس لئے باقر کہا جانے لگا۔[6]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
مآخذ
- خنجی اصفہانی، فضلاللہ، وسیلہ الخادم الی المخدوم، قم، انتشارات انصاریان، ۱۳۷۵ہجری شمسی۔
- سبط بن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص من الأمّۃ فی ذکر خصائص الأئمۃ، قم، منشورات الشریف الرضی، ۱۴۱۸ھ۔
- صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، تحقیق محمد صادق بحرالعلوم نجف اشرف، منشورات مکتبۃ الحیدریۃ، ۱۳۸۵ھ۔
- قمی، عباس، منتہی الآمال، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تہران، اسلامیہ، ۱۳۶۳ہجری شمسی۔
- مفید، محمد بن نعمان، الاختصاص، تحقیق علی اکبر غفاری، بیروت، دار المفید، ۱۴۱۴ھ۔