طلاق بائن
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
طلاق بائِنْ، اس طلاق کو کہا جاتا ہے جس میں طلاق کے بعد مرد اپنی بیوی کی طرف رجوع نہیں کر سکتا یعنی دوبارہ نکاح پڑھے بغیر اپنی بیوی نہیں بنا سکتا ہے۔ طلاق بائن کے مقابلے میں طلاق رِجعی آتا ہے جس میں عِدّت کے دوران مرد اپنی بیوی کی طرف رجوع کرسکتا ہے: یعنی دوبارہ عقد نکاح پڑھے بغیر اپنی مطلقہ عورت کو پھر سے اپنی زوجیت میں لے سکتا ہے۔ طلاق بائن کی چھ اقسام ہیں جن میں وہ عورت جس کے ساتھ عقد کے بعد ہمبستری سے پہلے طلاق ہوئی ہے، یائسہ عورت کی طلاق، طلاق خلع اور طلاق مبارات شامل ہیں۔ طلاق بائن کی عدت کے دوران عورت اور مرد ایک دوسرے کے مَحرم نہیں ہیں۔
طلاق
شادی کے بندھن کے خاتمے کو طلاق کہا جاتا ہے۔ طلاق میں شادی کی طرح مخصوص صیغہ پڑھنا ضروری ہے؛[1] لیکن شادی کے برخلاف طلاق ایقاعات میں سے ہے؛ یعنی ایک طرفی ہے اور صرف مرد کی جانب سے واقع ہوتی ہے۔(یعنی بیوی کی طرف سے قبول کرنا ضروری نہیں)[2] اسلام میں طلاق ایک جائز امر ہے؛[3] لیکن احادیث کے مطابق حلال چیزوں میں سے خدا کے نزدیک سب سے منفور امر ہے۔[4]
تعریف
طلاق بائن اس طلاق کو کہا جاتا ہے جس میں مرد کو اپنی بیوی کی طرف رجوع کا حق نہیں ہے۔ طلاق بائن میں چاہے عورت کے لئے عدت ہو یا نہ ہو مرد کے لئے رجوع جائز نہیں ہے۔ طلاق بائن کے مقابلے میں طلاق رِجعی ہے جس میں مرد عدت کے دوران اپنی بیوی کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔[5]
اقسام
درج ذیل طلاقیں طلاق بائن شمار ہوتی ہیں:
- اس عورت کی طلاق جس کے ساتھ عقد کے بعد ہمبستری نہیں ہوئی ہے۔
- اس لڑکی کی طلاق جس کی عمر 9 سال مکمل نہیں ہوئی ہے۔
- یائسہ عورت کی طلاق
- طلاق خُلع
- طلاق مُبارات
- تیسری طلاق[6]
- بعض مراجع کے توضیح المسائل میں طلاق بائن کی ایک اور قسم بیان ہوئی ہے وہ حاکم شرع کی طرف سے دی گئی طلاق ہے۔ طلاق کی اس قسم میں حاکم شرع کسی ایسے شخص کی بیوی کو طلاق دیتا ہے جو اپنی بیوی کو نہ نفقہ(خرچہ) دیتا ہے اور نہ ہی اسے طلاق دیتا ہے۔[7]
احکام
طلاق بائن میں عدت کے دوران بھی مرد اور عورت ایک دوسرے کے مَحرم نہیں ہیں۔ اسی طرح زوجیت کے احکام جیسے شوہر کی اطاعت کا واجب ہونا، میاں بیوی کا ایک دوسرے سے ارث لینا، شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے خارج ہونا حرام ہونا اور مرد پر بیوی کا نفقہ یعنی خرجہ کا واجب ہونا وغیرہ بھی جاری نہیں ہوتے ہیں۔ البتہ اگر مطلقہ عورت حاملہ ہو تو وضع حمل تک اس کا نفقہ مرد پر واجب ہے۔[8]
حوالہ جات
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، ۱۴۳۱ق، ص۳۵۶۔
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، ۱۴۳۱ق، ص۹۷۔
- ↑ مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۵، ص۱۹۴۔
- ↑ کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۵۴۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۵۲۹، ۵۳۰۔
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، ۱۴۳۱ق، ص۳۵۷۔
- ↑ سایت آیتاللہ سیستانی، مسئلہ ۲۵۴۰۔
- ↑ مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۵، ص۲۰۴۔
مآخذ
- سایت آیتاللہ سیستانی، مسئلہ ۲۵۴۵۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق على اكبر غفارى، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
- مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، بیروت منشورات الرضا، چاپ اول، ۱۴۳۱ھ۔
- امام خمينى، سيد روح اللہ، توضیح المسائل (مُحَشّی)، تحقیق سيد محمد حسين بنى ہاشمى خمينى، قم، دفتر انتشارات اسلامى، چاپ ہشتم، ۱۴۲۴ھ۔
- مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق با مذہب اہل بیت علیہم السلام، چاپ اول، ۱۳۹۲ش۔
- منصور، جہانگیر، قانون مدنی با آخرین اصلاحیہہا و الحاقات ہمراہ با قانون مسؤلیت مدنی، تہران، نشر دیدار، ۱۳۸۹ش۔