"اصحاب کہف" کے نسخوں کے درمیان فرق
− زمرہ:قرآنی داستانیں، + زمرہ:قرآنی قصے (بذریعہ:آلہ فوری زمرہ بندی) |
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 87: | سطر 87: | ||
[[زمرہ:قرآنی اصطلاحات]] | [[زمرہ:قرآنی اصطلاحات]] | ||
[[زمرہ:قرآنی قصے]] | [[زمرہ:قرآنی قصے]] | ||
[[زمرہ:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]] |
نسخہ بمطابق 09:58، 8 دسمبر 2019ء
اَصْحابِ کَہْف یا غار کے لوگ، ان با ایمان جوانوں کو کہا جاتا ہے جو روم باستان کے حکمران دقیانوس (201-251 ء) کے دور میں زندگی گزارتے تھے۔ یہ لوگ سوائے ایک چرواہا اور اس کے کتے کے سب کے سب امراء اور حکومت کے درباریوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت اور دقیانوس کے مظالم سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ لیا۔ وہاں پہنچ کر تھکاوٹ کی وجہ سے سب پر نیند طاری ہو گئی جو 300 سال طول پکڑ گئی۔ قرآن کریم میں سورہ کہف کی آیت نمبر 8 سے 26 میں ان کی داستان کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح عیسائی منابع میں بھی اس داستان سے متعلق وقایع کا تذکرہ ملتا ہے۔ شیعہ احادیث میں اصحاب کہف کو امام مہدیؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے۔
یہ واقعہ کس جگہ رونما ہوا اور مذکورہ غار کہاں پر واقع ہے؟ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مشہور قول کی بنا پر یہ غار موجودہ ترکی کے صوبہ ازمیر میں اِفِسوس (اِفِسُس) نامی شہر میں واقع ہے۔ ایرانی ٹیلی ویژن پر مردان آنجلس نامی ٹی وی سیریل اسی واقعہ پر بنایا گیا ہے جس کا اردو میں ترجمہ، "اصحاب کہف" کے نام سے کیا گیا ہے۔
داستان
اَصْحابِ کَہْف (غار کے لوگ) حضرت عیسی کے ماننے والے ان با ایمان جوانوں کو کہا جاتا ہے جو روم باستان کے حکمران دقیانوس (201-251 ء) کے دور میں زندگی گزارتے تھے۔[1] یہ لوگ سوائے ایک چرواہا اور اس کے کتے کے سب کے سب امراء اور حکومت کے درباریوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت اور دقیانوس کے مظالم سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ لیا۔[2] وہاں پہنچ کر تھکاوٹ کی وجہ سے سب پر نیند طاری ہو گئی جو 300 سال طول پکڑ گئی۔[3]
خدا نے ان پر ایک ایسی حالت طاری کی تھی کہ جو بھی انہیں دیکھتے وہ یہی گمان کرتے تھے کہ یہ لوگ بیدار ہیں حالانکہ یہ لوگ سوئے ہوئے تھے۔[4] اتنی مدت سونے کے بعد جب یہ لوگ بیدار ہوئے تو یہی خیال کرتے تھے کہ وہ چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں سوئے ہیں۔[5] یہ خیال ان کے ذہن میں اس لئے آیا چونکہ جس وقت یہ لوگ غار میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت دن کا آغاز تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پهر تھا۔[6]بیدار ہونے کے بعد انہوں نے ایک کو شہر بھیجا تاکہ کچھ کھانے پینے کا بندوبست کیا جا سکے۔[7]
کھانہ لینے کیلئے کون گیا تھا اس حوالے سے قرآن میں کچھ نہیں کہا گیا لیکن بعض احادیث کے مطابق یملیخا یا تملیخا اس کام کیلئے رضاکارانہ طور پر تیار ہوا تھا۔[8] جب وہ شہر میں داخل ہوا تو دیکھا شہر بالکل تبدیل ہو چکا ہے اس لئے وہ بہت حیران و پریشان ہوا۔[9]
نام اور تعداد
اصحاب کہف میں کتنے لوگ شامل تھے؟ اس حوالے سے تاریخی اور حدیثی منابع میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ عیسائی منابع میں ان کی تعداد 7، 5 اور 13 تک بتائی گئی ہے۔[10] اسی طرح ان منابع میں ان کا نام کچھ یوں ہے: مکسملینا، یلمیخا، دیمومدس (دیموس)، امبلیکوس، مرطونس، بیرونس اور کشطونس۔[11] لیکن طبری نے ان کا نام یوں ذکر کیا ہے: مکسلمینا، محسلمینا، یملیخا، مرطونس، کسطونس، ویبورس، ویکرنوس، یطبیونس اور قالوش۔[12]
قرآن کریم میں اصحاب کہف کی تعداد کی طرف کوئی تصریح موجود نہیں ہے صرف ان کی تعداد سے متعلق لوگوں کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں آیا ہے کہ بعض کہتے ہیں کتے سمیت ان کی تعداد 4 ہیں، بعض ان کی تعداد 6 اور بعض آٹھ بتاتے ہیں۔[13] بعض مفسرین کا خیال ہے کہ قرآن مجید نے تیسرے نظریے کو اپنایا ہے۔[14]
قرآن کی روشنی میں
سورہ کہف کی آیت نمبر 8 سے 26 تک میں اصحاب کہف کی داستان بیان ہوئی ہے۔ ان آیات میں اصحاب کہف کے ہدایت یافتہ ہونے، خدا پر ایمان رکھنے، کافروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے، غار میں پناہ لینے، خدا کے حکم ان کا سینکڑوں سال زندہ رہنے، اس کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور لوگوں کے ساتھ ان کی گفتگو اور آخر کار حقیقت کے آشکار ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ کافروں کا پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اس مسئلے میں ہونے والی گفتگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[15]
قرآن کے مطابق انہوں نے 309 سال غار میں نیند کی حالت میں گزاریں۔[16]
اصحاب کہف اور اصحاب رقیم
سورہ کہف کی آیت نمبر 9 میں "الرقیم" کو "الکہف" پر عطف کر کے یوں آیا ہے: "اَم حَسِبتَ اَنَّ اَصحبَ الکهفِ والرَّقیمِ۔۔۔" یہاں پر مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اصحاب کہف اور اصحاب رقیم ایک ہی گروہ کے دو نام ہیں یا دو علیحدہ گروہ ہیں۔ اگر ایک ہے تو اصحاب رقیم کیلئے کوئی الگ شأن نزول کی ضرورت نہیں لیکن اگر جدا ہیں تو علیحدہ شأن نزول کی ضرورت ہے۔ لفظ رقیم کے بارے میں بعض مفسرین نے کہا ہے که یہ اس غار کے نزدیک ایک دیہات کا نام ہے۔[17]
احادیث کی روشنی میں
احادیث میں اصحاب کہف کو امیر اور حکمران گھرانے کے جوانوں کے طور پر جانا گیا ہے جو کسی بڑے عید کے دن شہر سے باہر چلے جاتے ہیں۔ خدا ان کے دلوں کو ہدایت کے نور سے منور فرماتے ہیں یوں یہ لوگ خدا پر ایمان لے آتے ہیں۔ اگرچہ جوانی کی ابتداء میں یہ لوگ ایک دوسرے سے اپنا ایمان چھپاتے تھے لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے ایک دوسرے کو اپنے ایمان لانے سے باخبر کرائے۔[18] بعض احادیث کی روشنی میں دقیانوس نے اصحاب کہف کو ایک مدت تک مہلت دیا تاکہ وہ اپنے ایمان سے پلٹ آئیں۔ انہوں نے اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے غار میں پناہگزین ہوئے۔[19] بعض اور احادیث میں انہیں بادشاہ کا امین اور رازدار قرار دیا ہے۔[20]
امام مہدیؑ کے اصحاب میں ان کا شمار
شیعہ احادیث میں آیا ہے کہ امام زمانہؑ کی ظہور کی وقت اصحاب کہف رجعت کرکے آپؑ کے اصحاب میں شامل ہونگے۔[21] امام صادقؑ فرماتے ہیں: جب قائم آل محمد ظہور کریں گے تو کچھ لوگ کعبہ کے پیچھے سے ظاہر ہونگے جن میں سے سات(7) نفر اصحاب کہف ہونگے۔[22] حلبی روایت کرتے ہیں کہ اصحاب کہف مہدی موعودؑ کے وزیروں میں سے ہونگے۔[23] امام صادقؑ سے ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جب دابۃ الارض خارج ہوگا تو خداوندعالم اصحاب کہف کو ان کے کتے سمیت اٹھائے جائیں گے۔[24]
دوسرے ادیان میں ان کا تذکرہ
اصحاب کہف کی داستان ان معدود داستانوں میں سے ہے جس کا تذکرہ یہودی منابع میں نہیں ہوا ہے لیکن عیسائی منابع میں اس کا تذکرہ ہوا ہے۔ اس عیسائی منابع میں بھی یہ داستان تقریبا اسی شکل میں نقل ہوئی ہے جس طرح اسلامی منابع میں نقل ہوئی ہے اور عیسائیوں کی یہاں یہ داستان "شہر اِفِسوس(اِفِسُس) کے سات سوئے ہوئے" کے نام سے معروف ہے۔[25]
مستشرقین کے آثار میں ان کا تذکرہ
اصحاب کہف کی داستان پہلی بار کلیسائے شام کے خلیفہ "ژاک" نے پانچویں صدی عیسوی یعنی ظہور اسلام سے سو سال پہلے اپنے ایک رسالے میں سریانی زبان میں نقل ہوئی ہے۔ ان کے بعد "ادوارد گیپون" نے اپنی کتاب "سقوط امپرطوری روم" میں اس داستان کا تذکرہ کیا ہے۔[26] اسی طرح فرانس کے ایک مستشرق "لویی ماسینیون" نے سنہ 1961ء میں اصحاب کہف پر ایک تحقیق انجام دیا جسے اس نے فرانسیسی زبان میں "سات سوئے ہوئے" کے نام سی شایع کیا۔[27] دوسری طرف سے "یونگ" نے اصحاب کہف کی داستان کو حضرت خضر کی داستان سے مقایسہ کرکے تجدید حیات اور دوبارہ زندہ ہونے کے موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے۔
باقیماندہ آثار
امام علیؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق جس شہر میں اصحاب کہف ساکن تھے اس کا نام اِفِسوس (اِفِسُس) ہے۔[28] یہ شہر بر صغیر کے شہروں میں سے ایک شہر تھا۔ اس وقت اس شہر کے صرف کھنڈرات موجود ہیں اور موجودہ ترکی کے صوبہ ازمیر سے تین کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[29] اس شہر کے ایک کیلومیٹر کے فاصلے پر ایک غار موجود ہے، ترکی کے لوگ اصحاب کہف کے غار کے عنوان سے اس کی زیارت کرتے ہیں۔[30]اس غار کے اندر سینکڑوں قبروں کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح اردن کے دارالخلافہ اُمان کے سات کیلومیٹر کے فاصلے پر دو شہروں رقیم(رجیب) اور ابوعلند کے درمیان ایک غار موجود ہے جس کے اوپر ایک مسجد بنائی گئی ہے جس کے متعلق بعض آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ غار وہی غار اصحاب کہف ہے۔[31] اس غار کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی گئی ہے جس کا نام "اکتشاف کہف اہل الکہف" ہے۔ اسی طرح ایک اور غار جس کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ غار اصحاب کہف ہے، وہ شام کے شہر دمشق کے قریب واقع ہے۔ اسی طرح فلسطین کے شہر بتراء میں واقع غار جو دمشق کے کوہ قاسیون کے نزدیک واقع ہے، شمالی یورپ کے شبہ جزیرہ اسکاندیناوی میں واقع غار اور منطقہ قفقاز کے شہر نخجوان میں واقع غار کو بھی آقار قدیمہ کے ماہرین اصحاب کہف کے غار کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔[32]
علامہ طباطبایی المیزان میں اس بات کے معتقد ہیں کہ ترکی کے شہر اِفِسوس میں موجود غار کے اوپر غار اصحاب کہف کا اطلاق زیادہ مناسب لگتا ہے۔[33]
ٹی وی سیریل اصحاب کہف
اصحاب کہف کے بارے میں ایران کے ایک مشہور فیلم نگار فرج اللہ سلحشور نے سنہ 1376 ھ.ش میں ایک ٹی وی سیریل بنایا جسے ایران کے ٹیلیویژن پر کئی بار نشر کیا جا چکا ہے اور اس کا اردو ترجمہ اصحاب کہف کے نام کیا گیا ہے جو اردو زبان طبقوں میں خاصی شہرت کا حامل ہے۔ سنہ 1377ش کو ایران کے سابق صدر سید محمد خاتمی کی واتیکان سفر کے موقع پر انہوں نے اسے پاپ ژانپل دوم کو بطور ہدیہ پیش کیا۔[34] یہ سیریل بعض دیگر مسلم ممالک من جملہ مصر اور پاکستان وغیرہ میں بھی منتشر ہو چکا ہے۔[35]
حوالہ جات
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۴۱۱۔
- ↑ طبری، ترجمہ تفسیر طبری(جامع البیان)، ۱۳۵۶ش، ج۱۵، ص۲۲۵۔
- ↑ سورہ کہف،آیہ۲۵۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۲۵۶۔
- ↑ سورہ کہف،آیہ۱۸و۱۹
- ↑ طبرسی، جوامع الجامع، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۳۵۷۔ و مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۲، ص۳۷۳۔
- ↑ سورہ کہف،آیات۱۸و۱۹
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۳۳۴ش، ج۳، ص۶۲۴۔
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۳۳۴ش، ج۳، ص۶۲۴و۶۲۵۔
- ↑ الحکیم، اہل الکہف، ۱۳۸۲ش، ص۸۸۔
- ↑ الحکیم، اہل الکہف، ۱۳۸۲ش، ص۸۸۔
- ↑ طبری، ترجمہ تفسیر طبری(جامع البیان)، ۱۳۵۶ش، ج۱۵، ص۲۷۶۔
- ↑ سورہ کہف،آیات۲۲،۱۸۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۲۶۷،۲۶۸ و مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۲، ص۳۸۳۔
- ↑ معموری، تحلیل ساختار روایت در قرآن، ۱۳۹۲ش، ص۱۶۰۔
- ↑ سورہ کہف، آیہ۲۴۔
- ↑ قمی، تفسیر قمی، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۱۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۶۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۳۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۳۔
- ↑ دیلمی، ارشادالقلوب، ۱۳۷۷ش، ص۲۸۶۔
- ↑ طبسی، چشماندازی بہ حکومت مہدی(عج)، ۱۳۹۱ش، ص۱۰۱۔
- ↑ صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ۱۳۸۰ش، ص۴۸۵۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۲۷۵ و ج۵۳، ص۸۵۔
- ↑ الحکیم، اہل الکہف، ص۸۸۔
- ↑ مجدوب، اصحاب کہف در تورات و انجیل و قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۱۱۵۔
- ↑ مجدوب، اصحاب کہف در تورات و انجیل و قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۶۲۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۴۱۱۔
- ↑ سامی، قاموس الاعلام ترکی، ۱۳۸۲ش، ج۱، ص۵۰۶ و ج۲، ص۱۰۰۱۔
- ↑ بیآزار شیرازی، باستانشناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، صفحۂ۳۵۲۔
- ↑ بیآزار شیرازی، باستانشناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، صفحۂ۱۹۴۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۲۹۹۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۲۹۹۔
- ↑ روزنامہ شرق، خیلی دور، خیلی نزدیک
- ↑ مخالفت سلفیہا با پخش سریال «مردان آنجلس»
مآخذ
- المجدوب، احمد علی، اصحاب کہف در تورات، انجیل و قرآن، مترجم: سیدمحمد صادق عارف، تہران، رشد، ۱۳۸۰ش۔
- الحکیم، توفیق، اصحاب الکہف، ترجمہ: بتول مشیریان، چاپ اول، تہران، ارمغان، ۱۳۸۲۔
- بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، چاپ محمودبن جعفر موسوی زرندی، تہران ۱۳۳۴ش۔
- بیآزار شیرازی، عبدالکریم، باستان شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۸۰ش۔
- دیلمی، حسن بن ابی الحسن، ارشاد القلوب، ترجمہ ترجمہ رضایی، تہران، اسلامیہ، ۱۳۷۷ش۔
- سامی، شمسالدین، قاموس الاعلام ترکی، تہران، بنیاد اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۲ش۔
- صافی گلپایگانی، لطف اللہ، منتخب الأثر فی أحوال الإمام الثانی عشر، قم، دفتر آیت اللہ صافی، ۱۳۸۰ش۔
- طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمہ محمدباقر موسوی، قم، دفتر نشر اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ش۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، ۱۳۷۲ش۔
- طبری، محمد بن جریر، ترجمہ تفسیر طبری، تصحیح: حبیب یغمایی، تہران، توس، ۱۳۵۶ش۔
- طبسی، نجمالدین، چشماندازی بہ حکومت مہدی(عج)، قم، بوستان کتاب، ۱۳۹۱ش۔
- قمی، علیبن ابراہیم، تفسیر قمی، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۲ق۔
- گیپون، ادوارد، انحطاط و سقوط امپراطوری روم، مترجم: فرنگیس شادمان، تہران، ققنوس، ۱۳۹۳ش۔
- مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بہ تحقیق جمعی از محققان، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق۔
- معموری، علی، تحلیل ساختار روایت در قرآن، تہران، نگاہ معاصر، ۱۳۹۲ش۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش۔
- پایگاہ گنجور، سنائی،قصیدۂ شمارۂ ۱۴۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
- پایگاہ گنجور، مولوی،غزل شمارۂ ۶۷۶۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
- پایگاہ گنجور، گلستان سعدی،باب اول در سیرت پادشاہان، حکایت شمارۂ ۴۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
- پایگاہ اطلاع رسانی روزنامہ شرق،خیلی دور، خیلی نزدیک۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
- پایگاہ اطلاع رسانی افکار نیوز،مخالفت سلفیہا با پخش سریال «مردان آنجلس»۔ تاریخ درج خبر: ۱۳۹۲/۰۳/۲۲، تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔