قتل ہابیل

ویکی شیعہ سے
(ہابیل کا قتل سے رجوع مکرر)

قتل ہابیل قرآنی داستانوں میں سے ایک ہے جس کے مطابق حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا۔ دینی منابع میں اس واقعے کو کرہ ارض پر کسی انسان کا پہلا قتل سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ قابیل نے ہابیل کو حضرت آدمؑ کے جانشین بننے پر اعتراض کیا۔ اس تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے وحی نازل ہوئی۔ جس کے مطابق قرار پایا کہ ان میں سے ہر ایک خدا کے لئے قربانی لے کر آئے۔ روایات کے مطابق قابیل کی قربانی درگاہ الہی میں قبول نہیں ہوئی۔ چنانچہ آدم کے جانشین کی تقرری کے سلسلے میں قابیل نے ہابیل کے ساتھ حسد کیا اور اس کے نتیجے میں قابیل کے ہاتھوں ہابیل قتل ہوا۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر31 کے مطابق اللہ تعالیٰ نے قابیل کو ایک کوا کے ذریعے ہابیل دفن کرنے کا طریقہ سکھایا۔

کرہ ارض پر پہلا قتل

کہتے ہیں کہ قتلِ ہابیل کرہ ارض پر سب سے پہلے رونما ہونے والا قتل ہے۔[1] سورہ مائدہ کی 27 سے 31 ویں آیات میں قتل ہابیل کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ ان آیات میں واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں نے اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لیے ایک ایک عمل انجام دیا ان میں سے ایک کا عمل درگاہ الہی میں مقبول واقع ہوا جبکہ دوسرا قبول نہیں ہوا۔ حضرت آدم کے جس بیٹے کا عمل اللہ کی درگاہ میں قبول نہیں ہوا اس نے اپنے بھائی کو قتل کرنے کی دھمکی دی، ساتھ ہی قسم کھائی کہ اسے قتل کر ڈالے گا؛ بالآخر اس نے اپنے بھائی کو قتل کیا۔[2] مفسرین نے قاتل کا نام قابیل اور مقتول کا نام ہابیل بتایا ہے۔[3]

قتل کا محرک

ایک خطی نسخے میں ہابیل کے جسم کو چھپانے کے سلسلے میں قابیل کی پریشان کن حالت کو تصویر میں ظاہر کیا گیا ہے۔(تحریر: 10ویں صدی ہجری) کتاب قصص الانبیاء، اثر نیشابوری۔[4]

احادیث کے مطابق قابیل کے ہاتھوں ہابیل کا قتل اس حسد کی وجہ سے ہوا جو حضرت آدمؑ کی جانشینی کے سلسلے رونما ہوا تھا۔[5] بعض محققین کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ پر وحی نازل کی کہ وہ اپنے بیٹے ہابیل کو اپنے وصی اور جانشین کے طور پر اسم اعظم کی تعلیم دے۔ قابیل نے بڑا بیٹا ہونے کے ناطے اس معاملے پر اعتراض کیا۔ اس کا خیال تھا کہ بڑا بیٹا باپ کا وصی اور جانشین بنتا ہے، دوسری طرف، وہ اس انتخاب کی وجہ حضرت آدمؑ کے ذاتی ذوق اور ہابیل میں دلچسپی کوسمجھتا تھا، نہ کہ خدا کا حکم۔ اس تنازعہ اور کشمکش کو ختم کرنے کے لیے وحی الہی نازل ہوئی کہ قابیل اور ہابیل میں سے ہر شخص خدا کے لیے قربانی لے کر آئے۔ [6]

ہابیل اور قابیل کی قربانی کیا تھی؟

روایات کے مطابق، قابیل ایک زمیندار شخص تھا اور اس نے اپنی سب سے خراب فصل کو اللہ کے لیے قربانی کے طور پر پیش کیا جبکہ ہابیل مال مویشی کا مالک تھا اس نے ایک بہترین بھیڑ کو اللہ کی راہ میں قربانی کی۔ ان کی پیش کردہ قربانی کو آگ لگنا اس کی قبولیت کی علامت قرار پایا؛ اس طرح ہابیل کی قربانی قبول ہوئی لیکن قابیل کی قربانی مورد قبولیت قرار نہیں پائی۔[7]

ہابیل کے قتل کا سبب

اسلامی احادیث کے مطابق ہابیل کی قربانی قبول ہونے کے بعد قابیل اس سے حسد کرنے لگا اور قسم کھائی کہ وہ ہابیل کو قتل کردے گا۔[8] قرآن کی آیات کے مطابق، ہابیل نے تقوائے الہی کا ذکر کرتے ہوئے اور یہ کہ خدا پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتا ہے، قابیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہو تو بھی میں تمہارے ساتھ کبھی ایسا کرنے کی کوشش نہیں کروں گا اور کبھی اس طرح کے گناہ کا ارتکاب نہیں کرون گا۔ اس نے قابیل کو خبردار کیا کہ اگر اس نے قتل کیا تو وہ ظالموں میں سے ہوگا اور جہنم کا مستحق ہوگا۔[9] تاریخ طبری (تالیف: 303ھ) کے مطابق جب ہابیل اپنی بکریوں کو چرانے کے لیے ایک پہاڑ پر گیا، یہاں وہ آرام کر رہا تھا اتنے میں قابیل نے ہابیل کے سر پر ایک پتھر دے مارا، اسی سے وہ قتل ہوا۔[10]

بعض کا کہنا ہے کہ قابیل کے حسد کرنے اور درگاہ الہی میں قربانی پیش کرنے کی وجہ دو بھائیوں کے لئے بیوی کا انتخاب تھی۔ تفصیل واقعہ یہ کہ اللہ کی جانب سے حضرت آدمؑ کو حکم ہوا کہ ہابیل قابیل کی جڑواں بہن سے شادی کرے اور قابیل ہابیل کی جڑواں بہن سے شادی کرنے کا پابند ٹھہرا۔ قابیل نے اپنے والد کے حکم پر ااعتراض کیا؛ کیونکہ اس کی بہن ہابیل کی بہن سے زیادہ خوبصورت تھی۔ اس کے بعد، اللہ کی جانب سے حکم ہوا کہ دونوں بھائی درگاہ الہی میں قربانی پیش کرے، تاکہ جس کی قربانی قبول ہو جائے وہ قابیل کی بہن سے شادی کرے، جب ہابیل کی قربانی قبول ہوئی تو قابیل اس سے حسد کرنے لگا اور ہابیل پر زور سے ایک پتھر دے مارا اس طرح ہابیل قتل ہوا۔[11]

ہابیل اور قابیل کی قربانی اور ہابیل کے قتل کا قصہ تورات میں بھی بیان ہوا ہے۔[12]

دفنِ ہابیل

تیسری صدی ہجری کے مورخ محمد بن جریر طبری کے مطابق قابیل کی بے بسی اور انسانی لاش کو دفنانے کے طریقہ سے ناواقفیت کی وجہ سے ہابیل کی لاش کو جنگلی جانوروں کے حملے کا خطرہ لاحق ہوا۔[13] سورہ مائدہ کی آیت نمبر 31 میں بیان ہوا ہے کہ قابیل کو ایک انسان کی میت کو دفن کرنے کا طریقہ سکھانے کے لیے خدا نے ایک کوے کو بھیجا کہ وہ زمین کھود کر قابیل کو دکھایا کہ کس طرح دوسرے کوے کی لاش یا اپنے شکار کے ایک حصے کو چھپایا جاتا ہے۔ قابیل نے اس منظر کو دیکھ کر اپنے مقتول بھائی کی لاش کو دفن کردیا[14]

داستان دفنِ ہابیل فارسی اشعار کی روشنی میں

ساتویں صدی ہجری کے معروف ایرانی شاعر مولوی نے اپنی کتاب "مثنوی معنوی" میں دفن ہابیل کی داستان کو اشعار کے قالب میں بیان کیا ہے، ان میں سے بعض اشعار یہ ہیں:

کندن گوری که کمتر پیشه بود کی ز فکر و حیله و اندیشه بود
گر بدی این فهم مر قابیل را کی نهادی بر سر او هابیل را

ایسا وقت بھی تھا جب گور کنی اور قبر کھودنا نہ کسی کا پیشہ تھا اور نہ ہی کسی کو اس کی فکر لاحق تھی، اگر قابیل کو گورکنی کا ہنر معلوم ہوتا تو ہابیل کو کاندھے پر بٹھا کر سرگردان نہ پھرتا

که کجا غایب کنم این کشته را این به خون و خاک در آغشته را[15]

قابیل پریشان تھا کہ خون میں لت پت اپنے بھائی کی لاش کو کہاں دفن کروں!

مولوی مزید کہتے ہیں کہ قابیل کی پریشان کن حالت میں ایک کوا اس کے پاس آیا اور میت کو دفن کرنے کا طریقہ اسے سکھلایا:


دید زاغی زاغ مرده در دهانبر گرفته تیز می‌آمد چنان
از هوا زیر آمد و شد او به فن از پی تعلیم او را گورکن[16]

قابیل نے آسمان پر ایک کوّے کو دیکھا جو تیزی کے ساتھ اس کی طرف آرہا ہے، اس کے منہ میں ایک مردہ کوّا تھا، اس کوّے نے قابیل کو قبر کھودنے کا ہنر سکھایا۔

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ہجری شمسی، ج4، ص345.
  2. ملاحظہ کریں: سوره مائده، آیات 27-31.
  3. شیخ‌‌‌‌‌‌‌‌ طوسی، التبیان، بی‌تا، ج3، ص492؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج5، ص315؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ہجری شمسی، ج4، ص348.
  4. نیشابوری، قصص الانبیاء، نسخه خطی.
  5. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج1، ص312.
  6. صادقی فدکی، ارتداد؛ بازگشت به تاریکی، 1388ہجری شمسی، ص270.
  7. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص113.
  8. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج1، ص312.
  9. سوره مائده، آیه29.
  10. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج1، ص138.
  11. طوسی، التبیان، بی‌تا، ج3، ص493؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج1، ص138.
  12. تورات، کتاب تکوین، باب4، آیه 3-8.
  13. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج1، ص86.
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ہجری شمسی، ج4، ص351.
  15. مولوی، مثنوی معنوی، دفتر چهارم، ابیات 1301الی 1303.
  16. مولوی، مثنوی معنوی، دفتر چهارم، ابیات 1303 و 1304.

مآخذ

  • صادقی فدکی، جعفر، ارتداد، بازگشت بہ تاریکی؛ نگرشی بہ موضوع ارتداد از نگاہ قرآن کریم، چاپ اول، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1388ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، چاپ دوم، بیروت، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات‏، 1390ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبوالفضل ابراہیم، چاپ دوم، بیروت، دارالتراث، 1387ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحياء التراث العربي‏، بی‌تا.
  • عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر (تفسیر العیاشی) تحقیق: ہاشم رسولی، چاپ اول، تہران، مکتبۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، 1380ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، 1407ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، 1371ہجری شمسی۔
  • مولوی، جلال‌الدین محمد، مثنوی معنوی، تہران، انتشارات پژوہ، 1371ہجری شمسی۔
  • نیشابوری، ابواسحاق، قصص الانبیاء (نسخہ خطی).