استغفار

علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے
(گناہوں کی مغفرت سے رجوع مکرر)
دعا و مناجات

استغفار کے معنی خداوند متعال سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں جو زبانی طور پر "استغفراللہ" کہنے کے ذریعے بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث میں استغفار کرنے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ قرآن مجید کی تقریبا 30 آیات میں انبیاء کے استغفار کا بیان ملتا ہے۔ خدا کے عذاب سے نجات، گناہوں کی مغفرت اور رزق و روزی میں وسعت استغفار کے آثار میں شمار کیا جاتا ہے۔

استغفار کو مستحب اعمال میں ایک بہترین دعا اور عبادت کی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن بعض مواقع پر یہ واجب بھی ہو جاتا ہے جیسے مُحرِم پر کفارہ کے عنوان سے استغفار واجب ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ پر مشرکین کیلئے استغفار کرنا جائز نہیں ہے۔

امام علیؑ استغفار کیلئے بعض شروط کو ذکر کرتے ہیں من جملہ وہ شرائط یہ ہیں: گذشتہ گناہوں پر نادم اور پشیمان ہونا، دوبارہ گناہ نہ کرنے کا عزم، حقوق الناس کی ادائیگی اور واجبات کی انجام دہی۔ استغفار کیلئے کوئی مخصوص وقت یا مکان نہیں بلکہ ہر جگہ اور کسی بھی وقت انجام دیا جا سکتا ہے لیکن سحر کے وقت استغفار کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

استغفار کے معنی زبانی یا عملی طور پر[1] خداوند سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرنے کو کہا جاتا ہے۔[2] استغفار کا مقصد گناہ کے برے آثار اور خدا کے عذاب سے نجات حاصل کرنا ہے۔[3]

استغفار یا قولی اور زبانی ہے جیسے زبان سے "استغفراللہ" کہنا یا افعالی اور عملی ہے جیسے کوئی ایسا کام انجام دینا جو انسان کی مغفرت کا سبب بنے۔[4] استغفار زبانی سے طہارت، صلاۃ، صوم، حج، تجارت، ظہار اور کفّارات وغیرہ کے باب میں بحث ہوتی ہے۔[5]

بعض اہل سنت مفسرین من جملہ زمخشری اور فخر رازی نے قرآن کی آیات میں استغفار سے ایمان[6] یا اسلام[7] لیتے ہیں۔ اسی طرح پانچویں صدی ہجری کے شیعہ مفسر جناب طبرسی بھی قرآن میں استغفار سے مراد نماز لیتے ہوئے اسے استغفار عملی کے مصادیق میں سے شمار کرتے ہیں۔[8]

طلب مغفرت کا مفہوم قرآن کریم میں 68 بار بیان ہوا ہے؛[9] جس میں سے 43 مورد میں استغفار کے مشتقات جبکہ 17 مورد میں کلمہ "إغفر" تین مورد میں کلمہ "یغفر"، دو مورد میں کلمہ" تغفر" اور ایک بار کلمہ "مغفرۃ" کی شکل میں آیا ہے۔[10]

امام صادقؑ سے منسوب ایک حدیث میں استغفار کی طرف یوں اشارہ ہوا ہے؛ زیادہ استغفار کرنا انسان کے نامہ عمل کی درخشندگی کا سبب بنتا ہے۔[11] ایک اور حدیث میں زرارۃ بن أعین امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں کہ جب انسان کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو صبح سے رات تک اسے مہلت دی جاتی ہے تاکہ وہ اس خدا سے اس گناہ کی مغفرت کی دعا کرے اس دوران اگر وہ طلب استغفار کرتے تو وہ گناہ بخش دی جاتی ہے۔[12]

اہمیت

قرآن کی بہت ساری آیات میں استغفار کی ترغیب یا اس کا حکم دیا گیا ہے[13] اور بعض موارد میں قرآن کریم میں ان لوگوں کی سرزنش کی گئی ہے جو استغفار نہیں کرتے۔[14]

قرآن کریم کی روی سے فرشتے مؤمنین[15] اور اہل زمین کیلئے استغفار کرتے ہیں[16] اسی طرح قرآن میں مغفرت کی درخواست کرنا نیک لوگوں کی صفت قرار دی گئی ہے۔[17]

قرآن کریم کی تقریبا 30 آیتوں میں انبیاء کی استغفار کا بیان آیا ہے۔[18] لیکن علامہ طباطبایی انبیاء کی عصمت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی طرف سے کسی گناہ کے مرتکب ہونے کو ان کی تبلیغی ذمہ داری کے منافی سمجھتے ہوئے یہ احتمال دیتے ہیں کہ انبیاء اپنے مباح اعمال کو بھی گناہ سے تعبیر کرتے تھے اور اسی بنا پر وہ طلب استغفار کرتے تھے۔[19]

قرآن کریم نیز معصومین سے منقول بعض احادیث میں استغفار کے مختلف آثار بیان ہوئے ہیں من جملہ ان میں:عذاب الہی سے نجات[20]، گناہوں کی مغفرت،[21] رزق و روزی اور اولاد میں برکت،[22] اور طولانی عمر[23] کا نام لیا جا سکتا ہے۔

احکام

استغفار بذات خود ایک مستحب عمل ہے لیکن بعض دلایل کی بنا پر واجب یا حرام ہو جاتا ہے جن کی تفصیل درج ذیل ہیں:

  1. مستحب استغفار: استغفار مستحب اعمال میں بہترین دعا اور عبادت میں سے ہے اور تمام حالات میں اس کا بجا لانا مستحب ہے لیکن بعض مقامات پر اس کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے من جملہ وہ مقامات یہ ہیں:[24] نماز کے دو سجدے کے درمیان،[25] تسبیحات اربعہ کے بعد،[26] قنوت خاص کر نماز وتر کی قنوت میں،[27] سحری کے وقت،[28] اور ماہ رمضان کے مہینے میں۔[29]
  2. واجب استغفار: استغفار بعض موقعوں پر واجب ہو جاتا ہے؛ مثلا مُحرِم جو ایک یا دو بار جدال لفظی کے مرتکب ہو اس پر کفّارہ کے عنوان سے استغفار واجب ہے۔[30]
  3. حرام استغفار: قرآن کریم کے مطابق مؤمنین پر مشرکین کے حق میں استغفار کرنا حرام ہے۔[31]

آداب

ائمہ معصومین سے نقل شدہ احادیث میں استغفار کے کچھ آداب کا تذکرہ ملتا ہے من جملہ یہ کہ امام علیؑ نے اپنے حضور استغفار کرنے والے ایک شخص سی مخاطب ہو کر اس کے چھ(6) معنی بیان فرمایا ہے جن میں اپنے کئے پر نادم اور پشیمانی، دوبارہ گناہ کی طرف لوٹ کر نہ جانے کا عزم، حقوق الناس کی ادائیگی، واجبات کی انجام دہی اور اپنے جسم کو اطاعت کا مزہ چکھانا۔[یادداشت 1][32]

استغفار کیلئے اگرچہ کوئی خاص وقت یا مکان نہیں لیکن قرآن کریم میں بعض موقعوں من جملہ سَحر کے وقت استغفار کی بہت تاکید ہوئی ہے۔[33]

نوٹ

  1. ثَکلَتْک أُمُّک! أَتَدْرِی مَا الاِسْتِغْفَارُ؟ الاِسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّیینَ، وَ هُوَ اسْمٌ وَاقِعٌ عَلَی سِتَّةِ مَعَانٍ؛ أَوَّلُهَا: النَّدَمُ عَلَی مَا مَضَی؛ وَ الثَّانِی: الْعَزْمُ عَلَی تَرْک الْعَوْدِ إِلَیهِ أَبَدا؛ وَ الثَّالِثُ: أَنْ تُؤَدِّی إِلَی الْمَخْلُوقِینَ حُقُوقَهُمْ حَتَّی تَلْقَی اللَّهَ أَمْلَسَ لَیسَ عَلَیک تَبِعَةٌ؛ وَ الرَّابِعُ: أَنْ تَعْمِدَ إِلَی کلِّ فَرِیضَةٍ عَلَیک ضَیعْتَهَا فَتُؤَدِّی حَقَّهَا وَالْخَامِسُ: أَنْ تَعْمِدَ إِلَی اللَّحْمِ الَّذِی نَبَتَ عَلَی السُّحْتِ فَتُذِیبَهُ بِالْأَحْزَانِ، حَتَّی تُلْصِقَ الْجِلْدَ بِالْعَظْمِ وَ ینْشَاءَ بَینَهُمَا لَحْمٌ جَدِیدٌ؛ السَّادِسُ: أَنْ تُذِیقَ الْجِسْمَ أَلَمَ الطَّاعَةِ کمَا أَذَقْتَهُ حَلاَوَةَ الْمَعْصِیةِ فَعِنْدَ ذَلِک تَقُولُ: أَسْتَغْفِرُ الله.

حوالہ جات

  1. راغب، مفردات الفاظ القرآن، ۱۴۱۶ق، ص۶۰۹۔
  2. اسکندرانی، کشف الاسرار، ۲۰۱۰م، ج۲، ص۴۶۔
  3. ابن عاشور، التحریر و التنویر، ۱۴۲۰ق، ج۳، ص۲۲۳؛ راغب، مفردات الفاظ القرآن، ۱۴۱۶ق، ص۶۰۹۔
  4. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۲ش، ج۱، ص۴۳۹۔
  5. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ج۱، ص۴۳۹۔
  6. زمخشری، الکشاف، دارالکتاب العربی، ج۲، ص۴۰۲۔
  7. فخر الرازی، التفسیر الکبیر، دار احیاء التراث العربی، ج۱۵، ص۱۵۸۔
  8. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۷۱۴۔
  9. مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۵ش، ج۳، ص۱۳۴۔
  10. مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۵ش، ج۳، ص۱۳۴۔
  11. کلینی، اصول الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۵۰۴ (إذَا أکثَرَ العَبدُ مِنَ الاستِغفار رُفِعَت صَحیفَتُہُ وَ ہی تَتَلَالَأُ)۔
  12. کلینی، اصول الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۳۷ (عَلِی بْنُ إِبْرَاہِیمَ عَنْ أَبِیہِ عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَیرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حُمْرَانَ عَنْ زُرَارَۃَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِاللَّہِ علیہ‌السلام یقُولُ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَذْنَبَ ذَنْباً أُجِّلَ مِنْ غُدْوَۃٍ إِلَی اللَّیلِ فَإِنِ اسْتَغْفَرَ اللَّہَ لَمْ یکتَبْ عَلَیہِ)۔
  13. عبدالباقی، المعجم المفہرس، ۱۴۱۲ق، ص۵۰۰۔
  14. اَفَلا یتوبونَ اِلَی اللّہِ ویستَغفِرونَہُ (سورہ مائدہ، آیہ ۷۴)۔
  15. سورہ غافر، آیہ ۷۔
  16. سورہ شوری، آیہ۵۔
  17. ۔۔۔ لِلَّذینَ اتَّقَوا۔۔۔ اَلَّذینَ یقولونَ رَبَّنا اِنَّنا ءامَنّا فَاغفِر لَنا (سورہ آل عمران، آیہ ۱۵-۱۶)؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۲، ص۴۶۳۔
  18. مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۵ش، ج۳، ص۱۴۲۔
  19. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۶، ص۳۶۷۔
  20. وَمَا كَانَ اللَّہُ لِيُعَذِّبَہُمْ وَأَنتَ فِيہِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (سورہ انفال، آیہ ۳۳)؛ كَانَ فِي الْأَرْضِ أَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللَّہِ وَ قَدْ رُفِعَ أَحَدُہُمَا فَدُونَكُمُ الْآخَرَ فَتَمَسَّكُوا بِہِ أَمَّا الْأَمَانُ الَّذِي رُفِعَ فَہُوَ رَسُولُ اللَّہِ وَ أَمَّا الْأَمَانُ الْبَاقِي فَالِاسْتِغْفَارُ (نہج البلاغہ، شرح عباس علی الموسوی، حکمت ۸۸، ص۲۶۷)؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۸۰ش، ج۷، ص۱۵۴-۱۵۵۔
  21. فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکمْ إِنَّہُ کانَ غَفَّارًا؛ (سورہ نوح، آیہ ۱۰)۔
  22. سورہ نوح، آیہ ۱۰-۱۲۔
  23. بر اساس تفسیر مفسران شیعہ و سنی از: سورہ ہود، آیہ ۳؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۵۴۳؛ فخر الرازی، التفسیر الکبیر، دار احیاء التراث العربی، ج۳۰، ص۱۳۷۔
  24. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ق، ج۷، ص۱۸۰۔
  25. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۶۸۳۔
  26. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۶۵۸۔
  27. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۶۹۹۔
  28. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۷ق، ج۷، ص۳۳۔
  29. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱۰، ص۳۰۴۔
  30. جدال میں اگر خود حق پر ہو اور تین مرتبہ سے کم ہے تو استغفار کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور تیسری مرتبہ اس کا کفارہ ایک گوسفند ہے (محمودی، مناسک عمرہ مفردہ، ۱۳۸۷ش، ص۶۹)۔
  31. سورہ توبہ، آیہ ۱۱۳۔
  32. نہج البلاغہ، شرح عباس علی الموسوی، حکمت ۴۱۷، ص۵۰۸۔
  33. الصَّابِرِ ینَ وَالصَّادِقِینَ وَالْقَانِتِینَ وَالْمُنفِقِینَ وَالْمُسْتَغْفِرِ ینَ بِالْأَسْحَارِ (سورہ آل عمران، آیہ ۱۷)؛ قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکمْ رَ بی‌ۖ إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّ حِیمُ[؟؟] (سورہ ذاریات، آیہ ۱۸)۔

مآخذ

  • ابن عاشور، محمد طاہر، التحریر و التنویر، بیروت، مؤسسۃ التاریخ، ۱۴۲۰ق۔
  • اسکندرانی، محمد بن احمد، کشف الاسرار النورانیۃ القرآنیۃ،‌ مصحح احمد فرید المزیدی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۲۰۱۰م۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعہ الی تحصیل مسایل الشریعہ، قم، موسسہ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، ۱۴۰۹ق۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن،‌دمشق، دار القلم، ۱۴۱۶ق۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقایق غوامص التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوہ التاویل،‌ بیروت، دارالکتاب العربی، [بی تا]۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، شرح عباس علی الموسوی، بیروت، دار الرسول الأکرم، ۱۴۱۸ق/۱۹۹۸م۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • عبدالباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس لألفاظ القرآن الکریم، بیروت، دار‌المعرفہ، ۱۴۱۲ق۔
  • علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق/۱۹۷۱م۔
  • فؤاد عبدالباقی، محمد، المعجم المفہرس لألفاظ القرآن الکریم، قاہرہ، دار الکتب المصریۃ، ۱۳۶۴ق۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، [بی تا]۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، مصحح علی اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ق۔
  • مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، با اشراف و نظارت سید محمود ہاشمی شاہرودی، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، ۱۳۸۲ش۔
  • محمودی، محمدرضا، مناسک عمرہ مفردہ: مطابق با فتاوای حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی و مراجع معظم تقلید، تہران، مشعر، ۱۳۸۷ش۔
  • مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۵ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ،‌تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۰ش۔
  • نجفی، محمدحسن بن باقر، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام،‌بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۳۶۲ق۔
  • یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۹ق۔