نشوز
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
نُشوز، ہمسر کے متعلق شرعی ذمہ داریوں سے روگردانی نشوز کہلاتا ہے۔ فقہا کے فتووں کے مطابق، مرد کو بغیر کسی سبب کے تمکین نہ دینا شوہر سے تلخ کلامی کرنا، عورتوں کے نشوز کی نشانیاں ہیں اور نَفَقہ کے فرائض سے فرار اور بلا سبب بیوی کو آزار و اذیت پہچانا شوہر کے نشوز کی علامتیں ہیں۔ فقہی کتابوں میں، زیادہ تر عورتوں کے نشوز کے متعلق بحث ہوئی ہے۔
عورت کے نشوز کی صورت میں، شوہر پر نفقہ دنیا واجب نہیں ہے۔ فقہاء کی نظر کے مطابق، سب سے پہلے شوہر کو چاہئے کہ وہ ناشزہ عورت کو نصیحت کرے اسکو سمجھائے بجھائے اور اگر کوئی فائدہ نہ ہو تو، اس سے اپنا بستر الگ کر لے اور اگر پھر بھی کوئی فائدہ نہ ہو، تو اسکو بدنی تنبیہ کرے۔ اگر نشوز شوہر کی طرف سے ہو، تو عورت کو چاہئے کہ وہ پہلے مرد کو نصیحت کرے اسکو سمجھائے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرے اور اگر اسکا کوئی فائدہ نہ ہو تو حاکم شرع کی طرف مراجعہ کرے۔
نشوز کی فقہی تعریف اور فقہ میں اس کا مقام
نشوز فقہ کی ایک اصطلاح ہے، جسکے معنی ہیں ہمسر کی بہ نسبت شرعی ذمہ داریوں سے روگردانی۔[1] عورت کا شوہر کوتمکین نہ دینا [2] اور مرد کا عورت کو نفقہ نہ دینا نشوز کی علامتیں ہیں۔[3]
وہ عورت جو اپنے شوہر کے سلسلہ میں شرعی ذمّہ داریوں کی انجام دہی سے منہ موڑے اسکو «ناشزہ» کہا جاتا ہے اور وہ مرد جو اپنی زوجہ کے سلسلہ میں اسکے شرعی حقوق کی ادائیگی نہ کرے اسکو «ناشز» کہا جاتا ہے۔[4]
نشوز اور اس کے احکام، سے فقہی کتابوں میں، نکاح کے باب میں بحث ہوئی ہے۔[5] البتہ فقہی کتابوں میں زیادہ تر تفصیل عورت کے نشوز کے احکام کے سلسلہ میں ہیں۔[6]
عورت کے نشوز کی علامتیں
وہ بعض چیزیں جن کو فقہاء نے عورتوں کے نشوز کی علامتوں میں شمار کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
- تمکین نہ دینا؛ یعنی شوہر کی جائز جنسی خواہشات کی تکمیل سے انکار کرنا[7]
- شوہر سے بے رغبتی اور بے میلی کا اظہار کرنا اور اس سے تلخ کلامی کرنا[8]
- صفائی ستھرائی اور ظاہری آرائش کا، اس حد تک رعایت نہ کرنا جو کہ عورت سے استمتاع میں مانع قرار پائے [9]
- شوہر کی اجازت اور اطلاع کے بغیر گھر سے باہر نکلنا۔[10]
مرد کے نشوز کی علامتیں
فقہاء نے مندرجہ ذیل باتوں کو شوہر کے نشوز کی علامت قرار دیا ہے:
- نفقہ کی ادائیگی سے اعراض کرنا[11]
- بغیر کسی جائز سبب کے عورت کو مارنا یا اسکو اذیت آزار پہنچانا۔[12]
- حق قَسم (بیویوں کے درمیان راتوں کی تقسیم بندی) کی رعایت نہ کرنا، اگر مرد کئی بیویاں رکھتا ہو تو۔[13]
شوہر یا بیوی کے نشوز کی صورت میں ایک دوسرے سے متعلق احکام
فقہاء کرام کے فتووں کے مطابق، سب سے پہلے شوہر کو چاہئے کہ وہ ناشزہ عورت کو نصیحت کرے اسکو سمجھائے بجھائےاور اگر کوئی فائدہ نہ ہو تو، اس کے بستر پہ اسکی طرف پشت کر لے یا اس سے اپنا بستر الگ کر لےاور اگر پھر بھی کوئی فائدہ نہ ہو، تو اسکو بدنی سزا دے۔[14] اگر نشوز شوہر کی طرف سے ہو، تو عورت کو چاہئے کہ وہ پہلے مرد کو وعظ و نصیحت کرے اسکو سمجھائے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرے اور اگر اس سے کوئی فائدہ نہ ہو تو حاکم شرع کی طرف مراجعہ کرے۔[15]
نشوز کے دوسرے احکام
نشوز کے کچھ دوسرے احکام مندرجہ ذیل ہیں:
- عورت کے نشوز کی صورت میں شوہر پر نَفَقہ واجب ہے۔[16]
- مرد کے نشوز کی صورت میں عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ شوہر کی جنسی جائز خواہش کی تکمیل سے اعراض کرے [17] یا اس کو بدنی تنبیہ کرے یعنی اس کو مارے پیٹے۔[18]
- عورت کو شدید بدنی تنبیہ نہیں کرنی چاہئے جو اسکی ہڈی ٹوٹنے کا سبب بنے یا نیلے یا کسی زخم کا باعث ہو۔[19]
- بیوی اگر ان کاموں سے انکار کرے جو اس پر واجب نہیں ہے جیسے کھانا پکانا، سلائی کڑھائی کرنا، گھر کی صفائی کرنا، تو یہ اسکے نشوز کی علامتیں نہیں ہیں۔[20]
- لازمی اور واجبی اعتقادی معارف اور شرعی احکام کی تعلیم کے لئے بغیر شوہر کی اجازت کے گھر سے باہر نکلنا،[21] یا کسی بیماری کے علاج کے لئے جسکا علاج گھر میں ممکن نہ ہو، [22] یا جان، مال سور آبرو کی حفاظت میں گھر سے فرار نشوز شمار نہیں کیا جا سکتا۔[23]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۳۸۶ھ۔ ج۵، ص۴۲۷؛ محقق حلی، مختصرالنافع، ۱۴۱۰ھ، ص۱۹۱۔
- ↑ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۳۸۶ھ، ج۵، ص۴۲۷۔
- ↑ خویی، مناہج الصالحین، مؤسسۃ الخوئی الإسلاميۃ، ج۲، ص۲۸۹۔
- ↑ مکارم شیرازی، احکام خانوادہ، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۲۱۹۔
- ↑ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۳۸۶ھ، ج۵، ص۴۲۷۔
- ↑ ملاحظہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۱، ص۲۰۰-۲۰۹۔
- ↑ فاضل ہندی، کشفاللثام، ۱۴۱۶ھ، ج۷، ص۵۲۴؛ صافی گلپایگانی، ہدایۃالعباد، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۱۷۴۔
- ↑ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، دارالفکر، ص۱۷۴۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۱، ص۲۰۵؛ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۳۹۰ھ،ج۲، ص۳۰۵۔
- ↑ فاضل ہندی، کشفاللثام، ۱۴۱۶ھ،ج۷، ص۵۲۴۔
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۱، ص۲۰۷۔
- ↑ بحرانی، حدائق الناضرہ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۲۴، ص۶۱۴۔
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۱، ص۱۹۵۔
- ↑ ملاحظہ کریں: محقق اردبیلی، زبدۃ البیان، المكتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، ص۵۳۷۔
- ↑ شہید ثانی، روضۃ البہیۃ، ۱۳۸۶ھ،ج۵، ص۴۲۹۔
- ↑ فاضل ہندی، کشفاللثام، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۷، ص۵۲۴؛ فاضل ہندی، کشف اللثام، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۷، ص۵۷۶۔
- ↑ خوانساری، جامع المدارک، ۱۴۰۵ھ ج۴، ص۴۳۳۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۱، ص۲۰۷۔
- ↑ مکارم شیرازی، احکام خانوادہ، ۱۳۸۹ش، ص۲۱۹۔
- ↑ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ۱۳۹۰ش، ج۲، ص۳۰۵۔
- ↑ فاضل لنکرانی، جامع المسائل، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۴۳۱۔
- ↑ مکارم شیرازی، احکام خانوادہ، ۱۳۸۹ش، ص۲۱۰۔
- ↑ فاضل لنکرانی، جامع المسائل، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۴۳۱۔
مآخذ
- امام خمینی، سید روحاللہ، تحریر الوسیلۃ، نجف، دار الكتب العلمیۃ۱۳۹۰ھ۔
- بحرانی، یوسف بن احمد، حدائق الناظرۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بیتا۔
- خوانساری، سید احمد، جامعالمدارک فی شرح مختصر النافع، ترمان، مکتبۃ الصدوق ،چاپ دوم، ۱۴۰۵ھ۔
- خویی، سید ابوالقاسم، منااج الصالحین، نجف، مؤسسۃ الخوئی الإسلاميۃ، بیتا۔
- شیدن اول، محمد بن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ، بیروت، دارالتراث، ۱۴۱۰ھ۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، نجف، منشورات جامعۃ النجف الدینیۃ، ۱۳۸۶ھ۔
- صافی گلپایگانی، لطفاللہ، ہدایۃالعباد، قم، دار القرآن الكریم، ۱۴۱۶ھ۔
- فاضل لنکرانی، محمد، جامع المسائل، قم، انتشارات امیر، چاپ یازدہم، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
- فاضل ہندی، محمد بن حسن، کشف اللثام و الاباام عن قواعدالاحکام، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ۱۴۱۶ھ۔
- محقق اردبیلی، احمد بن محمد، زبدۃ البیان، ترسان، المكتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، بیتا۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، مختصر النافع، تراان، قسم الدراسات الإسلامیۃ فی مؤسسۃ البعثۃ، چاپ سوم، ۱۴۱۰ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، احکام خانوادہ، قم، امام علی بن ابیطالب علہ السلام، چاپ دوم، ۱۳۸۹ہجری شمسی۔
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۳۶۲ہجری شمسی۔