مندرجات کا رخ کریں

ابو مخنف

ویکی شیعہ سے
(لوط بن یحیی ازدی سے رجوع مکرر)
ابو مخنف
شیعہ مورخ
کوائف
مکمل ناملوط بن یحیی بن سعید بن مِخنَف بن سُلیم غامدی ازدی
تاریخ ولادتتقریبا 80ھ
آبائی شہرکوفہ
تاریخ وفات157ھ
علمی معلومات
تالیفاتمقتل الحسینؑ • کتاب الردۃ • کتاب فتوح الشام • دوسری تالیفات
خدمات


لُوط بن یحیی بن سعید (وفات: 157ھ)، جو ابو مِخنَف اور ابو مِخنَف اَزدی کے نام سے مشہور ہیں، دوسری صدی ہجری کے معروف محدث، مؤرخ اور سیرت نگار تھے۔ وہ کوفہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا شمار شیعہ محدثین و مورخین کے صفِ اوّل میں کیا جاتا ہے۔ ان کی سب سے مشہور تصنیف کتابُ مَقتَلِ الحُسینؑ ہے جو امام حسینؑ کی شہادت کے حالات پر مبنی ہے۔

شیعہ محدثین نے ابو مخنف کو شیعہ راوی قرار دیا ہے۔ شیخ الطوسی نے انہیں اصحابِ امام جعفر صادقؑ میں شمار کیا ہے۔

ابو مخنف نے اپنی کتاب میں امام حسینؑ کی شہادت سے متعلق احادیث جمع کیں۔ اگرچہ اصل کتاب آج موجود نہیں ہے، تاہم اس کے متعدد حصے بعد کے تاریخی و حدیثی مصادر میں محفوظ ہیں۔ ان کے علاوہ انہوں نے دیگر اہم تاریخی واقعات پر بھی کتابیں لکھیں، جن میں سقیفہ بنی ساعدہ، جنگِ جمل اور جنگِ صفین کے حالات شامل ہیں۔

زندگی نامہ

لُوط بن یحیی بن سعید بن مِخنَف بن سُلیم الغامدی الازدِی المعروف ابو مخنف، کوفہ کے قبیلہ ازد سے تعلق رکھتے تھے۔[1] مخنف بن سُلَیم ابو مخنف کے پردادا،[2] پیغمبر اکرمؐ کے صحابہ[3]، اور امام علیؑ کے قریبی اصحاب میں سے تھے۔[4] وہ جنگِ جمل میں قبیلہ ازد کے علمبردار تھے۔[5] حضرت علیؑ نے انہیں ہمدان اور اصفہان کا گورنر مقرر کیا تھا۔[6] ابو مخنف کے والد یحییٰ بن سعید بھی حضرت علیؑ کے اصحاب میں سے تھے۔[7] ابو مخنف کے کئی بھائی جنگِ جمل میں شہید ہوئے۔[8]

ابو مخنف نے کوفہ میں تعلیم حاصل کی اور امام جعفر صادقؑ،[9] جابر جعفی، مجالد بن سعید اور صعقب بن زبیر سے کسب فیض کیا۔[10]ان کی تاریخِ پیدائش اور تاریخ وفات کے بارے میں دقیق معلومات میسر نہیں تاہم جرمن اسلام‌ شناس یولیوس ولہاوزن (1844-1918ء) نے ان کی تاریخ پیدائش سنہ 75ھ،[11] اور مسلمان مورخ محمد فؤاد سزگین (1343-1439ھ) نے ان کی تاریخ ولادت 70ھ ذکر کی ہیں۔[12] اسی طرح ان کی تاریخ وفات کے بارے میں یاقوت حموی نے سنہ 157ھ[13] جبکہ شمس‌ الدین ذہبی نے سنہ 170ھ ذکر کی ہیں۔[14]

سزگین کے مطابق، ابو مخنف کا شمار عصر بنی امیہ کے مورخین میں ہوتا ہے،[15] لیکن نجاشی انہیں بنی عباس کے درو حکومت اور امام صادقؑ کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں۔[16] تاریخِ طبری میں ابو مخنف کی روایات کثرت سے موجود ہیں۔ انہوں نے امام صادقؑ سے مروی احادیث کو بلاواسطہ خود امام جعفر صادقؑ سے نقل کی ہیں، جبکہ امام محمد باقرؑ سے مروی احادیث کو عموماً ایک واسطے سے نقل کی ہیں۔[17]

نقل حدیث میں ان کا مقام

ابو مخنف شیعہ روائی حلقوں میں قابلِ اعتماد سمجھے جاتے ہیں، جبکہ اہل سنت کے بعض محدثین نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔

شیعہ محدثین کا موقف

نجاشی (متوفی: 450ھ) نے ابو مخنف کو شیعہ اور کوفہ کے معتبر محدثین میں شمار کیا۔[18] شیخ طوسی (متوفی: 460ھ) نے انہیں اصحابِ امام صادقؑ میں شامل کیا۔[19] شیعہ فقیہ اور متکلم علامہ حلی (648ھ–726ھ) نے انہیں "ثقہ" قرار دیا۔[20] ابنِ داوود حلی (647ھ–707ھ) کے مطابق، ابو مخنف ان راویوں میں شامل ہیں جن کی تعریف کی گئی ہے اور جنہیں تضعیف نہیں کیا گیا۔[21] علامہ مجلسی (1037ھ–1110ھ) نے انہیں اپنی کتاب الوجیزہ میں قابلِ مدح قرار دیا۔[22] شیخ عباس قمی (1294ھ–1359ھ) لکھتے ہیں کہ اگرچہ ابو مخنف شیعہ ہونے میں مشہور تھے، تاہم طبری اور ابنِ اثیر جیسے اہل سنت مؤرخین نے بھی ان پر اعتماد کیا اور ان سے روایات نقل کیں۔[23] اسی طرح شیعہ فقیہ اور علم رجال کے ماہر آیت اللہ خوئی (1278ش–1371ش) نے بھی ابو مخنف کو "ثقہ" قرار دیا۔[24]

اہلِ سنت محدثین کا موقف

شافعی مذہب کے محدث علی بن عمر دارقطنی (306ھ–385ھ) نے ابو مخنف کی احادیث کو "ضعیف" قرار دیا ہے۔[25] اسی طرح اہل سنت محدث اور علم رجال کے ماہر ابنِ عدی جرجانی (277ھ–365ھ) نے انہیں "شیعہ غالی" قرار دیا اور کہا کہ ان کی احادیث کی سند ضعیف ہے اس بنا پر انہیں نقل کرنا جائز نہیں ہے۔[26]

ابو مخنف کی تاریخ نگاری

ابو مخنف نے اسلامی فتوحات، قبائلِ عرب کے اہم ایام، خلفا اور گورنروں کے حالات پر کثیر مواد جمع کیا۔[27] اہل سنت کتب شناس اور فہرست نگار ابنِ ندیم (متوفی: 385ھ) کے مطابق ابو مخنف عراق کے حالات، قبائل اور فتوحات کے بارے میں سب سے زیادہ جانکاری رکھنے والے شخص تھے۔[28] طبری نے اپنی مشہور تصنیف تاریخ الامم والملوک میں ابو مخنف سے سینکڑوں روایات نقل کی ہیں۔[29]

کہا جاتا ہے کہ ابو مخنف نے مختلف اہم موضوعات پر تاریخی اسناد کا حوالہ دیتے ہوئے مستقل کتابیں تحریر کی ہیں، جیسے: کتابُ السقیفہ[30] کتاب الرُّدہ[31] کتاب جمل، و کتاب صفین۔[32]

ان کی ابتدائی تاریخی تحریر رسول اللہؐ کی بیماری سے متعلق احادیث ہیں۔[33] ابو مخنف نے حضرت علیؑ کی حیات طیبہ اور شہادت پر بھی تفصیل سے تحریر کی ہیں۔[34] یہاں تک کہ ابنِ ابی الحدید امام علیؑ کی شہادت کے حوالے سے مقاتل الطالبیین میں ابو مخنف کی روایات کو سب سے زیادہ مستند قرار دیتے ہیں۔[35]

تصنیفات

ابو مخنف نے کئی اہم تاریخی و مذہبی موضوعات پر قلم فرسائی کی ہیں، اور ان کی اکثر تحریریں شیعہ تاریخ اور سیرت پر مرکوز ہیں،[36] مثلاً: خطبۂ حضرت فاطمہؑ، جنگِ جمل، جنگِ صفین، امام حسنؑ کی شہادت، محمد بن ابی بکر کی شہادت، واقعۂ کربلا، قیامِ مختار ثقفی[37]

مَقتَل ابو مخنف

ابو مخنف کی سب سے معروف تصنیف مقتل الحسینؑ ہے، جو امام حسینؑ کی شہادت کے حالات پر مشتمل سب سے پرانی اور مستند کتب میں شمار ہوتی ہے۔ یہ کتاب دوسری صدی ہجری میں محدثانہ انداز میں تصنیف کی گئی۔[38] دینوری نے اپنی کتاب اخبار الطوال[39]، شیخ مفید نے اپنی مشہور کتاب الارشاد[40] میں ان سے استفادہ کیا۔ خوارزمی نے اپنی کتاب مقتل الحسین[41] اور سید ابن طاووس نے اپنی کتاب اللہوف[42] میں ان کے مطالب سے استفادہ کیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مقتل ابو مخنف ہشام بن کلبی کے توسط سے روایت ہوئی ہے، لیکن گزر زمان کے ساتھ یہ کتاب مفقود ہو چکی ہے اور اس وقت جس مقتل کی نسبت ابو مخنف کی طرف دی جاتی ہے یہ ان کی اصلی کتاب نہیں ہے۔[43] تاہم اس کتاب کے مختلف حصے دوسری کتابوں میں نقل ہوئے ہیں منجملہ ان میں: انساب الاشراف، اخبار الطوال، تاریخ یعقوبی، تاریخ طبری، مقاتل الطالبیین، الارشاد، و اعلام الوری[44] شامل ہیں۔

حوالہ جات

  1. ابن‌ندیم، الفہرست، 1393ھ، ص105۔
  2. عسقلانی، تہذیب التہذیب، 1404ھ، ج10، ص70۔
  3. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج6، ص109۔
  4. طوسی، رجال الطوسی، 1415ھ، ص81۔
  5. طبری، تاریخ الطبری، 1362ش، ج2، ص521۔
  6. ابونعیم اصفہانی، ذکر اخبار اصفہان، 1377ش، ص189۔
  7. ابن‌شہرآشوب، معالم العلماء، المطبعۃ الحیدریہ، ص93۔
  8. طبری، تاریخ الطبری تاریخ الامم والملوک، 1362ش، ج 8، ص47۔
  9. ذہبی، میزان الاعتدال، 1963م، ج3، ص42۔
  10. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 2006م، ج7، ص310۔
  11. ولہازون، تاریخ الدولہ العربیہ، 2008م، ص2۔
  12. سزگین، تاریخ التراث العربیہ، 1412ھ، ج2، ص127۔
  13. یاقوت حموی، معجم الادباء، 1400ھ، ج7، ص41۔
  14. ذہبی، تاریخ الاسلام، 1408ھ، ج3، ص420۔
  15. سزگین، تاریخ التراث العربی، 1412ھ، ج2، ص127۔
  16. نجاشی، رجال نجاشی، نشر اسلامی، ص320۔
  17. طبری، تاریخ الطبری، 1362ش، ج5، ص448-453۔
  18. نجاشی، رجال النجاشی، 1416ھ، ص320۔
  19. طوسی، رجال الطوسی، 1415ھ، ص275۔
  20. حلی، خلاصہ الاقوال، 1417ھ، ج1، ص309۔
  21. ابن‌داوود حلی، الرجال، 1383ھ، ص282۔
  22. مجلسی، الوجیزۃ فی الرجال، 1420ھ، ص145۔
  23. قمی، الکنی والالقاب، 1376ھ، ج1، ص155۔
  24. خویی، معجم رجال الحدیث، 1413، ج15، ص140۔
  25. دارالقطنی، الضعفاء والمتروکون، 1403، ص333۔
  26. ابن‌عدی، الکامل فی الضعفاء الرجال، 1409ھ، ج8، ص93۔
  27. بروکمان، تاریخ الادب العربی، 1968م، ج1، ص253۔
  28. ابن‌ندیم، فہرست، 1393ھ، ص106۔
  29. طبری، تاریخ الطبری تاریخ الامم والملوک، 1408ھ، ج4، ص342۔
  30. بلاذری، انساب الاشراف، 1959، ج1، ص585۔
  31. طبری، تاریخ الطبری، 1408ھ، ج2، ص261۔
  32. جبوری، مقتل الامام حسین بن علی، دارالحجہ، ص9۔
  33. بلاذری، انساب الاشراف، 1959م، ج1، ص568۔
  34. بلاذری، انساب الاشراف، 1959م، ج2، ص206-208؛ ابن‌اعثم، الفتوح، 1406ھ، ج2، ص286؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1368ھ، ص22-28 و 33-45۔
  35. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1385ش، ج6، ص113۔
  36. ابن‌ندیم، فہرست، 1393ھ، ص105 و 106؛ نجاشی، رجال نجاشی، نشر اسلامی، ص320۔
  37. ابن‌ندیم، الفہرست، 1393ھ، ص105؛ نجاشی، رجال نجاشی، نشر اسلامی، ص320؛ طوسی، الفہرست، منشورات شریف رضی، ص155۔
  38. صدر، تأسیس الشیعۃ الکرام لفنون الاسلام، 1438ھ، ص236۔
  39. ابن‌قتیبۃ الدینوری، اخبار الطوال، 1373ش، ص230-280۔
  40. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، 231۔
  41. خوارزمی، مقتل الحسین علیہ‌السلام، 1381ش، ج2، ص196-225۔
  42. ابن‌طاووس، اللہوف فی القتلی الطفوف، انوار الہدی، ص3398۔
  43. جبوری، مقتل الامام حسین بن علی، دار الحجہ، ص30؛ قمی، الکنی والالقاب، 1376ھ، ج1، ص155۔
  44. جعفریان، تاریخ الخلفاء، 1378ش، ص33۔

مآخذ

  • ابن‌ابی‌الحدید، عبدالحمید، شرح نہج‌البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم،‌ بیروت، دار احیاء کتب العربیہ، 1959ء۔
  • ابن‌اعثم کوفی، احمد، الفتوح، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1406ھ۔
  • ابن‌طاووس، سید رضی‌الدین، اللہوف فی قتلی الطفوف، قم، انوارالہدی، بی‌تا۔
  • ابن‌داوود حلی، حسن بن علی، الرجال، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1383ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ھ/ 1990ء۔
  • ابن‌شہرآشوب، محمدبن علی، معالم العلماء فی فہرست کتب الشیعہ، بیروت، منشورات المطبعۃ الحیدریہ، چاپ اول، بی‌تا۔
  • ابن‌عدی، عبداللہ، الکامل فی ضعفاء الرجال، تحقیق سہیل ذکار و یحیی مختاری عزاوی، بیروت، دار الفکر، 1409ھ۔
  • ابن‌قتیبہ دینوری، عبداللہ بن مسلم، الاخبار الطوال، تحقیق جمال‌الدین شیال، قم، منشورات شریف رضی، 1373ہجری شمسی۔
  • ابن‌ندیم، محمد بن اسحاھ، الفہرست، تحقیق ابراہیم رمضان، تہران، 1393ھ۔
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبین، تحقیق: سیداحمد صقر، قاہرہ، 1368ھ۔
  • ابونعیم اصفہانی، حافظ، ذکر اخبار اصفہان، ترجمہ نوراللہ کسایی، تہران، 1377ش،
  • بروکمان، کارل، تاریخ الادب العربی، تحقیق: عبدالحلیم النجار، دارالمعارف، مصر، 1968ء۔
  • بلاذری، احمد، انساب الاشراف، محقق: محمد حمیداللہ، مصر، 1959ء۔
  • جبوری، کامل سلمان، مقتل الحسین بن علی علیہ‌السلام، دارالحجہ البیضاء، بی‌تا۔
  • حلی، ابومنصور جمال الدین، خلاصہ الاقوال فی معرفہ الرجال، تحقیق: شیخ جواد قیومی، نشر فقاہت، قم، 1417ھ۔
  • خارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین علیہ‌السلام، انوارالہدی، 1381ہجری شمسی۔
  • خویی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، نشر الثقافہ الاسلامیہ، 1413ھ۔
  • دارالقطنی، مسعودبن نعمان، لضعفاء و المتروکون، تحقیق: موفق بن عبدللہ، الجامعہ الاسلامیہ، مدینہ، 1403ھ۔
  • ذہبی، شمس الدین، سیر اعلام النبلاء، قاہرہ، دارالحدیث، 2006ء۔
  • ذہبی، شمس الدین، تاریخ الاسلام، تحقیق: عبدالسلام تدمری، بیروت، دارالکتاب عربی، 1408ھ۔
  • ذہبی، شمس الدین، میزان الاعتدال، تحقیق: علی‌محمد البجاوی، بیروت، دارالمعرفہ للطباعہ والنشر، 1963ء۔
  • سزگین، فواد، تاریخ التراث العربیہ، ترجمہ: محمد فہمی حجازی، قم، 1412ھ۔
  • شیخ مفید، محمدبن محمد، الارشاد فی معرفہ حجج اللہ علی العباد، کنکرہ شیخ مفید، ھ، 1413ھ۔
  • صدر، سیدحسن، تاسیس الشیعہ الکرام لفنون الاسلام، تراث الشیعہ، قم، 1438ھ۔
  • طبری، محمدبن جریر، تاریخ الطبری الامم والملوک، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1408ھ۔
  • طوسی، محمدبن حسن،رجال طوسی، تحقیق: جواد قیومی اصفہانی، موسسہ نشر اسلامی جامعہ مدرسین، قم، 1415ھ۔
  • طوسی، محمدبن حسن، الفہرست، تحقیق: محمدصادق آل بحرالعلوم، منشورات شریف رضی، قم، بی‌تا۔
  • عسقلانی، ابن‌حجر، تہذیب التہذیب،دارالفکر، بیروت، 1404ھ۔
  • سزگین، فؤاد، تاریخ نگارش‌ہای عربی، ترجمہ مؤسسہ نشر فہرستگان، بہ کوشش خانہ کتاب، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1380.
  • قمی، شیخ عباس، الکنی و الالقاب، محقق: محمدہادی امینی، تہران، مکتبہ الصدر، 1376ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، الوجیزہ فی الرجال، تحقیق: محمدکاظم رحمان ستایش، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، تہران7 1420ھ۔
  • نجاشی، احمدبن علی، رجال نجاشی، محقق: سیدموسی شبیری زنجانی، نشر اسلامی، قم 1364ہجری شمسی۔
  • ولہاوزن، یولیوس، تاریخ الدولہ العربیہ، ترجمہ محمد عبدالہادی ابوریدہ، قاہرہ، 1985ء۔
  • یاقوت حموی، شہاب الدین، معجم الادباء، بیروت، دارالفکر، 1400ھ۔