حرام مال
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
حرام مال اس مال کو کہتے ہیں کہ جو حرام اور غیر شرعی طریقہ سے حاصل کیا جائے۔ آیات و روایات کی روشنی میں، ربا، رشوت، غصبی مال، جوا اور شراب کے ذریعہ کمایا ہوا پیسہ، کم فروشی کی آمدنی کا پیسہ، چوری اور یتیم کا پیسہ اور مال، یہ سب حرام مال کے حکم میں آتے ہیں اور حرام مال کھانا گناہان کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے۔
مال حرام کا استعمال اور جو چیزیں، مال حرام سے بنی ہوں ان کا استعمال بھی حرام ہے اور اس میں نماز پڑھنا باطل ہے۔ اسی طرح مال حرام سے حج بھی باطل ہے اور وہ مال حرام جو مال حلال میں مخلوط ہو جائے اگر، اس کی مقدار اور مالک معلوم نہ ہو تو اس کا خمس نکالنا واجب ہے۔
ملا احمد نراقی، مال حرام کے استعمال کو انسان کی کامیابی اور نجات کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح احادیث کی روشنی میں عبادات اور نیک اعمال کا قبول نہ ہونا جیسے نماز، حج اور صدقہ، دعا کا قبول نہ ہونا جنت اور ثواب سے محرومی، بے برکتی اور دل سخت اور بے رحم ہونا حرام اور نا جائز کھانے اور استعمال کے اثرات اور اسباب کی بنا پر ہے۔
معنی اور مفہوم
مال حرام اس مال کو کہتے ہیں کہ جو حرام اور غیر شرعی طریقہ سے حاصل ہوا ہو۔[1] کہا گیا ہے کہ مال حرام کھانے سے مراد یہ ہے کہ مال حرام میں کسی بھی قسم کا استعمال ہو چاہے کھانے میں استعمال ہو یا پینے میں، یا پہنے میں یا رہائش کی صورت میں ہویا اس کے علاوہ کسی اور طرح استعمال کرنا۔[2] دینی کتب میں مال حرام کو «سُحْت» اور حرام خوری کو «اکل سحت» کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے۔[3] حرام اموال کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
- وہ مال کہ جس کی ذات حرام ہے جیسے کتا اور سور۔
- وہ مال کہ جو (ذاتا حرام نہ ہو بلکہ) الگ سے کسی حالت کے سبب حرام ہو جائے جیسے وہ کھانا جس میں زہر ملا ہوا ہو۔
- وہ مال جو لینے اور دینے میں نقص اور خلل کی بنا پر، حرام ہو جائے جیسے وہ مال کہ جو ظلم، یا غصب یا خیانت کے ذریعہ سے حاصل ہو۔[4]
مال حرام کھا نے کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے۔[5]
مال حرام کے مصادیق
مال حرام کے مصادیق آیات قرآن کی روشنی میں اس طرح بیان ہوئے ہیں:
بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ مال حرام کے مصادیق اور بھی زیادہ ہیں۔[17] ان میں بعض مصادیق یہ ہیں: قضاوت اور فیصلے کرنے کے لئے رشوت لینا، شراب کے پیسے، زنا کی اجرت اور کمائی اور اسی طرح خلاف عفت و پاکدامنی سے کمایا ہوا پیسہ، کاہن (حالات کی پیشن گوئی یا پیشن گوئی کرنے والا) کی اجرت، کتے کی قیمت، مردار کی قیمت۔ [18]
مال حرام کھانے کے اثرات
اس بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام معنوی اور مثبت اثرات جو مال حلال میں پائے جاتے ہیں ان کی الٹے اور برخلاف اثرات، مال حرام اور حرام خوری میں ہیں۔ [19] جیسے ترک نماز،قساوت قلبی، روح کی بیماری، دین اور دینی واجبات میں سستی برتنا، برے اورناشائستہ کام انجام دینا و۔۔۔[20] ملا احمد نراقی مال حرام کے سلسلےمیں لکھتے ہیں: مال حرام کھانا، دنیا سے محبت اور اس سے لالچ رکھنے کا نتیجہ ہے اور سعادت و کامیابی تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔[21] مرحوم نراقی پھرفرماتے ہیں کہ اکثر لوگ، مال حرام کھانے کے سبب ہلاک ہو ئے ہیں۔[22]
احادیث میں، مال حرام کے اثرات ذکر ہوئے ہیں کہ جن میں سے بعض اس طرح ہیں:
- اعمال کا قبول نہ ہونا: روایات میں آیا ہے کہ جو شخص حرام طریقہ سے روزی کمائے، اس کا حج اور عمرہ اور صلہ رحم قبول نہیں ہوگا اور ان اعمال کے ثواب کے برابر، اس کے گناہ لکھے جاتے ہیں۔[23] بعض روایات کے مطابق، حرام مال کھانے والے شخص کی نماز بھی چالس (۴۰) دن تک قبول نہیں ہوتی ہے۔[24] پیغمبراسلام(ص) فرماتے ہیں: «بیت المقدس میں ایک فرشتہ ہے جو ہر شب ندا دیتا ہے کہ جو شخص مال حرام کھائے، تو خداوند عالم نہ اس کے واجبات کو قبول کرتا ہے اور نہ مستحبات کو۔[25]
- دعا کا قبول نہ ہونا: ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: اس انسان کی دعا، بارگاہ خدا میں قبول نہیں ہوتی کہ جس کے شکم میں حرام غذا جائے یا اس کے پاس مظلمہ ہو (یعنی وہ مال یا پیسہ جو ناحق طریقہ سے دوسرے کے پاس ہو)۔[26] اسی طرح حدیث قدسی میں خداوند عالم فرماتا ہے میری بارگاہ میں تمام دعائیں قبول ہوتی ہیں سوائے اس شخص کی دعا کے کہ جومال حرام کھاتا ہے (ایسے شخص کی دعا بارگاہ خدا میں قبول نہیں ہوتی)۔ [27] پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ میں چاہتا ہوں مستجاب الدعوہ (جس انسان کی دعا بارگاہ خدا میں قبول ہو) بنوں، تو آنحضرت (ص) نے جواب میں ارشاد فرمایا: اپنی غذا اور کھانے کو پاک و حلال رکھو تاکہ مستجاب الدعوہ بن جاؤ۔[28]
- جنت سے محرومی: احادیث کی بنیاد پر اللہ نے جنت کو حرام خوروں کے اوپر حرام ک ردیا ہے۔[29] ایک روایت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نقل ہوا ہے کہ بدن کا جو بھی حصہ، حرام خوری کے ذریعہ بنا ہو وہ آتش جہنم کے لائق ہے۔[30]
- مال حرام کا بابرکت نہ ہونا اور سخت حادثات میں اس کا خرچ ہو جانا: امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: مال حرام رشد و نمو نہیں پاتا ہے اور اگر نمو پا بھی جائے تو اس میں کوئی برکت نہیں ہوگی۔[31] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ایک روایت میں آیا ہے کہ جو شخص مال حرام کمائے گا وہ اس سے سخت حادثات میں ہاتھ دھوئے گا۔[32]
- قساوت قلب: مال حرام کھانے کے آثار میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے دل میں سختی اور قساوت پیدا ہوتی ہے۔[33] چنانچہ امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورا، حق کے سامنے لشکر عمر بن سعد کے تسلیم نہ ہونے کا سبب یہی بیان کیا ہے کہ ان کے پیٹ مال حرام سے بھرے ہوئے ۔[34]
روایات کی بنیاد پر مال حرام کھانے کے اثرات انسان کی اولاد میں بھی منتقل ہوتے ہیں۔[35]
فقہی احکام
مال حرام کے کجھ احکامات بھی بیان کئے گئے ہیں جو اس طرح سے ہیں:
- اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ اس کا گھر اور اس کے کپڑے مال حرام سے بنے ہوئے ہیں تو ان کو استعمال نہیں کرنا چاہئے اور ان میں جان بوجھ کر نماز پڑھنا حرام اور باطل ہے۔[36]
- جو حمام کے خرچ کو بیت المال سے ادا کرے اس کا غسل باطل ہے۔[37]
- فقہاء کی نگاہ میں مال حرام سے حج کرنا جائز نہیں ہے۔[38] اسی وجہ سے مرجع تقلید آیت اللہ مکارم شیرازی فرماتے ہیں کہ اگر احرام، طواف اور سعی کا لباس اور قربانی کی رقم یا وقوف عرفات و منا کا خیمہ یا فرش حرام سے ہو تو بنا بر احتیاط واجب اس کا حج باطل ہے۔[39]
- اگر کوئی مال حرام کسی مال حلال میں مخلوط ہو جائے اور ان کو جدا کیا جا سکتا ہو تو اس کو جدا کرنا چاہئے، ورنہ اس کا خمس ادا کرنا ہوگا۔[40] البتہ یہ اس صورت میں ہے جب صاحب مال کی پہچان نہ ہو پائے۔[41]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ دستغیب، گناہان کبیرہ، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۳۸۵؛ مسعودی، «آثار شوم مال و لقمہ حرام»، وبگاہ سازمان تبلیغات اسلامی۔
- ↑ دستغیب، گناہان کبیرہ، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۳۸۴۔
- ↑ دستغیب، گناہان کبیرہ، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۳۸۵۔
- ↑ نراقی، معراج السعادۃ، ۱۳۷۸ش، ص۴۴۲و۴۴۳۔
- ↑ فیاض، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۲۶ھ، ص۲۸؛ دستغیب، گناہان کبیرہ، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۳۸۴۔
- ↑ دیکھئے: سورہ بقرہ، آیات ۲۷۹-۔۲۷۵
- ↑ دیکھئے: سورہ بقرہ، آیات ۱۸۸ ؛ سورہ مائدہ، آیات ۴۲اور۶۲۔
- ↑ دیکھئے: سورہ نساء، آیات ۱۰ اور ۲۹؛ سورہ کہف، آیہ ۷۹۔
- ↑ دیکھئے : سورہ بقرہ، آیت ۲۱۹؛ سورہ مائدہ، آیات ۹۰ و ۹۱۔
- ↑ دیکھئے: سورہ بقرہ، آیہ ۱۸۸؛ سورہ مائدہ، آیہ ۲۹؛ سورہ نساء، آیات ۲۹، ۳۴ و ۱۶۱۔
- ↑ دیکھئے: سورہ مائدہ، آیہ ۳۸؛ سورہ ممتحنہ، آیہ ۱۲۔
- ↑ دیکھئے: سورہ بقرہ، آیہ ۱۸۸۔
- ↑ دیکھئے: سورہ اعراف، آیہ ۸۵؛ سورہ ہود، آیہ ۸۵؛ سورہ مطففین، آیات ۱-۳۔
- ↑ دیکھئے: سورہ نساء، آیہ ۲۴؛ سورہ نور، آیہ ۳۳۔
- ↑ دیکھئے: سورہ نساء، آیہ ۱۰؛ سورہ اسراء، آیہ ۳۴۔
- ↑ ہاشمی رفسنجانی و دیگران، فرہنگ قرآن، ۱۳۸۹ش، ج۲۵، ص۳۵۰-۳۵۲۔
- ↑ رجوع کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۵، ص۱۲۶، ح۱ و ۳؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۱، ص۳۳۰۔
- ↑ نمونہ کے طور پر دیکھیں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۵، ص۱۲۶و۱۲۷؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۱، ص۳۲۹و۳۳۰۔
- ↑ رجوع کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۵، ص۱۲۶، ح۱ و ۳؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۱، ص۳۳۰۔
- ↑ «آثار خطرناک مال حرام»، پایگاہ اطلاعرسانی دفتر استاد حسین انصاریان۔
- ↑ نراقی، معراج السعادۃ، ۱۳۷۸ش، ص۴۴۰۔
- ↑ نراقی، معراج السعادۃ، ۱۳۷۸ش، ص۴۴۰۔
- ↑ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۴۰۶ھ، ص۲۸۳؛ طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ھ، ص۶۸۰۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۳، ص۳۱۴۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۱۰۰، ص۱۶۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۰، ص۳۲۱۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۰، ص۳۷۳۔
- ↑ محمدی ریشہری، نہج الدعاء، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۴۴۳۔
- ↑ ورام بن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۶۱۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۳، ص۳۱۴۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷، ج۵، ص۱۲۵۔
- ↑ پایندہ، نہج الفصاحۃ، ۱۳۸۲ش، ص۷۴۴۔
- ↑ دستغیب، گناہان کبیرہ، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۳۹۰۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۴۵، ص۸۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷، ج۵، ص۱۲۵۔
- ↑ خمینی، استفتائات، ۱۴۲۲ھ، ج۱، ص۱۴۵ و ۴۱۴۔
- ↑ خمینی، توضیح المسائل(محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۲۲۴۔
- ↑ محمودی، مناسک حج(محشی)، ۱۴۲۹ھ، ص۳۶۔
- ↑ مکارم شیرازی، مناسک جامع حج، ۱۴۲۶ھ، ص۳۶۔
- ↑ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ھ، ج۱، ص۲۳۶؛ خمینی، توضیح المسائل(محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج۲، ص۴۷ و ۷۶۔
- ↑ خمینی، توضیح المسائل(محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج۲، ص۴۷ و ۷۶۔
مآخذ
- «آثار خطرناک مال حرام»، پایگاہ اطلاعرسانی دفتر استاد حسین انصاریان، تاریخ درج مطلب: ۱۴ آذر ۱۳۹۸ش، تاریخ رجوع: ۲۵ فروردین ۱۳۹۹ہجری شمسی۔
- پایندہ، ابوالقاسم، نہج الفصاحۃ(مجموعہ کلمات قصار حضرت رسول(ص))، تہران، دنیای دانش، چاپ چہارم، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
- خمینی، سید روح اللہ، استفتائات، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۲۲ھ۔
- خمینی، سید روح اللہ، توضیح المسائل(محشی)، تحقیق و تصحیح سید محمد حسن بنیہاشمی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، ۱۴۲۴ھ۔
- دستغیب، عبدالحسین، گناہان کبیرہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
- صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، الخصال، تحقیق علی اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، ۱۳۶۲ہجری شمسی۔
- صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، دار الشریف الرضی، چاپ دوم، ۱۴۰۶ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافہ، چاپ اول، ۱۴۱۴ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تحقیق و تصحیح سید محمد تقی کشفی، تہران، مکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، چاپ سوم، ۱۳۸۷ھ۔
- فیاض کابلی، محمد اسحاق، رسالہ توضیح المسائل، قم، مجلسی، چاپ اول، ۱۴۲۶ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، داراحیاءالتراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
- محمدی ری شہری، محمد، نہج الدعا، [بینا]، ۱۳۸۵ہجری شمسی۔
- محمودی، محمد رضا، مناسک حج(محشی)، تہران، نشر مشعر، ۱۴۲۹ھ۔
- مسعودی، سیدعباس، «آثار شوم مال و لقمہ حرام»، وبگاہ سازمان تبلیغات اسلامی، تاریخ درج مطلب: ۸ آبان ۱۳۹۱ش، تاریخ رجوع: ۲۵ فروردین ۱۳۹۹ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، مناسک جامع حج، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ اول، ۱۴۲۶ھ۔
- نراقی، ملا احمد، معراج السعادۃ، قم، مؤسسہ ہجرت، ۱۳۷۸ہجری شمسی۔
- ورام بن ابی فراس، مسعود بن عیسی، تنبیہ الخواطر و نزہۃ النواظر (مجموعہ ورام)، قم، مکتبہ فقیہ، چاپ اول، ۱۴۱۰ھ۔
- ہاشمی رفسنجانی، اکبر و محققان مرکز فرہنگ و معارف قرآن: کلید راہیابی بہ موضوعات و مفاہیم قرآن کریم، فرہنگ قرآن، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۹ہجری شمسی۔