قابیل
قابیل حضرت آدمؑ اور حوا کے بیٹے اور ہابیل کے بڑے بھائی ہیں۔ تاریخی منابع کے مطابق قابیل زمین پر سب سے پہلے قتل کا مرتکب ہوا۔ وہ اپنے بھائی ہابیل کے حضرت آدم کی جانشینی پر معترض تھے۔ اس اعتراض کے بعد یہ دونوں بھائی خدا کی درگاہ میں قربانی پیش کرنے پر مأمور ہوئے تاکہ خدا جس کی قربانی کو قبول کرے وہ حضرت آدم کا جانشین بنے۔ جب خدا کی درگاہ میں ہابیل کی قربانی قبول اور قابیل کی قربانی رد ہوئی تو اس نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا۔
کہا جاتا ہے کہ اپنے بھائی کے قتل کے بعد قابیل فرار ہو کر آتش پرستی اختیار کی۔ تاریخی، تفسیری اور حدیثی منابع میں قابیل کی اولاد اور خاندان کو بھی منفی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ حضرت شیث جو قابیل کے دوسرے بھائی ہیں، کی طرف سے اپنی اولاد کو قابیل کے خاندان سے وصلت نہ کرنے کی وصیت کرنا بھی انہی موارد میں سے ہے۔ قابیل کی نسل مختلف گناہوں جیسے زنا، شراب خواری اور قمار بازی وغیرہ کے مرتکب ہونے کی بنا پر طوفان نوح میں غرق ہوئی یوں آدم کی نسل حضرت شیث کے ذریعے آگے چلی۔
قرآن کریم سورہ مائدہ میں قابیل اور ہابیل کی قربانی نیز قابیل کی طرف سے ہابیل کو قتل کرنے کا تذکرہ موجود ہے۔ توریت میں قابیل کا نام "قایین" ذکر ہوا ہے۔
زندگی نامہ
قابیل آدم و حوا[1] کے بڑے بیٹے اور ہابیل و حضرت شیث کے بھائی تھے۔[2] وہ حضرت آدم و حوا کی دوسری اولاد کی طرح اپنی ایک بہن کے ساتھ جڑواں پیدا ہوا۔[3] ان کی جڑواں بہن کا نام "اقلیما" تھا۔[4] پیشے کے لحاظ سے وہ زراعت کیا کرتے تھے۔[5] تفسیری اور تاریخی منابع میں انہیں اپنے بھائی ہابیل کے ساتھ حسد اور انہیں قتل کرنے کی وجہ سے منفی کردار کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔[6] یوں وہ زمین پر پہلی قتل کے مرتکب ہوئے۔[7] تاریخی منابع میں قابیل کے لئے دیگر اسامی بھی استعمال ہوئے ہیں۔ توریت میں ان کا نام "قایین" ذکر ہوا ہے۔[8] بعض منابع میں انہیں قِین و قاین کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔[9]
قربانی پیش کرنے کا واقعہ
تاریخی منابع کے مطابق جب ہابیل حضرت آدمؑ کے جانشین منتخب ہوئے،[10] تو قابیل نے بڑے بیٹے کے عنوان سے اس انتخاب پر اعتراض کیا۔[11] اس کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ انتخاب خدا کی جانب سے نہیں بلکہ آدم نے ہابیل کے ساتھ اپنی محبت کے بل بوتے پر انہیں اپنا جانشین اور وصی مقرر کیا ہے۔[12]
حضرت آدمؑ نے اس اعتراض کے جواب میں ہابیل اور قابیل سے خدا کی درگاہ میں قربانی پیش کرنے کا کہا۔ اور یہ شرط رکھی کہ جس کی قربانی مورد قبول واقع ہو وہ میرا جانیشن اور وصی ہو گا۔ ہابیل مال میوشی رکھتا تھا اور اس نے اپنی مویشیوں میں سے سب سے اچھی مویشی کو قربانی کیلئے پیش کیا، جبکہ قابیل کسان تھا اور اس نے اپنے محصولات میں سے سب سے گھٹیا محصول کو قربانی کیلئے پیش کیا۔[13] دونوں بھائیوں نے اپنی اپنی قربانی کسی پہاڑ کے اوپر لے جا کر رکھ دیئے۔ جس کی قربانی کو آگ لگ جاتی وہ خدا کے ہاں قبول ہونے کی علامت تھی۔ آخر کار ہابیل کی قربانی کو آگ لگ گئی یوں اس کی قربانی مورد قبول واقع ہوئی اور قابیل کی قربانی کو کچھ نہیں ہوا یعنی وہ مورد قبول واقع نہیں ہوئی۔[14]
ہابیل سے حسد اور اس کا قتل
ہابیل کی قربانی قبول ہونے کے بعد قابیل نے ان سے حسد کرتے ہوئے انہیں قتل کرنے کی قسم کھائی۔ اس کے مقابلے میں ہابیل نے کہا قربانی قبول ہونے اور نہ ہونے کا تعلق تقوا سے ہے جو متقی ہو گا خدا اس کی قربانی قبول کرتا ہے۔ ساتھ ساتھ اس نے قابیل کی طرف سے دی جانے والی قتل کی دھمکی کے جواب میں کہا کہ وہ خدا سے خوف رکھنے کی وجہ سے ایسا کسی جرم کا مرتکب نہیں ہو سکتا ہے۔[15]
تاریخی منابع کے مطابق ہابیل اپنے مویشیوں کو چرانے کیلئے باہر کسی پہاڑ کے دامن میں لے گئے اور وہاں آرام کر رہے تھے اسی اثنا میں قابیل نے انہیں قتل کر ڈالا۔[16] ہابیل کو قتل کرنے کے بعد قابیل کے ذہن میں اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی کوئی تدبیر نہیں آئی۔ یہاں تک کہ بعض درندے ہابیل کی لاش پر حملہ کرنا چاہتے تھے اتنے میں خدا کے حکم سے دو کوے آئے اور آپس میں لڑنے لگے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کو مار ڈالا اور اپنی چونچ کے ذریعے مرے ہوئے کوے کی جسد کو زمین میں دفن کر دیا۔ قابیل نے اس واقعے سے اپنی ناتوانی کا اندازہ لگایا اور وہ پشیمان ہوئے۔[17] سورہ مائدہ کی آیت نمبر 29 سے 31 تک میں اس قتل اور دفن کی داستان بیان ہوئی ہے۔[18]
قابیل کے قتل کے بعد قابیل حضرت آدم کی طرف سے مورد لعن قرار پایا۔[19] اس نے اپنی بہن کے ساتھ یمن کے جنوبی علاقے عدن کی طرف فرار اختیار کیا۔[20]
آگ کی پرستش
تاریخی منابع میں اپنے بھائی کے قتل کے بعد قابیل کے آتش پرست ہونے کے بارے میں ذکر ملتا ہے۔ اس حوالے سے تاریخ میں آیا ہے کہ جب اس نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا تو شیطان نے اس میں وسوسہ ایجاد کرنا شروع کیا۔ شیطان نے قابیل سے کها: ہابیل کی قربانی کو آگ لگنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ آگ کی پرستش کرتا تھا۔ تم بھی اگر اپنی قربانی کو قبول ہونا چاہتے ہو تو آگ کی عبادت کیا کرو۔ اس واقعے کے بعد قابیل نے آتش پرستی کیلئے ایک مخصوص گھر بنایا یوں اس نے آتش پرستی شروع کیا۔[21] امام باقرؑ اور امام صادقؑ سے قابیل کی جانب سے آتش پرستی کیلئے ایک مخصوص گھر بنائے جانے کے بارے میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے۔[22]
حضرت شیث کو قتل کی دھمکی
حضرت شیث کے حضرت حضرت آدم کا جانشنی منتخب ہونے کے بعد قابیل نے انہیں بھی ہابیل کی طرح قتل کی دھمکی دی۔[23] حضرت حضرت آدم نے قابیل کی شر سے محفوظ رہنے کیلئے حضرت شیث کو کچھ علوم کی تعلیم دی جسے اس نے قابیل سے مخفی رکھا[24] اور کچھ مدت تک اس نے تقیہ اختیار کیا۔[25]
اولاد
تاریخی منابع میں قابیل کی اولاد کو بھی منفی کردار کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔ بعض تاریخی شواہد کی بنا پر قابیل کی اولاد اور اس کا خاندان مختلف گناہوں جیسے شراب خوری، قمار بازی، زنا اور بت پرستی وغیره میں مرتکب ہوئے ہیں۔[26] یہ بات حضرت شیث کی گفتگو سے بھی واضح ہو جاتی ہے آپ نے اپنی اولاد کو قابیل کے خاندان سے وصلت کرنے کی ممانعت کی تھی۔[27]
طوفان نوح کے بعد قابیل کی نسل کا منقرض ہونا
مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ قابیل کی نسل مختلف گناہوں کے مرتکب ہونے کی وجہ سے طوفان نوح میں غرق ہوئے یوں اس کی نسل منقرض ہو گئی۔[28] یوں انسانی نسل حضرت شیث کے خاندان سے آگے چلی ہے۔[29]
حوالہ جات
- ↑ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۹۰۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج1ٌ، ص۸۵ و ۹۱۔
- ↑ ابنکثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۹۶۔
- ↑ بنکثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۹۶۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۸۵ و ۹۱۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ۹۱ و ص۱۰۳۔
- ↑ طبری، ترجمہ تفسیر طبری، ۱۳۵۶ش، ج۶، ص۱۶۵۲۔
- ↑ تورات، سفر تکوین، بخش ۴، آیہ۳۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۸۵۔
- ↑ عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۳۱۲۔
- ↑ صادقی فدکی، ارتداد بازگشت بہ تاریکی، ۱۳۸۸ش، ص۲۷۰۔
- ↑ صادقی فدکی، ارتداد بازگشت بہ تاریکی، ۱۳۸۸ش، ص۲۷۰۔
- ↑ طبری، ترجمہ تفسیر طبری، ۱۳۵۶ش، ج۶، ص۱۴۷۹۔
- ↑ کاتب واقدی، الطبقات الکبری، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۱۹۔
- ↑ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۳۸۔
- ↑ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۳۸۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۸۶۔
- ↑ سورہ مائدہ، آیہ ۲۹-۳۱۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۱۶۶۔
- ↑ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۴۳۔
- ↑ طبری، ترجمہ تفسیر طبری، ۱۳۵۶ش، ج۱، ص۱۴۷۹۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۱، ص۲۲۸۔
- ↑ عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۱۰۴۔
- ↑ ملکی میانجی، مناہج البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۱۷۴۔
- ↑ طبری، ترجمہ تفسیر طبری، ۱۳۵۶ش، ج۲، ص۳۹۹۔
- ↑ ثعلبی، تفسیر الثعلبی، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۵۳؛ طبرسی، مجمع البیان ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۸۷۔
- ↑ عسکری، عقاید اسلام در قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۱، ص۲۳۰۔
- ↑ شرفالدین، الموسوعۃ القرآنیۃ، خصائص السور، ۱۴۲۰ق، ج۲، ص۱۴۰؛ثعلبی، تفسیر الثعلبی، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۵۳؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۸۷۔
- ↑ ثعلبی، تفسیر الثعلبی، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۵۳؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۸۷۔
مآخذ
- ابنکثیر، ابو الفداء اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق۔
- ثعلبی، احمد بن محمد، الکشف و البیان المعروف تفسیر الثعلبی، محقق: ابیمحمدابن عاشور، مراجعہ و تدقیق: نظیر ساعدی، بیروت، دار إحیاءالتراث العربی، چاپ اول، ۱۴۲۲ق۔
- شرفالدین، جعفر، الموسوعۃ القرآنیۃ، خصائص السور، مراجعہ: احمد حاطوم/محمد توفیق، ابوعلی، بیروت، دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیۃ، چاپ اول، ۱۴۲۰ق۔
- صادقی فدکی، جعفر، ارتداد، بازگشت بہ تاریکی؛ نگرشی بہ موضوع ارتداد از نگاہ قرآن کریم، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، (مرکز فرہنگ و معارف قرآن/بوستان کتاب)، چاپ اول، ۱۳۸۸ش۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مصحح: فضل اللہ یزدی طباطبایی، /ہاشم رسولی، تہران، ناصرخسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
- طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ق۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران، اساطیر، چاپ پنجم، ۱۳۷۵ش۔
- طبری، محمد بن جریر، ترجمہ تفسیر طبری، مصحح: حبیب یغمایی، تہران، توس، چاپ دوم، ۱۳۵۶ش۔
- عسکری، مرتضی، عقاید اسلام در قرآن، مترجم: محمدجواد کرمی، تہران، مرکز فرہنگی انتشاراتی منیر، چاپ اول، ۱۳۸۶ش۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر(تفسیر العیاشی) محقق: ہاشم رسولی، تہران، مکتبۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۸۰ق۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق موسوی جزایری، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، ۱۳۶۳ش۔
- کاتب واقدی، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، انتشارات فرہنگ و اندیشہ، ۱۳۷۴ش۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دارإحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔
- ملکی میانجی، مناہج البیان فی تفسیر القرآن، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۴ق۔