عدی بن حاتم طائی

ویکی شیعہ سے
(عدی بن حاتم طایی سے رجوع مکرر)
عَدیّ بن حاتِم طائی
کوائف
مکمل نامعَدِی بن حاتِم بن عبداللہ الطائی
کنیتابوطریف
نسب/قبیلہقبیلہ طیّ
اقاربحاتم طایی
وفات67ھ
دینی معلومات
اسلام لانا9 یا 10ھ
جنگوں میں شرکتجنگ جمل،‌ جنگ صفین،‌ جنگ نہروان اور ردہ کی جنگیں
وجہ شہرتپیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ کے صحابی، رئیس قبیلہ طیء


عَدِیّ بن حاتِم طائی (متوفی 67ھ.) رسول اللہؐ اور امام علیؑ کے اصحاب میں سے تھے۔ آپ نے جنگ جَمل، صفین اور نَہروان میں امام علیؑ کے رکاب میں شرکت کی۔ عدی نے امام حسنؑ کی خلافت کے دور میں لوگوں کو امام کی لشکر میں شامل ہونے اور معاویہ بن ابی سفیان کے خلاف لڑنے کی تشویق کرتے تھے۔ معاویہ کے سامنے عدی امام علیؑ کی محبت کی تاکید اور دفاع کرتے تھے۔

عدی، حاتِم طائی اور طَیِّء قبیلے کے بزرگ تھے۔ آپ نے قیام مختار میں شرکت نہیں کی لیکن ان کی مخالفت بھی نہیں کیا۔ البتہ ان کے قبیلہ کے جو لوگ مختار کے مخالف تھے ان کے لئے مختار کے ہاں سفارش کرتے تھے۔

مقام و منزلت

عدی پیغمبر اکرمؐ کے صحابی تھے۔ جاہلیت کے دور میں ان کے باپ حاتم طایی کی سخاوت کے بڑے چرچے تھے۔[1] عدی کو حاضر جواب، خطیب اور قوم کا بزرگ سمجھا گیا ہے۔[2]

عدی، مختار کی حکومت کے دوران 67ھ کو کوفہ میں وفات پاگئے۔[3]ان تاریخ وفات سنہ68ھ اور سنہ 69ھ بھی لکھا گیا ہے۔[4]وفات کے وقت ان کی عمر 82 یا 120 سال بتائی گئی ہے۔[5]

عدی بن حاتم سے منقول ہے، وہ کہتا ہے کہ جب بھی رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا تو آنحضرتؐ مجھے جگہ دیتے تھے۔[6] رسول اللہؐ نے ان کو طیّء اور بنی‌اسد قبیلے سے زکات جمع کرنے مأمور کیا۔[7]

اسلام لانا

اسلام لانے سے پہلے عدی بن حاتم، نصرانی اور طے قبیلہ کے سردار تھے۔[8]ربیع‌الثانی کو رسول خداؐ نے امام علیؑ کو ایک لشکر کے ساتھ طئّ کی طرف بھیجا[9] جب عدی کو اس کی خبر ہوئی تو اپنے گھر والے اور اپنی جمع پونجی کو شام بھیج دیا لیکن اس کی بہن اسلامی لشکر کے ہاتھوں گرفتار ہو کر مدینہ منتقل ہوئی۔ اس کی بہن نے رسول اللہؐ سے ان پر احسان کرتے ہوئے آزاد کرنے کی درخواست کی اور پیغمبر اکرمؐ نے ان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے اسے ایک قافلہ کے ساتھ شام بھیج دیا۔[10] جب وہ عدی کے کے پاس پہنچی تو اس نے پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں استفسار کیا تو جواب میں کہا جتنی جلد ہوسکے پیغمبر کے پاس چلے جاو کیونکہ وہ اگر سچے نبی ہیں تو جو بھی ان پر جلدی ایمان لے آئے گا وہ اس کے لئے برتری شمار ہوگی اور اگر وہ بادشاہ ہیں تو تمہاری عزت میں کمی نہیں آئے گی۔ عدی بہن کی بات مانتے ہوئے مدینہ چلا گیا اور پیغمبر اکرمؐ کی گفتگو سے پتہ چلا کہ وہ سچے نبی ہیں اسی لئے مسلمان ہوا۔[11]

عدی 9 یا 10ھ میں مسلمان ہوئے۔[12]

خلفا کے دور کی جنگوں میں شرکت

پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد ارتداد کا جو سلسلہ پیش آیا اس میں عدی اسلام پر باقی رہے اور اپنی قوم کو بھی مرتد ہونے سے روک دیا۔[13]عدی نے طی قبیلہ کی زکات ابوبکر کے پاس لے آیا۔[14] اور پہلے خلیفے کے دور میں واقع ہونے والی ردہ کی جنگوں میں شرکت کی[15]اور نبوت کے جھوٹے دعویدار طلیحہ کے ساتھ ہونے والی جنگ[16] میں میمنہ کی لشکر کے سپہ سالار تھے۔[17] دوسرے خلیفہ کے دور میں عراق اور ایران میں ہونے والی اسلامی فتوحات میں بھی شرکت کی۔[18]عثمان کی خلافت کے دوران عدی عثمان کے مخالفوں کے ساتھ تھے اور ابن‌اعثم نے اسے عثمان کے قاتلوں میں شمار کیا ہے۔[19]

امام علیؑ اور امام حسنؑ کے ساتھ

امام علیؑ کی خلافت کے دوران عدی امام کے ساتھ تھے۔[20]

  • جنگ جمل

ابن‌قتیبہ (متوفی 276ھ) کے مطابق عدی بن حاتم نے جنگ جمل میں اپنے قبیلہ سے 13000 سوار جنگجو کو امام علیؑ کی مدد کے لئے لے آیا۔[21] جنگ کے دوران جس اونٹ پر عایشہ سوار تھی اس کے پاؤں کاٹنے کے لئے امام علیؑ نے عدی اور بعض دیگر افراد کو مامور کیا۔[22] جنگ جمل[23] میں یا ایک قول کے مطابق جنگ صفین)[24] میں عدی کی آنکھ زخمی ہوئی ان کا بیٹا طریف اس جنگ میں مارا گیا۔[25]

  • جنگ صفین

جنگ صفین میں امام علیؑ نے لشکر کا پرچم عدی بن حاتم کے حوالے کیا۔[26] اس طرح اس جنگ میں امام علیؑ نے عدی اور بعض دیگر افراد کو معاویہ کے پاس بھیجا تاکہ اسے اللہ اور اس کی کتاب کی طرف دعوت کریں۔[27] اس جنگ میں عدی کا بیٹا زید امام علیؑ کے لشکر میں شامل تھا لیکن جب معاویہ کے لشکر میں اس کا ماموں حابس بن سعد طائی کا جنازہ دیکھا تو زید امام کے لشکر سے نکل کر معاویہ کے لشکر میں شامل ہوگیا۔[28]

  • جنگ نہروان

عدی جنگ نہروان میں بھی امام علیؑ کے لشکر میں شامل تھا۔[29] ان کا بیٹا طرفہ بھی اسی جنگ میں مارا گیا۔[30]

امام علیؑ کی شہادت کے بعد

امام حسن مجتبیؑ کی خلافت کے دوران بھی عدی نے لوگوں کو امام کے لشکر میں شامل ہونے اور آپؑ کے رکاب میں معاویہ کے خلاف جہاد کرنے کی تشویق کرتے رہے[31] اور ابوالفرج اصفہانی کے نقل کے مطابق جب عدی نے دیکھا کہ لوگ امام حسنؑ کے لشکر میں شامل ہونے میں سستی کر رہے ہیں تو عدی نے ان سے مخاطب ہوکر کہا: سبحان اللہ! کس قدر برا برتاو کرتے ہو! اپنے امام اور سبط پیغمبر کی بات کو کیوں نہیں مانتے ہو؟!۔۔ کیا اللہ کے غضب سے نہیں ڈرتے ہو؟![32]

معاویہ کے مقابلے میں امام علیؑ کا دفاع

شیعہ مورخ علی بن حسین مسعودی کے مطابق معاویہ نے عدی سے پوچھا: تمہارے بیٹے کہاں گئے؟ جواب میں کہا علیؑ کے لشکر میں مارے گئے۔ معاویہ نے کہا: علی نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا، اپنے بیٹوں کو محفوظ رکھا اور تمہارے بیٹوں کو تلوار کی نذر کیا۔ عدی نے کہا: «نہیں، خدا کی قسم میں نے علیؑ سے انصاف نہیں کیا، علی شہید ہوئے اور میں ابھی تک زندہ ہوں!»[33]

اسی طرح عدی نے معاویہ کو امام علیؑ پر سب کرنے اور بدگوئی کرنے سے منع کیا اور کہا: « اے معاویہ! خدا کی قسم جو دل تمہارے بغض سے پر تھے وہ ابھی میں ہمارے سینوں میں ڈھڑکتے ہیں اور جو تلواریں علی کے رکاب میں تمہارے خلاف چلتی رہی ہیں وہ اب بھی ہمارے دوش پر ہیں۔ اگر تم فریب اور سازش سے دو انگلیوں کے درمیانی فاصلے کے برابر بھی ہمارے قریب آجاو گے تو ہم ایک بالشت تمہارے نزدیک آئیں گے۔ ہمیں علیؑ کے خلاف بدگوئی سننے سے زیادہ گلا کٹنا اور سینے میں سانس رکنا آسان ہے۔»[34]

تیسری صدی ہجری کے ادیب ابراہیم بن محمد بیہقی اپنی کتاب المحاسن و المساوی میں عدی اور معاویہ کے مابین ہونے والا ایک اور مکالمہ بھی نقل کرتے ہیں جس میں معاویہ عدی سے علیؑ کے اوصاف بیان کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ جس پر عدی نے کہا: « خدا کی قسم وہ دور اندیش اور شجاع تھے، صریح اور صاف بولتے تھے، عدال کے ساتھ حکومت کرتے تھے۔۔۔» معاویہ ان کی باتیں سن کر رونے لگا اور کہا: ان کی جدائی میں تمہارا صبر کیسا ہے؟ عدی نے جواب دیا: «اس ماں کے صبر کی طرح ہے جس کی گود میں بیٹے کا سر کاٹا گیا ہو؛ نہ آنسو خشک ہوجائیں اور نہ ہی رونا بند ہوجائے۔»[35] شیخ عباس قمی (متوفی 1359ھ) نے بھی اس بات کو سفینۃ البحار میں ذکر کیا ہے۔[36]

بعض دوسرے مآخذ میں اس گفتگو کو ضرار بن ضمرہ کی طرف منسوب کیا ہے۔[37]

مختار کے ہاں سفارش

معاصر تاریخی محقق محمدہادی یوسفی غروی (زادہ 1327ش) کا کہنا ہے کہ عدی بن حاتم، قیام مختار میں ان کے ساتھ نہیں رہے اور مخالفوں کے ساتھ بھی نہیں تھے۔[38] جنگ جبانۃ السبیع کہ میان مختار ثقفی اور ان کے مخالفوں کے مابین چھیڑنے والی جنگ جبانۃ السبیع میں طے قبیلہ کے بعض مختار کے مخالف لوگ گرفتار ہوئے[39] تو عدی بن حاتم نے مختار کے ہاں جاکر ان کی سفارش کی اور مختار نے انہیں آزاد کیا۔[40]اسی طرح لشکر عمر بن سعد میں موجود طے قبیلہ کا حکیم بن طفیل طائی نے عدی بن حاتم سے مختار کے ہاں سفارش کرنے کی درخواست کی اور جب وہ مختار کے ہاں گیا تو مختار نے ان سے کہا: تم امام حسینؑ کے قاتلوں میں سے کسی کی سفارش کیسے کرسکتے ہو؟ عدی نے کہا اس کے بارے میں جھوٹ بولا گیا ہے۔ مختار نے کہا اگر ایسا ہے تو میں اس کو تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ لیکن مختار کے ساتھیوں نے عدی کی سفارش کے خوف سے پہلے ہی اسے مار دیا تھا۔[41]

نقل حدیث

شیخ طوسی نے انہیں پیغمبر اکرمؐ [42] اور امام علیؑ کے اصحاب[43] میں شمار کیا ہے۔ انہوں نے امام علیؑ سے بعض احادیث نقل کی ہیں۔[44] صحیح بخاری میں بھی ان سے بعض احادیث نقل ہوئی ہیں۔[45]

حوالہ جات

  1. دیار بكری، تاریخ الخمیس، دارصادر، ج1، ص255.
  2. ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1057.
  3. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج6، ص99.
  4. ملاحظہ کریں: ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1059.
  5. ملاحظہ کریں: ابن حجر عسقلانی، الإصابۃ، 1415ھ، ج4، ص388.
  6. ابن عبد البر، الاستیعاب، 1212ھ، ج3، ص1058.
  7. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ، ج2، ص600.
  8. یعقوبی، تاریخ‏ الیعقوبى، دار صادر، ج2، ص79.
  9. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص111.
  10. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفہ، ج2، ص578-580.
  11. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ، ج2، ص578-580.
  12. ابن‌حجر عسقلانی، الاصابۃ، 1415ھ، ج4، ص388.
  13. ابن‌حجر عسقلانی، الإصابۃ، 1415ھ، ج4، ص388.
  14. ابن‌عبد البر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1058.
  15. واقدی، الردۃ، 1410ھ، ص66.
  16. ابن‌حجر عسقلانی، الإصابۃ، ج3، ص440.
  17. واقدی، الردۃ، 1410ھ، ص89؛ ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج1، ص14.
  18. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص486؛ ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج6، ص344.
  19. ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج3، ص62.
  20. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج6، ص99.
  21. ابن‌قتیبۃ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص77.
  22. بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص249.
  23. بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص261.
  24. ابن‌كثیر، البدایۃ والنہایۃ، 1407ھ، ج7، ص275.
  25. بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص261.
  26. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص9.
  27. بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص302.
  28. منقری، وقعۃ صفین، 1404ھ، ص522.
  29. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج11، ص543.
  30. بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص375.
  31. بلاذری، انساب الاشراف، 1397ھ، ج3، ص32.
  32. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل‏ الطالبیین، دارالمعرفہ، ص70.
  33. مسعودی، مروج‌الذہب، 1409ھ، ج3، ص4.
  34. مسعودی، مروج‌الذہب، 1409ھ، ج‏3، ص4-5.
  35. بیہقی، المحاسن والمساوی، 1420ھ، ص41.
  36. قمی، سفینۃ البحار، فراہانی، ج6، ص184.
  37. مسعودی، مروج‌الذہب، 1409ھ، ج2، ص421؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1107.
  38. یوسفی غروی، موسوعۃ التاریخ الإسلامی، 1417ھ، ج6، ص406.
  39. یوسفی غروی، موسوعۃ التاریخ الإسلامی، 1417ھ، ج6، ص406.
  40. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج4، ص242؛
  41. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج4، ص242.
  42. طوسی، رجال الطوسی، 1373ش، ص43.
  43. طوسی، رجال الطوسی، 1373ش، ص73.
  44. خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ھ، ج12، ص147.
  45. ملاحظہ کریں: بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج1، ص46.

مآخذ

  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت، دارالمعرفۃ، بی‌تا.
  • ابن‌اثير، علی بن ابی‌کرم، الكامل في التاريخ‏، بيروت‏، دار الصادر، 1385ھ/1965ء.
  • ابن‌اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالاضواء، الطبعۃ الاولی، 1991ء/1411ھ۔
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیہ، الطبعۃ الاولی، 1415ھ/1995ء.
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، الطبعۃ الاولی، 1997ء/1410ھ۔
  • ابن‌عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، 1412ھ/1992ء.
  • ابن‌قتیبۃ دینوری، عبداللہ بن مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، قم، انتشارات شریف رضی، 1413ھ۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ/1986ء.
  • ابن‌ہشام، عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دارالمعرفۃ، بی‌تا.
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق محمد زہیر بن ناصر الناصر، دار طوق النجاۃ، الطبعۃ الاولی، 1422ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف(ج2)، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، الطبعۃ الاولی، 1394ھ/1974ء.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف(ج3)، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، الطبعۃ الاولی، 1397ھ/1977ء.
  • بیہقی، إبراہیم بن محمد، المحاسن والمساوی، بیروت، دار الكتب العلمیۃ، 1420ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواۃ، چاپ پنجم، 1413ھ۔
  • دیار بکری، حسین بن محمد، تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس، بیروت، دار صادر، بی‌تا.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل، دارالتراث، الطبعۃ الثانیۃ، 1387ھ/1967ء.
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، تصحیح جواد فیومی اصفہانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجامعۃ المدرسین بقم المقدسۃ، 1373ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، سفینۃ البحار، تہران، فراہانی، بی‌تا.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، تحقیق: سید إبراہیم میانجی، محمدباقر بہبودی، بیروت، چاپ سوم، 1403ھ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دارالہجرۃ، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، تحقیق عبدالسلام محمدہارون، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • واقدى، محمد بن عمر، الردۃ مع نبذۃ من فتوح العراق وذكر المثنى بن حارثۃ الشیبانى، تحقیق یحیى الجبورى، بیروت، دارالغرب الاسلامى، 1410ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا.
  • يوسفى غروى‏، محمدہادى، موسوعۃ التاريخ الإسلامى‏، قم، مجمع انديشہ اسلامى‏، 1417ھ۔