"کنعان بن نوح" کے نسخوں کے درمیان فرق
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 6: | سطر 6: | ||
قرآن میں حضرت نوح کے بیٹے کی جو تصویر کشی ہوئی ہے وہ صرف اس وقت کی ہے جب طوفان کی شکل میں عذاب الہی کا ظہور ہوا لیکن وہ کشتی میں سوار نہیں ہوا ہے۔ قرآن اس بارے میں یوں بیان کرتا ہے کہ حضرت نوح اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دیتا ہے لیکن وهن سوار ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں طوفان سے بچنے کیلئے پہاڑ پر چڑھوں گا۔ حضرت نوح دوبارہ اسے کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ طوفان عذاب الہی ہے جس سے کسی کو راہ فرار نہیں مگر یہ کہ خدا خود چاہے۔ اس موقع پر ایک موج اٹھتا ہے جو حضرت نوح اور ان کے بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں اور آخر کار حضرت نوح کا بیٹا غرق ہو جاتا ہے۔<ref>سورہ ہود، آیہ ۴۲-۴۸۔</ref> | قرآن میں حضرت نوح کے بیٹے کی جو تصویر کشی ہوئی ہے وہ صرف اس وقت کی ہے جب طوفان کی شکل میں عذاب الہی کا ظہور ہوا لیکن وہ کشتی میں سوار نہیں ہوا ہے۔ قرآن اس بارے میں یوں بیان کرتا ہے کہ حضرت نوح اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دیتا ہے لیکن وهن سوار ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں طوفان سے بچنے کیلئے پہاڑ پر چڑھوں گا۔ حضرت نوح دوبارہ اسے کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ طوفان عذاب الہی ہے جس سے کسی کو راہ فرار نہیں مگر یہ کہ خدا خود چاہے۔ اس موقع پر ایک موج اٹھتا ہے جو حضرت نوح اور ان کے بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں اور آخر کار حضرت نوح کا بیٹا غرق ہو جاتا ہے۔<ref>سورہ ہود، آیہ ۴۲-۴۸۔</ref> | ||
==حضرت نوح کے بیٹے سے متعلق شبہہ== | ==حضرت نوح کے بیٹے سے متعلق شبہہ== | ||
[[سورہ ہود]] کی آیت نمبر 46 کا یہ جملہ: <font color=green>{{حدیث|قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ|ترجمہ=ارشاد ہوا کہ نوح یہ تمہارے اہل سے نہیں ہے}}</font> سے استناد کرتے ہوئے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کنعان حضرت نوح کا بیٹا نہیں ہے۔ بعض لوگ مذکورہ آیت اور [[سورہ تحریم]] کی آیت نمبر 10 جس میں حضرت نوح کی بیوی کی خیانت کا تذکرہ موجود ہے، سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ نافرمان بیٹا حقیقت میں حضرت نوح کا نہیں بلکہ ان کی بیوی کی خیانت کی وجہ سے پیدا ہونے والا نامشروع بیٹا تھا۔<ref>بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج ۴، ص۱۷۔</ref> حالنکہ اکثر [[شیعہ]] اور [[سنی]] مفسرین سورہ ہود کی آیت نمبر 45 اور 46 کی تفسیر میں وارد ہونے والی احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس نظریے کے جعلی ہونے پر تاکیدد کرتے ہیں اور ان آیات میں موجود لفظ {{حدیث|"فخانتاهما"}} سے مراد ان کی بیوی کی زناکاری اور فرزند نامشروع کی طرف اشارہ ہر گز نہیں ہے۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص: ۳۵۲؛ طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج۱۲، ص۶۹؛ بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج ۴، ص۱۷؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۱۱۷؛ طبری، تفسیر الطبری، ۱۴۱۲ق، ج ۱۲، ص۳۲؛ آلوسی،روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۲۶۶۔</ref> | |||
[[علامہ طباطبایی]] | [[علامہ طباطبایی]] کے مطابق حضرت کا جو بیٹا طوفان میں غرق ہوا تھا وہ ان کا اپنا حقیقی بیٹا تھا۔ اس بات کو سورہ نوح کی آیت نمبر 42 میں اس جملے سے سمجھا جا سکتا ہے جس میں حضرت نوح یوں اپنے بیٹے سے مخاطب ہیں: <font color=green>{{حدیث|یا بُنَی ارْکب مَّعَنَا}} کیونکہ اس طرح کے الفاظ کہنے والے کی شفقت اور مہربانی کے اوپر دلالت کرتا ہے اور باپ اپنے بیٹے کو سمجھانا چاہ رہا ہوتا ہے کہ باپ اس سے محبت کرتا ہے اور اس کا خیرخواہ ہے<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص: ۳۴۶۔</ref>۔ [[تفسیر نمونہ]]، [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن|مجمع البیان]] اور [[تفسیر طبری]] میں بھی کنعان کو حضرت نوح کا حقیقی بیٹا قرار دینے والے نظریے کو صحیح نظریہ قرار دیتے ہیں۔<ref>مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش،ج۹، ص۱۱۷؛ ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج۱۲، ص۶۸؛ طبری،تفسیر الطبری، ۱۴۱۲ق، ج ۱۲، ص۳۲؛آلوسی،روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۶، ۲۶۶۔</ref> | ||
== | ==حضرت نوح کا اپنے بیٹے کے کفر سے مطلع نہ ہونا==<!-- | ||
بسیاری از مفسرین معتقدند کہ [[کفر]] فرزند برای [[نوح (پیامبر)|نوح(ع)]] ثابت نشدہ بود و از ہمین جہت بود کہ او را بہ سوار شدن بہ [[کشتی نوح|کشتی]] دعوت کرد۔<ref>طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج۱۲، ص۶۱؛ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص: ۳۵۰؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ۱۱۵؛ آلوسی،روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۶، ۲۶۶۔ | بسیاری از مفسرین معتقدند کہ [[کفر]] فرزند برای [[نوح (پیامبر)|نوح(ع)]] ثابت نشدہ بود و از ہمین جہت بود کہ او را بہ سوار شدن بہ [[کشتی نوح|کشتی]] دعوت کرد۔<ref>طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج۱۲، ص۶۱؛ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص: ۳۵۰؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ۱۱۵؛ آلوسی،روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۶، ۲۶۶۔ | ||
</ref> چرا کہ اگر کفر پسر برایش مسلم بود، او را برای سوار شدن بہ کشتی دعوت نمیکرد۔ حضرت نوح(ع) قبلا کفار را نفرین کردہ و از خدای تعالی خواستہ بود کہ احدی از کافران را بر روی زمین زندہ نگذارد و استثناء پسر از این دعا برای او بہ سبب رابطہ فرزندی مورد قبول نیست۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص: ۳۵۰۔</ref> | </ref> چرا کہ اگر کفر پسر برایش مسلم بود، او را برای سوار شدن بہ کشتی دعوت نمیکرد۔ حضرت نوح(ع) قبلا کفار را نفرین کردہ و از خدای تعالی خواستہ بود کہ احدی از کافران را بر روی زمین زندہ نگذارد و استثناء پسر از این دعا برای او بہ سبب رابطہ فرزندی مورد قبول نیست۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص: ۳۵۰۔</ref> | ||
سطر 17: | سطر 17: | ||
برخی از مفسرین نحوہ روایت گفتگوی نوح(ع) و پسرش در قرآن کریم را دلیلی بر عدم اطلاع او از کفر فرزندش میدانند و عنوان میکنند، اگر حضرت نوح از کفر فرزند اطلاع داشت بہ جای اینکہ بخواہد بگوید «از کافران مباش»<ref>سورہ ہود، آیہ ۴۲۔ | برخی از مفسرین نحوہ روایت گفتگوی نوح(ع) و پسرش در قرآن کریم را دلیلی بر عدم اطلاع او از کفر فرزندش میدانند و عنوان میکنند، اگر حضرت نوح از کفر فرزند اطلاع داشت بہ جای اینکہ بخواہد بگوید «از کافران مباش»<ref>سورہ ہود، آیہ ۴۲۔ | ||
</ref> باید میگفت «وَلَا تَکن من الْکافِرِینَ»، چرا کہ در جملہ اول یا ہمان جملہای کہ در قرآن کریم وجود دارد معنای شریک شدن در بلا و بہ عبارتی ہمراہی و ہمنشینی وجود دارد، بنابراین این جملہ اشارہ بہ این مسالہ دارد کہ حضرت نوح(ع) از کفر پسر اطلاع نداشت بہ ہمین دلیل گفتہ با عذاب کافران شریک نشو۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص: ۳۴۶، جوادی آملی، سیرہ پیامبران در قرآن، ۱۳۸۹ش، ص۲۷۳۔</ref> [[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبایی]] معتقد است کہ ظاہر آیات نشان میدہد خداوند بہ نوح وعدہ دادہ بود کہ اہل و خانوادہاش را از طوفان نجات میدہد و چون نوح اطلاع از کفر فرزندش نداشت در آیہ ۴۵ سورہ ہود این وعدہ را مطرح میکند۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص: ۳۵۰- ۳۵۱۔</ref> | </ref> باید میگفت «وَلَا تَکن من الْکافِرِینَ»، چرا کہ در جملہ اول یا ہمان جملہای کہ در قرآن کریم وجود دارد معنای شریک شدن در بلا و بہ عبارتی ہمراہی و ہمنشینی وجود دارد، بنابراین این جملہ اشارہ بہ این مسالہ دارد کہ حضرت نوح(ع) از کفر پسر اطلاع نداشت بہ ہمین دلیل گفتہ با عذاب کافران شریک نشو۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص: ۳۴۶، جوادی آملی، سیرہ پیامبران در قرآن، ۱۳۸۹ش، ص۲۷۳۔</ref> [[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبایی]] معتقد است کہ ظاہر آیات نشان میدہد خداوند بہ نوح وعدہ دادہ بود کہ اہل و خانوادہاش را از طوفان نجات میدہد و چون نوح اطلاع از کفر فرزندش نداشت در آیہ ۴۵ سورہ ہود این وعدہ را مطرح میکند۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص: ۳۵۰- ۳۵۱۔</ref> | ||
--> | --> | ||
نسخہ بمطابق 14:45، 5 مارچ 2018ء
کنعان بن نوح حضرت نوح کے بیٹوں میں سے ایک تھا جس نے اپنے والد پر ایمان نہیں لایا اور کافروں کے ساتھ طوفان (عذاب الہی) میں غرق ہو گیا۔ قرآن کریم میں سورہ ہود کی آیت نمبر 40 سے 47 تک حضرت نوح کے اس بیٹے سے متعلق ہے۔ اس داستان کی تفصیلات سے متعلق مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بہت سارے مفسرین کے مطابق یہ حضرت نوح کا حقیقی بیٹا تھا لیکن حضرت نوح اپنے بیٹے کی کفریہ اعتقادات سے بے خبر تھا اسی وجہ سے اس نے اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دی تھی۔
تفصیلات
حضرت نوح کے چار بیٹے تھے جن کا نام سام، حام، یافث اور کنعان تھا۔ حضرت نوح کے بیٹوں میں سے صرف کنعان واحد شخص تھا جس نے اپنے والد کی نصیحتوں پر عمل نہیں کیا۔ کنعان نے اپنے والد پر ایمان نہیں لایا اور آخر طوفان کی شکل میں عذاب الہی میں مبتلا ہو گیا اور دوسرے کافروں کے ساتھ غرق ہو گیا۔[1] حضرت نوح کے بیٹے کی داستان قرآن کریم بھی دوسرے قصص کی طرح قرآن میں اختصار کے ساتھ بیان ہوئی ہے اس بنا پر اس کہانی اور حضرت نوح کے اس بیٹے کی خصوصیات سے متعلق تفصیلات ذکر نہیں ہوئی ہے۔[2]
قرآن میں حضرت نوح کے بیٹے کی جو تصویر کشی ہوئی ہے وہ صرف اس وقت کی ہے جب طوفان کی شکل میں عذاب الہی کا ظہور ہوا لیکن وہ کشتی میں سوار نہیں ہوا ہے۔ قرآن اس بارے میں یوں بیان کرتا ہے کہ حضرت نوح اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دیتا ہے لیکن وهن سوار ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں طوفان سے بچنے کیلئے پہاڑ پر چڑھوں گا۔ حضرت نوح دوبارہ اسے کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ طوفان عذاب الہی ہے جس سے کسی کو راہ فرار نہیں مگر یہ کہ خدا خود چاہے۔ اس موقع پر ایک موج اٹھتا ہے جو حضرت نوح اور ان کے بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں اور آخر کار حضرت نوح کا بیٹا غرق ہو جاتا ہے۔[3]
حضرت نوح کے بیٹے سے متعلق شبہہ
سورہ ہود کی آیت نمبر 46 کا یہ جملہ: قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ (ترجمہ: ارشاد ہوا کہ نوح یہ تمہارے اہل سے نہیں ہے) سے استناد کرتے ہوئے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کنعان حضرت نوح کا بیٹا نہیں ہے۔ بعض لوگ مذکورہ آیت اور سورہ تحریم کی آیت نمبر 10 جس میں حضرت نوح کی بیوی کی خیانت کا تذکرہ موجود ہے، سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ نافرمان بیٹا حقیقت میں حضرت نوح کا نہیں بلکہ ان کی بیوی کی خیانت کی وجہ سے پیدا ہونے والا نامشروع بیٹا تھا۔[4] حالنکہ اکثر شیعہ اور سنی مفسرین سورہ ہود کی آیت نمبر 45 اور 46 کی تفسیر میں وارد ہونے والی احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس نظریے کے جعلی ہونے پر تاکیدد کرتے ہیں اور ان آیات میں موجود لفظ "فخانتاهما" سے مراد ان کی بیوی کی زناکاری اور فرزند نامشروع کی طرف اشارہ ہر گز نہیں ہے۔[5]
علامہ طباطبایی کے مطابق حضرت کا جو بیٹا طوفان میں غرق ہوا تھا وہ ان کا اپنا حقیقی بیٹا تھا۔ اس بات کو سورہ نوح کی آیت نمبر 42 میں اس جملے سے سمجھا جا سکتا ہے جس میں حضرت نوح یوں اپنے بیٹے سے مخاطب ہیں: یا بُنَی ارْکب مَّعَنَا کیونکہ اس طرح کے الفاظ کہنے والے کی شفقت اور مہربانی کے اوپر دلالت کرتا ہے اور باپ اپنے بیٹے کو سمجھانا چاہ رہا ہوتا ہے کہ باپ اس سے محبت کرتا ہے اور اس کا خیرخواہ ہے[6]۔ تفسیر نمونہ، مجمع البیان اور تفسیر طبری میں بھی کنعان کو حضرت نوح کا حقیقی بیٹا قرار دینے والے نظریے کو صحیح نظریہ قرار دیتے ہیں۔[7]
حضرت نوح کا اپنے بیٹے کے کفر سے مطلع نہ ہونا
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۱۳؛ مقدسی، آفرینش و تاریخ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۴۴۲؛ ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۸-۹؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص ۱۹۱۔
- ↑ بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹، ج۴، ص۷۰۔
- ↑ سورہ ہود، آیہ ۴۲-۴۸۔
- ↑ بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج ۴، ص۱۷۔
- ↑ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص: ۳۵۲؛ طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج۱۲، ص۶۹؛ بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج ۴، ص۱۷؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۱۱۷؛ طبری، تفسیر الطبری، ۱۴۱۲ق، ج ۱۲، ص۳۲؛ آلوسی،روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۲۶۶۔
- ↑ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص: ۳۴۶۔
- ↑ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش،ج۹، ص۱۱۷؛ ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج۱۲، ص۶۸؛ طبری،تفسیر الطبری، ۱۴۱۲ق، ج ۱۲، ص۳۲؛آلوسی،روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۶، ۲۶۶۔
منابع
- قرآن کریم
- ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت،دار الفکر، ط الثانیۃ، ۱۴۰۸ق۔
- ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، أبو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، بیروت،دار الفکر، ۱۴۰۷ق۔
- آلوسی، محمود بن عبداللہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، بیروت،دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق۔
- انزابی نژاد، رضا، «زندگی پیامبران و قصص قرآن در ادبیات فارسی (۲) نوح استوارترین مرد حق»، نشریہ پژوہشہای فلسفی دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی تبریز، شمارہ ١١٩، پاييز ١٣۵۵ش۔
- بیومی مہران، محمد، بررسی تاریخی قصص قرآن، ترجمہ مسعود انصاری، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۸۳ش۔
- پرتوی، مہدی، «ریشہہای تاریخی امثال و حکم»، نشریہ ہنر و مردم، شمارہ ۹۶ و ۹۷، مہر و آبان ۱۳۴۹ش۔
- جوادی آملی، عبداللہ، سیرہ پیامبران در قرآن، قم، نشر اسراء، ۱۳۸۹ش۔
- دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داود، اخبار الطوال، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، نشر نی، چاپ چہارم، ۱۳۷۱ش۔
- دہخدا، علی اکبری، امثال و حکم، تہران، امیرکبیر، ۱۳۸۳ش۔
- ذوالفقاری،حسن، داستانہای امثال، تہران، مازیار،۱۳۸۵ش،چاپ دوم۔
- طباطبایی، محمدحسین، ترجمہ تفسیر المیزان، مترجم: موسوی، محمد باقر، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم،نوبت چاپ: ۵، ۱۳۷۴ق۔
- طبرسی، فضل بن حسن، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ترجمہ: حسین نوری و محمد مفتح، تہران، نشر فراہانی، ۱۳۵۲ش۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن(تفسیر الطبری)، بیروت، دارالمعرفہ، ۱۴۱۲ق۔
- مسعودی، أبو الحسن علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، چ پنجم، ۱۳۷۴ش۔
- مقدسی، مطہر بن طاہر، آفرینش و تاریخ، ترجمہ محمد رضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چ ۱، ۱۳۷۴ش۔
- مولانا، جلال الدین بلخی، مثنوی معنوی، تصحیح و مقابلہ موسوی، نشر طلوع، ۱۳۷٢ش۔