"کنعان بن نوح" کے نسخوں کے درمیان فرق
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م Waziri نے صفحہ نوح کا بیٹا کو کنعان بن نوح کی جانب منتقل کیا |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 2: | سطر 2: | ||
'''کنعان بن نوح''' [[حضرت نوح]] کے بیٹوں میں سے ایک تھا جس نے اپنے والد پر [[ایمان]] نہیں لایا اور [[کفر|کافروں]] کے ساتھ [[طوفان نوح|طوفان]] ([[عذاب الہی]]) میں غرق ہو گیا۔ [[قرآن کریم]] میں [[سورہ ہود]] کی [[آیت]] نمبر 40 سے 47 تک حضرت نوح کے اس بیٹے سے متعلق ہے۔ اس داستان کی تفصیلات سے متعلق مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بہت سارے [[مفسر|مفسرین]] کے مطابق یہ حضرت نوح کا حقیقی بیٹا تھا لیکن حضرت نوح اپنے بیٹے کی [[کفر|کفریہ]] اعتقادات سے بے خبر تھا اسی وجہ سے اس نے اپنے بیٹے کو [[کشتی نوح|کشتی]] میں سوار ہونے کی دعوت دی تھی۔ | '''کنعان بن نوح''' [[حضرت نوح]] کے بیٹوں میں سے ایک تھا جس نے اپنے والد پر [[ایمان]] نہیں لایا اور [[کفر|کافروں]] کے ساتھ [[طوفان نوح|طوفان]] ([[عذاب الہی]]) میں غرق ہو گیا۔ [[قرآن کریم]] میں [[سورہ ہود]] کی [[آیت]] نمبر 40 سے 47 تک حضرت نوح کے اس بیٹے سے متعلق ہے۔ اس داستان کی تفصیلات سے متعلق مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بہت سارے [[مفسر|مفسرین]] کے مطابق یہ حضرت نوح کا حقیقی بیٹا تھا لیکن حضرت نوح اپنے بیٹے کی [[کفر|کفریہ]] اعتقادات سے بے خبر تھا اسی وجہ سے اس نے اپنے بیٹے کو [[کشتی نوح|کشتی]] میں سوار ہونے کی دعوت دی تھی۔ | ||
== | ==تفصیلات== | ||
[[ | [[حضرت نوح]] کے چار بیٹے تھے جن کا نام [[سام]]، حام، یافث اور '''کنعان''' تھا۔ حضرت نوح کے بیٹوں میں سے صرف کنعان واحد شخص تھا جس نے اپنے والد کی نصیحتوں پر عمل نہیں کیا۔ کنعان نے اپنے والد پر ایمان نہیں لایا اور آخر [[طوفان نوح|طوفان]] کی شکل میں [[عذاب الہی]] میں مبتلا ہو گیا اور دوسرے کافروں کے ساتھ غرق ہو گیا۔<ref>ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۱۳؛ مقدسی، آفرینش و تاریخ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۴۴۲؛ ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۸-۹؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص ۱۹۱۔</ref> حضرت نوح کے بیٹے کی داستان [[قرآن کریم]] بھی دوسرے قصص کی طرح قرآن میں اختصار کے ساتھ بیان ہوئی ہے اس بنا پر اس کہانی اور حضرت نوح کے اس بیٹے کی خصوصیات سے متعلق تفصیلات ذکر نہیں ہوئی ہے۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹، ج۴، ص۷۰۔</ref> | ||
۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۱۳؛ مقدسی، آفرینش و تاریخ، | |||
۱۳۷۴ش، ج۱، ص۴۴۲؛ ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۸-۹؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، | |||
ص ۱۹۱۔</ref> داستان | |||
قرآن میں حضرت نوح کے بیٹے کی جو تصویر کشی ہوئی ہے وہ صرف اس وقت کی ہے جب طوفان کی شکل میں عذاب الہی کا ظہور ہوا لیکن وہ کشتی میں سوار نہیں ہوا ہے۔ قرآن اس بارے میں یوں بیان کرتا ہے کہ حضرت نوح اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دیتا ہے لیکن وهن سوار ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں طوفان سے بچنے کیلئے پہاڑ پر چڑھوں گا۔ حضرت نوح دوبارہ اسے کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ طوفان عذاب الہی ہے جس سے کسی کو راہ فرار نہیں مگر یہ کہ خدا خود چاہے۔ اس موقع پر ایک موج اٹھتا ہے جو حضرت نوح اور ان کے بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں اور آخر کار حضرت نوح کا بیٹا غرق ہو جاتا ہے۔<ref>سورہ ہود، آیہ ۴۲-۴۸۔</ref> | |||
==شبہہ | ==حضرت نوح کے بیٹے سے متعلق شبہہ==<!-- | ||
آیہ ۴۶ [[سورہ ہود]] «ای نوح آن پسر از اہل تو نبود» باعث شدہ است کہ برخی در خصوص فرزندی کنعان شبہہ ایجاد کنند۔ برخی با استناد بہ این آیہ و ہمچنین آیہ ۱۰ [[سورہ تحریم]] کہ در آن زن حضرت نوح بہ عنوان خیانت کار معرفی شدہ است عنوان کردہاند کہ آن فرزند غرق شدہ فرزند نوح نبود؛ بلکہ فرزند نامشروع ہمسر نوح بودہاست۔<ref>بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج ۴، ص۱۷۔</ref> این در حالی است کہ بسیاری از مفسرین شیعہ و سنی بر پایہ روایات وارد شدہ در تفسیر آیہ ۴۵ و ۴۶ سورہ ہود بر مجعول بودن این سخن تأکید کردہاند و معتقدند کہ کلمہ «فخانتاہما» در قرآن کریم ہرگز اشارہ بہ زنا کار بودن زن نوح و فرزند نامشروع بودن «پسر نوح» ندارد۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص: ۳۵۲؛ طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج۱۲، ص۶۹؛ بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج ۴، ص۱۷؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۱۱۷؛ طبری، تفسیر الطبری، ۱۴۱۲ق، ج ۱۲، ص۳۲؛ آلوسی،روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۲۶۶۔</ref> | آیہ ۴۶ [[سورہ ہود]] «ای نوح آن پسر از اہل تو نبود» باعث شدہ است کہ برخی در خصوص فرزندی کنعان شبہہ ایجاد کنند۔ برخی با استناد بہ این آیہ و ہمچنین آیہ ۱۰ [[سورہ تحریم]] کہ در آن زن حضرت نوح بہ عنوان خیانت کار معرفی شدہ است عنوان کردہاند کہ آن فرزند غرق شدہ فرزند نوح نبود؛ بلکہ فرزند نامشروع ہمسر نوح بودہاست۔<ref>بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج ۴، ص۱۷۔</ref> این در حالی است کہ بسیاری از مفسرین شیعہ و سنی بر پایہ روایات وارد شدہ در تفسیر آیہ ۴۵ و ۴۶ سورہ ہود بر مجعول بودن این سخن تأکید کردہاند و معتقدند کہ کلمہ «فخانتاہما» در قرآن کریم ہرگز اشارہ بہ زنا کار بودن زن نوح و فرزند نامشروع بودن «پسر نوح» ندارد۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص: ۳۵۲؛ طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج۱۲، ص۶۹؛ بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج ۴، ص۱۷؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۱۱۷؛ طبری، تفسیر الطبری، ۱۴۱۲ق، ج ۱۲، ص۳۲؛ آلوسی،روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۲۶۶۔</ref> | ||
سطر 36: | سطر 33: | ||
}} | }} | ||
--> | --> | ||
==متعلقہ صفحات== | ==متعلقہ صفحات== | ||
{{ستون آ|4}} | {{ستون آ|4}} |
نسخہ بمطابق 14:16، 5 مارچ 2018ء
کنعان بن نوح حضرت نوح کے بیٹوں میں سے ایک تھا جس نے اپنے والد پر ایمان نہیں لایا اور کافروں کے ساتھ طوفان (عذاب الہی) میں غرق ہو گیا۔ قرآن کریم میں سورہ ہود کی آیت نمبر 40 سے 47 تک حضرت نوح کے اس بیٹے سے متعلق ہے۔ اس داستان کی تفصیلات سے متعلق مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بہت سارے مفسرین کے مطابق یہ حضرت نوح کا حقیقی بیٹا تھا لیکن حضرت نوح اپنے بیٹے کی کفریہ اعتقادات سے بے خبر تھا اسی وجہ سے اس نے اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دی تھی۔
تفصیلات
حضرت نوح کے چار بیٹے تھے جن کا نام سام، حام، یافث اور کنعان تھا۔ حضرت نوح کے بیٹوں میں سے صرف کنعان واحد شخص تھا جس نے اپنے والد کی نصیحتوں پر عمل نہیں کیا۔ کنعان نے اپنے والد پر ایمان نہیں لایا اور آخر طوفان کی شکل میں عذاب الہی میں مبتلا ہو گیا اور دوسرے کافروں کے ساتھ غرق ہو گیا۔[1] حضرت نوح کے بیٹے کی داستان قرآن کریم بھی دوسرے قصص کی طرح قرآن میں اختصار کے ساتھ بیان ہوئی ہے اس بنا پر اس کہانی اور حضرت نوح کے اس بیٹے کی خصوصیات سے متعلق تفصیلات ذکر نہیں ہوئی ہے۔[2]
قرآن میں حضرت نوح کے بیٹے کی جو تصویر کشی ہوئی ہے وہ صرف اس وقت کی ہے جب طوفان کی شکل میں عذاب الہی کا ظہور ہوا لیکن وہ کشتی میں سوار نہیں ہوا ہے۔ قرآن اس بارے میں یوں بیان کرتا ہے کہ حضرت نوح اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دیتا ہے لیکن وهن سوار ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں طوفان سے بچنے کیلئے پہاڑ پر چڑھوں گا۔ حضرت نوح دوبارہ اسے کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ طوفان عذاب الہی ہے جس سے کسی کو راہ فرار نہیں مگر یہ کہ خدا خود چاہے۔ اس موقع پر ایک موج اٹھتا ہے جو حضرت نوح اور ان کے بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں اور آخر کار حضرت نوح کا بیٹا غرق ہو جاتا ہے۔[3]
حضرت نوح کے بیٹے سے متعلق شبہہ
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
منابع
- قرآن کریم
- ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت،دار الفکر، ط الثانیۃ، ۱۴۰۸ق۔
- ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، أبو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، بیروت،دار الفکر، ۱۴۰۷ق۔
- آلوسی، محمود بن عبداللہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، بیروت،دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق۔
- انزابی نژاد، رضا، «زندگی پیامبران و قصص قرآن در ادبیات فارسی (۲) نوح استوارترین مرد حق»، نشریہ پژوہشہای فلسفی دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی تبریز، شمارہ ١١٩، پاييز ١٣۵۵ش۔
- بیومی مہران، محمد، بررسی تاریخی قصص قرآن، ترجمہ مسعود انصاری، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۸۳ش۔
- پرتوی، مہدی، «ریشہہای تاریخی امثال و حکم»، نشریہ ہنر و مردم، شمارہ ۹۶ و ۹۷، مہر و آبان ۱۳۴۹ش۔
- جوادی آملی، عبداللہ، سیرہ پیامبران در قرآن، قم، نشر اسراء، ۱۳۸۹ش۔
- دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داود، اخبار الطوال، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، نشر نی، چاپ چہارم، ۱۳۷۱ش۔
- دہخدا، علی اکبری، امثال و حکم، تہران، امیرکبیر، ۱۳۸۳ش۔
- ذوالفقاری،حسن، داستانہای امثال، تہران، مازیار،۱۳۸۵ش،چاپ دوم۔
- طباطبایی، محمدحسین، ترجمہ تفسیر المیزان، مترجم: موسوی، محمد باقر، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم،نوبت چاپ: ۵، ۱۳۷۴ق۔
- طبرسی، فضل بن حسن، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ترجمہ: حسین نوری و محمد مفتح، تہران، نشر فراہانی، ۱۳۵۲ش۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن(تفسیر الطبری)، بیروت، دارالمعرفہ، ۱۴۱۲ق۔
- مسعودی، أبو الحسن علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، چ پنجم، ۱۳۷۴ش۔
- مقدسی، مطہر بن طاہر، آفرینش و تاریخ، ترجمہ محمد رضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چ ۱، ۱۳۷۴ش۔
- مولانا، جلال الدین بلخی، مثنوی معنوی، تصحیح و مقابلہ موسوی، نشر طلوع، ۱۳۷٢ش۔