ایمان ابو طالب

فاقد سانچہ
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے

ایمان ابو طالب شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اہم کلامی مباحث میں سے ایک موضوع رہا ہے۔ بعض تاریخی کتب اور بعض روایات کے مطابق رسول خدا(ص) کے چچا اور امیرالمؤمنین(ع)کے والد حضرت ابو طالب(ع) نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور آنحضرت(ص) پر ایمان لائے بغیر حالت شرک میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ اہل سنت کے بعض علماء ابو طالب کے ایمان کے منکر ہیں اور انھوں نے ایسی روایات سے استناد و استدلال کیا ہے جن کے مطابق وہ ایمان نہیں لائے تھے اور حتی موت کے لمحات تک اپنے اجداد کے دین پر اصرار کرتے رہے ہیں۔

حضرت ابوطالب ہجرت سے تقریبا اسی سال قبل پیدا ہوئے۔ ان کا نام عبد مناف اور ایک قول کے مطابق "عمران" ہے اور چونکہ ان کے بڑے فرزند کا نام "طالب" تھا چنانچہ ابو طالب(ع) کی کنیت سے مشہور ہوئے۔ ابو طالب(ع) خاندان بنو ہاشم کے سربراہ اور حجاج کی رفادت (میزبانی) اور سقایت کے مناصب پر فائز تھے۔ بھتیجے محمد(ص)کی نبوت کے بعد پوری قوت اور پورے وجود سے آپ(ص) کی حمایت کا اہتمام کیا اور قریشی مشرکین کی طرف سے بنو ہاشم کے معاشی اور سماجی محاصرے کے دوران شعب ابی طالب میں چلے گئے اور محاصرہ ختم ہوا تو انھوں نے اتنے مصائب برداشت کئے تھے اور اس قدر صعوبتیں جھیلی تھیں کہ رنج و مشقت کی شدت کی وجہ سے ماہ ذوالقعدہ یا شوال سنہ 10 ہجری میں ـ ہجرت سے تین سال قبل ـ دنیا سے رخصت ہوئے۔

الم تعلموا انّ ابننا لا مكذب لدينا ولا يعني بقول الاباطل
کیا تم نہیں جانتے کہ ہم اپنے بیٹے کو کبھی نہیں جھٹلاتے اور وہ بیہودہ باتوں کو اہمیت نہیں دیتے
وابيض يستسقي الغمام بوجهه ثمال اليتامی عصمة للارامل
وہ سفید چہرے والا جس کے صدقے خدا سے بارش کی التجا کی جاتی ہے وہی جو یتیموں کا سہارا اور غریبوں کا حامی اور پالنے والا ہے
الم تعلموا إن النبي محمداً رسول امين خط في سالف الكُتب
کیا تم نہیں جانتے کہ نبی محمد(ص)کی رسالت سابقہ کتب میں مکتوب ہے؟[1]

ایمان ابو طالب کے منکرین کے دلائل

ایمان ابو طالب(ع) کے مخالفین نے اپنا دعوی ثابت کرنے کے لئے بعض روایات کا سہارا لیا ہے:

مشرک کے لئے استغفار سے نہی

آیت کا متن:

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُواْ أُوْلِي قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ۔
ترجمہ: پیغمبر کو اور انہیں جو ایمان لائے ہیں، یہ حق نہیں کہ وہ دعائے مغفرت کریں مشرکوں کے لیے، چاہے وہ عزیز ہوں بعد اس کے کہ ان پر ثابت ہو گیا وہ دوزخ والے ہیں۔

روایت کچھ یوں ہے کہ سعید بن مسیب نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ ابو طالب(ع) نے احتضار (حالت موت) میں رسول خدا(ص) کی طرف سے "لا الہ الا اللہ" کہنے کی تلقین قبول نہ کی اور اپنے آباء و اجداد کے دین پر گذر گئے۔ اور آپ(ص) نے فرمایا: خدا کی قسم! میں آپ کے لئے استغفار کروں گا اس وقت کہ اس سے باز رکھا جاؤں!، چنانچہ سورہ توبہ کی آیت 113 نازل ہوئی۔ کہ نبی اکرم(ص) اور ایمان لانے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مشرکین کے لئے استغفار کریں خواہ وہ ان کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں۔[2]

جواب: یہ بعید از قیاس ہے کیونکہ سورہ برائت قرآن کی آخری سورتوں میں سے ہے جبکہ ابو طالب(ع) کا انتقال طلوع اسلام کے ابتدائی برسوں میں انتقال کرگئے ہیں اور اس وقت رسول خدا(ص) مکہ میں تھے؛ اور قرطبی نے بھی اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا ہے اور لکھا ہے: یہاں ایسی متعدد روایات ہیں جو آیت مذکورہ کے نزول کے سلسلے میں اس روایت سے متصادم ہیں اور یہ روایات صحیحۂ طیالسی اور ابن شیبہ، احمد بن حنبل، ترمذی، نسائی، ابو یعلی، ابن جریر طبری، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابوالشیخ اور حاکم نیشابوری نے نقل کی ہیں اور ابن مرویہ اور بیہقی نے ان روایات کو صحیح گردانا ہے اور "شعب الایمان والضیاء في المختارہ میں روایت کی ہے کہ "علی(ع)نے کہا: "میں نے ایک شخص کو اپنے مشرک والدین کے لئے استغفار کرتے ہوئے سنا اور اس شخص سے کہا: کیا تم اپنے والدین کے لئے استغفار کررہے ہو حالانکہ وہ مشرک تھے؟ تو اس نے کہا: کیا ابراہیم(ع) نے استغفار نہیں کیا؟ چنانچہ میں نے یہ بات رسول اللہ(ص) کو بتائی اور یہ آیت نازل ہوئی:مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ ۔۔۔۔"۔[3]

اس روایت کی سند میں سعید بن مسیب وہ شخص ہے جو امیرالمؤمنین(ع)کی دشمنی کے حوالے سے جانا جاتا تھا اور علی(ع)سے اس کا انحراف واضح ہے چنانچہ کسی کے بارے میں دشمن اور معاند شخص کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔[4]

بخاری ہی نے اپنی کتاب میں برائت کے نزول کے بارے میں لکھا ہے: "عن الْبَرَاء رضى الله عنه قَالَ آخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ بَرَاءَة ترجمہ: براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت سورہ برائت ہے"۔[5]

بہرصورت تاریخ گواہ ہے کہ ابو طالب(ع) نے بعثت کے دسویں سال مکہ میں وفات پائی ہے اور اس سال کو نبی اکرم(ص) نے ابو طالب(ع) اور سیدہ خدیجۃالکبری(س) کی وفات کی بنا پر عام الحزن (یا صدمے کا سال) کا نام دیا ہے جبکہ سورہ توبہ اور آیت 113 سمیت اس کی تمام آیتیں دس سال بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں اور سورہ برائت مشرکین کو پڑھ کر سنانے کے لئے علی(ع)کا مکہ روانہ کرنے کا واقعہ تاریخ کے ماتھے پر جھلک رہا ہے۔[6]

آیت نأی

آیت کا متن:

وَهُمْ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَيَنْأَوْنَ عَنْهُ وَإِن يُهْلِكُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ۔ ترجمہ: اور وہ (لوگوں کو) ان (کا کلام سننے اور ان کی طرف جانے) سے روکتے ہیں اور خود بھی ان سے دور رہتے ہیں اور وہ نہیں ہلاکت میں ڈالتے مگر خود اپنے کو اور انہیں شعور نہیں ہے۔

بعض لوگوں نے اس آیت کی شان نزول بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آیت ابو طالب(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ انھوں نے ایک روایت نقل کی ہے کہ "راوی نے "کسی" سے سنا ہے کہ ابن عباس کہتے تھے کہ "ابو طالب(ع) لوگوں کو رسول خدا(ص) کو اذیت و آزار پہنچانے سے روکتے تھے اور خود بھی ان کے دین میں داخل نہیں ہورہے تھے!![7]

جواب

اولاً: یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ شخص کون ہے جس نے یہ بات ابن عباس سے سنی تھی!

ثانیاً: جس شخص نے کہا ہے کہ "میں نے ایک شخص سے سنا کہ ۔۔۔"، اس کو اہل سنت کے اصحاب رجال نے ضعیف گردانا ہے؛ اور اس کا نام "حبیب بن ابی ثابت" ہے۔[8]

ثالثاً: تفسیر طبری میں یہ روایت مختلف صورت میں منقول ہے اور وہ یوں کہ مذکورہ آیت کریمہ مشرکین کی شان میں نازل ہوئی ہے جو لوگوں کو رسول خدا(ص) پر ایمان لانے سے منع کرتے تھے اور خود بھی ایمان نہیں لاتے تھے۔[9]

رابعاً: آیت کے سیاق و سباق کو مد نظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام ضمائر کا مرجع مشرکین ہیں:

مثلا آیت 25 میں ارشاد ہوتا ہے:

وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْراً وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا حَتَّى إِذَا جَآؤُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَذَآ إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ۔ ترجمہ: اور ان (مشرکین) میں سے ایسے بھی ہیں جو آپ کی بات غور سے سنتے ہیں اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ اسے سمجھتے نہیں اور ان کے کانوں میں بھاری پن؛ اور اگر وہ ہر ہر طرح کا معجزہ دیکھ لیں جب بھی اس پر ایمان نہیں لائیں گے، یہاں تک کہ جب آپ کے پاس بحث کرتے ہوئے آئیں گے تو یہ کافر کہیں گے کہ یہ نہیں ہیں مگر اگلے لوگوں کی داستانیں۔

چنانچہ آیت 26 میں ارشاد ہوتا ہے: اور [علاوہ ازیں] وہ (لوگوں کو) ان [کا کلام سننے اور ان پر ایمان لانے] سے روکتے [اور دور کرتے] ہیں اور خود بھی ان سے دور رہتے ہیں [اور ان پر ایمان نہیں لاتے] اور ہلاکت میں نہیں ڈالتے مگر خود اپنے کو اور انہیں شعور نہیں ہے۔

حدیث ضَحضاح

مخالفین "ضحضاح" نامی حدیث کا سہارا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول خدا(ص) کے پاس ابو طالب(ع) کو یاد کیا تو آپ(ص) نے فرمایا: "مجھے امید ہے کہ میری شفاعت قیامت کے روز ان کے لئے مفید ہو، وہ آگ کے ذریعے ابلے ہوئے پانی میں قرار پائیں گے اور پانی ان کے ٹخنوں تک پہنچے گا اور وہاں سے ان کے مغز تک کو ابھال دے گا![10]

جواب:

اولاً: حدیث ضحضاح کے بارے میں تمام منقولہ اقوال کا راوی مغیرہ بن شعبہ ہے جو بنوہاشم کے حق میں ایک بخیل (اور بقولے ظنین اور متہم) شخص ہے کیونکہ ان کے ساتھ اس کی دشمنی مشہور ہے اور وہ ان کے ساتھ دشمنی کا اظہار کرتا تھا؛ اور مروی ہے کہ ایک دفعہ اس نے شراب نوشی کی اور جب نشہ چڑھ گیا تو کسی نے پوچھا: بنو ہاشم کی امامت کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے تو اس نے کہا: خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی ہاشمی کے لئے خیر و خوبی نہیں چاہتا؛ مغیرہ علاوہ ازيں فاسق شخص تھا۔[11] ابن ابی الحدید کہتے ہیں: محدثین و مفسرین کا کہنا ہے کہ حدیث ضحضاح کو سب نے ایک ہی شخص سے نقل کیا ہے اور وہ شخص مغیرہ بن شعبہ ہے جس کا بغض بنو ہاشم بالخصوص علی علیہ السلامکی نسبت مشہور و معلوم ہے اور اس کا قصہ (قصۂ زنا) اور اس کا فسق ایک غیر مخفی امر ہے۔[12]۔[13]

ثانیاً: فرض کریں کہ اگر ابو طالب(ع) مؤمن اور مسلمان نہ ہوتے تو پھر رسول خدا(ص) کی طرف سے ان کے لئے شفاعت کی امید چہ معنی دارد؟ جب کہ شفاعت مشرک اور کافر کے شامل حال ہوتی ہی نہیں۔[14]

ایمان ابوطالب کے دلائل

علمائے شیعہ نے مخالفین کے دلائل کے کافی شافی جوابات دیئے ہیں اور ان کو باطل کردیا ہے اور اس بحث کو ایک انحرافی بحث سمجھتے ہیں اور رسول خدا(ص) اور ائمہ(ع) کی احادیث کی روشنی میں، ابو طالب(ع) کے ایمان پر ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے؛ تاہم مخالفین کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے ان کے ایمان پر دلائل کافیہ اور براہین قاطعہ قائم کئے ہیں، جن میں سے بعض کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے:

ابو طالب(ع) کی ذاتی روش

ہم نے دیکھا کہ ابو طالب(ع) ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے حبشہ کے بادشاہ کو اسلام کی دعوت دی، وہی جنہوں نے اپنے بیٹے کو دعوت دی اور حکم دیا کہ نماز میں اپنے چچا زاد بھائی(ص) سے جاملیں۔ وہی جنہوں نے اپنی زوجہ مکرمہ اپنی زوجۂ مکرمہ فاطمہ بنت اسد(س) اور اپنی اولاد کو اسلام کی دعوت دی ہے۔ اور اپنے بھائی حمزہ کو دین اسلام میں ثابت قدمی کی تلقین کی اور ان کے اسلام لانے پر سرور و شادمانی کا اظہار کیا اور اپنے بیٹے امیرالمؤمنین(ع)کی حوصلہ افزائی کی۔[15]۔[16] انھوں نے بیٹے علی(ع)کو رسول اکرم(ص) کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو انہيں منع نہيں کیا بلکہ بیٹے جعفر سے کہا کہ جاکر بائیں جانب سے ان کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور نماز ادا کریں۔[17]۔[18]

انھوں نے رسول خدا(ص) کا ساتھ دیتے ہوئے تمام مصائب کو جان کی قیمت دے کر خریدا اور زندگی کے آخری لمحے تک آپ(ص) کی حمایت سے دست بردار نہ ہوئے۔ اور حتی کہ موت کے لمحات میں قریش اور بنو ہاشم کو جو وصیتیں کیں وہ ان کے ایمان کامل کا ثبوت ہیں۔

ابو طالب(ع) کی وصیت قریش کے نام:

إنّ أباطالب لمّا حضرته الوفاة جمیع إلیه وجوه قریش فأوصاهم فقال: یا معشر قریش أنتم صفوة الله من خلقه ـ إلى أن قال: ـ وإنّی أوصیكم بمحمد خیراً فإنه الأمین فی قریش، والصدیق فی العرب، وهو الجامع لكل ما أوصیتكم به، وقد جاءنا بأمر قبله الجنان، وأنكره اللسان مخافة الشنآن، وأیم الله كأنی أنظر الى صعالیك العرب وأهل الأطراف والمستضعفین من الناس قد أجابوا دعوته، وصدقوا كلمته، وعظموا أمره۔۔۔ یا معشر قریش ابن أبیكم، كونوا له ولاة ولحزبه حماة، والله لا یسلك أحد سبیله إلاّ رشد، ولا یأخذ أحد بهدیه إلاّ سعد، ولو كان لنفسی مدة، وفی اجلی تأخیر، لكففت عنه الهزاهز، ولدافعت عنه الدواهی۔ ترجمہ: جب حضرت ابو طالب(ع) کا آخری وقت ہؤا اور قریش کے عمائدین ان کے گرد جمع ہوئے تو آپ نے انہیں وصیت کی اور فرمایا: "اے گروہ قریش! تم خلق الله میں خدا کی برگزیدہ قوم ہو میں تمہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے بارے میں نیکی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ قریش کے امین اور عالم عرب میں صادق ترین (سب سے زیادہ سچے اور راست باز) فرد ہیں؛ آپ(ص) ان تمام صفات محمودہ کے حامل ہیں جن کی میں نے تمہیں تلقین کی؛ وہ ہمارے لئے ایسی چیز لائے ہیں جس کو قلب قبول کرتا ہے جبکہ دوسروں کی ملامت کے خوف سے زبان اس کا انکار کرتی ہے۔ خدا کی قسم! گویا می دیکھ رہا ہوں کہ حتی دیہاتوں اور گرد و نواح کے لوگ اور لوگوں کے پسماندہ طبقات آپ(ص) کی دعوت قبول کرتے ہیں اور آپ(ص) کے کلام کی تصدیق کرتے ہیں اور آپ(ص) کے امر (نبوت و رسالت) کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں ۔۔۔ اے گروہ قریش! آپ(ص) تمہارے باپ کے فرزند ہیں لہذا آپ(ص) کے لئے یار و یاور اور آپ(ص) کی جماعت کے لئے حامی و ناصر بنو۔

خدا کی قسم! جو بھی آپ(ص) کے راستے پر گامزن ہوگا وہ ہدایت پائے گا اور جو بھی آپ(ص) کی ہدایت قبول کرے گا، سعادت و خوشبختی پائے گا؛ اور اگر میرے اجل میں تأخیر ہوتی اور میں زندہ رہتا تو آپ (ص) کو درپیش تمام مشکلات [بدستور] جان و دل سے قبول کرتا اور بلاؤں اور مصائب کے سامنے [بدستور] آپ(ص) کا تحفظ کرتا۔[19]۔[20]۔[21]۔[22]

ابو طالب(ع) نے بنو ہاشم سے وصیت کرتے ہوئے کہا:

يا معشر بني هاشم! أطيعوا محمدا وصدقوه تفلحوا وترشدوا ۔ ترجمہ: اى جماعت بنی ہاشم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد(ص)]] کی اطاعت کرو اور ان کی تصدیق کرو تاکہ فلاح اور بہتری اور رشد و ہدایت پاؤ۔[23]

اہل سنت کے مشہور عالم دین ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ تمام مسلمانوں پر ابو طالب(ص) کا حق واجب ہے۔ اور متعدد اسناد سے ابن عباس و دیگر سے روایت کرتے ہیں کہ "ابوطالب(ع)" دنیا سے رخصت نہیں ہوئے حتی کہ انھوں نے شہادتین زبان پر جاری کردیں اور ایک اور مقام پر کہتے ہیں: اگر ابو طالب(ع) نے ہوتے تو اسلام کا نام و نشان نہ ہوتا اور مزید کہتے ہیں کہ اگر ابو طالب(ع) اپنا ایمان آشکار کرتے تو قریش کے ہاں اپنی عزت اور سماجی حیثیت کھو بیٹھتے اور قبیلے کے سربراہ کی حیثیت سے اسلام کا دفاع و تحفظ کرنے کے قابل نہ رہتے۔[24]

اب یہ سوال باقی ہے کہ جو مسلمان اور مؤمن نہ ہو اور جو نمازگزار نہ ہو وہ کیونکر کسی کو اسلام و ایمان اور نماز کی دعوت دے سکتا ہے؟! اور جو رسول خدا(ص)کی رسالت پر ایمان نہیں رکھتا وہ کیوں قریش اور بنو ہاشم کو دعوت ایمان دے گا؟!

ابو طالب(ع) کے اشعار اور ادبی اقوال

ابو طالب کے قصائد اور منظوم کلام اور حکیمانہ اور ادیبانہ منظوم اقوال تقریبا ایک ہزار ابیات (اشعار) پر مشتمل ہیں اور یہ مجموعہ "دیوان ابو طالب" کے نام سے مشہور ہے۔ جو کچھ ان اشعار اور اقوال میں آیا ہے سب رسول خدا(ص) کی رسالت و نبوت کی تصدیق و تائید پر مبنی ہے۔[25] ابو طالب(ع) کے بعض اشعار:

اِن ابن آمنة النبی محمدا ٭٭٭ عندی یفوق منازل الاولاد۔ ترجمہ: حقیقتا فرزند آمنہ(ص) کی شان و منزلت میرے نزدیک میری اولاد پر فوقیت رکھتی ہے۔

ان کا مشہور ترین قصیدہ "قصیدہ لامیہ" کے عنوان سے مشہور ہے جس کا آغاز اس مطلع سے ہوتا ہے:

خليلي ما أذني لاول عاذل ٭٭٭ بصغواء في حق ولا عند باطل۔ ترجمہ: میرے ہم نشین! میں کسی صورت میں بھی ملامت کرنے والوں کی بات نہیں سنتا اور حق کی راہ میں کسی حالت میں بھی کفر اور باطل کی طرف مائل نہیں ہوتا۔[26]

علامہ امینی کہتے ہیں:

"میں یہ نہ جان سکا کہ رسول خدا(ص) کی نبوت کی تصدیق اور رسالت نبی(ص) کی گواہی اور شہات کو کس طرح ہونا چاہئے کہ ابو طالب(ع) کے اشعار میں تصدیق و شہادت پر مبنی بے شمار اور مختلف النوع عبارتیں ملتی ہیں جس کو شہادت و تصدیق اور گواہی و اقرار و ایمان نہیں سمجھا جاتا؟ ان بےشمار عبارتوں میں سے صرف ایک عبارت کسی اور شخص کی شاعری یا نثر میں پائی جاتی تو سب کہہ دیتے کہ "یہ شخص مسلمان ہے" لیکن منکرین کے نزدیک اتنی ساری عبارتیں ابو طالب(ع) کے اسلام و ایمان کی دلیل نہیں ہیں! اور یہ انکار حیرت اور عبرت کا سبب ہے"۔[27]

ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

ابو طالب(ع) کے یہ اشعار جداگانہ طور پر شایت قطعیت تک نہ پہنچ سکیں لیکن ان کی شاعری کی مجموعی دلالت تواتر کی حد تک پہنچ گئی ہے؛ اور ان کے اشعار ایک موضوع میں اشتراک رکھتے ہیں اور وہ مشترکہ موضوع رسول اللہ(ص) کی نبوت و رسالت کی تصدیق ہے۔[28]

ان اشعار میں سے ایک کچھ یوں ہے:

اے شاہد الہی! گواہ رہنا کہ میں پیغمبر احمد(ص)کے دین پر ہوں۔[29] یا دیگر اشعار میں کہتے ہیں: الله نے اپنے نبى محمد(ص)كو عزت و کرامت عطا کی ہے؛ پس باعزت ترین اور بہترین خلق خدا لوگوں کے درمیان احمد(ص)ہیں؛ وہ، وہ ہیں جو بنو ہاشم میں سے بہتر و افضل احمد(ص)ہیں جنہیں زمانۂ فترت (یعنی انبیاء کی غیر موجودگی کے زمانے) ميں اللہ تعالی نے رسول بنا کر بھیجا۔[30]] یا پھر کہتے ہیں: میں نے اپنے پروردگار کے رسول(ص) کی مدد و حمایت کی؛ اپنی بجلی (صاعقہ) کی سی تلوار سے اللہ کے رسول(ص) کی پشت پناہی کرتا ہوں؛ اس حامی و پشت پناہ کی مانند جو اپنے نبی(ص) کا ہمدرد ہے۔[31]


اہل سنت کے متعدد مؤرخین و مفسرین و محدثین نے رسول اللہ(ص) کی طفولیت کے زمانے میں آپ(ص) سے ابو طالب(ع) کے توسل اور آپ(ص) کے صدقے اللہ سے بارش کی التجا کے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے "جہلمہ بن عرفطہ" سے روایت کرتے ہیں؛ کہ جہلمہ نے کہا: ہم مسجد الحرام پہنچے؛ اور دیکھا کہ قریش گروہ گروہ کھڑے ہو کر اونچی آواز سے بارش طلب کررہے تھے؛ ان میں سے ایک نے کہا: لات و عزی سے مدد لو، دوسرا کہہ رہا تھا مناة سے ـ جو ان میں تیسرا ہے ـ سے مدد مانگو۔ ایک خوبصورت، خوش چہرہ اور نیک رائے معمر شخص نے بڑھ کر کہا: تم کدھر بھٹکتے پھرتے ہو جبکہ ابراہیم(ع) اور اسمعیل(ع) کی ذریت ہمارے درمیان موجود ہے۔ لوگوں نے کہا: کیا تمہار: کیا تمہاری مراد ابو طالب ہیں؟ معمر شخص نے کہا: ہاں؛ چنانچہ سب نے حضرت ابو طالب کے گھر کا رخ کیا؛ میں بھی ان کے ہمراہ روانہ ہؤا۔ ہم نے ابو طالب(ع) کے گھر پر دق الباب کیا تو ایک خوشرو مرد باہر آیا جس کا چہرہ (بظاہر بھوک کی وجہ سے) پیلا پڑ گیا تھا اور ان کے بدن پر ایک جامہ تھا جس سے انھوں نے بدن ڈھانپ رکھا تھا۔ لوگوں نے عرض کیا: اے اباطالب! دشت و صحرا سوکھ گئے ہیں اور لوگ قحط کا شکار ہوگئے ہیں۔ آجائیں اور ہمارے لئے استسقاء (باران طلب) کریں۔ ابو طالب(ع) نے کہا: سورج کے زوال اور ہوائیں اڑنے کے وقت آؤں گا۔ زوال ہوچکا تھا یا ہونے کو تھا جب ابو طالب(ع) گھر سے باہر آئے جبکہ ایک نہایت زیبا رخ صاحبزادے ان کی معیت میں آرہے تھے جو کالی گھٹاؤں کے بعد آشکار ہونے والے سورج کی مانند چمک رہے تھے اور کئی ان کے گرد حلقہ بنا کر آرہے تھے۔ ابو طالب(ع) اس بچے کے ہاتھ پکڑ لئے اور کعبہ سے ٹیک لگا کر ان کے بازو بغلوں سے پکڑ لئے (اور ان کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے) اور دوسرے نوجوان بھی ان کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے تھے۔ آسمان میں ایک ٹکڑا بھی بادل کا نظر نہیں آرہا تھا لیکن اچانک اطراف سے بادل شہر مکہ کی فضاؤں میں اکٹھے ہوئے اور بارش کا آغاز ہؤا اور بارش اتنی برسی کہ دشت و صحرا سیراب ہوگئے اور شدید بارش ہوئی۔ اور اسی مناسبت سے ابوطالب علیہ السلام نے یہ اشعار کہے:

وأبیضَ یسْتَسقى الغَمامُ بِوَجْههِ ٭٭٭ ثِمالُ الیتامى عِصْمَةٌ للأَرامِلِ ترجمہ: وہ سفید رو جس کے نورانی چہرے کی برکت سے لوگ بارش کے بادل کی التجا کرتے ہیں وہی جو یتیموں کا سرمایۂ سرور اور بیواؤوں کی پناہگاہ ہے۔
یلوذ به الهُلاّكُ من آل هاشمٍ ٭٭٭ فَهُمْ عِنْدَهُ فی نِعمةٍ وفواضلٍ ترجمہ: بنوہاشم کے بے چارہ افراد اس کی پناہ لیتے ہیں اور جب تک اس کے قریب ہوتے ہیں نعمت و بخشش میں زندگی بسر کرتے ہیں۔[32]۔[33]۔[34]۔[35]


یہاں حضرت ابو طالب کی نسل سے 12 اماموں کی تعداد کے مطابق ان کے 12 اشعار تبرک کے عنوان سے پیش کرتے ہیں:

ألم تعلموا أنا وجدنا محمدا ٭٭٭ نبيا كموسى خط في أول الكتب۔ ترجمہ: كيا تم نہيں جانتے كہ ہم نے محمد(ص)کو موسي(ع) كى طرح خدا كا نبى پايا ہے؟ يہ امر تمام كتابوں كى ابتداء (یا انبیاء سلف کی کتب) میں مذكور ہے

نبي أتاه الوحي من عند ربه ٭٭٭ ومن قال: لا، يقرع بهاسن نادم۔ ترجمہ: وہ پیغمہر ہیں اور وحی اللہ کی جانب سے ان پر نازل ہوتی ہے اور جو اس حقیقت کا انکار کرے ندامت کی وجہ سے انگشت بدندان رہ جائے گا

يا شاهد الله علي فاشهد ٭٭٭ إني على دين النبي أحمد ٭٭٭ من ضلّ فی الدّین فانّی مهتد۔ ترجمہ: اے اللہ کی طرف کے شاہد (اے آسمانی گواہ) تو گواہ رہ کہ بے شک میں پیغمبر خدا احمد مختار(ص) کے دین پر ہوں؛ جو دین میں گمراہ ہوا (سو ہوا لیکن)، میں ہدایت یافتہ ہوں

أنت الرسول رسول الله نعلمه ٭٭٭ عليك نزل من ذي العزة الكتب۔ ترجمہ: آپ بھیجے گئے (رسول) ہیں، اللہ کے بھیجے ہوئے، ہم یقین کے ساتھ اس حقیقت کو جانتے ہیں آپ کی طرف صاحب عزت (خدا) کی طرف سے کتب نازل ہوئی ہیں

أنت النبیُّ محمّدُ ٭٭٭ قرمٌ أغرُّ مسوَّدُ۔ ترجمہ: آپ خدا کے پیغمبر محمد(ص)ہیں اور آپ بزرگوار اور نورانی بزرگ و آقا و سید ہیں

لمسوّدینَ أكارم ٭٭٭ طابوا وطاب المولدُ۔ ترجمہ: ان لوگوں کے لئے جو کریم ہیں اور پاک ہیں اور پاک بزرگوں کی نسل سے ہیں

نعم الاُرومةُ أصلُها ٭٭٭ عمرو الخضمّ الأوحدُ۔ ترجمہ: آپ کی نسل اور آپ کا نسب بہترین ہے جو عمرو (ہاشم بن عبدمناف) کی طرف لوٹتا ہے جو بہت زیادہ بخشنے والے اور بےمثل و مانند تھے

اپنے افراد خاندان سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:

أو تؤمنوا بكتاب منزل عجب ٭٭٭ على نبي كموسى أوكذي النون۔ ترجمہ:یا ایمان لاؤ اور عجیب کتاب پر جو نازل ہوئی ایک نبی پر جو موسی یا یونس کی طرح ہیں

وظلم نبي جاء يدعو إلى الهدى ٭٭٭ و أمر أتي من عند ذي العرش قيم۔ ترجمہ: جو نبى ہدايت كى طرف بلانے آيا اس پر ظلم ہوا ، وہ صاحب عرش كى طرف سے آنے والى گراں بہا چيز كى طرف لوگوں كو بلانے آيا تھا

لقد أكرم الله النبي محمدا ٭٭٭ فاكرم خلق الله في الناس أحمد۔ ترجمہ: الله نے اپنے نبى محمد(ص)كو عزت و کرامت عطا کی ہے؛ پس باعزت ترین اور بہترین خلق خدا لوگوں کے درمیان احمد(ص)ہیں

وخير بني هاشم أحمد ٭٭٭ رسول الإله على فترة۔ ترجمہ: بنو ہاشم میں سے بہتر و افضل احمد(ص)ہیں جو اللہ کے رسول(ص) ہیں زمانۂ فترت (یعنی انبیاء کی غیر موجودگی کے زمانے) ميں

10۔ والله لا أخذل النبي ٭٭٭ ولا يخذله من بني ذوحسب۔ ترجمہ: الله كى قسم نہ ميں نبى كو بے يار ومدد گار چھوڑوں گا اور نہ ہى ميرے شريف ونجيب بيٹے آپ(ص) كو تنہا چھوڑ سكتے ہيں

11۔ بادشاہ حبشہ کو دعوت اسلام دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

أتعلم ملك الحبش أن محمدا ٭٭٭ نبيأ كموسى والمسيح ابن مريم۔ ترجمہ: کیا جانتے ہو اے بادشاہ حبشہ! کہ بےشک محمد(ص)نبی ہیں موسی اور عیسی بن مریم(ع) کی طرح

أتى بالهدى مثل الذي أتيا به ٭٭٭ فكل بأمر الله يهدي ويعصم۔ ترجمہ: ہدایت و کتاب لے کے آئے جس طرح کہ موسی اور عیسی کتاب لے کر آیئے تھے اور یہ سب اللہ کے حکم سے ہدایت پاتے اور گناہوں سے بچتے ہیں

وانكم تتلونه في كتابكم ٭٭٭ بصدق حديث لا حديث الترجم۔ ترجمہ: اور تم نصاری اس خبر کو اپنی کتاب میں سچی خبر کے ساتھ پڑھتے ہو نہ ایسے کلام میں جو گمان و تخمین پر مبنی ہو

فلا تجعلوا لله ندا فاسلموا ٭٭٭ فان طريق الحق ليس بمظلم۔ ترجمہ: پس اللہ كے ساتھ كسى كو شريك قرار نہ دو اور اسلام قبول کرو کیونکہ حق کا راستہ تاریک نہیں ہے

12۔ ابو طالب(ع) اپنے بھائی حمزہ کو دعوت اسلام دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

فصبرأ أبا يعلى على دين أحمد ٭٭٭ وكن مظهرا للدين وفقت صابرا۔ ترجمہ: اے ابا یعلی (حمزہ)! دین احمد(ص)پر صبر و استقامت کرو اور اپنا دین آشکار کردو خدا تمہیں صبر و استقامت کی توفیق دے

وحط من أتى بالحق من عند ربه ٭٭٭ بصدق وعزم لا تكن حمز كافرا۔ ترجمہ: جو (پیغمبر(ص)) اپنے پروردگار کی طرف حق و حقیقت کے ساتھ آئے ہیں ان کی حفاظت صدق دل اور عزم راسخ کے ساتھ کرنا اور کبھی بھی کافر نہ ہونا

فقد سرني أن قلت: انك مؤمن ٭٭٭ فكن لرسول الله في الله ناصرا۔ ترجمہ: بےشک مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے کہا کہ تم مؤمن ہوچکے ہو پس اللہ کی راہ میں رسول اللہ(ص) کے حامی و ناصر بن کے رہنا

وباد قريشا في الذي قد أتيته ٭٭٭ جهارا، وقل: ما كان أحمد ساحرأ۔ ترجمہ: اپنا ایمان قریش کے سامنے اپنے ایمان اور عقیدے کا کھل کر اظہار کرو اور کہہ دو کہ احمد(ص)ساحر نہیں ہیں۔[36]۔[37]۔[38]۔[39]

حدیث قدسی

ابو طالب(ع) پر جہنم کی آگ حرام ہے:

جبرائیل رسول اللہ(ص) پر نازل ہوئے اور کہا:

يا محمد إن الله جل جلاله يقرئك السلام ويقول: إني قد حرمت النار على صلب أنزلك، وبطن حملك، وحجر كفلك، فقال: يا جبرئيل بين لي ذلك، فقال: أما الصلب الذي أنزلك فعبد الله ابن عبد المطلب، وأما البطن الذي حملك فآمنة بنت وهب، وأما الحجر الذي كفلك فأبو طالب بن عبد المطلب وفاطمة بنت أسد۔ ترجمہ: بتحقیق اللہ جل جلالہ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے: میں نے آگ کو حرام قرار دیا اس صلب پر جو آپ کو دنیا میں لے کر آئی، اور اس کوکھ پر جس نے آپ کو حمل کیا اور اس آغوش پر جس نے آپ کی پرورش کی۔ میں نے کہا: یا جبرائیل! وضاحت کیجئے؛ تو جبرائیل نے کہا: جو صلب آپ کو دنیا میں لائی وہ عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں اور جس کوکھ نے آپ کو حمل کیا وہ آمنہ بنت وہب ہیں اور جس آغوش نے آپ کی پرورش کی وہ ابو طالب(ع) اور فاطمہ بنت اسد ہیں۔[40] دوسری روایت میں ہے کہ خداوند متعال نے جبرائیل کے زبانی رسول خدا(ص) سے فرمایا: اے (محمد(ص))! خداوند متعال نے جہنم کی آگ حرام کردی اس صلب پر جس نے آپ کو منتقل کیا (یعنی آپ کے باپ دادا)، اس کوکھ پر جس میں آپ پروان چڑھے (والدہ مکرمہ)، اور اس دامن اور گود پر جس نے آپ کی پرورش کی (ابو طالب(ع) اور فاطمہ بنت اسد(س)[41]

احادیث معصومین(ع)

بےشک رسول خدا(ص) اور ائمہ(ع) دین کے محافظ ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کی تعریف و تمجید کریں جس کا دین سے تعلق نہ ہو جس طرح کہ ابولہب ہمیشہ لعنت کا مستحق ٹہرا اور رسول خدا(ص) اور ائمہ(ع) کے ساتھ خونی رشتے کے باوجود اس کو نجات نہ ملی اور نہ ہی اہل بیت(ع) کے کلام میں اس کے لئے کوئی تعریفی جملہ پڑھنے کو ملتا ہے چنانچہ ابوطالب(ع) کی شان میں رسول خدا(ص) اور ائمہ(ع) کے اقوال اس حقیقت کہ وہ صاحب ایمان تھے اور صاحب ایمان رہے بلکہ ان کے ایمان کا پلڑا تمام صاحبان ایمان کے ایمان پر بھاری ہے۔

رسول خدا(ص)، امیرالمؤمنین(ع)اور ائمہ اطہار(ع) کے کے کلام میں ابو طالب(ع) کے فضائل سب اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ ابو طالب(ع) مؤمن ہیں اور ایمان و اسلامی شریعت پر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔

رسول اللہ(ص) کے فرامین

چونکہ حضرت محمد(ص)کو صدر اول کے دشوار ترین حالات میں ابو طالب(ع) کی حمایت حاصل تھی چنانچہ آپ(ص) کے سال و ماہ رسالت کے دوران جب بھی ابو طالب(ع) کا ذکر آتا تھا آپ(ص) انہیں عظمت، نیکی اور تکریم کے ساتھ یاد کرتے تھے۔ مروی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا:

...إنه لما كانت الليلة التى اسرى بى فيها إلى السماء انتهيت إلى العرش، فرأيت اربعة انوار فقلت: إلهى ما هذه الانوار، فقال يا محمد هذا عبد المطلب، وهذا عمك أبو طالب، وهذا أبوك عبد الله، وهذا اخوك طالب فقلت: إلهى وسيدي فبماذا نالوا هذه الدرجة؟ قال: بكتمانهم الايمان، واظهارهم الكفر وصبرهم على ذلك حتى ماتوا۔ ترجمہ: جس رات (شب معراج) مجھے آسمان پر لے جایا گیا اور عرش تک پہنچا تو میں نے چار نور دیکھے؛ اور پوچھا: یہ انوار کیا کئے ہیں؟ تو رب ذوالجلال نے فرمایا: یا محمد(ص)یہ عبدالمطلب ہیں، یہ آپ کے چچا ابوطالب، یہ آپ کے والد عبداللہ(ع) اور یہ آپ کے بھائی طالب ہیں۔ رسول خدا(ص) فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: یہ بزرگ کیونکر اس مقام و منزلت پر فائز ہوئے ہیں؟ پروردگار متعال نے فرمایا: اس لئے کہ انھوں نے اپنا ایمان راز میں رکھا، کفر کا اظہار کیا اور اسی حالت پر استقامت کی اور صبر کا دامن تھامے رکھا حتی کہ دنیا سے رخصت ہوئے۔[42]

رسول اللہ(ص) نے فرمایا:

وقال صلى الله عليه وآله يحشر ابو طالب يوم القيمة في زى الملوك وسيما الانبياء عليهم السلام ترجمہ: ابو طالب(ع) قیامت کے روز بادشاہوں کے زمرے اور انبیاء علیہم السلام کی صورت میں محشور کئے جائیں گے۔[43]

رسول خدا(ص) نے ابو طالب(ع) اور خدیجہ(س) کی وفات کے موقع پر فرمایا:

اجتمعت على هذه الامة في هذه الايام مصيبتان لا أدري بأيهما أنا أشد جزعا، يعني مصيبة خديجة وأبي طالب. وروي عنه أنه قال: إن الله، عزوجل، وعدني في أربعة: في أبي وأمي وعمي وأخ كان لي في الجاهلية ترجمہ: ان دنوں اس امت پر دو مصیبتیں اکٹھی ہوئی ہیں، نہ معلوم کہ مجھے ان دو مصیبتوں میں سے کس پر زیادہ صدمہ پہنچا ہے: خدیجہ کی مفارقت پر یا ابوطالب کی جدائی پر۔ اور مروی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: خدا نے مجھے قیامت میں چار افراد کی مغفرت کا وعدہ (یا شفاعت کا اذن) دیا ہے: میرے والد ((ع))، میری والدہ (آمنہ(ع))، میرے چچا ابو طالب(ع)، اور میرا بھائی جن کا انتقال جاہلیت کے دور میں ہوا تھا۔[44]

ائمۂ طاہرین(ع) کے ارشادات

امیرالمؤمنین علیہ السلام:

امام حسین(ع) سے مروی ہے کہ امیرالمؤمنین(ع)ایک صحن میں بیٹھے تھے اور لوگ بھی آپ(ع) کے ارد گرد تھے کہ اس اثناء میں ایک شخص نے اٹھ کر کہا: یا امیرالمؤمنین(ع)آپ اس مقام و منزلت پر فائز ہیں جو اللہ نے آپ کو عطا کیا ہے جبکہ آپ کے والد دوزخ میں معذّب ہیں! تو امیرالمؤمنین(ع)نے فرمایا:

خاموش ہوجاؤ خدا تیرا منہ توڑ دے! اس خدا کی قسم! جس نے محمد(ص)کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے کہ اگر میرے والد روئے زمین پر تمام گنہگاروں کی شفاعت کریں تو اللہ ان کی شفاعت قبول فرمائے گا؛ کیا میرے والد جہنم میں عذاب میں مبتلا ہونگے اور ان کا بیٹا "قسیم الجنۃ والنار" (جنت اور دوزخ کا تقسیم کرنے والا) ہوگا؟ اس خدا کی قسم! جس نے محمد(ص)کو نبی برحق بنا کر مبعوث فرمایا ہے کہ ابو طالب(ع) کا بتحقیق ابو طالب(ع) کا نور تمام خلائق کے انوار کو بجھادے گا سوائے پانچ انوار کے: محمد کا دور اور میرا نور اور فاطمہ کا نور اور حسن کا نور اور حسین کا نور اور ان کے بیٹوں کو نور جو امام ہیں، جان لو کہ ان کا نور ہمارے نور سے ہے جس کو اللہ نے خلقت آدم سے دو ہزار سال قبل خلق فرمایا تھا۔[45]۔ [46]

نیز امیرالمؤمنین(ع)فرماتے ہیں:

إن أبي حين حضره الموت شهده رسول الله صلى الله عليه واله فأخبرني فيه بشئ أحب إلي من الدنيا وما فيها ترجمہ: میرے والد حالت موت میں پہنچے تو رسول(ص) نے ان کی بالین پر حاضر ہوئے اور ان (میرے والد) کے بارے میں مجھے ایسی بشارت دی جو میرے لئے دنیا و ما فیہا سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے۔[47]

امام علی بن الحسین علیہ السلام

فاطمہ بنت اسد(س) آخری لمحوں تک ابوطالب(ع) کے نکاح میں تھیں

امام سجاد(ع) سے ایمان ابو طالب(ع) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ(ع) نے فرمایا:

واعجبا كل العجب أيطعنون على أبي طالب أو على رسول الله صلى الله عليه وآله وقد نهاه الله أن يقر مؤمنة مع كافر في غير آية من القرآن ؟ ولا يشك أحد أن فاطمة بنت أسد رضي الله عنهما من المؤمنات السابقات فانها لم تزل تحت أبي طالب جتى مات أبو طالب رضي الله عنه ترجمہ: کس قدر عجیب ہے اور کتنی حیرت کی بات ہے؛ کیا وہ ابو طالب(ع) پر الزام لگاتے ہیں یا وہ درحقیقت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ پر طعن و تشنیع کررہے ہیں؟ حالانکہ خداوند متعال نے اپنے رسول(ص) کو قرآن میں ایک سے زیادہ آیات میں منع کیا ہے کہ وہ مؤمن خاتون کو کافر مرد کے پاس نہ رہنے دیں؛ اور کسی کو بھی اس حقیقت میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا ان مؤمنات میں سے ہیں جو سابقین اولین کے زمرے میں آتے ہیں اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ وہ آخری لمحے تک ابو طالب(ع) کے نکاح میں رہیں۔[48]۔[49]۔[50] واضح رہے کہ ابو طالب(ع) کا گھر رسول خدا(ص) سے جدا نہ تھا اور رسول خدا(ص) عام طور ابو طالب(ع) کے گھر میں ہوتے تھے۔

امام باقر علیہ السلام

امام محمد باقر(ع) سے ابو طالب(ع) کے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ(ع) نے فرمایا:

لو وضع إيمان أبي طالب في كفة ميزان وإيمان هذا الخلق في الكفة الأخرى لرجح إيمانه ثم قال: ألم تعلموا أن أمير المؤمنين عليا عليه السلام كان يأمر أن يحج عن عبد الله وابنه وأبي طالب في حياته ثم أوصى في وصيته بالحج عنهم؟ ترجمہ: بے شک اگر ابوطالب (علیہ السلام) کا ایمان ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور تمام خلائق کا ایمان دوسرے پلڑے میں تو ابوطالب (علیہ السلام) کا ایمان ان سب پر بھاری ہوگا؛ اور فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ امیرالمؤمنین(ع)اپنی حیات میں حکم دیا کرتے تھے کہ (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ کے والد ماجد) عبد اللہ بن عبدالمطلب، اور ان کے فرزند، اور آپ(ص) کی والدہ (آمنہ(س) اور ابو طالب(ع) کے لئے حج بجا لایا جائے اور اپنی شہادت کے وقت اپنی وصیت میں ہدایت کی کہ ان حضرات کی جانب سے حج بجا لایا جاتا رہے۔[51]۔[52]

امام صادق علیہ السلام

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

إن مثل أبي طالب مثل أصحاب الكهف أسروا الايمان وأظهروا الشرك فآتاهم الله أجرهم مرتين ترجمہ: ابو طالب(ع) کی مثال اصحاب کہف کی مثال ہے جنہوں نے اپنا ایمان خفیہ رکھا اور شرک کو ظاہر کیا پس خداوند متعال نے انہیں دو گنا اجر عطا کیا۔[53]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے یونس بن نباتہ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

ان أبا طالب من رفقاء النبيين والصديقين والشهداء والصالحين وحسن اولئك رفيقا ترجمہ: بےشک ابو طالب(ع) انبیاء، صدیقین، شہدائے راہ خدا اور صالحین کے رفیق و ہم نشین ہیں اور یہ بہت ہی اچھے رفیق ہیں۔[54]

نیز امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

كان والله أمير المؤمنين يأمر أن يحج عن أب النبي وأمه وعن أبي طالب في حياته، ولقد أوصى في وصيته بالحج عنهم بعد مماته ترجمہ: (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ کے والد ماجد) عبد اللہ بن عبدالمطلب، اور ان کے فرزند، اور آپ(ص) کی والدہ (آمنہ(س) اور ابو طالب(ع) کے لئے حج بجا لایا جائے اور اپنی شہادت کے وقت اپنی وصیت میں ہدایت کی کہ ان حضرات کی جانب سے حج بجا لایا جاتا رہے۔[55]

امام رضا(ع)

وروى أن ... إبان بن محمود كتب إلى على بن موسى الرضا عليه السلام جعلت فداك إنى قد شككت في إسلام ابى طالب فكتب إليه "وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيراً"[56] بعدها إنك إن لم تقر بايمان ابى طالب كان مصيرك إلى النار۔ ترجمہ: ابان بن محمود ... نے امام رضا(ع) کو لکھا کہ: آپ پر فدا ہوجاؤں، میں ابو طالب(ع) کے اسلام لانے کے حوالے سے شک میں پڑ گیا ہوں؛ پس امام(ع) نے جوابا تحریر فرمایا: "اور جو صحیح راستہ نمایاں ہو جانے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور ایمان والوں کے راستے کے خلاف راستہ چلے، اسے جدھر وہ گیا ہے، اسی طرف ہم جانے دیں گے اور اسے دوزخ کی آگ کا مزہ چکھائیں گے اور وہ بہت بری باز گشت ہے"، اور بعد یہ کہ اگر تم نے ابو طالب(ع) کے ایمان کا اقرار نہ کیا تو تمہارا انجام جہنم کی آگ ہے۔[57]۔[58]

امام رضا(ع) نے فرمایا:

كان نقش خاتم أبى طالب عليه السلام: "رَضِيتُ بِاللهِ رَبّاً وَبِإِبنِ أَخِي مُحَمَّدٍ نَبِيّاً " وَبِإِبنِي عَلِيٍ لَهُ وَصِيّاً" ترجمہ: ابو طالب علیہ السلام کی انگشتری کا نقش یہ تھا: "میں نے اللہ کو اپنے پروردگار کے طور پر، اپنے بھتیجے محمد(ص)کو اپنے پیغمبر کے طور پر اور اپنے بیٹے علی(ع)کو آپ(ص) کے وصی کے طور پر پسند کیا۔[59]

امام عسکری علیہ السلام

إن الله تبارك وتعالى أوحى إلى رسوله صلى الله عليه وآله إني قد أيدتك بشيعتين: شيعة تنصرك سراً، وشيعة تنصرك علانيةً، فأما التي تنصرك سراً فسيدهم وأفضلهم عمك أبو طالب، وأما التي تنصرك علانية فسيدهم وأفضلهم ابنه علي بن أبي طالب ثم قال: وإن أبا طالب كمؤمن آل فرعون يكتم إيمانه ترجمہ: خداوند متعال نے اپنے رسول(ص) کو وحی بھجوا کر فرمایا: میں نے دو گروہوں کے ذریعے آپ کی مدد کی ایک گروہ وہ جو رازداری کے ساتھ آپ کی مدد کرتا ہے اور ایک وہ جو اعلانیہ طور آپ کی مدد کرتا ہے؛ پس جو لوگ رازداری سے آپ کی مدد کرتے ہیں ان کے سید و سردار اور ان میں افضل ترین جناب ابو طالب(ع) ہیں اور جو لوگ اعلانیہ طور پر آپ کی مدد کرتے ہیں ان کے سید و افضل ان کے بیٹے علی(ع) ہیں؛ اور پھر فرمایا: ابوطالب مؤمن آل فرعون کی طرح ہیں جو اپنا ایمان چھپا کر رکھتے ہیں۔[60]

بزرگان دین اور علماء کے اقوال

شیخ طوسی کہتے ہیں: اس حقیقت پر امامیہ کا اجماع ہے کہ ابو طالب(ع) مسلمان تھے؛ اس سلسلے میں ان کے درمیان اختلاف نہیں ہے۔ ان کے پاس یقین تک پہنچا دینے والے دلائل ہیں جو ایمان ابو طالب(ع) پر علم پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں۔[61]

امین الاسلام طبرسی تصریح کرتے ہیں کہ اہل بیت(ع) کا اجماع ایمان ابو طالب(ع) پر مبنی ہے اور ان کا اجماع حجت ہے۔[62]

فتّال نیشابوری کہتے ہیں: شیعیان آل محمد(ص) کے مذہب برحق نے اجماع کیا ہے اس حقیقت پر کہ ابو طالب(ع)، عبد اللہ بن عبدالمطلب(ع) اور آمنہ بنت وہب سب مؤمن تھے اور یہ اجماع حجت ہے۔[63]

فخار بن معد موسوی قائل ہیں کہ ایمان ابو طالب(ع) کے سلسلے میں اہل بیتِ رسول خدا(ص) کا اجماع اور شیعہ علماء کا اتفاق ہمارے لئے کافی ہے اور اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔[64]

سید بن طاؤس کہتے ہیں: ایمان ابو طالب(ع) پر عترتِ رسول(ص) کے تمام علماء کا اتفاق ہے؛ نیز وہ کہتے ہیں: عترت (یعنی اہل بیت(ع)) ابو طالب(ع) کے باطن سے بیگانوں کی نسبت زیادہ آگاہ ہیں؛ نیز شیعیان اہل بیت(ع) نے اس موضوع پر اجماع کیا ہوا ہے اور اس بارے میں متعدد کتب تصنیف کی ہیں۔[65]

علامہ مجلسی لکھتے ہیں: شیعیان اہل بیت(ع) کا ابو طالب(ع) کے اسلام پر اجماع ہے اور انہیں یقین ہے کہ ابو طالب(ع) نے رسول خدا(ص) کی بعثت کے آغاز میں ہی اسلام قبول کیا اور انھوں نے قبل ازاں بھی کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی، بلکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اوصیاء میں سے تھے اور یہ حقیقت اس قدر شیعیان آل رسول(ص) کے درمیان مشہور ہے کہ حتی مخالفین بھی اس کو شیعہ سے نسبت دیتے ہیں۔ ان کے ایمان پر احادیث و روایت متواترہ شیعہ اور سنی کے منابع و مصادر سے نقل ہوئی ہیں؛ اور ہمارے بہت سے علماء اور محدثین نے اس موضوع پر مستقل کتب تالیف کی ہیں تا کہ یہ حقیقت کسی سے مخفی نہ رہے۔[66]

کتابیات ابو طالب(ع)

آقا بزرگ طہرانی نے 9 کتابوں کا ذکر کیا ہے جو ایمان ابو طالب(ع) کو موضوع بنا کر لکھی گئی ہیں۔[67] بعض کتب کچھ یوں ہیں:

  1. ایمان ابی طالب تألیف شیخ مفید، متوفای 413 ہجری۔
  2. الحجة علی الذاهب إلی تکفیر أبی‏ طالب تألیف سید فخار بن معد، متوفای 630 ہجری۔
  3. منیة الطالب فی إیمان أبی ‏طالب تألیف سید حسین طباطبایی یزدی حائری، متوفای 1306 ہجری۔
  4. بغیة الطالب فی إیمان أبی‏ طالب تألیف سید محمّد عباس تستری هندی، متوفای 1306 ہجری۔
  5. مقصد الطالب فی إیمان آباء النبی و عمّه أبی‏طالب تألیف میرزا حسین گرگانی۔
  6. القول الواجب فی إیمان أبی‏ طالب تألیف شیخ محمد علی فصیح هندی۔

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. المفید، الفصول المختارة، صص283-284۔
  2. بخاری،صحیح، ج 4، ص247۔
  3. امینی، الغدیر، ج 8، ص12۔
  4. امینی، الغدیر، ج 8، ص9۔
  5. صحیح البخاری، ج5، ص115، ح4605، كتاب التفسیر، ب27، باب یسْتَفْتُونَكَ قُلِ الله یفْتِیكُمْ فِی الْكَلاَلَہ۔۔
  6. تاریخ و سیرت و تفسیر کی کتب میں ہے کہ جب سورہ برائت نازل ہوئی تو رسول اللہ(ص) نے ابوبکر کو حکم دیا کہ مکہ جاکر مشرکین کو یہ سورت پڑھ کر سنائیں؛ وہ چلے گئے تو آپ(ص) نے علی(ع)کو روانہ کیا اور فرمایا کہ سورہ برائت ان سے لے کر مکیوں کے لئے تلاوت کریں اور ابوبکر کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا کہ خداوند متعال کی طرف سے حکم آیا تھا کہ یہ کام میرے یا ایسے مرد کے سوا کسی کو نہیں کرنا چاہئے جو مجھ سے ہو۔ رجوع کریں: ابن هشام، السيرة، ج‏4، ص545 وغيرہ۔ نیز رجوع کریں الآلوسی، تفسیر روح المعانى، ج‏10، تفسير سوره توبه، ص45۔
  7. طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل‌ای القرآن، ج 7، ص228۔
  8. ابن حبان، محمد، ثقات، ج 4، ص137۔
  9. جامع البیان، ج 7، ص229۔
  10. بخاری، ج4، ص247۔
  11. مجلسی، بحار الانوار، ج35 ص112۔
  12. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج14 ص70۔
  13. اہل سنت کے اکابرین مغیرہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں: رسول خدا(ص) نے مغیرہ بن شعبہ کے بارے میں کہا: قبیلہ ثقیف سے ایک جھوٹا اور قاتل شخص برآمد ہوگا۔ (رجوع کریں: ابن کثیر، البداية والنهاية ج6 ص265)۔ <> معاویہ نے بغاوت کا علم اٹھایا اور علی(ع)کے درمیان جنگ چھڑی تو مغیرہ نے حج کے موقع پر لوگوں کو معاویہ کی اطاعت گزاری کی دعوت دی۔(ابن عساکر، تاريخ دمشق ج43 ص60)۔ علی(ع)نے مغیرہ کے بارے میں فرمایا: وہ ایسا شخص ہے جو حق کو باطل کے ساتھ مخلوط کردیتا ہے اور فرمایا: اس کے اسلام لانے کا سبب فسق و فجور تھا اور وہ حیلت و مکاری جو اس نے اپنی قوم کے افراد کے ساتھ روا رکھی تھی؛ وہ انہیں قتل کرنے کے بعد فرار ہوکر مدینہ پہنچا اور اسلام کا اظہار کیا۔(ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه ج4 ص80)۔ مغیرہ لوگوں کو دعوت دیتا تھا کہ امیرالمؤمنین(ع)پر سب و لعن کریں۔ (مجلسی، بحارالانوار ج30 ص653)۔ اس نے ایک ہزار عورتوں سے نکاح کیا اور انہیں طلاق دی۔ (علي بن برهان الدين الحلبي، السيرة الحلبية ج3 ص15)۔ مغیرہ کی زناکاری کی روایت بھی مشہور ہے(ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج4 ص69)۔
  14. طوسی، تفسیر التبیان، ج 10، ص187۔
  15. العاملي، جعفر مرتضي، الصحيح من سيرة النبي الاعظم(ص)، ج3 ص232۔
  16. شرح نهج البلاغه، ج 13، ص272۔
  17. الحلبی، سیره حلبیه، ج 1، ص433۔
  18. ابن اثير، اسدالغابة في معرفة الصحابة، ج1، ص287۔
  19. الكلاعی الأندلسی, الإكتفاء بما تضمنه من مغازی رسول الله والثلاثة الخلفاء، ج1، ص295۔
  20. الصالحی الشامی، سبل الهدى والرشاد فی سیرة خیر العباد، ج2، ص429۔
  21. الحلبی، السیرة الحلبیة، ج2، ص49۔
  22. العاصمی المكی، سمط النجوم العوالی فی أنباء الأوائل والتوالی، ج1، ص394۔
  23. الغدیر، ج 7، ص367۔ علامہ امینی مزید لکھتے ہیں کہ وصیت سبط بن جوزی کی کتاب "تذكرة الخواص کے ص5، السيوطي جلال الدين، الخصائص الكبرى کی ج1 ص87، السيرة الحلبية ج1 صص372-375، سيرة زيني دحلان هامش الحلبية 1: 92، 293 اور أسنى المطالب ص10، پر بھی نقل ہوئی ہے۔
  24. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج 14، ص71 - 83۔
  25. شیخ مفید، ایمان ابی طالب، ص 18۔
  26. شیخ مفید، وہی ماخذ۔
  27. الغدیر، ج 7، ص341۔
  28. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج14، ص 78۔
  29. ابن ابی الحدید، وہی ماخذ۔
  30. ابن ابی الحدید، وہی ماخذ۔
  31. ابن ابی الحدید، وہی ماخذ۔
  32. دینوری، المجالسة وجواهر العلم، ج1 ص432۔
  33. ذهبی، تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر، ج1، ص53۔
  34. سیوطی، الخصائص الكبرى، ج1، ص146۔
  35. صالحی شامی، سبل الهدى والرشاد، ج1، ص8۔
  36. محمد بن إسحاق بن یسار، سیرة ابن إسحاق، ج2، ص 138۔
  37. امینی، عبدالحسین، الغدير ج 7 ص 382 و 383۔
  38. العاملي، السيد جعفر مرتضي، الصحيح من سيرة النبي الاعظم(ص)، ج3 ص230۔
  39. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج14، ص 78۔
  40. معانی الاخبار، ص137۔
  41. اصول کافی /ج1/ص371 و الصحیح/ج4/ص15۔
  42. فتال نيشابوری، روضة الواعظین، ج1 ص199۔
  43. ابن بابویه قمی، الامامة والتبصرة، ص176۔
  44. أحمد بن أبي يعقوب، تاریخ یعقوبی، ج 2، ص35۔
  45. مجلسی، بحار الانوار، ج35 ص110۔
  46. کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، ص80۔
  47. بحارالانوار، ج35، ص113۔
  48. بحارالانوار، ج 35، ص157
  49. شرح نهج البلاغه، ج 14، ص69۔
  50. نجم الدین العسکری، ابوطالب حامی الرسول، صص48،49۔
  51. امینی، الغدیر، ج 7، ص380۔
  52. ابن أبي الحديد شرح نهج البلاغه، ج14 ص68۔
  53. کلینی، الکافی، ج1، ص448۔
  54. الكراجكى، ابي الفتح محمد بن علي، کنز الفوائد، ص80۔
  55. مجلسی، بحار الانوار، ج35 ص146۔
  56. سورہ نساء، آیت 115۔
  57. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج 14ص68۔
  58. بحارالانوار، ج 35، ص110۔
  59. المدني، السيد علي ابن معصوم، الدرجات الرفيعة، ص60۔
  60. موسوی، فخار بن معد، الحجة علی الذاهب، ص362۔
  61. طوسی، تفسير التبیان، ج 8، ص164۔
  62. طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج 4، ص31۔
  63. نیشابوری، فتال، روضه الواعظین، ص138۔
  64. موسوی، فخار بن معد، الحجة علی الذاهب، ص64۔
  65. الطرائف، ص398۔
  66. مجلسی، بحارالانوار، ج 35، ص138۔
  67. الذریعه، ج 2، ص512 و 513۔

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بی‌جا، درر احیاء الکتب العربیه، 1378 هـ۔
  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، بیروت، دارالکتاب العربی، بی‌تا۔
  • ابن بابویه قمی، علی بن الحسین، الامامة والتبصرة، قم، مؤسسة الامام المهدی، 1404 هـ۔
  • ابن حبان، محمد، الثقات، مؤسسة الکتب الثقافیة، 1393 هـ۔
  • ابن طاووس حلی، علی بن موسی، الطرائف فی معرفة مذاهب الطوائف، قم، خیام، 1399 هـ۔
  • ابن معد، سید فخار، الحجة علی الذاهب الی تکفیر ابی طالب، قم، سیدالشهداء، 410 هـ۔
  • امینی، عبدالحسین، بیروت، دارالکتاب العربی، 1397 هـ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، بیروت، دارالفکر، 1401 هـ۔
  • تهرانی، آقا بزرگ، الذریعة الی تصانیف الشیعة، بیروت، دار الاضواء، 1403 هـ۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل‌ای القرآن، بیروت، دارالفکر، 1415 هـ۔
  • طبرسی، فضل بن الحسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسه الاعلمی، 1415 هـ۔
  • طوسی، محمد بن الحسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق احمد حبیب قصیر العاملی، بی‌جا، مکتب الاعلام الاسلامی، 1409 هـ۔
  • صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، تحقیق علی اکبر غفاری، قم، مؤسسه النشر الاسلامی، 1338 ش۔
  • کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، قم، مکتبه المصطفوی، 1369 ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تهران، دار الکتب الاسلامیه، 1363 ش۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسه الوفاء، 1403 هـ۔
  • المفید، الفصول المختارة، تحقيق: السيد نور الدين جعفريان الاصبهاني، يعقوب الجعفري، محسن الأحمدي، بیروت: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع، 1414-1993م۔
  • مرتضی العاملی، سید جعفر، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، بیروت، دار السیرة، 1415هـ۔
  • مدنی، سید علی خان، الدرجات الرفیعه فی طبقات الشیعه، تحقیق محمد صادق بحرالعلوم، قم، مکتبه بصیرتی، 1397 هـ۔
  • نیشابوری، محمد بن فتال، روضة الواعظین، قم، شریف الرضی، بی‌تا۔
  • نیشابوری، محمد بن فتال، روضة الواعظین، تحقیق غلامحسین مجیدی، مجتبی الفرجی، ط دلیل ما، 1432ہجری، 1381ہجری شمسی.
  • یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، نجف، المکتبه الحیدریه، 1384هـ۔
  • الدینوری، أبو بكر أحمد بن مروان بن محمد القاضی المالكی (متوفای 333هـ)، المجالسة وجواهر العلم، ناشر: دار ابن حزم ـ لبنان/ بیروت ـ 1423هـ ـ 2002م، الطبعة: الأولى۔
  • الذهبی، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفای748هـ)، تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر والأعلام، تحقیق د۔ عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربی ـ لبنان/ بیروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ ـ 1987م ـ
  • السیوطی، عبد الرحمن بن أبی بكر (متوفای911هـ)، الخصائص الكبرى،ناشر: دار الكتب العلمیة ـ بیروت ـ 1405هـ ـ 1985م۔
  • الصالحی الشامی، محمد بن یوسف (متوفای942هـ)، سبل الهدى والرشاد فی سیرة خیر العباد، تحقیق: عادل أحمد عبد الموجود وعلی محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمیة ـ بیروت، الطبعة: الأولى، 1414هـ۔
  • الكلاعی الأندلسی، أبو الربیع سلیمان بن موسى (متوفای634هـ)، الإكتفاء بما تضمنه من مغازی رسول الله والثلاثة الخلفاء، تحقیق محمد كمال الدین، ناشر: عالم الكتب ـ بیروت، الطبعة: الأولى، 1417هـ
  • أبو طالب عليه السلام حامي الرسول وناصره صلى الله عليه واله وسلم تأليف نجم الدين العسكري مطبعة الاداب في النجف الاشرف 1380 ه‍
  • الصالحی الشامی، محمد بن یوسف، سبل الهدى والرشاد فی سیرة خیر العباد، تحقیق: عادل أحمد عبد الموجود وعلی محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمیة ـ بیروت، الطبعة: الأولى، 1414هـ ـ
  • الحلبی، علی بن برهان الدین، السیرة الحلبیة فی سیرة الأمین المأمون، ناشر: دار المعرفة ـ بیروت – 1400 ـ
  • العاصمی المكی، عبد الملك بن حسین الشافعی، سمط النجوم العوالی فی أنباء الأوائل والتوالی، تحقیق: عادل أحمد عبد الموجودـ علی محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمیة۔