قائم آل محمد

ویکی شیعہ سے

قائم آل محمد امام زمانہ (عج) کے القاب میں سے ہے جو آخر الزمان میں موعود کے قیام کی یاد دلاتا ہے۔ اگر چہ بہت سی روایات میں قائم سے مراد امام مہدی علیہ السلام ہیں، لیکن دوسری بہت سے روایات میں یہ لقب تمام ائمہؑ کے لئے اس عنوان سے کہ وہ تمام حضرات خداوند عالم کے حکم پر قیام کرنے والے ہیں، استعمال ہوا ہے۔ شیعوں کا ایک گروہ دوسری اور تیسری صدی ہجری میں بعض ائمہ حتی کہ ان کی اولاد کو موعود خیال کرتا تھا اور ان کے ظہور کے انتظار میں تھا۔

قائم احادیث میں

بہت سی روایات میں، قائم آل محمد کو امام زمانہ علیہ السلام کے القاب میں سے شمار کیا گیا ہے۔[1] لیکن دوسری بہت سی احادیث میں قائم سے مراد حضرت مہدی (عج) نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد حق کے لئے قیام کرنے والا ذکر ہوا ہے۔شیخ کلینی نے اپنی کتاب کافی میں ایک باب، فی ان الائمۃ کلھم قائمون بامر اللہ۔ یعنی تمام ائمہ امر خدا کے قیام کرنے والے ہیں، کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ ھو قائم اھل زمانہ،[2] کلنا قائم بامر اللہ،[3] اور اس جیسی دوسری تعابیر جو روایات میں بیان ہوئی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لفظ قائم امام زمانہؑ سے مختص و مخصوس نہیں ہے۔[4]

حضرت مھدی کو قائم کہنے کی علت

امام زمانہؑ کا قیام چونکہ ان کی زندگی سے مربوط مھم ترین واقعات میں سے ہے، اس لئے یہ لقب ہمیشہ ان کے سلسلہ میں معصومین علیہم السلام سے اقوال میں مورد تاکید واقع ہوا ہے۔ بعض احادیث میں اس علت کی تصریح کی گئی ہے جیسے:

امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوا ہے: انہیں (مہدی) کو قائم کا لقب دیا گیا ہے کیونکہ وہ حق کے لئے قیام کریں گے۔[5]

امام محمد تقیؑ سے بھی سوال کیا گیا کہ کیوں انہیں (مھدی) قائم کہا جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا: کیونکہ وہ اپنا نام اور ذکر فراموش کر دیئے جانے کے بعد قیام کریں گے۔[6]

تاریخی مصداق

ائمہؑ کے دور میں بعض شیعوں نے قائم کے لقب کو ان کے یا ان کے بیٹوں کے اوپر منطبق کیا ہے:

دوسرے ائمہ کو قائم سمجھنا

امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کے بعد بعض لوگوں نے اس عقیدہ کے ساتھ کہ وہی قائم منتظر ہیں، آپ کی امامت پر توقف کر لیا۔ بغدادی کہتے ہیں: امام باقرؑ کی شہادت کے بعد ان کے اصحاب میں سے ایک گروہ ان کے مہدی ہونے کا قائل ہو گیا[7] اور شہرستانی نے تاکید کی ہے کہ وہ لوگ آپ کے سلسلہ میں رجعت کے قائل ہو گئے تھے۔[8]

امام موسی کاظم علیہ السلام کی زندگی میں لوگ اس انتظار میں تھے کہ آپ قائم آل محمد کے عنوان سے ایسی بر حق حکومت کی تاسیس کریں گے کہ جس کا لوگ مدتوں سے انتظار کر رہے تھے۔ امام کاظمؑ کی شہادت کے بعد ان کے برجستہ ترین اصحاب اور وکلاء مختلف علاقوں میں اس نظریہ کے قائل ہو گئے کہ امام زندہ ہیں اور نظروں سے غائب ہو گئے ہیں اور عنقریب قائم آل محمد کے عنوان سے ظہور کریں گے اور حکومت عدل الہی قائم کریں گے۔[9] اس گروہ کو واقفیہ کہا گیا ہے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد بعض افراد اس بات کہ قائل ہو گئے کہ آپ ہی مہدی موعود ہیں۔ شیخ صدوق کہتے ہیں: حسن بن علی بن محمد پر توقف کرنے والے افراد کہتے تھے کہ وہ غیبت میں چلے گئے ہیں اور ان کا ماننا تھا کہ وہی مھدی قائم ہیں۔[10]

ائمہؑ کے بیٹوں کو قائم سمجھنا

کیسانیہ وہ لوگ ہیں جو محمد بن حنفیہ کی امامت، ان کے مہدی ہونے اور قائم ہونے کے قائل ہو گئے تھے۔ ان کے ایک گروہ کا ان کی وفات کے بعد یہ ماننا تھا کہ وہ غیبت میں چلے گئے ہیں اور جلدی ہی خروج کریں گے۔[11]

زیدیہ کے بعض گروہ بھی اپنے قیام کرنے والے رہبروں کے سلسلہ میں ان کے مہدی ہونے کا دعوی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ لوگ ایک دن ظہور کریں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ وہ لوگ زید بن علیؑ،[12] نفس زکیہ[13] اور بعض دوسرے زیدی رہبروں کے سلسلہ میں ان کے مہدی ہونے کا دعوی کرتے تھے۔[14]

اسماعیلیہ فرقہ بھی جو امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے بعد وجود میں آیا۔ ان میں دو گروہ بن گئے تھے: ایک میں سے ایک گروہ اسماعیل کے بیٹے محمد کو امام ماننا تھا تو دوسرے گروہ نے اسماعیل کی امامت پر توقف کر لیا اور وہ اس بات کے قائل ہو گئے کہ وہی مہدی ہیں۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اسماعیل کا انتقال نہیں ہوا ہے بلکہ ان کے والد امام صادقؑ نے انہیں نظروں سے پوشیدہ کر دیا ہے تا کہ انہیں کوئی نقصان نہ پہچے اور وہ ایک زندہ کئے جائیں گے تا کہ پوری دنیا پر حکومت کر سکیں۔ اسماعیلیہ کے اس گروہ کو خالصہ کہا جاتا ہے۔[15] محمد بن اسماعیل کے ماننے والوں میں سے ایک گروہ ان کی مہدی ہونے کا قائل ہو گیا اور اس نے ان کی امامت پر توقف کر لیا۔[16]

حوالہ جات

  1. رجوع کریں: مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۸۰ و ۳۸۶؛ نعمانی، الغیبه، ص۲۳۴؛ طوسی، الغیبه، ص۴۶۵
  2. الکافی، ج۱، ص۵۳۷
  3. الکافی، ج۱، ص۵۳۶
  4. تونه‌ ای، مجتبی، موعود نامه (فرهنگ الفبایی مهدویت) ص۵۵۰
  5. مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۸۳
  6. صدوق، کمال الدین، ج۲، ص۳۷۸
  7. عبد القاهر بن طاهر بغدادی، الفرق بین الفرق، (بیروت، دارالآفاق الجدیده، ۱۹۷۸)، ص۵۹.
  8. محمد بن عبد الکریم شهرستانی، کتاب الملل والنحل، (قاهره، مکتبه انجلوا، ۱۹۵۶)، ص‏۱۴۷.
  9. مدرسی طباطبایی، مکتب در فرایند تکامل، ص۱۲۳-۱۲۶
  10. صدوق، کمال الدین، ص۴۰.
  11. نوبختی، فرق الشیعه، ص۲۸
  12. مجموع کتب و رسائل امام زید بن علی، ص۳۶۰؛ مروج الذهب، ج۳،ص۲۳۰؛ العقد الثمین فی أحکام الأئمة الطاهرین، ص۱۹۷.
  13. مقاتل الطالبیین (۱۴۱۹ق.)، ص ۲۰۷ و ص۲۱۰ـ۲۱۹؛
  14. رجوع کریں: سید علی موسوی نژاد، مهدویت و فرقه حسینیه زیدیه، هفت آسمان، ش ۲۷، پاییز ۱۳۸۴ش، ص۱۲۷ ـ ۱۶۲.
  15. نوبختی، فرق الشیعه، ص۶۷ - ۶۸.
  16. نوبختی، فرق الشیعه، ص۷۳.

مآخذ

  • تونه‌ای، مجتبی، موعود نامه (فرهنگ الفبایی مهدویت)، دوازدهم، قم، میراث ماندگار، ۱۳۸۹ ش.
  • کلینی، الکافی، دوم، تهران، اسلامیة، ۱۳۶۲ش.
  • مدرسی طباطبایی، سید حسین، مکتب در فرایند تکامل نظری بر تطور مبانی فکری تشیع در سه قرن نخستین، ترجمه هاشم ایزد پناه، هفتم، تهران، کویر، ۱۳۸۸.
  • مفید، الارشاد، اول، قم، كنگره شيخ مفيد، ۱۴۱۳ق.
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعه، نجف، حیدریه، ۱۳۵۵ق.
  • ابو الفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، بیروت، اعلمی، ۱۴۱۹ق.