توقیعات امام مہدی(عج)

ویکی شیعہ سے

توقیعات امام مہدی (عج) سے مراد شیعوں کے بارہویں امام؛ امام مہدیؑ کے ان خطوط اور مراسلات کو کہا جاتا ہے جو آپ نے غیبت صغری کے زمانے میں اپنے شیعوں کے سوالات کے جواب میں تحریر فرمائی ہیں۔

کتب احادیث میں مختلف فقہی، اعتقادی اور دوسرے موضاعات سے متعلق امام مہدی (عج) کی تقریبا 100 توقیعات کا ذکر ہوا ہے۔ یہ توقیعات، امام مہدی (عج) کے دست مبارک سے تحریر کی گئی ہیں یا آپ نے نواب اربعہ کے ذریعہ لکھوائی ہیں۔ شیعہ فقہ میں شرعی احکام کے استنباط کے لئے بھی ان توقیعات کو بطور دلیل استعمال کیا گیا ہے۔

شیخ طوسی کی کتاب الغیبہ اور شیخ صدوق کی کتاب کمال الدین میں ان توقیعات کو ایک جداگانہ باب میں پیش کئے ہیں۔ نیز توقیعات امام زمانہ کے نام سے مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔

توقیع کے معنی

شیعوں کے ائمہ کے خطوط اور تحریروں کو توقیع کہا جاتا ہے۔[1] غیبت صغریٰ میں امام مہدی (عج) کے نام شیعوں کے خطوط اور امام کی طرف سے ان کے جوابات نواب اربعہ کے ذریعہ در و بدل ہوا کرتے تھے۔[2] امام مہدی (عج) کی توقیعات کبھی خود امام کے ہاتھ سے لکھی ہوتی تھیں اور کبھی امام املا فرماتے تھے اور نواب اربعہ لکھا کرتے تھے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق امام(عج) کی بعض توقیعات میں آپ مہر بھی ہوا کرتی تھی۔[3] بعض خطوط میں ایسا بھی ملتا ہے کہ امام (عج)نے اس بات کی تصریح کی ہے یہ تحریر انہی کی ہے۔[4] عبداللہ ابن جعفر حمیری لکھتے ہیں: جب ابو عمرو (امام مہدی(عج) کے پہلے نائب) کی وفات ہوگئی تو ہمیں ابو جعفر (امام مہدی (عج) کے دوسرے نائب) کی جانشنیی کے سلسلے میں کچھ خطوط موصول ہوئے، جو اسی دستخط کے ساتھ لکھے گئئے تھے جس میں ہم پہلے خط و کتابت کیا کرتے تھے۔[5] نیز امام مہدی (عج) کی ایک توقیع ایسی بھی ملتی ہے جو احمد ابن ابراہیم نوبختی کے دستخط سے لکھا گیا ہے، جسے حسین بن روح (امام مہدی (عج) کے تیسرے نائب) نے لکھوایا ہے۔[6]

دیگر استعمالات

لفظ توقیع کا استعمال بارہویں امام کی غیر مکتوب احادیث کے بارے میں بھی کیا جاتا ہے؛[7] جیسا کہ شیخ صدوق امام مہدی (عج) کی بہت سی احادیث کو توقیعات کے حصے میں لائے ہیں۔[8] اسی طرح نواب اربعہ کی بعض باتیں جیسے عالم غیب سے متعلق ان کی باتیں اور دینی مسائل کے تئیں ان کے خیالات کو بھی توقیعات کے ضمن میں ذکر کیا گیا ہے۔[9] اس کی وجہ شاید حسین بن روح نوبختی کا اپنے بارے میں [10] یہ کہنا ہو: ’’دین کے سلسلے میں خود سے کچھ نہیں کہتا بلکہ جو بھی کہتا ہوں وہ اصلی سرچشمہ امام مہدی (عج) سے سن کر کہتا ہوں۔‘‘[11]

توقیعات کی تعداد

کتب حدیث میں امام مہدی (عج) کی تقریبا سو توقیعات موجود ہیں۔[12] ان میں سے اکثر کا تعلق غیبت صغریٰ سے ہے۔ شیخ صدوق نے کمال الدین میں اور شیخ طوسی نے الغیبۃ میں انہیں نقل کیا ہے۔ کمال الدین میں توقیعات سے متعلق باب میں 49 توقیعات اور ایک دعا نقل کی گئی ہے اور الغیبۃ میں 43 توقیعات اور روایات آئی ہیں جن میں بارہ کو شیخ صدوق کی کمال الدین سے نقل کیا گیا ہے۔[13] نیز (چھٹی صدی ہجری میں لکھی گئی) الاحتجاج میں شیخ مفید (متوفی 413 ھ) کے نام امام مہدی (عج) کی دو توقیعات نقل ہوئی ہیں جن کا تعلق غیبت کبریٰ سے ہے۔[14] آیت اللہ خوئی نے ان دو توقیعات کے اعتبار پر شک کا اظہار کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ شیخ مفید سے جس واسطے سے توقیع کا ذکر ہوا ہے اور خود طبرسی کا شیخ مفید تک واسطہ دونوں نامعلوم ہیں۔[15] ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ شیخ مفید کی تحریروں اور شیخ مفید کے شاگرد شیخ طوسی کی کتاب الغیبۃ میں اس کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا۔ نیز الاحتجاج جو شیخ مفید کی وفات کے ایک صدی بعد لکھی گئی ہے، اس میں بھی ان دو توقیعات کی سند کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔[16] البتہ توقیع کے آخری جملے ’’اسے سب سے چھپا کر رکھنا‘‘[17] کی بنیاد یہ احتمال بیان کیا جاتا ہے کہ شیخ مفید نے اسے مخفی رکھا، اسی لئے شیخ طوسی تک بھی نہیں پہنچ سکی۔[18]

توقیعات کے موضوعات

امام مہدی (عج) سے جو توقیعات صادر ہوئی ہیں ان میں مختلف عقائدی اور فقہی موضاعات کے علاوہ، امام کے وکلا کو منصوب اور معزول کرنا، رقوم شرعیہ کے دریافت کرنے کا ذکر، نیابت کے جھوٹے دعویداروں کے تکذیب اور شیعوں کی ذاتی درخواستوں پر مشتمل خطوط کے جوابات ہیں۔[19] دانشنامہ امام مہدی (عج) میں توقیعات کو اعتقادی مسائل، فقہی احکام، کرامات اور دعائیں، نیز پراکندہ موضوعات میں تقسیم کیا گیا ہے۔[20]

اعتقادی توقیعات

امام مہدی (عج) سے صادر ہونے والی بہت سی توقیعات اعتقادی سوالوں کے جواب ہیں جیسے صفات خدا، نبوت اور امامت سے متعلق سوالات۔ امام مہدی (عج) نے امامت سے متعلق سوالات کے جواب میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی اور یہ سنت الٰہی قیامت تک جاری ہے۔ آپ نے امامت کی ذمہ داریوں کو بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا ہے کہ امامؑ کی ایک ذمہ داری اپنے بعد والے امامؑ کو معین اور متعارف کروانا ہے اور آپ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ امام حسن عسکریؑ نے آپ کو اپنے بعد امام (عج) کے عنوان سے متعارف کروایا ہے۔ امام مہدی (عج) نے اصل امامت کا اور جعفر کذاب کے مقابل اپنی امامت کا دفاع کیا ہے اور شیعوں کو ظہور کا وقت متعین کرنے، امامؑ کی ذات کے تعارف، امامؑ کا کہاں رہتے ہیں یہ بتانے اور امامؑ کی جستجو سے منع فرمایا ہے۔[21] جھوٹے دعویداروں کو جھٹلانا امام مہدی (عج) کی توقیعات کا ایک حصہ آپ کی نیابت کا جھوٹا دعوا کرنے والوں کے جھٹلانے یا ان پر لعنت سے متعلق ہے۔ان میں ایک توقیع وہ ہے جس میں غیبت صغریٰ میں امام (عج) سے رابطہ کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے ایک شخص ابو محمد حسن شریعی پر لعنت کی گئی ہے۔[22]

فقہی توقیعات

توقیعات کا ایک حصہ فقہی سوالوں کے جوابات پر مشتمل ہے۔ان توقیعات میں طہارت، نماز، روزه، حج، شہادت، قضاوت، وقف، معاملات، خمس، صدقہ، نکاح، منشیات، زیارت قبور ائمہ(ع) وغیرہ کے سلسلے میں شیعوں کے سوالات کے جواب دئے گئے ہیں۔[23]

کرامات اور دعائیں

کچھ توقیعات میں امام مہدی (عج) کی کرامات کو پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح شیعوں کی درخواست پر امام کی طرف سے کچھ جن دعاؤوں کی تعلیم دی گئی ہے وہ بھی ان توقیعات میں شامل ہیں۔ نیز کچھ خفیہ مالی معاملات اور دیگر خفیہ امور کا بھی ان توقیعات میں تذکرہ ملتا ہے۔[24]توقیعات کے اس حصے سے امام مہدی (عج) کی حقانیت اور امامت بھی ثابت ہوتی ہے۔ [25]

توقیعات امام زمانہ (عج) کا اعتبار

شیعہ فقہا نے کئی مقامات پر شرعی احکام کے استنباط کے لئے ان توقیعات کو بطور سند اور دلیل استعمال کیا ہے۔[26] بطور مثال محمد ابن عبداللہ حمیری کے ائمہ کی قبر کے پاس نماز پڑھنے کے سلسلے میں سوال کے جواب میں جو توقیع لکھی اس سے فقہا نے قبروں سے آگے ہوکر نماز پڑھنے (اس طرح سے نمازی کی پیٹھ قبر کی طرف ہو) کے مکروہ یا حرام ہونے کا فتوا دیا ہے۔[27] امام مہدی (عج) کی ایک توقیع جس میں امام نے ہر زمانے میں پیش آنے والے نئے مسائل میں راویان حدیث کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے،[28] اس سے ولایت فقیہ کو ثابت کرنے کے لئے بھی بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ اسی توقیع کی بنیاد پر امام خمینی کا ماننا ہے کہ زمانۂ غیبت میں اسلامی سماج کے تمام امور فقہا کے ہاتھ میں ہونا چاہئیں۔[29]

توقیعات کے مآخذ

دانشنامہ امام مہدی میں آیا ہے کہ امام مہدی (عج) کی توقیعات کے اہم ترین مآخذ شیخ صدوق کی کتاب کمال‌ الدین اور شیخ طوسی کی کتاب الغیبۃ ہیں۔[30] ان دونوں بزرگوں نےاپنی کتابوں میں توقیعات کے لئے الگ باب قائم کیا ہے۔[31] البتہ بعض دوسرے مآخذ میں بھی کچھ توقیعات پراکندہ طور نقل کی گئی ہیں؛ جیسے الکافی، الاحتجاج، معادن الحکمۃ، بحارالانوار اور مکاتیب الائمۃ۔[32] اسی طرح امام مہدی(عج) کے وکلا اور نواب اربعہ کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں جیسے احمد ابن محمد عیاش (متوفی 401 ھ) کی کتاب وکلاء الاربعہ جیسی کتابوں میں بھی توقیعات کے بارے میں لکھا گیا ہے۔[33] امام مہدی (عج) کی توقیعات کے بارے میں مستقل طور پر بھی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جن میں توقیعات کی تدوین اور تجمیع کے بارے میں لکھا گیا ہے جیسے:

حوالہ جات

  1. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۱۵۔
  2. دیکھیے: طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ھ، ص۳۵۶۔
  3. بطور نمونہ دیکھیے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۷، ص۱۶۳۔
  4. بطور نمونہ دیکھئے: کشی، رجال‌ الکشی، ۱۴۰۹ھ، ص۵۱۳، ۵۵۱۔
  5. طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ھ، ص۳۶۲۔
  6. صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۵۰۸-۵۰۹۔
  7. شبیری، «توقیع»، ص۵۷۷۔
  8. صدوق، کمال‌ الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۵۰۵۔
  9. صدوق، کمال‌ الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۵۰۲-۵۰۴؛ طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ھ، ص۲۹۴، ۲۹۸، ۳۰۷،۳۰۸،۳۲۱۔
  10. شبیری، «توقیع»، ص۵۷۷۔
  11. صدوق، کمال‌ الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۵۰۸-۵۰۹۔
  12. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۱۷۔
  13. محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ امام مهدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۱۷، حوالہ جات۔
  14. طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ھ، ج۲، ص۴۹۷-۵۰۰۔
  15. خوئی، معجم رجال الحدیث، ۱۳۷۲ش، ج۱۸، ص۲۲۰۔
  16. محمدی ری ‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۴۴۵۔
  17. طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ھ، ج۲، ص۴۹۹۔
  18. محمدی ری ‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۴۴۵۔
  19. شبیری، «توقیع»، ص۵۸۲۔
  20. محمدی ری ‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۱۷-۱۲۰۔
  21. ان توقیعات کو دیکھنے کے لئے ملاحظہ کیجئے: محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۳۰-۱۶۵۔
  22. طوسی، الغیبہ، ج۱، ص۳۹۷۔
  23. ان توقیعات کو دیکھنے کے لئے ملاحظہ کیجئے: محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۸۰-۲۳۹۔
  24. ان توقیعات کو دیکھنے کے لئے ملاحظہ کیجئے: محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۳۲۲-۴۲۵۔
  25. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۱۹۔
  26. ان توقیعات کو دیکھنے کے لئے ملاحظہ کیجئے: محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۲۵۵-۳۲۰۔
  27. عاملی، مفتاح الکرامہ، ۱۴۱۹ھ، ج۶، ص۲۱۲-۲۱۴۔
  28. صدوق، کمال‌ الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۴۸۴۔
  29. دیکھیے: امام خمینی، کتاب البیع، ۱۴۲۱ھ، ج۲، ص ۶۳۵؛ امام خمینی، ولایت فقیہ، ۱۳۷۴ش، ص۷۸-۸۲۔
  30. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۲۴۔
  31. صدوق، کمال‌ الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۴۸۲-۵۳۲؛ طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ق، ص۲۸۱ به بعد۔
  32. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۲۴۔
  33. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۲۳۔
  34. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۲۲-۱۲۴۔

مآخذ

  • امام خمینی، سید روح‌ اللہ، کتاب‌ البیع، قم، انتشارات اسماعیلیان، ۱۳۶۳ش۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، ولایت فقیہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۷۳ش۔
  • خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، قم، مرکز نشر الثاقۃ الاسلامیۃ فی العالم، ۱۳۷۲۔
  • شبیری، محمد جواد، «توقیع»، دانشنامہ جہان اسلام(ج۸)، تہران، ۱۳۸۳ش۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی‌ اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، ۱۳۹۵ق۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، تصحیح محمد باقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، ۱۴۰۳ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبہ، قم، تصحیح عباداللہ تہرانی و علی احمد ناصح، قم، دار المعارف الاسلامیہ، ۱۴۱۱ھ۔
  • عاملی، سید جواد بن محمد، مفتاح الکرامہ فی شرح القواعد العلامہ، تصحیح محمد باقر خالصی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، ۱۴۱۹ھ۔
  • کشی، محمد بن عمر، رجال‌ الکشی (اختیار معرفۃ الرجال)، تصحیح محمد بن حسن طوسی، تصحیح حسن مصطفوی، مشہد، مؤسسہ نشر دانشگاه مشہد، ۱۴۰۹ھ۔
  • محمدی ری‌ شہری، محمد، دانشنامہ امام مہدی(عج)، قم، دار الحدیث، ۱۳۹۳ش۔