سنہ 7 ہجری
(7 ہجری سے رجوع مکرر)
سنہ ۸ ہجری سنہ ۶ ہجری | |
امامت | |
---|---|
نبوت حضرت محمد(ص) | |
اسلامی ممالک کی حکومتیں | |
محمد بن عبد الله(ص) مدینہ | (حکومت: سنہ1 ـ سنہ11ھ) |
اہم واقعات | |
غزوه وادی القری | |
وقوع غزوہ خیبر | |
عمرۃ القضاء کی بجا آوری | |
پیغمبرخداؐ نے صفیہ بنت حیی بن اخطب کے ساتھ شادی کی | |
حضرت علیؑ کے حکم سے سورج پلٹ آیا | |
فدک کو حضرت فاطمہ زہرا(س) کے نام بخش دیا گیا | |
مسجد النبی کی توسیع کی گئی |
سنہ 7 ہجری، ہجری قمری کلینڈر کا ساتواں سال ہے۔
اس سال کا پہلا دن یکم محرم بدھ، بمطابق 14 مئی 628 عیسوی اور آخری دن اتوار 30 ذی الحجہ بمطابق 3 مئی 629 عیسوی ہے۔[1] غزوہ خیبر، پیغمبر خداؐ کی جانب سے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا(س) کو فدک دینا، واقعہ رد الشمس، عمرۃ القضاء کی بجاآوری اور مسلمانوں کے ایک گروہ کی حبشہ سے مدینہ کی طرف واپسی اس سال کے اہم واقعات میں سے ہیں۔
سنہ 7 ہجری قمری کے واقعات
- مسلمانوں کے ایک گروہ کی حبشہ سے مدینہ واپسی (ماہ محرم)۔[2]
- پیغمبر خداؐ اور دیگرمسلمانوں نے صلح حدیبیہ میں کیے گئے معاہدے کے مطابق عمرۃ القضاء بجا لایا۔[3]
- حضرت علی (ع) کے لئے رد شمس کا معجزہ پیش آیا۔ (15 شوال)۔[4]
- پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت زہرا (س) کو فدک عطا کیا۔ (14 ذی الحجہ)۔[5]
- پیغمبر خداؐ نے میمونہ دختر حارث بن حَزَن سے شادی کی۔[6]
- پیغمبر اکرم (ص) کی شادی صفیہ بنت حیی بن اخطب کے ساتھ ہوئی۔[7]
- ابان بن سعید نے اسلام قبول کیا اور اصحاب پیغمبرؐ میں قرار پائے۔[8]
- مسجد النبی (ص) کی توسیع؛ مسجد کے احاطے کو 1050 میٹر سے بڑھا کر 2475 مربع میٹر کردیا گیا۔[9]
جنگیں
- غزوہ خیبر لڑا گیا جو امام علیؑ کی بہادری سے خیبر کے علاقے کے یہودیوں پر مسلمانوں کی فتح کا باعث بنا۔[10]
- غزوہ وادی القری، یہ جنگ وادی القری نامی علاقے میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان لڑی گئ۔[11]
- مختلف مقامات پر اصحاب رسول خداؐ کے ذریعے چند سریے لڑے گئے۔[12]
حوالہ جات
- ↑ سایت تبدیل تاریخ هجری
- ↑ بلاذری، أنساب الأشراف، 1417، ج1، ص198.
- ↑ بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج1، ص353.
- ↑ ابنحجر عسقلانی، فتح الباری، 1379ھ، ج6، ص222؛ حر عاملی، اثبات الهدی، 1425ھ، ج3، ص545.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج95، ص188.
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص444-448؛ ذهبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج2، ص465.
- ↑ ابنعبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص46.
- ↑ زرکلی، الاعلام، 1989ء، ج1، ص27.
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، 1387ش، ص204.
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص9؛ ابنهشام، السیرة النبویة، بیروت، ج2، ص328؛ بیهقی، دلائل النبوة، 1405ھ، ج4، ص197.
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص16؛ بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج1، ص352؛ مقریزی، امتاع الاسماء، 1420ھ، ج8، ص382.
- ↑ ذهبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج2، ص 446-458.
مآخذ
- ابنحجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، بیروت، دارالمعرفة، 1379ھ۔
- ابنسعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارالکتب العلمیة، چاپ اول، 1410ھ۔
- ابنعبدالبر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب فى معرفة الاصحاب، تحقیق على محمد البجاوى، بیروت، دارالجیل، چاپ اول، 1412ھ۔
- ابنهشام، عبدالملک، السیرة النبویة، تحقیق: السقا، مصطفی، الأبیاری، ابراهیم، شلبی، عبدالحفیظ، دارالمعرفة، بیروت، بیتا.
- بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشریعة، تحقیق: قلعجی، عبد المعطی، دار الکتب العلمیة، بیروت، چاپ اول، 1405ھ۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الاشراف، دار الفکر، بیروت، چاپ اول، 1417ھ۔
- جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکه و مدینه، تهران، نشر مشعر، چاپ نهم، 1387ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، إثبات الهداة بالنصوص و المعجزات، بیروت، اعلمى، 1425ھ۔
- زركلى، خیرالدین، الأعلام (قاموس تراجم لأشهر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین)، بیروت، دارالعلم للملایین، چاپ هشتم، 1989م.
- ذهبی، محمد بن احمد، تاريخ الاسلام و وفيات المشاهير و الأعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ دوم، 1413ھ۔
- طبری، محمد بن جریر بن یزید، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دارالتراث، 1387ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار أحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
- مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدة و المتاع، تحقیق محمد عبدالحميد النميسى، بیروت، دارالکتب العلمیة، 1420ھ۔