آیت خمس
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
آیت کا نام | آیہ خمس |
سورہ | انفال |
آیت نمبر | 41 |
پارہ | 10 |
صفحہ نمبر | 182 |
محل نزول | مدینہ |
موضوع | فقہ |
مضمون | خمس کا وجوب |
آیت خُمس سورہ انفال اکتالیسویں آیت ہے جو خمس کی ادائیگی کو واجب قرار دیتی ہے۔ اس آیت میں مذکور لفظ "غنیمت" سے شیعہ اور اہلسنت دو متفاوت معنی لیتے ہیں۔ شیعہ فقہاء ائمہ اہل بیتؑ کی احادیث کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ لفظ ہر قسم کی سود، درآمد یا منفعت کو شامل کرتا ہے۔ اسی بنا پر شیعہ فقہاء آیت خمس سے چھ چیزوں پر خمس کے وجوب کو استنباط کرتے ہیں جو مشہور شیعہ فقہاء کے فتوا کے مطابق دو حصوں سہم امام اور سہم سادات میں تقسیم ہوتے ہیں۔ آیت میں مذکور خدا، رسول اور ذوی القربی کا حصہ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں آپؐ سے متعلق تھا جبکہ پیغمبر کے بعد امام معصومؑ سے متعلق ہے۔
متن آیت خمس
وَ اعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شیءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِی الْقُرْبی وَ الْیتَامَی وَ الْمَسَاکینِ وَ ابْنِ السَّبِیلِ إِن کنتُمْ ءَامَنتُم بِاللَّهِ وَ مَا أَنزَلْنَا عَلی عَبْدِنَا یوْمَ الْفُرْقَانِ یوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ وَ اللَّهُ عَلی کلّ شیءٍ قَدِیر ترجمہ: اور یہ جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ , رسول ,رسول کے قرابتدار ,ایتام ,مساکین اور مسافران هغربت زدہ کے لئے ہے اگر تمہارا ایمان اللہ پر ہے اور اس نصرت پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فیصلہ کے دن جب دو جماعتیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں نازل کی تھی اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔
تفسیر
جنگ بدر کے بعد بعض مسلمان اس جنگ سے حاصل ہونے والی غنیمت کی تقسیم کے حوالے سے ایک دوسرے سے لفاظی کرنے لگے اس موقع پر خداوند متعال نے اس قسم کے لڑائی جگڑوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی خاطر غنائم کو مکمل طور پر پیغمبرؐ کے اختیار میں دے دیا تاکہ آپ مسلمانوں کی مصلحت عمومی اور لوگوں کی ضرورتوں اور استحقاق کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے جنگجووں میں تقسیم کریں۔ اور پیغمبر اکرمؐ نے بھی اس غنیمت کو ان کے درمیان بطور مساوی تقسیم کر دیا۔
آیت کی ابتدا میں فرماتے ہیں کہ: اور یہ جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ , رسول, رسول کے قرابتدار ,ایتام ,مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ہے۔وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَیءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِی الْقُرْبی وَ الْیتامی وَ الْمَساکینِ وَ ابْنِ السَّبِیلِ۔ مزید تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: اگر تمہارا ایمان اللہ پر ہے اور اس نصرت پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فیصلہ کے دن جب دو جماعتیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں نازل کی تھی۔ إِنْ کنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ وَ ما أَنْزَلْنا عَلی عَبْدِنا یوْمَ الْفُرْقانِ یوْمَ الْتَقَی الْجَمْعانِ۔
باوجود اس کے کہ اس آیت کا مخاطب مؤمنین اور مجاہدین ہے لیکن فرمارہے ہیں کہ: "اگر خدا اور رسول پر ایمان رکھتے ہو" اس سے پتہ چلتا ہے کہ نہ فقط زبانی طور پر ایمان کا دعوا کرنا کافی نہیں ہے بلکہ میدان جہاد میں جاکر اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہو کر بھی ممکن ہے ہمارا ایمان کامل نہ ہو کیونکہ ممکن ہے یہ عمل ہم نے کسی اور اہداف کی خاطر انجام دیا ہو، پس کامل مؤمن وہ ہے جو خدا کے تمام احکام کے مقابلے میں سر تسلیم خم کرے مخصوصا مادی اور دنیوی مال و دولت کے حوالے سے کسی قسم کی تبعیض کا قائل نہ ہو۔
آیت کے آخر میں خدا کی نامحدود قدرت کی یاد آوری فرماتے ہوئے ارشاد رب العزت ہے: خداہر چیز پر قادر ہے۔وَ اللَّهُ عَلی کلِّ شَیءٍ قَدِیرٌ۔[1]
کلیدی الفاظ
غنیمت
لفظ "غنیمت" سے مراد تجارت، صنعت یا جنگ کے ذریعے کسی منافع تک پہنچنے کا نام ہے۔ آیت کی شان نزول کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں اس آیت شریفہ میں غنیمت سے مراد "غنیمت جنگی" ہے۔ [2]
راغب اصفہانی کہتے ہیں: "غَنَم" دو فتحہ کے ساتھ- اس کا معنا واضح اور آشکار ہے یعنی اس کے معنی "بھیڑ" کے ہیں۔لیکن "غُنم" - پہلے حرف پر ضمہ(پیش) اور دوسرے حرف پر سکون کے ساتھ- اس کے معنی کسی فائدے تک پہنچنے کے ہیں۔ لیکن بعد میں صرف دشمن کے ساتھ لڑی گئی جنگوں سے حاصل ہونے والی مال دو دولت پر اطلاق ہوا ہے اور مذکورہ آیت میں بھی غنیمت سے مراد یہی ہے۔[3]
احادیث میں لفظ "غُنم" کا وسیع معانی میں استعمال کے حوالے سے نمونے کے طور پر چند احادیث کو نہج البلاغہ سے پیش کرتے ہیں:
- خطبہ ۷۶: اِغتَنِم المهَلَ۔: فرصتوں اور مہلتوں کو غنیمت جانو.!
- خطبه ۱۲۰: مَن اَخَذَها لَحِقَ وَ غَنِمَ۔: جو بھی خدا کے قوانین پر عمل پیرا ہوگا اپنی منزل مقصود پر پہنچے گا اور بہرہ مند ہوگا۔
- مکتوب ۴۱: وَ اغتَنِم مَن استَقرَضَکَ فی حالِ غِناکَ۔: اگر کوئی تمہاری بے نیازی کے وقت تم سے کوئی قرض مانگے تو اسے غنیمت جانو۔!
- مکتوب ۵۳ عہد نامہ مالک اشتر: وَ لا تَکونَنَّ عَلَیهِم سَبُعاً ضارِیاً تَغتَنِمُ اَکلَهُم۔: رعایا اور عام آدمی کے مقابلے میں درندہ حیوان کی طرح مت بنو جو انہیں کھانے کو غنیمت اور انہیں اپنے لئے ایک درآمد تصور کریں۔
- کلمات قصار۳۳۱: ِانَّ اللَّهَ جَعَلَ الطّاعَةَ غَنیمَةَ الاَکیاس۔: خداوند عالم نے اپنی اطاعت کو ہوشیار لوگوں کیلئے غنیمت اور منفعت قرار دیا ہے۔
ذی القربی
ذی القربی؛ یعنی کسی شخص کے قریبی رشتہ دار، لیکن شیعہ اور سنی معتبر کتابوں میں موجود بہت ساری احادیث کے مطابق اس آیت میں ذی القربی سے مراد صرف اور صرف اائمہ اہل بیتؑ ہیں۔[4][5]
یتیم
"یتیم" سے مراد وہ بچے ہیں جن کے والد اس دنیا سے فوت ہو چکا ہو۔ اور کہا جاتا ہے کہ تمام حیوانوں میں یتیم اس حیوان کو کہا جاتا ہے جس کی ماں مر چکی ہو۔ اور یہ صرف انسان ہے جس کی یتیمی فقط باپ کی طرف سے ہے.[6][7]
مسکین
مسکین اس شخص کو کہا جاتا ہے جو مالی طور پر اپنی اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات کی توانائی اور قدرت نہ رکھتا ہو اب اس کی وجہ بیماری، بڑھاپا، کمزوری یا کوئی اور مشکلات ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے اس میں مالی توانائی موجود ن ہو۔[8]
مذکورہ آیت مجیدہ میں یتیموں، مسکینوں اور غربت زدہ سے مراد بنی ہاشم اور سادات کرام میں سے ایسے افراد ہیں جو یتیم، مسکین اور غربت زدہ ہو۔ اگرچہ آیت مطلق ہے اور اس میں کسی قید کا اضافہ نہیں کیا گیا ہے لیکن جب ہم احادیث کی طرف رجوع کرتے ہیں جو اس آیت کی تفسیر میں بیان ہوئی ہیں تو ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ان سے مراد فقط اور فقط بنی ہاشم اور سادات مراد ہیں۔[9][10] جس طرح قرآن میں بہت سارے دوسرے احکام بھی بطور مطلق موجود ہیں لیکن ان کی شرائط اور قیودات کا ذکر احادیث میں بیان ہوئی ہیں اور یہ صرف اس آیت سے مختص نہیں ہے۔ [11]
مصارف خمس
مذکورہ آیت مجیدہ کے مطابق خمس چھ حصوں میں تقسیم ہونگے، شیعہ فقہاء کے فتوا کے مطابق یہ چھ حصے تین تین حصوں کے دو گروہ میں تقسیم ہونگے:
- سہم امام: شیعہ فقہاء کے فتوا کی مطابق خدا، رسول اور ذو القربی کا حصہ پیغمبر کے زمانے میں آپؐ اور آپؐ کی رحلت کے بعد امام معصوم سے متعلق ہے۔
- سہم سادات: بنی ہاشم اور سادات میں سے یتیم، مسکین اور غربت زدہ افراد کا حصہ۔[12]
مفسرین کا نظریہ
شیعہ مفسرین کا نظریہ
مذکورہ آیت میں جو موضوع مبہم اور بحث انگیز ہے وہ لفظ "غنیمت" ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا "غنیمت" ہر قسمم کی منفعت کو شامل کرتی ہے یا صرف اور صرف جنگی غنائم سے مختص ہے؟
شیعہ مفسرین ائمہ اہل البیت ؑ کی احادیث کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت میں "غنیمت" سے مراد جس طرح لغت کے ماہرین کہتے ہیں[13][14] ہر وہ چیز ہے جو منفعت حساب کیا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ کفار کے ساتھ جنگ سے حاصل نہ کیا ہو۔ البتہ آیت جس مورد میں نازل ہوئی ہے وہ جنگی غنیمت سے مربوط ہے یہ چیز آیت کی کلی مفہوم کے منافی نہیں ہے۔[15]
طبرسی صاحب مجمع البیان مذکورہ آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں: شیعہ علماء معتقد ہیں کہ خمس انسان کو حاصل ہونے والی ہر منفعت پر واجب ہے چاہے یہ منفعت تجارت اور کسب و کار کے ذریعے حاصل ہو یا کسی خزانہ کے ملنے کی وجہ سے یا دریا میں غوطہ لگانے کی وجہ سے حاصل ہو کوئی فرق نہیں ہے۔[16]
پس شیعہ علماء کے مطابق "غنیمت" ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے جو ہر قسم کی منفعت کو شامل کرتی ہے کیونکہ اس لفظ کا لغوی معنی میں وسعت پائی جاتی ہے اور کوئی خاص اور مطقن دلیل اس کی کسی مورد کے ساتھ مختص ہونے کے بارے میں موجود نہیں ہے۔ اور صرف یہ کہ آیت کسی خاص مورد میں میں نازل ہونا جیسے جہاد اور جنگ کے مورد میں، اس کی عمومی مفہوم کے منافی نہیں ہے۔[17]
اہل سنت مفسرین کا نظریہ
اہلسنت مفسرین مقتقد ہیں کہ "غنیمت" اصل میں ایک وسیع معنا رکھتی ہے جو جنگی غنیمت کو بھی شامل کرتی ہے یعنی ہر منفعت جو انسان کو حاصل ہو جس کے حصول میں اسے بہت زیادہ مشقت اور محنت کرنا نہ پڑے غنیمت کہلاتا ہے۔
قرطبی کہتے ہیں: "غنیمت" لغت میں ایسی چیز ہے جسے کوئی انسان یا ایک گروہ مشقت اور کافی محنت کے ساتھ حاصل کرتی ہے۔ قرطبی اس بارے میں اہل سنت علماء کے اجماع کا قائل ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں "غنیمت" سے مراد صرف وہ اموال ہیں جو دشمن پر غلبہ حاصل کرکے حاصل کیا ہو۔ البتہ اس کے لغوی معنی میں یہ قید موجود نہیں ہے بلکہ شریعت نے اس شرط کو اضافہ کیا ہے۔[18] اہل سنت کے دیگر مشہور مفسرین جیسے آلوسی اور فخر رازی وغیرہ بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں ۔ [19][20] بنا براین اہل سنت کے مطابق خمس صرف اور صرف غنائم جنگی پر تعلق پکڑتا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج ۷، ص۱۷۲
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج ۹، ص۸۹
- ↑ راغب اصفہانی، مفردات فی الفاظ القرآن، ص۶۱۵
- ↑ حر عاملی، وسایل الشیعہ، ج ۹، کتاب الخمس.
- ↑ حسکانی، شواہد التنزیل، ج ۱، ص۲۲۱- ۲۱۸.
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج ۹، ص۸۹
- ↑ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، ج ۵، ص۱۲۴
- ↑ مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن، ج ۵، ص۲۰۰
- ↑ حر عاملی، وسایل الشیعہ، ج ۹، کتاب الخمس.
- ↑ حسکانی، شواہد التنزیل، ج ۱، ص۲۲۱- ۲۱۸.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۷، ص: ۱۷۵
- ↑ علامۀ حلی، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، ج ۳، ص۳۲۵
- ↑ راغب اصفہانی، مفردات فی الفاظ القرآن، ص۶۱۵
- ↑ ابن منظور، لسان العرب، ج ۱۲، ص۴۴۵.
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج ۹، ص۹۱.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ج ۴، ص۸۳۶.
- ↑ مکارم شیراز، تفسیر نمونہ، ج ۷، ص۱۸۱.
- ↑ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج ۸، ص۱.
- ↑ آلوسی، روح المعانی، ج ۵، ص۲۰۰.
- ↑ فخر رازی، مفاتیح الغیب، ج ۱۵، ص۴۸۴.
مآخذ
- قرآن کریم.
- ابن منظور، محمدبن مکرم، لسان العرب، نشر ادب حوزہ، قم، ۱۳۶۳ ش.
- آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم،دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ ق، اول.
- حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ، مؤسسہ آل البیت، قم، ۱۴۰۹ ق، چاپ اول.
- حسکانی، عبید اللہ بن عبدللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل فی الآیات النازلہ فی اہل البیت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت (لبنان)،۱۳۹۳ ق، الطبعہ الاولی.
- حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، دفتر انتشارات اسلامی، قم، ۱۴۱۳ ق، چاپ دوم.
- راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات فی الفاظ القرآن،دار القلم، بیروت (لبنان)، ۱۴۱۲ ق.
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، نشر اسلامی جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۱۷ ق.
- طوسی، محمدبن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن،دار احیاء التراث العربی، بیروت (لبنان)، چاپ اول.
- فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب،دار احیاء التراث العربی، بیروت (لبنان)، ۱۴۲۰ ق، سوم.
- قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، ناصر خسرو، تہران، ۱۳۶۴ ش، اول.
- مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، مرکز نشر آثار علامہ مصطفوی، ۱۳۸۷.
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ،دار الکتب الاسلامیہ، تہران، ۱۳۷۴ ش.