عصمت ائمہ

ویکی شیعہ سے
(عصمت امام سے رجوع مکرر)
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


عصمت ائمہ سے مراد شیعہ ائمہ کا ہر قسم کے گناہ، خطا اور فراموشی سے پاک ہونا ہے جو شیعہ امامیہ اور اسماعیلیہ کے ہاں امامت کی شرائط اور ائمہ کی صفات میں سے ہے۔ عصمت ائمہ شیعہ اثنا عشری کے مخصوص عقائد میں سے ایک ہے جس پر سب کا اتفاق ہے۔ عبداللہ جوادی آملی کی رائے ہے کہ ائمہؑ جس طرح اپنے کردار میں معصوم اور بے عیب ہیں اسی طرح ان کا علم، درست اور غلطی سے پاک ہے۔

علمائے شیعہ نے متعدد آیات جیسے آیہ اولی الامر، آیہ تطہیر، آیہ ابتلائے ابراہیم، آیہ صادقین، آیہ مودت اور آیہ صلوات کو ائمہ کی عصمت ثابت کرنے کے لئے بطور استدلال پیش کیا ہے۔ حدیثی مصادر میں اس موضوع سے مربوط بہت زیادہ روایات وارد ہوئی ہیں۔ حدیث ثقلین، حدیث امان اور حدیث سفینہ جیسی روایات ہیں جو عصمت ائمہ کو ثابت کرنے کے لئے بطور استدلال پیش کی جاتی ہیں۔ ائمہ معصومین کی عصمت پر متعدد دلائل کے باوجود، وہابیوں اور سلفیوں کے رہنما ابن تیمیہ حرانی نے اس کی تردید کی ہے اور اس پر اعتراض کیا ہے۔ جس کے رد عمل میں شیعہ علماء نے تمام اعتراضات کے جواب دئے ہیں۔

اہمیت اور مقام

عصمت امام اور اس پر دلائل کو قرآن اور کلام میں اہم موضوعات کے طور پر سمجھا گیا ہے۔[1] اثنا عشری شیعوں کے نقطہ نظر سے عصمت، امامت کی شرائط اور صفات میں سے ایک ہے اور شیعہ اماموں کی عصمت ان کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے۔[2] علامہ مجلسی کے مطابق شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ ائمہ تمام گناہان کبیرہ و صغیرہ چاہے جان بوجھ کر یا نادانستہ یا کسی بھی طرح کی غلطی سے معصوم ہیں۔[3] کہا جاتا ہے کہ اسماعیلیہ بھی عصمت کو امامت کی شرائط میں شمار کرتے ہیں۔ [4] جس کے مقابلہ میں اہلسنت حضرات عصمت ائمہ کو شرائط امامت میں شمار نہیں کرتے۔[5] کیونکہ اہلسنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ تینوں خلفا امام تو تھے پر معصوم نہیں تھے۔[6] وہ لوگ عصمت کے بجائے عدالت کو شرط مانتے ہیں۔[7] اس کے باوجود ساتویں صدی کے سنی عالم سبط ابن جوزی ‌ نے عصمت امام کو قبول کیا ہے۔[8] وہابی بھی عصمت امام اور شیعہ ائمہ کو قبول نہیں کرتے اور عصمت کو انبیاء سے مخصوص سمجھتے ہیں۔[9] ابن‌ابی‌الحدید معتزلی کے مطابق اہل سنت کے پانچویں صدی ہجری کے معتزلی متکلم ابومحمد حسن بن احمد بن مَتَّوَیْه اگرچہ امامت کے لئے عصمت شرط نہیں سمجھتے تھے لیکن امام علیؑ کی عصمت پر تصریح کی ہے اور اسے معتزلہ مکتب کا نظریہ سمجھتے ہیں۔[10]

آیت اللہ سبحانی کے مطابق اس اختلاف کا فرق شیعہ اور سنی دو گروہوں کے مابین امامت اور خلافت پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں عقائد سے پیدا ہوتا ہے۔ شیعوں کے نقطہ نظر سے، امامت، نبوت کی طرح ایک الہی مقام ہے اور ضروری ہے کہ خدا اس کا نگہبان مقرر کرے۔[11] لیکن اہلسنت کے مطابق امامت ایک عرفی منصب[12] ہے اور لوگوں کا منتخب کردہ امام کہ جس کا علم و عدالت عوام کی سطح کے برابر ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے مقرر نہیں ہوتا۔[13] عصمت ائمہ کو علمِ اصول فقہ کے شیعہ کلامی مبانی میں شمار کیا جاتا ہے؛ کیونکہ ائمہؑ کی عصمت ثابت ہوجائے تو معصوم کا قول اور معصوم کی عملی تائید بھی استنباط کے رسمی مآخذ میں شمار ہوتے ہیں؛ اور اگر ائمہؑ کی عصمت ثابت نہ ہو تو ان کی شرعی احکام کے استنباط میں سنت کو استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔[14] اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیعہ علما کی نظر میں اجماع کی حجیت امام کی عصمت پر مبتنی ہے؛ کیونکہ ان کی نظر میں امام پیغمبر اکرمؐ کے جانشین اور انہی کی طرح معصوم ہیں اور اجماع اس لئے حجت ہے کہ ہم اس سے قول معصوم کشف کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اہل سنت اصولی، امت کی عصمت کو اجماع کی حجیت کا معیار سمجھتے ہیں۔[15]

عصمت امام و ائمہ کا تذکرہ قرآن میں صراحت کے ساتھ نہیں آیا لیکن علمائے شیعہ نے بعض آیات جیسے آیہ اولی الامر،[16] آیہ تطہیر،[17] آیہ ابتلائے ابراہیم[18] کو عصمت امام و ائمہ سے تفسیر کیا ہے لیکن روائی مآخذ میں عصمت ائمہ کے سلسلہ میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔[19]

مفہوم‌ شناسی

عصمت ائمہ کا مطلب ہے ان حضرات کا ہر طرح کی خطا و لغزش سے محفوظ ہونا۔[20]

کلام اسلامی اور فلسفہ اسلامی کے نزدیک عصمت کے اصطلاحی معنی میں ہی لغوی معنی محفوظ ہیں؛[21] لیکن ان کے اصولوں کی بنیاد پر عصمت کی مختلف تعریفیں ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:

  • تعریف متکلمین: متکلمین عدلیہ امامیہ [22] اور معتزلہ [23]) نے عصمت کو قاعدہ لطف کی بنیاد پر تعریف کی ہے۔[24] اس اعتبار سے عصمت وہ فضل ہے جو خدا اپنے بندے کو عطا کرتا ہے جس کے ذریعے وہ برے کام یا گناہ انجام نہیں دیتا۔[25]

وہ اپنے بندے کو عطا کرتا ہے اور اس کے ذریعے وہ کوئی برے کام یا گناہ کو انجام نہیں دیتا۔[26]

اشاعرہ نے عصمت کی تعریف میں کہا ہے کہ پروردگار کی جانب سے معصوم انسان کے اندر گناہ کا پیدا نہ ہونا۔[27]

  • تعریف فلاسفہ: حکمائے اسلامی نے عصمت کو ملکہ نفسانی[یادداشت 1] سے تعبیر کیا ہے کہ جس کے بعد صاحب عصمت گناہ انجام نہیں دیتا۔[28] کہا جاتا ہے اس تعریف کی بنیاد، حکما کے اصول و مبانی ہیں جو باب توحید افعالی میں ہیں کہ مختار انسان کے ذریعہ اس کے افعال کی نسبت خداوند کی طرف دیتے ہیں۔[29]

صرفی ساختار کے اعتبار سے عصمت کلمہ «عصم» سے اسم مصدر ہے[30] جس کے لغت میں معنی روکنے اور پکڑنے کے ہیں۔[31] قرآن میں عصمت کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ لیکن اس کے مشتقات 13 بار قرآن میں اور لفظی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔[32]

دائرہ عصمت

امامی علماء کا خیال ہے کہ ائمہؑ کی طرح ہی انبیا کسی بھی گناہ کبیرہ و صغیرہ اور چاہے جان بوجھ کر یا غلطی سے اور بھولنے سے، ہر طرح کی غلطی اور خطا سے معصوم و محفوظ ہیں۔[33] ان کے نزدیک ائمہ (ع) امامت سے پہلے اور بعد میں اپنی پوری زندگی میں معصوم ہیں۔[34] فیاض لاہیجی نے اس بات کا بھی اضافہ کیا ہے کہ خطا و گناہ سے پاک ہونا، عیوب جسمانی، روانی، عقلانی اور نَسَبی سے پاک ہونا بھی امام کے لئے شرط ہے نیز وہ کہتے ہیں کہ امام کو کسی بھی جسمانی بیماری جیسے کوڑھ و جزام یا سفید داغ جو دوسروں کو متنفر کرتی ہیں سے بھی پاک ہونا چاہئے نیز عیوب نفسانی جیسے بخل، سخت مزاجی یا عیوب عقلانی جیسے پاگلپن، نادانی، فراموشی اور عیوب نَسَبی میں مبتلا نہ ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ سب عیوب نفرت اور لوگوں کا امام سے عدم رغبتی کا سبب بنتے ہیں جو مفترض الطاعہ (جس کی اطاعت واجب ہوتی ہے) سے سازگاری نہیں رکھتے۔[35]

شیخ مفید نے عقلی طور پر بطور سہوا امام سے ترک مستحب کو جائز سمجھا ہے۔ لیکن ان کا ماننا ہے کہ ائمہ نے اپنی زندگی میں کوئی مستحب نہیں چھوڑا۔[36]

عبداللہ جوادی آملی نے عصمت کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے عملی و علمی اور ائمہ (ع) کو دونوں اقسام میں جامع سمجھا ہے۔ ان کے بقول جس طرح ائمہ کا طرز عمل حق کے مطابق ہے اسی طرح ان کا علم حق ہے اور ایسے ذریعہ سے پیدا ہوتا ہے جس میں کوئی غلطی یا بھول نہ ہو۔[37] ان کے نظریہ کے مطابق جو بھی عصمت علمی کے مرحلہ پر فائز ہوتا ہے وہ شیطان کے فتنوں سے پاک ہوتا ہے اور شیطان اس کے خیالات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔[38]

علی ربانی گلپایگانی، ایک معاصر عالم دین نے عصمت عملی کو گناہ سے پاک اور عصمت علمی کو مندرجہ ذیل درجات کے ساتھ جانا ہے:

  1. احکام الہی کو جاننے میں عصمت؛
  2. احکام الٰہی کے مضامین کو جاننے میں عصمت؛
  3. معاشرہ کی نمائندگی سے متعلقہ معاملات کے مفادات اور فسادات کو پہچاننے میں عصمت؛
  4. انفرادی اور سماجی مسائل سمیت عام زندگی سے متعلق معاملات میں عصمت۔[39]

ربانی گلپایگانی کی نظر کے مطابق ائمہ ان تمام مراتب پر فائز ہوتے ہیں۔[40]

اثبات عصمت کے لئے عقلی دلائل

شیعہ علماء کی جانب سے امام کی عصمت کو ثابت کرنے کے لئے متعدد عقلی دلائل پیش کئے گئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • امتناع تسلسل: اگر امام معصوم نہیں ہے تو اس کو صحیح راستہ بتانے اور اس کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے کوئی دوسرا امام ہونا چاہیے جو امام بھی ہے اور معصوم بھی۔ اگر وہ بھی معصوم نہ ہو تو تیسرا امام ضروری ہے اور اگر اسی طرح جاری رہے تو ایک سلسلہ جاری ہوجائے گا جسے تسلسل کہا جاتا ہے اور یہ محال اور ناممکن ہے؛ مگر یہ کہ ایک ایسے امام بپر جا کر سلسلہ رک جائے جو معصوم ہے اور ان سے غلطی سرزد نہیں ہوتی ہے۔[41]
  • وجوب اطاعت: اگر امام سے غلطی سرزد ہو جائے تو ان سے دوری اختیار کرنا واجب اور ان کی اطاعت کرنا حرام ہے، اور یہ آیت اولی الامر کے خلاف ہے جو امام کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیتی ہے، اس لیے امام کو معصوم ہونا چاہیے۔[42]
  • غرض کی خلاف ورزی: امام مقرر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ امت اپنے عمل میں ان کی پیروی کرے اور اگر امام معصوم نہ ہو اور گناہ یا خطا کا مرتکب ہو تو اس ہدف کی خلاف ورزی ہو گی۔[43]
  • تنزل درجه: اگر امام گناہ کا مرتکب ہوجائے تو ان کا مقام و مرتبہ دوسرے گنہگاروں سے کم ہوگا؛ کیونکہ ان کو اللہ اور شریعت کی معرفت دوسرے لوگوں سے زیادہ ہے اور ان کی عقل زیادہ کامل ہے اسی لیے ان کی سزا زیادہ سخت ہو جاتی ہے اور یہ صورتیں امام کے لیے باطل ہیں۔[44]

دلائل عقلی، اصل عصمت امام کے مصادیق کو بغیر توجہ اور اشارہ کے ثابت کرتے ہیں۔ جعفر سبحانی کے مطابق تمام عقلی دلائل جو عصمت انبیا کے لئے پیش کئے گئے ہیں جیسے بعثت کے اہداف کا تحقق، لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا، وہی مصادیق عصمت ائمہ کے سلسلہ میں بھی پیش کئے گئے ہیں۔ ان کے نزدیک امام کی معصومیت ایک مکتب تشیع کا خاصہ ہے جو امامت کے منصب کو پیغمبر (ص) کے مشن اور نبوت کے فرائض کا تسلسل سمجھتا ہے۔ اس طرح کے فرائض کو جاری رکھنا ائمہ کی عصمت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔[45]

آیات قرآنی سے استدلال

ائمہؑ کی عصمت ثابت کرنے کے لئے بعض آیات سے استناد کیا جاتا ہے جن میں آیت ابتلائے ابراهیم، آیہ اولی الامر، آیہ تطہیر، آیہ صادقین،[46] آیت مودت،[47] و آیت صلوات[48] شامل ہیں

آیہ ابتلای ابراہیم

وَ إِذِ ابْتَلی إِبراهیمَ رَبُّه بِکلماتٍ فَأتَمَّهُنَّ قالَ إِنّی جاعِلُک لِلنّاسِ إِماماً قالَ وَمِنْ ذُرّیتی قالَ لاینالُ عَهدی الظّالِمینَ؛ اور اس وقت کو یاد کرو جب خدانے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں۔ انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔[49]

آیت ابتلای ابراہیم سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ «لاینالُ عَہدی الظّالِمینَ» کی عمومیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو کسی بھی طرح سے ظالم تھا، امامت اس کے شامل حال نہیں ہو سکتی۔ لہذا آیہ عصمت امام، امامت کے دوران اور اس سے پہلے امام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے۔[50] فاضل مقداد نے آیت کے استدلال کو اس طرح بیان کیا ہے: غیر معصوم ظالم ہوتا ہے اور ظالم کے اندر امامت کی صلاحیت نہیں ہوتی نیز غیر معصوم امامت کی شائستگی نہیں رکھتا لہذا امام کا معصوم ہونا ضروری ہے۔[51]

علمائے شیعہ «عہدی» سے مراد امامت کو سمجھتے ہیں۔[52]

آیہ اولی الامر

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ ... ؛ ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں۔[53]

علمائے شیعہ آیہ اولی الامر سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت میں بغیر کسی قید و شرط کے اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اس طرح کا حکم اولی الامر کی عصمت پر دلالت کرتا ہے، اس لئے کہ اگر اولی الامر معصوم نہ ہوں تو گناہ و لغزش میں مبتلا ہو جائیں گے تو ایسی صورت میں حکمت و عدالت الہی کا تقاضا یہ ہے کہ بطور مطلق ان لوگوں کی اطاعت کا حکم نہ دیا جائے۔[54] علمائے شیعہ، روایات کی بنیاد پر[55] معتقد ہیں کہ اولی الامر سے مراد شیعہ ائمہ ہیں۔[56]

آیہ تطہیر

إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً؛ بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے[57]

اس آیت سے بھی عصمت ائمہؑ کا استدلال کیا گیا ہے۔[58] بعض لوگوں نے اس آیت سے اس طرح استدلال کیا ہے:

الف. آیہ تطہیر میں اہلبیتؑ سے مراد پنج تن آل عبا ہیں۔

ب. اس آیت میں ارادہ الہی کے ذریعہ اہلبیتؑ سے ہر قسم کے رجس و پلیدگی کو دور کرنے کی خبر دی گئی ہے۔

ج. پروردگار عالم نے رجس کو دور کرنے کے ارادہ کے علاوہ اس فعل کو محقق بھی کیا اس لئے کہ یہ آیت اہلبیتؑ کی مدح و منقبت کو بیان کر رہی ہے۔ (ارادہ تکوینی خدا)

د. اہلبیتؑ سے رجس و پلیدی کو دور کرنے کا مطلب ان کی عصمت ہی ہے۔[59]

شیعوں سے منقول زیادہ تر روایات کی بنا پر[60] اور اہلسنت کے مطابق[61] آیہ تطہیر اصحاب کساء کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ لذا اس اعتبار سے آیہ میں اہلبیتؑ سے مراد پنج تن ہیں۔[62]

آیہ صادقین،[63] آیہ مودت[64] اور آیہ صلوات[65] یہ دوسری آیات ہیں جن سے عصمت امام کے سلسلہ میں استدلال کیا گیا ہے۔

روایات سے استدلال

صحابہ اور ائمہؑ کے ذریعہ عصمت ائمہؑ کے سلسلہ میں بہت زیادہ احادیث وارد ہوئی ہیں۔[66] بعض احادیث نبوی کے ذریعہ شیعوں نے اس طرح سے استدلال کیا ہے:

عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ الله ص يَقُولُ:‏ «أَنَا وَ عَلِيٌّ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ تِسْعَةٌ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ مُطَهَّرُونَ مَعْصُومُون؛
پیغمبر اکرمؐ کا ارشاد ہے: میں، علی، حسن، حسین اور حسین کی نسل سے 9 فرزند پاک اور معصوم ہیں۔»

‏ خزاز قمی، کفایة الاثر، 1401ق، ص19.

حدیث ثقلین

یہ حدیث، لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْض کی عبارت کے ذریعہ قرآن و اہل بیتؑ کے درمیان عدم جدائی کو کھلے طور پر ثابت کر رہی ہے نیز اہلبیتؑ کی عصمت پر دلالت بھی کر رہی ہے اس لئے کہ کسی بھی گناہ کا ارتکاب یا خطا کا انجام دینا اہلبیتؑ کے لئے قرآن سے جدائی کا سبب بن سکتا ہے۔[67] اسی طرح پیغمبر اکرمؑ نے بھی اس حدیث میں وضاحت کر دی ہے کہ جو بھی قرآن و اہلبیتؑ سے متمسک رہے گا کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا۔ یہ عبارت بھی اہلبیتؑ کی عصمت پر دلالت کر رہی ہے اس لئے کہ اگر وہ معصوم نہ ہوں گے تو ان کی پیروی و اتباع گمراہی کا سبب بن جائے گی۔[68] دوسری عبارت کی بنا پر یہ حدیث اہلبیتؑ کی اطاعت کے واجب ہونے پر دلالت کر ہی ہے اور ان کی اطاعت کا واجب ہونا ان کی عصمت پر دلالت کر رہا ہے۔[69]

شیعوں کی روایات کے مطابق حدیث ثقلین میں اہلبیتؑ کو ائمہ شیعہ سے تفسیر کیا گیا ہے۔[70] بعض اہلسنت،[71] اہلبیتؑ سے مراد اصحاب کساء کو اور بعض[72] امام علیؑ کو سب سے واضح مصادق سمجھتے ہیں۔

بعض متکلمین شیعہ، حدیث ثقلین کو متواتر شمار کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اس کی صحت میں کوئی شک نہیں ہے۔[73] بعض نے اسے متواتر معنوی شمار کیا ہے۔[74]

حدیث امان

حدیث امان، پیغمبر اکرمؑ کی مشہور حدیث ہے جو شیعوں کے ذریعہ[75] اور اہلسنت[76] سے نقل ہوئی ہے کہ جس میں بہت مختصر سا اختلاف ہے: النُّجُومُ أَمَانٌ لِأَہلِ السَّمَاءِ وَ أَہلُ بَيْتِی أَمَانٌ لِأُمَّتِی؛ ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں اور میرے اہلبیتؑ میری امت کے لئے امان ہیں۔

اس حدیث کے استدلال میں کہا گیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے اپنے اہل بیت کو ستاروں سے تشبیہ دی اور انہیں امت یا زمین والوں کی سلامتی کا سبب قرار دیا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) کا یہ بیان اہل بیت کی عصمت کی نشاندہی کرتا ہے کہ اہل بیت نجوم ہدایت ہیں اور وہی امت کی گمراہی اور اختلاف کے سلسلہ میں سبب امن و امان ہیں کیونکہ اس طرح کی کوئی چیز عصمت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔[77]

کتاب «کفایۃ الاثر» میں منقول ایک روایت میں اہلبیتؑ کو ائمہؑ سے تفسیر کرتے ہوئے ان کے معصوم ہونے کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔[78]

چوتھی صدی ہجری کے اہلسنت محدث حاکم نیشابوری نے حدیث امان کو صحیح السند حدیث قرار دیا ہے۔[79]

حدیث سفینہ

مشہور حدیث سفینہ شیعوں کے متعدد مآخذ[80] اور اہلسنت[81] کے یہاں بہت مختصر فرق کے ساتھ اس طرح نقل ہوئی ہے: إِنَّمَا مَثَلُ أَہلِ بَیتِی فِیکُمْ کَمَثَلِ سَفِینَۃ نُوحٍ مَنْ رَکِبَہا نَجَی وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْہا غَرِقَ، بے شک میرے اہلبیت کی مثال تمہارے درمیان کشتئ نوح جیسی ہے، جو بھی اس پر سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو چھوٹ گیا وہ غرق ہو گیا۔» بعض نے اس حدیث کو متواتر جانا ہے۔[82] حاکم نیشاپوری نے بھی اسے صحیح شمار کیا ہے۔[83]

میر حامد حسین ہندی نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کشتئ اہلبیتؑ لوگوں کو نجات دیتی ہے اور اس سے مخالفت سبب گمراہی ہے تو ضروری ہے کہ خود اہلبیتؑ ہر گمراہی سے محفوظ ہوں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کی پیروی اور ان کی کشتی پر سوار ہونے کا غیر مشروط حکم گمراہی کا باعث بن جائے گا اور خدا اور رسول خدا (ص) کے لئے ایسا حکم دینا ناممکن ہے جو لوگوں کو گمراہ کرے۔[84]

حدیث سفینہ میں اہلبیتؑ سے مراد بارہ امام ہیں۔[85] دسویں اور گیارہویں صدی ہجری قمری کے شافعی مذہب کے ایک عالم دین عبدالرؤوف مناوی، اہلبیتؑ سے مراد ائمہؑ اور حضرت زہراؑ کو سمجھتے ہیں۔[86]

شیعہ ائمہ کی عصمت کے بارے میں زیارت جامعہ کبیرہ کا ایک جملہ

عصمکم الله من الزلل و آمنکم من الفتن و طهرکم من الدنس
اللہ تعالی نے تم اہل بیتؑ کو ہر قم کی لغزشوں سے محفوظ کیا اور فتنوں سے امان میں رکھا اور ہر قسم کے رجس سے پاک کیا۔ .

مفاتیح الجنان، زیارت جامعه کبیره

عقیدہ عصمت کی بنیاد

عصمت ائمہ معصومین علیہم السلام کے بعض مخالفین کا خیال ہے کہ ایسا عقیدہ اسلام کے آغاز میں موجود نہیں تھا اور بعد میں وجود میں آیا۔ مثال کے طور پر ابن تیمیہ کا ماننا ہے کہ عصمت امام کا یقین عبداللہ ابن سبا سے شروع ہوا اور یہ اسی کی بدعت تھی۔[87] ناصر القفاری کی نظر کے مطابق بھی سب سے پہلی بار یہ نظریہ ہشام بن حکم نے پیش کیا تھا۔[88] ایک شیعہ اور ایرانی علوم اسلامی کے محقق سید حسین مدرسی طباطبائی کی کتاب مکتب در فرآیند تکامل کے مطابق عقیدہ عصمت کی بنیاد بھی ہشام بن حکم ہی ہیں۔[89] ناصر القفاری ایک معاصر وہابی، شیعوں کی مخالفت اور ضد کے باوجود، عقیدہ عصمت کو تاریخی طور پر نادرست خیال کرتے ہوئے عبد اللہ ابن سبا سے منسوب کیا اور کہا: "مجھے اپنی تحقیق میں اس سے ایسی کوئی گفتگو نہیں ملی۔"[90] ائمہ معصومین کی عصمت اور لفظ عصمت کی ابتداء ہشام ابن حکام نے نہیں کی کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ (ع) کی متعدد روایات میں ائمہ (ع) کی عصمت بیان کی گئی ہے۔[91] مثلا امام علیؑ نے ایک روایت میں عصمت کو امام کی علامت قرار دیا ہے۔[92] امام سجادؑ نے امام حسینؑ سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ائمہؑ کو صاحب عصمت پہچنوایا ہے۔[93] مآخذ اہل سنت میں بھی عبداللہ بن عباس نے پیغمبر اکرمؐ سے روایت نقل کی ہے کہ میں، علی، حسن، حسین اور حسین کے نو فرزند سب کے سب پاک اور معصوم ہیں۔[94]

عصمت ائمہ اور غلو

معاصر وہابی ناصر القفاری نے عصمت ائمہؑ کے عقیدہ کو صفات خدا سے تشبیہ دیتے ہوئے اسے غلو میں شمار کیا ہے۔[95] معاصر مصری مصنف احمد امین بھی اس عقیدہ کو غلو سمجھتا ہے۔[96]

غلو کے بارے میں جواب دیتے ہوئے یہ بات کہی گئی ہے کہ بندہ خدا، خدا یا صفات و افعال خدائی کا حامل سمجھا جائے، لیکن جب بھی خدا اپنے بندے پر مہربان ہوتا ہے اور اسے لوگوں کی رہنمائی کے لئے کچھ کرنے کا اختیار دیتا ہے تو اس وقت کچھ بھی اس کی طاقت اور الوہیت سے کم نہیں ہوتا اور مورد لطف بندہ بھی مقام عبودیت سے آگے نہیں بڑھتا۔[97] عصمت بھی دوسرے صفات کمالی کی طرح ذات خدا سے مخصوص ہے لیکن کسی مصلحت کی بنا پر اپنے بعض بندوں کو بشریت کی ہدایت کرنے کے لئے عصمت نامی طاقت سے مسلح کرتا ہے۔ لہٰذا اب جب کہ خدا سے عصمت مخصوص ہے تو بندوں کے کسی گروہ کے لئے یہ صفت رکھنے میں کوئی عیب و رکاوٹ نہیں ہے۔ جیسا کہ تمام مسلمان پیغمبر اکرمؑ کو معصوم سمجھتے ہیں۔[98]

رفتار و کردار ائمہؑ اور عصمت

بعض نے کہا ہے کہ شیعہ ائمہؑ کے الفاظ ان کی عصمت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان میں امام علی (ع) کے وہ الفاظ ہیں جو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب ہوکر فرمایا: فَلَا تَکُفُّوا عَنِّی مَقَالَۃ بِحَقٍّ أَوْ مَشُورَۃ بِعَدْلٍ فَإِنِّی لَسْتُ فِی نَفْسِـی بِفَوْقِ مَا أَنْ أُخْطِئَ وَ لَا آمَنُ ذَلِکَ مِنْ فِعْلِی إِلَّا أَنْ یَکْفِیَ اللَّہ مِنْ نَفْسِی...؛ سچ کہنے اور منصفانہ مشاورت سے گریز نہ کرو۔ در حقیقت نہ میں ایسا ہوں کہ خطا نہ کروں اور نہ ہی میں اپنے کام میں غلطی سے محفوظ ہوں جب تک کہ خدا میری حفاظت نہ کرے...»۔ [99] بعض علمائے اہلسنت جیسے شافعی مذہب کے فقیہ اور مفسر قرآن شہاب الدین آلوسی، احمد امین مصری، ہندوستان کے سلفی عالم عبدالعزیز دہلوی اور قفاری نے اس روایت کو عصمت امام علیؑ اور ائمہؑ کے ساتھ ناسازگار بتاتے ہوئے انکار عصمت ائمہؑ کی ایک دلیل شمار کیا ہے۔[100]


علامہ مجلسی[101] اور ملا صالح مازندرانی،[102] امام کی اس عبارت کو ان کی عاجزی سے تعبیر کیا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو سچائی کو قبول کرنے میں نرم ہونے کی ترغیب دلا رہے ہیں اور اس بات کا اقرار کیا ہے کہ عصمت الطاف الہی میں سے ہے۔وَ ما أُبَرِّئُ نَفْسی إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَۃ بِالسُّوءِ إِلاَّ ما رَحِمَ رَبِّی[؟؟]؛ اور میں اپنے نفس کو بھی بری نہیں قرار دیتا کہ نفس بہرحال برائیوں کا حکم دینے والا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے»۔[103]

‌محمدحسین فاریاب کی کتاب عصمت امام در تاریخ تفکر امامیہ تا پایان قرن پنجم ہجری.

ناصر مکارم شیرازی کے مطابق جملہ «فَإِنِّی لَسْتُ فِی نَفْسِـی بِفَوْقِ مَا أَنْ أُخْطِئَ» کہ جسے مخالفین عصمت نے بہانہ بنایا ہے، در اصل عبارت «إِلَّا أَنْ یَکْفِیَ اللَّہ مِنْ نَفْسِی» کے ساتھ تفسیر کیا جائے تو سمجھ میں آئے گا کہ پہلے جملے میں امام فرماتے ہیں: بحیثیت انسان، میں غلطی سے محفوظ نہیں ہوں۔ لیکن دوسرے جملے کے ساتھ وہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے محفوظ ہیں اور ایک عام انسان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ امام اپنے اصحاب کے ساتھ تعلیم و تربیت کی منزل میں ہیں اور انہیں سکھا رہے ہیں کہ کسی بھی وقت غلطی کا امکان ہے اور امامؑ اپنے آپ کو بطور تواضع اپنے اصحاب کی طرح سمجھتے ہیں۔[104]

عصمت، اعتراف گناہ اور استغفار ائمہؑ

مخالفین عصمت، ائمہؑ کو اپنے گناہوں کا اقرار کرنے اور استغفار کو ان کی عصمت کے مطابق نہیں سمجھتے۔[105] پیغمبر اکرمؐ سے بھی استغفار و توبہ نقل ہوا ہے اور روایات کے مطابق پیغمبرؐ بھی دن میں ستّر مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔[106]

اس کے علاوہ بعض علما[107] ائمہؑ کے استغفار کو راویوں اور لوگوں کے لئے درس و عبرت شمار کرتے ہیں نہ یہ کہ یہ استغفار ارتکاب گناہ کی وجہ سے ہے جیسا کہ بعض اہلسنت علما[108] نے پیغمبر اکرمؐ کے استغفار کی وجہ بھی یہی بتائی ہے۔ بعض نے ائمہؑ کے اعتراف گناہ و استغفار کو بطور «حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَيِّئَاتُ الْمُقَرَّبِينَ؛ نیک لوگوں کے اچھے کام مقربین الہی کے لئے بُرے شمار ہوتے ہیں» سمجھا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ائمہؑ اپنے بلند و بالا مقام کی خاطر جب بھی لوگوں کی مصلحت کی وجہ سے ان مقامات سے نیچے آتے ہیں تو خود کو گنہگار شمار کرتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں۔[109]

علامہ مجلسی کے بقول کیونکہ معصومین کی معرفت خدا کی نسبت اپنے اعلی درجہ پر ہے اور وہ ذات خدا میں ڈوبے ہوئے ہیں جب وہ اپنے اعمال کو دیکھتے ہیں تو وہ اپنے کو خدائی عظمت کے سامنے بہت چھوٹا اور گنہگار سمجھتے ہیں اور خدا سے توبہ اور استغفار کرتے ہیں۔[110]

کتاب‌ شناسی

عصمت امام و ائمہ کے سلسلہ میں بہت سی کتابیں اور مقالات منتشر ہوئے ہیں کہ بعض کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے:

  • جعفر سبحانی کی پژوہشی در شناخت و عصمت امام، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، چاپ اول، 1389 ہجری شمسی۔
  • محمد حسین فاریاب کی کتاب عصمت امام در تاریخ تفکر امامیہ تا پایان قرن پنجم ہجری، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ اول 1390 ہجری شمسی۔
  • ابراہیم صفرزادہ کی کتاب عصمت امامان از دیدگاہ عقل و وحی، قم، زائر آستانہ مقدسہ، چاپ اول، ‌1392 ہجری شمسی۔
  • حجت منگنہ‌چی کی کتاب دلایل عصمت امام از دیدگاہ عقل و نقل، تہران، نشر مشعر، چاپ اول،‌ 1391 ہجری شمسی۔
  • رضا کاردان کی کتاب امامت و عصمت امامان در قرآن، مجمع جہانی اہل بیت(ع)، چاپ اول، ‌1385 ہجری شمسی۔
  • علیرضا عظیمی‌فر کی کتاب قرآن و عصمت اہل بیت(ع)، قم، مہر امیرالمؤمنین(ع)، چاپ اول، ‌1389 ہجری شمسی۔

نوٹ

  1. ملکہ نفسانی، ایک ایسی حواس کی مقررہ و ثابت حالت ہے جو انسانی روح میں داخل ہوتی ہے اور آسانی سے ختم نہیں ہوتی۔(جرجانی، التعریفات، 1412ھ، ص101)

حوالہ جات

  1. سبحانی، منشور جاوید، 1383ش، ج4، ص239۔
  2. ملاحظہ کریں: طوسی، الاقتصاد فیما یتعلق بالاعتقاد، 1496ھ، ص305؛ علامہ حلی، کشف المراد، 1382ش، ص184؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372ش، ص114، سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج4، ص116۔
  3. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص209، 350 و351۔
  4. علامہ حلی، کشف المراد، 1382ش، ص184؛ جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص351۔
  5. قاضی عبدالجبار، المغنی، 1962-1965م، ج15، ص251، 255 و 256 و ج20، بخش اول، ص26، 84، 95، 98، 215 و 323؛ جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص351؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص249۔
  6. جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص351؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص249۔
  7. قاضی عبدالجبار، المغنی، 1962-1965م، ج20، بخش اول، ص201؛ جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص350؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص243-246۔
  8. سبط بن جوزی، تذکرۃ‌الخواص، ج2،‌ ص519۔
  9. ملاحظہ کریں: ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ھ، ج2، ص429 و ج3، ص381؛ ابن عبدالوہاب، رسالۃ فی الرد علی الرافضۃ، ریاض، ص28؛‌ قفاری، اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ، 1431ھ، ج2، ص775۔
  10. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نهج البلاغه، 1404ق، ج6، ص376 و 377.
  11. سبحانی، منشور جاوید، 1383ش، ج4، ص244 و245؛ نیز نگاہ کنید بہ باذلی، «الہی بودن منصب امامت»، ص9-45۔
  12. سبحانی، منشور جاوید، 1383ش، ج4، ص239۔
  13. سبحانی، منشور جاوید، 1383ش، ج4، ص239-242۔
  14. مبلغی، «مبانی کلامی اصول و بهره‌گیری از آن در نگاه و روش امام خمینی»، ص149.
  15. ضیائی‌فر، «تأثیر دیدگاه‌های کلامی بر اصول فقه»، ص323.
  16. دیکھئے طوسی، التبیان، دار احیاء‌ التراث العربی، ج3،‌ص236؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص100؛ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص113 و 114؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج4،‌ ص391۔
  17. سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1410ھ، ج3، ص134؛ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص646؛ سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج4، ص125۔
  18. دیکھئے سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1410ھ، ج3، ص139؛ طوسی، التبیان، دار احیاء‌التراث العربی، ج1، ص449؛‌ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، 1422ھ، ص332 و 333؛ مظفر، دلائل الصدھ، 1422ھ، ج4، ص220۔
  19. نمونہ کے طور پر دیکھئے صدوق، معانی الاخبار، 1403ھ، ص132 و 133؛ خزاز قمی، کفایۃ الاثر، 1401ھ، ص16-19، 29، 36-38، 45، 76، 99 و 100-104؛‌ ابن عقدہ کوفی، فضائل امیرالمؤمنین(ع)، 1424ھ، ص154 و 155؛ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص665-675۔
  20. نگاہ کنید بہ سبحانی، منشور جاوید، 1383ش، ج4، ص249۔
  21. ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387ش، ص214۔
  22. مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، 1414ھ، ص128؛ سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1405ھ، ج3،‌ ص326؛ علامہ حلی، باب الحادی عشر، 1365ش، ص9۔
  23. قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسۃ، 1422ھ، ص529؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج4، ص312 و 313۔
  24. فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، 1422ھ، ص242؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387ش، ص215۔
  25. سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1405ھ، ج3،‌ ص326؛ علامہ حلی، باب الحادی عشر، 1365ش، ص9؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، 1422ھ، ص243۔
  26. سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1405ھ، ج3،‌ ص326؛ علامہ حلی، باب الحادی عشر، 1365ش، ص9؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، 1422ھ، ص243۔
  27. جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص280؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج4، ص312 و 313۔
  28. طوسی، تلخیص المحصل، 1405ھ، ص369؛ جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص281؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص162؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1385ش، ص197؛ مصباح یزدی، راہ و راہنماشناسی، 1395ش، ص285 و 286۔
  29. ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387ش، ص216۔
  30. مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن، 1402ھ، ج8، ص154۔
  31. برای نمونہ نگاہ کنید بہ ابن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، مکتب الاعلام الاسلامی، ج4، ص331؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، دار قلم، ص569؛ جوہری،‌ الصحاح، 1407ھ، ج5، ص1986؛‌ ابن منظور، لسان العرب، دار صادر، ج12، ص403 و 404۔
  32. سبحانی،‌ منشور جاوید، 1383ش، ج4، ص3۔
  33. برای نمونہ نگاہ کنید بہ مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، 1414ھ، ص129؛ علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدھ، 1982م، ص164؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372ش، ص115؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25،‌ص209، 350 و 351۔
  34. علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدھ، 1982م، ص164؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25،‌ص209، 350 و 351۔
  35. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383ش، ص468 و 469؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372ش، ص115۔
  36. مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، 1414ھ، ص129 و130۔
  37. جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1385ش، ص198 و 199۔
  38. جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1385ش، ص200۔
  39. ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387ش، ص220۔
  40. ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387ش، ص220۔
  41. علامه حلی، کشف المراد، 1382ش، ص184؛ شعرانی، شرح فارسی تجرید الاعتقاد، 1376ش، ص510.
  42. علامه حلی، کشف المراد، 1382ش، ص185.
  43. علامه حلی، کشف المراد، 1382ش، ص185.
  44. علامه حلی، کشف المراد، 1382ش، ص185؛ شعرانی، شرح فارسی تجرید الاعتقاد، 1376ش، ص511.
  45. سبحانی، منشور جاوید، 1383ش، ج4،‌ ص251۔
  46. ملاحظہ کریں علامه حلی، کشف المراد، 1382ش، ص196؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387ش، ص274-280.
  47. بحرانی، منار الهدی، 1405ق، ص664 و 665.
  48. ربانی گلپایگانی، «افضلیت و عصمت اهل بیت(ع) در آیه و روایات صلوات»، ص9-26.
  49. سورہ بقرہ،‌ آیہ 124۔
  50. مظفر، دلائل الصدھ، 1422ھ، ج4، ص220۔
  51. فاضل مقداد،‌ اللوامع الالہیہ، 1422ھ، ص332۔
  52. برای نمونہ نگاہ کنید بہ سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1410ھ، ج3، ص139؛ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء‌التراث العربی، ج1، ص449؛ فاضل مقداد،‌ اللوامع الالہیہ، 1422ھ، ص332؛ مظفر، دلائل الصدھ، 1422ھ، ج4، ص220۔
  53. سورہ نساء، آیہ 59۔
  54. دیکھئے طوسی،‌ التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء‌التراث العربی، ج3،‌ص236؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3،‌ ص100؛ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص113 و 114؛ مظفر،‌ دلائل الصدھ، 1422ھ، ج4، ص221۔
  55. نمونہ کے طور پر دیکھئے کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص276، ح1؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1395ھ، ج1،‌ ص253؛ خزاز قمی، کفایۃ الاثر، 1401ھ، ص53 و 54؛ بحرانی، غایۃ‌ المرام، 1422ھ، ج3، ص109-115۔
  56. برای نمونہ نگاہ کنید بہ طوسی،‌ التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء‌التراث العربی، ج3،‌ ص236؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3،‌ ص100؛ بحرانی، غایۃ‌ المرام، 1422ھ، ج3، ص109۔
  57. سورہ احزاب، آیہ 33۔
  58. سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1410ھ، ج3، ص134 و135؛ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص646 و647؛ سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج4، ص125؛ حمود، الفوائد البہیۃ، 1421ھ، ج2،‌ص92 و 93۔
  59. فاریاب، عصمت امام در تاریخ تفکر امامیہ، 1390ش، ص335 و 336۔
  60. نمونہ کے طور پر دیکھئے بحرانی، غایۃ‌ المرام، 1422ھ، ج3، ص193-211۔ اس مآخذ میں شیعوں سے 34 روایات نقل ہوئی ہیں۔
  61. نمونہ کے طور پر دیکھئے مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌التراث العربی، ج4، ص1883، ح61؛‌ ترمذی، سنن تزمذی، 1395ھ، ج5، ص351، ح3205 و ص352، ح3206 و ص663، ح3787. سید ہاشم بحرانی نے کتاب غایۃ المرام میں 41 روایت اہل‌سنت سے اس سلسلہ میں نقل کی ہیں۔بحرانی، غایۃ‌المرام، 1422ھ، ج3، ص173-192۔
  62. بحرانی، غایۃ‌المرام، 1422ھ، ج3، ص193؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص311 و 312؛ سبحانی، منشور جاوید،‌ 1383ش، ج4، ص387-392۔
  63. دیکھئے علامہ حلی، کشف المراد، 1382ش، ص196؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387ش، ص274-280۔
  64. بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص664 و 665۔
  65. ربانی گلپایگانی، «افضلیت و عصمت اہل بیت(ع) در آیہ و روایات صلوات»، ص9-26۔
  66. برای نمونہ نگاہ کنید بہ خزاز قمی، کفایۃ الاثر، 1401ھ، ص16-19، 29، 36-38، 45، 76، 99 و 100-104؛‌ ابن عقدہ کوفی، فضائل امیرالمؤمنین(ع)، 1424ھ، ص154 و 155؛ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص665-673۔
  67. دیکھئے مفید،‌ المسائل الجارودیہ، 1413ھ، ص42؛ ابن عطیہ، ابہی المداد، 1423ھ، ج1، ص131؛‌ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص671؛ حمود، الفوائد البہیۃ، 1421ھ، ج2،‌ ص95۔
  68. ابن عطیہ، ابہی المداد، 1423ھ، ج1، ص131؛‌ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص671؛ حمود، الفوائد البہیۃ، 1421ھ، ج2،‌ ص95۔
  69. حلبی، الکافی فی الفقہ، 1403ھ، ص97۔
  70. دیکھئے خزاز قمی، کفایۃ الاثر، 1401ھ، ص87، 92، 129 و 137؛‌ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج1، ص57۔
  71. مناوی، فیض القدیر، 1356ھ، ج3، ص14۔
  72. ابن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقۃ، 1417ھ، ج2،‌ ص442 و 443۔
  73. ابن عطیہ، ابہی المداد، 1423ھ، ج1، ص130؛‌ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص670۔
  74. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، دفتر نشر اسلامی، ج9،‌ ص360؛ مازندرانی، شرح الکافی، 1382ھ، ج6، ص124۔
  75. برای نمونہ نگاہ کنید بہ التفسیر المنسوب الی الامام الحسن العسکری، 1409ھ، ص546؛ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2،‌ ص27؛ طوسی،‌ الامالی، 1414ھ، ص259 و 379۔
  76. بطور نمونہ دیکھئے ابن حنبل، فضائل الصحابہ،‌ 1403ھ، ج2،‌ ص671؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج2، ص486 و ج3، ص517؛ طبرانی، المعجم الکبیر، نشر مکتبۃ ابن‌تیمیۃ، ج7،‌ ص22؛‌ ابن عساکر، تاریخ دمشھ، 1415ھ، ج40، ص20۔
  77. ملاحظہ کریں: ربانی گلپایگانی و فاطمی‌نژاد، «حدیث امان و امامت اہل بیت(ع)»، ص31۔
  78. خزاز قمی، کفایۃ الاثر، 1401ھ، ص29۔
  79. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج2، ص486۔
  80. بطور نمونہ دیکھئے صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2،‌ ص27؛ صفار، بصائر الدرجات، ص297؛ خزاز قمی، کفایۃ الاثر، 1401ھ، ص34؛ طوسی،‌ الامالی، 1414ھ، ص60، 249، 459، 482، 513 و 733؛ ۔بحرانی، غایۃ‌المرام، 1422ھ، ج3، ص13-24۔
  81. بطور نمونہ دیکھئے ابن حنبل، فضائل الصحابہ،‌ 1403ھ، ج2،‌ ص785؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج2، ص373 و ج3، ص163؛ طبرانی، المعجم الکبیر، نشر مکتبۃ ابن‌تیمیۃ، ج3،‌ ص45؛‌ مناوی، فیض القدیر، 1356ھ، ج2، ص519 و ج5، ص517۔
  82. موسوی شفتی، الامامۃ، 1411ھ، ص209۔
  83. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص163۔
  84. میرحامد حسین، عبقات الانوار، ج23، ص655 و 656۔
  85. خزاز قمی، کفایۃ الاثر، 1401ھ، ص34، 210 و 211؛ حلبی، الکافی فی الفقہ، 1403ھ، ص97۔
  86. مناوی، فیض القدیر، 1356ھ، ج2، ص519۔
  87. ابن تیمیہ،‌ منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ھ، ج7،‌ ص220۔
  88. قفاری، اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ، 1431ھ، ج2، ص777-779۔
  89. مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، ص39، بہ نقل از: قربانی مبین و محمدرضایی، «پژوہشی در عصمت امامان»، ص153۔
  90. قفاری، اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ، 1431ھ، ج2، ص777۔
  91. قربانی مبین و محمدرضایی، «پژوہشی در عصمت امامان»، ص158۔
  92. نگاہ کریں: صدوق، الخصال، 1362ش، ص129؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25، ص164۔
  93. ابن عقدہ، فضائل امیرالمؤمنین(ع)، 1424ھ، ص154؛ خزاز قمی، کفایۃ الاثر، 1401ھ، ص302 و 303۔
  94. برای نمونہ نگاہ کریں: حمویی، فرائد السمطین، مؤسسہ المحمودی، ج2،‌ ص133 و313۔
  95. قفاری، اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ، 1431ھ، ج2، ص776۔
  96. امین، ضحی الاسلام، مؤسسہ ہنداوی، ج3، ص864۔
  97. دیکھئے سبحانی، راہنمای حقیقت، 1387ش، ص114 و 115۔
  98. دیکھئے سبحانی، راہنمای حقیقت، 1387ش، ص365۔
  99. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص356؛ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 216، ص335۔
  100. دیکھئے آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج11، ص198؛ امین، ضحی الاسلام، مؤسسہ ہنداوی، ج3، ص861؛ دہلوی، تحفہ اثنی عشری، مکتبۃ الحقیقۃ، ص373 و 463؛ قفاری، اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ، 1431ھ، ج2،‌ ص793۔
  101. مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج26، ص527 و 528۔
  102. مازندرنی، شرح الکافی، ج12، 1382ھ، ص485 و 486۔
  103. سورہ یوسف، آیہ 53۔
  104. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ش، ج8، ص269۔
  105. نگاہ کنید بہ قفاری، اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ، 1431ھ، ج2، ص794-796؛ دہلوی، تحفہ اثنی عشری، مکتبۃ الحقیقۃ، ص463۔
  106. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص438، 450 و 505۔
  107. مجلسی، لوامع صاحبقرانی، 1414ھ، ج4، ص185۔
  108. آلوسی، روح المعانی،‌ 1415ھ، ج11، ص198۔
  109. مجلسی، لوامع صاحبقرانی، 1414ھ، ج4، ص185؛ اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ‌الائمہ، 1381ھ، ج2، ص253 و 254؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25، ص210۔
  110. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25، ص210۔

مآخذ

  • آلوسی، محمود بن عبداللہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، تحقیق علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ - منشورات محمد علی بیضون، چاپ اول، 1415ھ۔
  • ابن‌ ابی‌ الحدید، عبدالحمید بن هبةالله، شرح نهج البلاغه، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، قم، مکتبة آیة الله المرعشی النجفی‏، چاپ اول، 1404ھ۔
  • ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، ریاض، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ، چاپ اول، 1406ق/1986ء۔
  • ابن حجر ہیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقۃ علی اہل الرفض و الضلال والزندقۃ، تحقیق عبدالرحمن بن عبداللہ الترکی و کامل محمد الخراط، بیروت، مؤسسہ الرسالۃ، چاپ اول، 1417ق-1997ء۔
  • ابن حنبل، احمد بن محمد بن حنبل، فضائل الصحابہ،‌ تحقیق وصی‌اللہ محمد عباس، بیروت، مؤسسہ الرسالۃ، چاپ اول، 1403ق-1983ء۔
  • ابن عبد الوہاب، محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان، رسالۃ فی الرد علی الرافضۃ، تحقیق ناصر بن سعد الرشید، ریاض، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ، بی‌تا۔ (این رسالہ در جلد دوازدہم از مؤلفات محمد بن عبدالوہاب، بہ چاپ رسیدہ است)
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشھ، تحقیق عمرو بن غرامۃ العمروی، بیروت، دارالفکر، 1415ق-1995ء۔
  • ابن عطیہ، مقاتل، اَبہی المداد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، شرح و تحقیق محمد جمیل حمود، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، چاپ اول، 1423ھ۔
  • ابن عقدہ کوفی، احمد بن محمد، فضائل امیرالمؤمنین(ع)، تحقیق و تصحیح عبدالرزاق محمد حسین حرزالدین، قم، دلیل ما، چاپ اول، 1424ھ۔
  • ‌ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، چاپ اول، بے‌تا۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار صادر، چاپ سوم، بے‌تا۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ‌الائمہ (طبع قدیم)، تحقیق و تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، تبریز، بنی‌ ہاشم، چاپ اول، 1381ھ۔
  • امین، احمد، ضحی الاسلام، قاہرہ، مؤسسہ ہنداوی، بے‌تا۔
  • باذلی، رضا، «الہی بودن منصب امامت»، در موسوعہ رد شبہات(16)؛ امامت (1)، تہران، انتشارات مشعر، چاپ اول، 1398 ہجری شمسی۔
  • بحرانی، سید ہاشم، غایۃ المرام و حجۃ الخصام فی تعیین الامام، تحقیق سید علی عاشور، بیروت،‌ مؤسسہ تاریخ اسلامی، چاپ اول، 1422ھ۔
  • بحرانی، شیخ علی، منار الہدی فی النص علی امامۃ الائمۃ الاثنی عشر، تحقیق عبدالزہرا خطیب، بیروت، دار المنتظر، 1405ھ۔
  • بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرۃ، قم، دفتر نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ، بے‌تا۔
  • «بررسی دلیل استغفار معصومین(ع) از نگاه امام خمینی در پرتو دعای عرفه امام حسین(ع)»، وبگاه پرتال امام خمینی، تاریخ درج مطلب: 8 شهریور 1396ش، تاریخ مشاہدہ: 5 اردیبهشت 1402ہجری شمسی۔
  • ‌ ترمذی، محمد بن عیسی، سنن تزمذی، تحقیق و تعلیق احمد محمد شاکر، محمد فؤاد عبدالباقی و ابراہیم عطوہ، مصر، شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفى البابی الحلبی، چاپ دوم، 1395ھ-1975ء۔
  • تفتازانی، سعدالدین، شرح المقاصد، تحقیق و تعلیقہ عبدالرحمن عمیرہ، قم، شریف رضی، چاپ اول، 1409ھ۔
  • التفسیر المنسوب الی الامام الحسن العسکری، تحقیق محمد باقر موحد ابطحی، قم، مدرسہ امام مہدی(ع)، چاپ اول، 1409ھ۔
  • جرجانی، میر سید شریف، التعریفات، تہران، ناصر خسرو، چاپ چہارم، 1412ھ۔
  • جرجانی، میر سید شریف، شرح المواقف، تحقیق بدرالدین نعسانی، قم، شریف رضی، چاپ اول، 1325ھ۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، وحی و نبوت در قرآن (تفسیر موضوعی قرآن کریم،‌ ج3)، تحقیق و تنظیم علی زمانی قمشہ‌ای، قم، نشر اسراء، چاپ سوم، 1385 ہجری شمسی۔
  • جوہری،‌ اسماعیل بن حماد، الصحاح تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، تحقیق احمد عبدالغفور عطار، بیروت، دار العلم، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1411ق-1990ء۔
  • حلبی، ابوالصلاح، الکافی فی الفقہ، تحقیق رضا استادی، اصفہان، مکتبۃ امیرالمؤمنین،‌ چاپ اول، 1403ھ۔
  • حمود، محمد جمیل، الفوائد البہیۃ فی شرح عقائد الامامیۃ، بیروت، مؤسسہ الاعلمی،‌ چاپ دوم، 1421ھ۔
  • ‌ حمویی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق محمد باقر محمودی، بیروت، مؤسسہ المحمودی، بےتا۔
  • خزاز قمی، علی بن محمد، کفایۃ الاثر فی النص علی الائمۃ الاثنی عشر، تحقیق و تصحیح عبدالطیف حسینی کوہ‌کمری، قم، بیدار، 1401ھ۔
  • دہلوی، عبدالعزیز، تحفہ اثنی عشری، استانبول، مکتبۃ الحقیقۃ، بے‌تا۔
  • ‌ راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، بیروت، دار قلم، چاپ اول، بے‌تا۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، امامت در بینش اسلامی، قم، بوستان کتاب، چاپ دوم، 1387 ہجری شمسی۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، «افضلیت و عصمت اہل بیت(ع) در آیہ و روایات صلوات»، فصلنامہ کلام اسلامی، شمارہ 99، پاییز 1395 ہجری شمسی۔
  • ربانی گلپایگانی، علی و علی رضا فاطمی‌ نژاد، «حدیث امان و امامت اہل بیت(ع)»،‌ فصلنامہ کلام اسلامی، شمارہ 100، زمستان 1395 ہجری شمسی۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، «عصمت امام از نگاہ خرد»، فصلنامہ قبسات، شمارہ 45، پاییز 1386 ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل، قم، المرکز العالمی للدراسات الاسلامیۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، 1383 ہجری شمسی۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامۃ، تحقیق و تعلیق سید عبدالزہرا حسینی، تہران، مؤسسہ الصادق(ع)، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، الخصال، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1362 ہجری شمسی۔
  • صدوق،‌ محمد بن علی بن بابویہ، عیون اخبار الرضا(ع)، تحقیق مہدی لاجوردی، تہران،‌ نشر جہان، چاپ اول، 1378ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمۃ، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران،‌ اسلامیہ، چاپ دوم، 1395ھ۔
  • ضیائی‌ فر، سعید، «تأثیر دیدگاه‌های کلامی بر اصول فقہ»، فصلنامہ نقد و نظر، شماره 41 و 42، فروردین 1385ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، مکتبۃ النشر الاسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی بن عبدالمجید السفلی، قاہرہ،‌ نشر مکتبۃ ابن‌ تیمیۃ، چاپ دوم، بی‌تا۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران،‌ ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طوسی،‌ محمد بن حسن، الامالی، قم،‌ دار الثقافۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
  • طوسی، خواجہ نصیر الدین، تلخیص المحصل المعروف بنقد المحصل، بیروت، دارالضواء، چاپ دوم، 1405ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد فیما یتعلق بالاعتقاد، بیروت، دار الاضواء، چاپ دوم، 1406ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ اول، بے‌تا۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، الباب الحادی عشر، تہران، مؤسسہ مطالعات اسلامی، 1365 ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد قسم الالہیات، بہ کوشش جعفر سبحانی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ دوم، 1382 ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، چاپ اول، 1982ء۔
  • ‌فاریاب، محمد حسین، عصمت امام در تاریخ تفکر امامیہ تا پایان قرن پنجم ہجری، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ اول، 1390 ہجری شمسی۔
  • ‌ فاضل مقداد،‌ مقداد بن عبداللہ، اللوامع الالہیہ فی المباحث الکلامیۃ، تحقیق و تعلیق شہید قاضی طباطبایی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ دوم، 1422ھ۔
  • فیاض لاہیجی، عبد الرزاق، سرمایہ ایمان در اصول اعتقادات، تصحیح صادق لاریجانی، تہران، انتشارات الزہراء، چاپ سوم، 1372 ہجری شمسی۔
  • فیاض لاہیجی، عبدالرزاق، گوہر مراد، تہران، نشر سایہ، چاپ اول، 1383 ہجری شمسی۔
  • قاضی عبد الجبار، عبدالجبار بن احمد، المغنی فی ابواب التوحید و العدل، تحقیق جورج قنواتی، قاہرہ، الدار المصریہ، 1962-1965ء۔
  • قربانی مبین، حمیدرضا و محمد محمد رضایی، «پژوہشی در عصمت امامان»، فصلنامہ انجمن معارف اسلامی، شمارہ 23، تابستان 1389 ہجری شمسی۔
  • قفاری، ناصر عبداللہ علی، اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ: عرض و نقد، جیزہ، دار الرضا، چاپ چہارم، 1431ق-2010ء۔
  • مازندرانی، محمد صالح بن احمد، شرح الکافی (الاصول و الروضۃ)، تصحیح ابوالحسن شعرانی، تہران، المکتبۃ الاسلامیہ، چاپ اول، 1382ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول، تحقیق و تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • مجلسی، محمد تقی، لوامع صاحبقرانی مشہور بہ شرح فقیہ، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • مسلم نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی،‌ بے‌تا۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، راہ و راہنمایی شناسی، قم، انتشارات موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1395 ہجری شمسی۔
  • مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن، تہران، مرکز الکتاب للترجمہ و النشر، چاپ اول، 1402ھ۔
  • ‌ مظفر، محمد حسین، دلائل الصدق، قم، مؤسسہ آل البیت (ع)، چاپ اول، 1422ھ۔
  • مفید، محمد بن نعمان، تصحیح اعتقادات الامامیہ، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • مفید،‌ محمد بن محمد، المسائل الجارودیہ، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • ‌ مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ اول، 1386 ہجری شمسی۔
  • مناوی، عبدالرؤوف بن تاج العارفین، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، مصر، المکتبۃ التجاریۃ الکبری، چاپ اول، 1356ھ۔
  • ‌ موسوی شفتی، سید اسداللہ، الامامۃ، تحقیق سید مہدی رجائی، اصفہان، مکتبۃ حجۃ الاسلام الشفتی، چاپ اول، 1411ھ۔
  • نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، چاپ اول، 1414ھ۔