مفترض الطاعہ

ویکی شیعہ سے

مُفْتَرَضُ‌الطَّاعَۃ، شیعہ ائمہؑ کا ایک خاص مقام ہے جس کے معنی بغیر کسی قید و شرط کے واجب الاطاعت ہستی کے ہیں۔ شیعہ علماء مختلف آیات اور روایات جیسے آیت اولوالامر، حدیث ثقلین، حدیث سفینہ اور حدیث منزلت وغیرہ سے استناد کرتے ہوئے اپنے ائمہ کو مفترض‌ الطاعہ مانتے ہیں۔ ان میں سے بعض علماء جیسے شیخ طوسی نے امام علیؑ کے مفترض‌ الطاعہ ہونے کے ذریعے ان کی امامت پر استدلال کی ہیں۔

شیعہ حدیثی منابع میں درج بالا احادیث کے علاوہ بھی دیگر احادیث موجود ہیں جن میں شیعہ ائمہؑ کے مفترض‌ الطاعہ‌ ہونے پر تصریح کی گئی ہیں۔ کتاب الکافی کا ایک حصہ اسی مطلب سے مختص کی گئی ہے جس میں اس سلسلے میں 17 احادیث نقل کی گئی ہیں۔

البتہ بعض احادیث میں آیا ہے کہ ائمہ معصومینؑ خود کو مفترض‌ الطاعہ نہیں مانتے تھے؛ لیکن شیعہ ان احادیث کو قبول نہیں کرتے۔ بعض محققین کے مطابق یہ احادیث تقیہ کی حالت میں صادر ہوئی ہیں۔

تعریف

مُفْتَرَضُ‌ الطَّاعَۃ اس ہستی کو کہا جاتا ہے جس کی اطاعت بغیر کسی قید و شرط کے مطلقا واجب ہو۔[1] شیعہ علماء اس مقام کو ان کے ائمہ معصومینؑ کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں۔[2] علامہ مجلسی مفترض‌ الطاعہ ہونے کو امامت کے لئے لازمی شرط سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق حدیث منزلت بھی اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔[3] بعض کہتے ہیں کہ امامت و خلافت الہی کا معنا ہی مفترض‌ الطاعہ ہونا ہے۔[4]

شیعہ ائمہ کے مفترض‌ الطاعہ ہونے کی دلیل

شیعہ علماء آیات اور روایات کی روی سے ائمہ معصومینؑ کو واجب الاطاعت سمجھتے ہیں۔ آیہ اولوالامر، حدیث ثقلین، حدیث سفینہ اور حدیث منزلت من جملہ ان آیات اور روایات میں سے ہیں جن سے ائمہ معصومینؑ کے مفترض‌ الطاعہ ہونے کا نتیجہ لے سکتے ہیں۔ اس درمیان بعض روایات میں اس مسئلے کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:

آیت اولوالامر

آیت "أَطیعُوا اللَہ وَ أَطیعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْكُمْ؛ اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمان روائی کے حقدار ہیں)"[5] میں خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ اولی‌ الامر کی اطاعت بھی بغیر کسی قید و شرط کے واجب قرار دی گئی ہے۔[6] علامہ طباطبایی کے مطابق اولی‌ الامر کا رسول پر فعل "أَطیعُوا" کی تکرار کے بغیر عطف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح رسول کی اطاعت واجب ہے اسی طرح اولی الامر کی بھی اطاعت بغیر کسی قید و شرط کے واجب ہے۔[7] شیعہ علماء احادیث کی روشنی میں اولوالامر سے مراد بارہ امامؑ لیتے ہیں۔[8]

ائمہ کے مفترض‌ الطاعہ ہونے پر دلالت کرنے والی احادیث

حدیث ثقلین میں اہل‌ بیتؑ کو قرآن کا ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح مسلمانوں پر قرآن کی اطاعت اور پیروی واجب ہے، اسی طرح اہل‌ بیتؑ کی اطاعت بھی واجب ہے۔[9] چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم ابو الصلاح حلبی کے مطابق اس حدیث میں پیغمبر اکرمؐ کے کلام میں کوئی قید و شرط کا نہ آنا اس بات کی دلیل ہے کہ اہل‌ بیتؑ کی اطاعت بھی بغیر کسی قید و شرط کے واجب ہے۔ اسی بنا پر مسلمانوں کو اہل بیتؑ کے تمام افعال اور گفتار میں ان کی پیروی کرنا واجب ہے۔[10]

حدیث سفینہ بھی اہل بیت ؑ کی اطاعت واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ اس حدیث کے مطابق امت کی نجاتْ اہل بیتؑ کی پیروی میں منحصر ہے جس طرح امت کی گمراہی اور ضلالت اہل بیتؑ سے دوری میں منحصر ہے۔[11] میر حامد حسین کے مطابق اس حدیث کی رو سے اہل بیتؑ کی اطاعت کا واجب ہونا بغیر کسی قیدو شرط اور مطلقا ہے۔[12]

بعض علما جیسے شیخ طوسی اور ابوالصلاح حلبی حدیث منزلت سے امام علیؑ کے مفترض‌ الطاعہ ہونے کا نتیجہ لیتے ہیں پھر اس مسئلہ کے ذریعے آپ کی امامت کو ثابت کرتے ہیں۔[13] شیخ طوسی لکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے حدیث منزلت میں امام علیؑ کی اپنے ساتھ نسبت کو حضرت ہارون کی حضرت موسی کے ساتھ نسبت کی طرح قرار دیا ہے۔ اب چونکہ حضرت ہارون حضرت موسی کی نیابت میں مفترض‌ الطاعہ تھے، امام علیؑ بھی مفترض‌ الطاعہ ہیں اور یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ آپؑ امام بھی ہیں۔[14]

مفترض‌ الطاعہ پر تصریح کرنے والی احادیث

حدیثی منابع میں بعض احادیث نقل ہوئی ہیں جو اس بات کی تصریح کرتی ہیں کہ ائمہ معصومینؑ مفترض‌ الطاعہ‌ ہیں۔ محمد بن یعقوب کلینی نے کتاب الکافی میں"بَابُ فَرْضِ طَاعَۃِ الْأَئِمَّۃِ‏" کے عنوان سے سترہ احادیث نقل کی ہیں۔[15] ان میں سے ایک حدیث میں امام صادقؑ اپنے سے پہلے والے ائمہ کے مفترض‌ الطاعہ ہونے کی گواہی دیتے ہوئے انہیں خدا کی طرف سے واجب الاطاعت امام قرار دیتے ہیں۔[16]امام صادق علیہ‌السلام ایک اور روایت میں خدا کی قسم کھاتے ہوئے مفترض الطاعہ امام کے مقام و منزلت اور اہمیت پر تصریح کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: امام کے مفترض‌ الطاعہ ہونے کا انکار کرتے ہیں اور ان سے دور چلے جاتے ہیں، خدا کی قسم زمین پر مقام مفترض الطاعہ سے بلند کوئی مقام نہیں ہے، حضرت ابراہیم کے اوپر عرصے سے خدا کی طرف سے وحى ہوتی چلی آ رہی تھی لیکن آپ مفترض الطاعہ نہیں تھے۔ جب خدا نے انہیں عزت اور عظمت سے نوازنے کا ارادہ کیا تو ان سے فرمایا : "إِنِّي جٰاعِلُكَ‌ لِلنّٰاسِ‌ إِمٰاماً، میں تمہیں لوگوں کا امام مقرر کرتا ہوں" ، حضرت ابراہیم کو جب پتہ چلا کہ خدا نے انہیں کتنی عظمت سے نوازا ہے تو کہا: "وَ مِنْ‌ ذُرِّيَّتِي" کیا یہ مقام میری نسل میں بھی ہوگا؟ خدا نے فرمایا: لاٰ يَنٰالُ‌ عَہْدِي اَلظّٰالِمِينَ‌، میرا عہدہ ظالمین تک نہیں پہنچے گا۔ امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ خدا یہاں پر تصریح كر رہا ہے کہ یہ شائستہ مقام تیری ذریت میں سے جو ستمگر ہیں ان تک نہیں پہنچے گا۔ [17] علامہ مجلسی نے بھی بحارالانوار میں امام رضاؑ سے روایت کی ہے کہ یہ مقام پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں امت تک پہنچا دیا گیا تھا اور عید غدیر کے دن ان سے عہد و پیمان لیا گیا تھا۔[18]

حدیثی منابع میں بعض حکایات بھی نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق بعض لوگ ائمہ معصومین کے پاس جا کر ان کے مفترض‌ الطاعہ ہونے کی گواہی دیتے تھے اور ائمہ معصومینؐ انہیں قبول کرتے تھے۔[19]

مخالف احادیث

شیعہ حدیثی منابع میں بعض احادیث موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیعہ ائمہؑ نے خود ان کے واجب‌ الاطاعہ ہونے کا انکار کئے ہیں۔ من جملۂ ان میں سے ایک حدیث جسے شیخ طوسی نے نقل کی ہے اس کے مطابق دو شخص امام صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک سوال کرتا ہے: "آیا مفترض‌ الطاعہ امام آپ ہیں؟ امامؑ جواب دیتے ہیں: "میں ہمارے درمیان میں ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا ہوں"۔ اس کے بعد وہ شخص کہتا ہے: "کوفہ میں ایک گروہ مفترض‌ الطاعہ امام کو آپ میں سے مانتے ہیں۔" امام فرماتے ہیں: "ہم نے انہیں اس مسئلے کے بارے میں حکم نہیں دیا ہے۔"[20]

اسی طرح شیخ مفید کتاب الاختصاص میں لکھتے ہیں کہ امام کاظمؑ ایک حدیث میں ائمہ کے مفترض‌ الطاعہ ہونے کے عقیدے کو غالیوں کا عقیدہ قرار دیتے ہیں۔[21]

مخالف احادیث کے بارے میں شیعہ علماء کا نظریہ

شیعہ علماء ائمہ معصومینؑ کے مفترض‌ الطاعہ ہونے کے مخالف احادیث کو قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ائمہ معصومینؑ مفترض‌ الطاعہ ہیں۔[22] شیخ صدوق، شیخ مفید اور شیخ طوسی حدیث منزلت سے استناد کرتے ہوئے شیعہ ائمہ کو مفترض‌ الطاعہ سمجھتے ہیں۔[23]

بعض محققین کہتے ہیں کہ وہ احادیث جن میں ائمہ معصومینؑ نے اپنے بارے میں مفترض‌ الطاعہ ہونے سے انکار کئے ہیں وہ در حقیقت تقیہ کی حالت میں بیان ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق امام صادقؑ اور امام کاظمؑ کے دور میں ائمہ معصومینؑ کے مفترض‌ الطاعہ ہونے کا عقیدہ رائج ہوا تھا اسی بنا پر بنی‌ عباس کے خلفاء اس سلسلے میں زیادہ پریشان تھے کیونکہ وہ اس عقیدے کو اپنی سیاسی زندگی کے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔[24]

حوالہ جات

  1. دزفولی، «بررسی شواہد تاریخی باورمندی شیعہ بہ مقام مفترض‌الطاعہ بودن امام»، ص32۔
  2. غلامی، «دلالت حدیث منزلت بر مقام فرض‌الطاعہ»، ص81؛ دزفولی، «بررسی شواہد تاریخی باورمندی شیعہ بہ مقام مفترض‌الطاعہ بودن امام»، ص37؛ رجوع کریں: شیخ صدوق، معانی‌الاخبار، 1403ھ، ص78؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ص156-157؛ شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406، ص352۔
  3. رجوع کریں: مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج37، ص282۔
  4. شفتی، الامامۃ، 1411ھ، ج3، ص22۔
  5. سورہ نساء، آیہ59۔
  6. رجوع کریں: طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج3، ص100؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج4، ص391۔
  7. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج4، ص391۔
  8. طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن،‌ داراحیاء التراث العربی، ج3، ص236؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج3، ص100؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج4، ص398و399۔
  9. ملاحظہ کریں: حلبی، الکافی فی الفقہ، ‌1403ھ، ص97۔
  10. حلبی، الکافی فی الفقہ، ‌1403ھ، ص97۔
  11. مظفر، دلائل الصدھ، 1422ھ، ج6، ص262 و 263۔
  12. میر حامد حسین، عبقات الانوار، ‌1366ہجری شمسی، ج23، ص975۔
  13. شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406، ص352؛ حلبی، تقریب‌المعارف، 1404ھ، ص210۔
  14. شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406، ص352۔
  15. رجوع کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص185-190۔
  16. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص186۔
  17. صفار، بصائرالدرجات، 1404ھ، ج1، ص509؛مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص141۔
  18. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج37، ص325
  19. شیخ طوسی، رجال‌الکشی (اختیار معرفۃ الرجال)، 1384ہجری شمسی، ج2، ص719؛ کلینی، الکافی، 1407ہجری شمسی، ج1، ص188۔
  20. شیخ طوسی، رجال‌الکشی (اختیار معرفۃ الرجال)، 1384ہجری شمسی، ج2، ص427۔
  21. مفید، الاختصاص، 1413ھ، ص55۔
  22. نمونہ کے لئے رجوع کریں: شیخ صدوق، معانی‌الاخبار، 1403ھ، ص78؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ص156-157؛ شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406، ص352؛ مجلسی،بحار الانوار، 1403ھ، ج37، ص282؛ شفتی، الامامۃ، 1411ھ، ج3، ص22۔
  23. رجوع کریں: شیخ صدوق، معانی‌الاخبار، 1403ھ، ص78؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ص156-157؛ شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406، ص352۔
  24. دزفولی، «بررسی شواہد تاریخی باورمندی شیعہ بہ مقام مفترض‌الطاعہ بودن امام»، ص47-49۔

مآخذ

  • حلبی، ابوالصلاح، تقریب‌المعارف، قم، الہادی، 1404ھ۔
  • حلبی، ابوالصلاح، الکافی فی الفقہ، تحقیق رضا استادی، اصفہان، مکتبۃ الامام امیرالمؤمنین(ع)، چاپ اول، ‌1403ھ۔
  • دزفولی، محمد علی، «بررسی شواہد تاریخی باورمندی شیعہ بہ مقام مفترض الطاعہ بودن امام، با تأکید بر سہ قرن اول»، در فصل‌نامہ امامت‌پژوہی، سال سوم، شمارہ 9، بہار 1392ہجری شمسی۔
  • شفتی، اسداللہ موسوی، الامامہ، تحقیق سید مہدی رجایی، مکتبہ سید حجّہ الاسلام شفتی، اصفہان، 1411ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی‌الاخبار، تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1403ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد فی ما یَتَعَلَّقُ بالاِعتقاد، بیروت، دارالاَضواء، چاپ دوم، 1406ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن،‌ بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ اول، بی‌تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، رجال‌الکشی (اختیار معرفہ الرجال)، مشہد، دانشگاہ مشہد، 1384ہجری شمسی۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمود محرمی زرندی، کنگرہ شیخ مفید، قم، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃِ حُجَجِ اللہِ علی العباد، تحقیق و تصحیح مؤسسہ آل‌البیت، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • صفار، محمدبن الحسن، بصائر الدرجات فی فضائلِ آل محمد، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • طباطبایی، سیدمحمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ اعلمی،‌ چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن‌ حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح فضل اللہ یزدی و ہاشم رسولی محلاتی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • غلامی، اصغر، «دلالت حدیث منزلت بر مقام فرض‌الطاعہ»، در سفینہ، شمارہ 13، 1385ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری،‌ دار الکتب الاسلامیہ، تہران، 1363ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بِحارُ الاَنوارِ الجامعۃُ لِدُرَرِ اخبارِ الائمۃِ الاطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • ‌مظفر، محمدحسن، دلائل الصدق لنہج الحھ، قم، مؤسسہ آل‌بیت، چاپ اول، 1422ھ۔
  • میر حامد حسین، سید مہدی، عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار، اصفہان، کتابخانہ اميرالمؤمنین‏، چاپ دوم، ‌1366ہجری شمسی۔