عبد اللہ بن مسعود
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | عبد اللہ بن مسعود بن غافل بن حبیب ہُذَلی |
کنیت | ابو عبد الرحمن، ابن ام عبد |
محل زندگی | مکہ، حبشہ، مدینہ، کوفہ |
مہاجر/انصار | مہاجر |
مدفن | جنت البقیع (مدینہ) |
دینی معلومات | |
جنگوں میں شرکت | غزوہ بدر |
ہجرت | حبشہ، مدینہ |
وجہ شہرت | صحابی، قرات قرآن، مصحف قرآن |
عبد اللہ بن مسعود بن غافل بن حبیب ہُذَلی (متوفی 32 ھ) ابن مسعود کے نام سے معروف رسول اللہ کے اصحاب میں سے ہیں۔ محدث و مفسر قرآن کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے اپنے قول کے مطابق وہ اسلام قبول کرنے والوں میں سے چھٹے نمبر پر ہیں۔ ابن مسعود حبشہ کی ہجرت میں شریک تھے۔ نیز مکہ سے مدینہ ہجرت بھی کی اور جنگ بدر و احد میں موجود تھے۔ رحلت پیغمبر کے بعد رِدّه اور فتح شام کی جنگوں میں بھی شریک رہے۔ سنہ 21 ھ میں عمر بن خطاب نے انہیں عمار کے ہمراہ بیت المال کی نظارت اور قضاوت کیلئے کوفہ بھیجا۔ حضرت عثمان نے اپنے دور خلافت میں سعد بن ابی وقاص کے ساتھ نزاع کی بنا پر مدینہ بدر کر دیا۔ انہوں نے عثمان کے قتل سے پہلے مدینہ میں وفات پائی۔
وہ قرآن کریم کے اولین حافظوں میں سے ہیں اور انہوں نے کسی واسطے کے بغیر ستر (70) سورتیں رسول اللہ سے سماعت کیں۔ انہوں نے مصحف کو کچھ افراد کے سامنے قرات کیا تو انہوں نے اسے لکھا۔ عثمان کی جانب سے قرآن کی جمع آوری کا حکم صادر ہوا تو پہلے اس حکم کے ماننے سے انکاری ہوئے لیکن پھر مجبور ہو کر انہیں دے دیا۔ ابن مسعود تمام مسلمانوں کے نزدیک قابل احترام صحابی ہیں۔ آئمہ کی تعداد کے بارے میں ان سے روایت منقول ہے۔
ولادت،نسب و پیشہ
- ولادت: عبد اللہ مكہ میں پیدا ہوئے۔ وہ بنی ہذیل قبیلے سے تھے لیکن ان کا باپ زمانۂ جاہلیت میں بنی زہره کا حلیف تھا لہذا وہ بھی بعد میں حلیف بنی زہره سے پہچانے جاتے تھے۔ ان کی والدہ کے صحابیہ میں سے ہونے کی وجہ سے انہیں ابن ام عبد بھی کہتے تھے۔[1]
- کنیت: ابو عبد الرحمان ذکر ہوئی ہے۔[2]
عبد اللہ بچپنے میں عقبہ بن ابی معیط کے جانوروں کی گلہ بانی کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ابو جہل ان کی تحقیر کرتا تھا۔[3] مسلمان ہونے سے پہلے أرقَم کے گھر زندگی بسر کرتے تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعد پیامبر اکرم(ص) کے گھر کی خدمت گزاری کیلئے قبول کیا گیا۔
رسول اللہ (ص) کی حیات طیبہ
رسول اللہ کی دعوت اسلام کے آغاز میں معجزہ دیکھ کر اسلام قبول کیا۔ اسی وجہ سے ان کا نام پہلے مسلمانوں کی فہرست میں سے شمار ہوتا ہے۔ نیز ان کے اپنے کہنے کے مطابق وہ اسلام قبول کرنے والے چھٹے شخص تھے۔[4]
وہ ہجرت حبشہ کے گروہ میں سے تھے۔ منابع میں حبشہ کی جانب ان کی دو مرتبہ ہجرت ذکر ہوئی ہے۔[5] ابن مسعود حبشہ سے واپسی کے بعد رسول خدا کی مدینہ ہجرت کے بعد مدینہ گئے اور رسول اللہ نے ان کے اور معاذ بن جبل[6] یا زبیر بن عوام[7] کے درمیان عقد اخوت پڑھا۔ انہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی اور ابو جہل کو قتل کیا۔ پیغمبر (ص) نے اس سے خوش ہو کر اپنی تلوار انہیں بخش دی۔[8]
ابن عباس انہیں پیامبر(ص) کے ان ساتھیوں میں سے سمجھتے ہیں جو احد کے روز بھی رسول سے جدا نہیں ہوئے۔[9] نیز کہتے ہیں انہوں نے بہت سی غزوات میں شرکت کی۔[10] وہ اکثر پیامبر (ص) کے ساتھ رہتے اور ان کی بہت زیادہ خدمت کرتے۔[11]
رحلت پیغمبر (ص) کے بعد
خلافت اول
ابن مسعود کی رسول خدا کے زمانے کی زندگی کے بارے میں دقیق معلومات نہیں ہیں۔ ان کی اپنی ایک گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابو بکر کے زمانے میں ردّه کی جنگوں می شریک تھے۔[12] طبری نیز سیف بن عمر کے حوالے سے نقل کرتا ہے کہ جنگ یرموک میں غنائم کی محافظت ان کے سپرد تھی۔[13]
خلافت دوم
ابن مسعود نے عمر کے دور خلافت میں شام کی فتح میں شرکت کی۔ کچھ مدت وہاں قضاوت اور قرآن کی تعلیم میں مشغول رہے۔[14] اسی طرح تاریخی روایات کے مطابق مداین میں فقہ اور قرآن کی تعلیم میں مشغول رہے۔[15]
نظارت بیت المال
سنہ 21 ہجری میں عمر نے انہیں حمص سے طلب کیا اور عمار کے ساتھ کوفہ کے بیت المال کی نظارت اور قضاوت کیلئے بھیج دیا۔[16] عُمَر نے کچھ عرصہ بعد عمار کو معزول کرد دیا اور مغیرة بن شعبہ کو ان کی جگہ نصب کیا۔ بلاذری کی روایت کے مطابق معزولی کا سبب عبد اللہ بن مسعود کے ساتھ نزاع تھا۔[17]
تیسری خلافت
حضرت عمر کی رحلت کے بعد ابن مسعود مدینہ آ گئے اور عثمان کی بیعت کرنے کے بعد کوفہ لوٹ گئے اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی[18] نیز عثمان نے بھی انہیں ان کے عہدے پر باقی رکھا اور عراق میں زمین بخشی۔[19]
طبری کی سیف بن عمر سے منقول روایت کے مطابق انہی ایام میں کوفہ کے والی کی عدم موجودگی میں ابن مسعود اور سعد بن ابی وقاص سعد بن ابی وقاص کے درمیان بیت المال کے قرض لوٹانے کے معاملے پر جھگڑا ہو گیا۔ اس کی خبر جب خلیفہ کو پہنچی تو حضرت عثمان بن عفان نے سعد کو معزول کر دیا اور ابن مسعود سے ناراض ہوا۔[20] لیکن اس کے مقابلے میں دیگر تاریخی روایات میں ایسا جھگڑا ابن مسعود اور کوفے کے والی ولید بن عقبہ کے درمیان ہوا۔[21] اس جھگڑے کے نتیجے میں ولید نے خلیفہ کے پاس شکایت کی تو خلیفہ نے اسے مدینے واپس بلا لیا۔[22]
مدینہ میں عثمان نے انہیں ناسزا کہا اور حکم دیا کہ زبردستی مسجد سے باہر لے جائیں۔[23]
وفات
اس کے بعد ابن مسعود ۳ سال تک مدینہ میں رہے لیکن مدینے سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔[24] یہانتک کہ مدینے میں حضرت عثمان کے قتل سے ۲ سال پہلے مدینے ہی میں وفات پائی۔[25] مدینے میں اس دوران عثمان نے بیت المال سے ملنے والے عطیے قطع کر دیئے لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے وصی زبیر بن عوام کی درخواست ہر ابن مسعود کے اہل خانہ کو بیت المال سے عطیے کی رقم دی۔[26] ابن مسعود کی حضرت عثمان سے عدم رضایت کا ایک سبب رَبَذہ میں ابوذر کی تدفین میں شرکت اور نماز جنازہ پڑھنا تھا۔[27]
آخر کار ابن مسعود سنہ 32 ہجری مدینے میں اس جہان سے رخصت اور بقیع میں مدفون ہوئے۔[28]
ابن مسعود و قرآن
وہ رسول خدا کے بعد پہلے شخص ہیں جنہوں نے مشرکین کے سامنے بلند آواز میں قرآن کی تلاوت کی اور ان سے اذیت اٹھائی۔[29] ابن مسعود نزول قرآن کی بہت سی مناسبتوں میں موجود تھے۔ ان کے اپنے کہنے کے مطابق 70 سورتوں سے زیادہ قرآن رسول اللہ سے سنا۔[30] اور وہ اس زمانے میں لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔
ایک روایت کی بنا ہر ابن مسعود ان چار افراد میں سے ہیں، رسول اللہ نے جن سے قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کی نصیحت کی تھی۔ [31] وہ بہت عرصے تک مدینہ اور کوفہ میں رحلت پیغمبر کے بعد قرآن کی تعلیم میں مشغول رہا۔ حتا کہ ابن عباس جیسے بزرگ صحابہ نے ان سے قرآن کا علم حاصل کیا اور کئی موارد میں ابن مسعود کی قرائت کی۔[32]
قرائت ابن مسعود
کوفے کے تابعین میں سے اسود بن یزید، زر بن حبیش، عبید بن قیس، ابو عبدالرحمان سلمی، ابو عمرو شیبانی اور زید بن وہب نے ابن مسعود سے قرآن سے سیکھا اور ان کی کوفہ میں چند قرائتیں معروف تھیں۔[33] سلیمان بن مہران أعمَش کی روایت کے مطابق دوسری صدی ہجری کے اوائل میں کوفہ میں قرائت ابن مسعود کے سامنے مصحف عثمانی رواج نہیں رکھتا تھا؛ جبکہ آدھی صدی ہجری گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ قرائت ابن مسعود کی جگہ لی یہانتک کہ دوسری صدی ہجری کے وسط میں چند افراد اس قرائت کو اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے۔[34]
ان کے بعد کوفہ میں مصحف عثمانی کی بنیاد پر نئی قرائتیں وجود میں آئیں۔ حقیقت میں کوفے کی رائج قرائتیں یعنی: دس قاریوں میں سے عاصم، حمزه، کسائی اور خلف کی قرائتوں میں تھوڑی بہت قرائت ابن مسعود کی اصالت موجود ہے۔[35]
مصحف ابن مسعود
مآخذ میں موجود روایات کی بنا پر ابن مسعود اپنے شاگردوں کو آیات قرآن اپنے حافظے کی بنیاد املا کرواتے اور ان کے شاگرد ان کی قرات کو اپنے مصاحف میں لکھتے۔[36]
زید بن ثابت کے توسط سے حکومتی سطح پر مصحف کو اکٹھا اور قرآن کی جمع آوری کے واقعے سے مربوط روایات میں مصحف ابن مسعود کا تذکرہ بھی آیا ہے لیکن یہ زیادہ مورد توجہ قرار نہیں پایا پس عثمان نے ابن مسعود کو دستور دیا کہ وہ دوسرے مصفحوں کے ساتھ اپنا مصحف بھی تحویل میں دیں تا کہ سب مصفحوں کو اکٹھا ختم کیا جائے۔ روایات کے مطابق ابن مسعود اس کام کیلئے تیار نہیں ہوئے اور اسی وجہ سے عثمان کے حکم پر انہیں زد و کوب کیا گیا۔[37]
لیکن بعض روایات میں آیا ہے کہ ابن مسعود کی نظر تبدیل ہو گئی اور انہوں نے مصحف عثمانی کی تأیید کی۔[38]
تفسیر ابن مسعود
ابن مسعود اپنے زمانے میں مفاہیم قرآن اور آیات کے اسباب نزول سے واقف شخص تھے۔[39] اور بعد میں آنے والے زمانوں میں مختلف مکاتب فکر کے مفسرین کے درمیان ان کے انظار مورد توجہ رہے[40] کہا گیا ہے کہ سُدّی نے اپنی تفسیر میں اکثر ابن مسعود اور ابن عباس کی روایات نقل کی ہیں۔[41]
احادیث ابن مسعود
رسول خدا (ص) کے ساتھ اکثڑ رہنے کی وجہ سے ابن مسعود نے بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ اسی وجہ سے نووی نے کہا ہے: معتبر کتب میں ابن مسعود سے منقول روایات کی تعداد 848 حدیث کہ ان میں سے 64 حدیثیں بخاری اور مسلم کی متفق احادیث ہیں، 21 حدیثیں بخاری نے منفرد اور 35 حدیثیں مسلم نے منفرد ذکر کی ہیں۔[42] انہوں نے چند احادیث بلا واسطہ رسول اللہ سے نقل کی ہیں اور بعض احادیث صحابہ سے نقل کی ہیں۔[43]
ابن مسعود سے روایات کرنے والے
ابن عباس، ابو سعید خدری، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن زبیر، ابو موسی اشعری، انس بن مالک، جابر بن عبد اللہ انصاری و ... جیسے صحابہ اس سے روایات نقل کرنے والوں میں شامل ہیں۔ اسی طرح علقمہ بن قیس، اسود بن یزید، زید بن وہب، ابن ابی لیلی، ابوالاسود دوئلی اور عبیدة سلمانی نے جیسے تابعین اس سے حدیث نقل کی ہے۔[44]
احادیث ابن مسعود کے موضوعات
اس سے منقول احادیث گوناگوں عناوین سے متعلق ہیں مثلا: فقہی موضوعات خاص طور پر زہد اور اخلاق، تفسیر، تاریخ و معرفۃ الصحابہ۔
اسی طرح مَلاحِم و فِتَن جیسے قابل توجہ موضوع کی احادیث بھی موجود ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ ابن مسعود ان گنے چنے صحابہ میں سے ہے جس نے احادیث ملاحم و فتن نقل کی ہیں۔[45] کہا جا سکتا ہے ک بشارت مہدی(ع) کی حدیث ان مشہور احادیث میں سے ہے جسے کئی سے نقل کیا گیا ہے۔[46]
فتاوا
مختف منابعی کتب میں مذکور ہے ابن مسعود کا ان صحابہ میں شمار ہوتا تھا جو فتوا دیتے تھے اور لوگ اپنے فقہی مسائل میں اس سے رجوع کرتے تھے۔[47] کہتے ہیں ان کے فتاوا کی تعداد اس قدر تھی کہ ایک بڑی جلد تیار کی جا سکتی تھی۔[48] اسکے شاگرد ان فتاوا کو لکھ کر محفوظ کرتے تھے۔[49]
روش استنباط
- ابتدائی سالوں کی رائج روایات اس پر مبنی ہیں کہ ابن مسعود پہلے کتاب خدا اور سنت نبوی میں حکم تلاش کرتے اور حکم موجود نہ ہونے کی صورت میں اپنی رائے کے مطابق حکم شرعی بیان کرتے۔ مزید بیان ہوا ہے کہ وہ اپنی رائے کو ہمیشہ درست نہیں سمجھتا تھے اور امکان خطا کو پیش نظر رکھتے۔[50]
- دوسری جانب بہت سی روایات اس منقول ہیں جن میں قرآن و سنت سے حکم اخذ کرنے کی نصیحت اور اپنی رائے کے بیان سے نہی کی گئی ہے۔[51]
مختلف فقہی مکاتب کا متاثر ہونا
- کوفہ کے اصحاب رائے اور اصحاب حدیث نے ان سے متاثر تھے اور انہوں نے مختلف مقامات پر اس اثر کا اظہار کیا ہے۔
- خوارزمی حنفی نے فقہ میں ابوحنیفہ مشائخ کا سلسلہ دو واسطوں کے ذریعے ابن مسعود کے اصحاب تک پہنچایا ہے۔ محمد بن احمد مقدسی اپنے حنفی ہونے کی اہم ترین دلیل یہ دیتا ہے کہ ابو حنیفہ نے اپنی انظار میں حضرت علی(ع) اور ابن مسعود کے اقوال پر اعتماد کیا ہے۔[52]
- کوفہ کے اصحاب حدیث میں سے یحیی بن آدم بن سلیمان کوفی نے اپنی کتاب الخراج میں ابن مسعود کے فقہی اقوال اور انظار بیان کئے ہیں۔[53]
- عراق کی تدوین فقہ میں ابن مسعود اور ان کے اصحاب کا کردار اور خاص طور پر کوفے کے اصحاب میں ان کی حیثیت کی تحقیق کی ہے۔[54]
مقام و منزلت
اہل سنت
- اہل سنت کے ہاں ابن مسعود ایک بزرگ صحابی کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں اور ان کے ہاں فضائل عبد اللہ بن مسعود کے نام سے کتاب تالیف ہوئی جس میں ان کی مدح کی روایات مذکور ہوئی ہیں۔[55]
- عشره مبشره کے نام سے غیر مشہور حدیث میں ابن مسعود کا نام آیا ہے۔[56] لیکن محدثین کے ہاں یہ حدیث زیادہ قابل توجہ قرار نہیں پائی ہے۔
متکلمین
- مختلف مذاہب تعلق رکھنے والے بعض متکلمین نے عثمان ابن مسعود کی پٹائی کے معاملے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ابن مسعود جیسی شخصیت کے ساتھ اس طرح کے برتاؤ کو ناشائستہ قرار دیا ہے۔ ان ناقدین میں سے معتزلہ مکتب کے ابراہیم نظّام اور ابو جعفر اسکافی، امامیہ سے ابو القاسم کوفی، سید مرتضی و صاحب الایضاح اور از اباضیہ سے ابو یعقوب یوسف ورجلانی کے نام لئے جا سکتے ہیں۔[57]
- معتزلہ کے متشدد علما جیسے ابراہیم نظّام و ضرار بن عمرو نے رسول اکرم سے حدیث نقل کرنے میں ابن مسعود کی امانت میں تردید کی ہے۔ نظّام نے اس سے منقول بعض روایات کا انکار کیا جبکہ ضرار بن عمرو نے ان کے مصحف اور قرائت کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔[58]
اہل تشیع
اہل تشیع کے نزدیک ابن مسعود ایک بزرگ صحابی کی حیثیت سے قابل احترام ہیں۔ صرف متقدمین میں سے فضل بن شاذان نیشابوری نے خلفا کے ساتھ دوستانہ روابط کی وجہ سے ان کی مذمت کی ہے۔[59] لیکن شیعوں کے حدیثی آثار میں ان کی روایات خاص طور پر اہل بیت(ع) کے فضائل اور امامت سے مربوط مسائل کی روایات مورد عنایت رہی ہیں جیسا کہ نقباء اثنا عشر کی مشہور حدیث سے امامت کے اثبات کیلئے اس سے استناد کیا گیا ہے۔[60] یہانتک کہ ان کی بعض روایات ان کے شیعہ ہونے کی بیان گر ہیں۔[61]
فرقے
- اباضیہ فرقے کے محمد بن محبوب ابو عبد اللہ اور ابن سلام نے سنہ 3 ہجری میں ابن مسعود کو ان صحابہ سے شمار کیا ہے کہ جن سے اباضیہ فرقے نے اپنی تعلیمات اخذ کی ہیں۔[62]
- سنہ 2 ہجری کے پہلے پندرہ سالوں کے دوران شمال افریقا میں عمریہ فرقہ عیسی بن عمیر کے ہاتھوں تاسیس ہوا جنہوں نے اباضیہ کے برعکس اپنے مذہب کو ابن مسعود سے منسوب کیا حتا کہ قرآن کے معاملے میں ان کے مصحف کو بنیادی حیثیت دیتے تھے۔[63]
حوالہ جات
- ↑ الاستیعاب،1380، ج۳، ص۹۸۷ و ۹۸۸
- ↑ الاستیعاب، 1380، ج۳، ص۹۸۷ و ۹۸۸.
- ↑ المغازی، ج۱، ص۸۹.
- ↑ الغدیر، ج۹، ص۱۱.
- ↑ عروة بن زبیر، ۱۰۵؛ ابن اسحاق، ۱۷۶؛ ابن سعد، ۱ (۱) /۱۳۷، ۳ (۱) /۱۰۷
- ↑ ابن سعد، ۳ (۲) /۱۲۰-۱۲۱؛ بلاذری، همان، ج۱، ص۲۷۱
- ↑ ابن ہشام، ج۱، ص۵۰۵؛ ابن شبہ، ج۳، ص۱۰۵؛ بلاذری، بلاذری، ج۱، ص۲۷۰
- ↑ عروة بن زبیر، صص۱۴۲-۱۴۳؛ ابن ہشام، ج۱، صص۶۳۵ -۶۳۶، ۷۱۰-۷۱۱؛ واقدی، ج۱، صص۸۹ -۹۱
- ↑ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۹۳
- ↑ ابن سعد، ۳ (۱) /۱۰۸
- ↑ ابن شبہ، ج۱، ص۳۰۳
- ↑ بلاذری، فتوح، ص۹۴
- ↑ طبری، تاریخ، ج۱، ص۲۰۹۵
- ↑ طبری، تاریخ ج۱، صص۲۳۹۲-۲۳۹۳
- ↑ یعقوبی، ۲/۱۲۹
- ↑ بلاذری، فتوح، ص۲۶۹؛ طبری، تاریخ ج۱، صص ۲۶۳۷، ۲۶۴۵-۲۶۴۷
- ↑ بلاذری، انساب، ج۱، ص۱۶۸
- ↑ ابن شبہ، ج۳، ص۹۵۷؛ بلاذری، انساب، ج۵، ص۲۳
- ↑ بلاذری، فتوح، ص۲۷۳
- ↑ طبری، تاریخ، ج۱، صص۲۸۱۱-۲۸۱۳
- ↑ ر.ک:بلاذری، انساب، ج۵، صص۳۰-۳۱، بحوالۂ ابو مخنف؛ ابن عبدربہ، ج۴، صص۳۰۶- ۳۰۷
- ↑ ابن شبہ، ج۳، ص۱۰۴۹؛ ابن عبدالبر، ج۳، ص۹۳۳؛ ابن اثیر، اسد، ج۳، ص۲۶۰؛ ابن حجر، الاصابہ، ج۴، ص۱۳۰
- ↑ بلاذری، انساب، ج۵، صص۳۶-۳۷؛ سید مرتضی، ج۴، صص۲۸۱-۲۸۲
- ↑ بلاذری، انساب، ج۵، ص۳۷
- ↑ طبری، تاریخ، ج۱، ص۲۸۹۴؛ ابن عساکر، ج۳۹، صص۱۳۴- ۱۳۹
- ↑ بلاذری، فتوح، ص۴۶۱
- ↑ سید مرتضی، ج۴، ص۲۸۳؛ ر.ک: ابن ہشام، ج۲، ص۵۲۴؛ واقدی، ج۲، ص۱۰۰۲؛ خلیفہ بن خیاط، ج۱، ص۱۷۷؛ طبری، تاریخ، ج۱، صص۲۸۹۵-۲۸۹۶
- ↑ الاستیعاب،۱۴۱۲ق، ج۳،ص۹۹۴
- ↑ ابن اسحاق، ص۱۸۶؛ بلاذری، ج۱، ص۱۶۲
- ↑ بخاری، ج۳، ص۲۲۸؛ مسلم، ج۴، ص۱۹۱۲؛ نسائی، ج۸، ص۱۳۴
- ↑ بخاری، ج۲، ص۳۰۷؛ مسلم، ج۴، صص۱۹۱۳-۱۹۱۴؛ ترمذی، ج۵، ص۶۷۴
- ↑ ابن ابی داوود، ص۵۵
- ↑ ر.ک:ابن ابی داوود، صص۱۳-۱۴؛ ابن مجاہد، صص۶۶ -۶۷؛ ابن جزری، ج۱، ص۴۵۸
- ↑ ابن مجاہد، ص۶۷
- ↑ ر.ک: ابو عمرودانی، صص۹-۱۰؛ ابن جزری، ج۱، ص۴۵۹
- ↑ ر.ک:بسوی، ج۲، ص۵۳۸؛ «المبانی »، صص۳۵-۳۶؛ ابو نعیم، ج۱، ص۱۲۴
- ↑ ر.ک:ابن سعد، ۲ (۲) / ۱۰۵؛ ابن ابی داوود، صص۱۳- ۱۸
- ↑ ابن ابی داوود، ص۱۸؛ «المبانی »، ص۹۵؛ ابن اثیر، الکامل، ج۳، ص۱۱۲
- ↑ ر.ک:مسلم، ج۴، ص۱۹۱۳؛ ابن ابی داوود، ص۱۴
- ↑ طبری، تفسیر، مختلف مقامات پر؛ طوسی، التبیان، ج۱ف ص۵۸، مختلف مقامات پر؛ زمخشری، ج۱، صص۳۸، مختلف مقامات پر
- ↑ ابن کثیر، ج۱، ص۴
- ↑ نووی، ۱ (۱) /۲۸۸
- ↑ ر.ک:ابن حجر، تہذیب، ج۶، ص۲۷
- ↑ ر.ک: نووی، ۱ (۱) /۲۸۸؛ ابن حجر، تہذیب، ج۶، صص۲۷- ۲۸
- ↑ حاکم نیشابوری، مختلف مقامات؛ ر.ک: مرعشلی، ۵۶۴ - ۵۶۵؛ مقدسی، یوسف، ۴۱۳، فہرست
- ↑ ر.ک:ابوداوود، ج۴، ص۱۰۶؛ ترمذی، ج۴، ص۵۰۵؛ ابن ماجہ، ج۲، ص۱۳۶۶؛ احمد بن حنبل، ح۱، صص۳۷۶، ۳۷۷، ۴۳۰، ۴۴۸؛ طبرانی، ج۱۰، شمارہ حدیث ۱۰۲۱۳-۱۰۲۳۰؛ طوسی، الغیبہ، صص۱۱۲-۱۱۳
- ↑ ر.ک:ابن سعد، ۲ (۲) /۱۰۵؛ خطیب، تاریخ، ج۱، س۱۴۷؛ حاکم نیشابوری، ج۳، ص۳۱۵؛ ابو اسحاق شیرازی، صص۴۳-۴۴
- ↑ ابن حزم، ج۵، ص۸۹
- ↑ ابن قیم، ج۱، ص۲۰
- ↑ ر.ک:ابن قتیبہ، ص۲۱؛ ابن قیم، ج۱، ص۶۳
- ↑ ر.ک:دارمی، ج۱، صص۴۶ به بعد
- ↑ ر.ک:خوارزمی، ج۲، ص۴۲۵؛ مقدسی، محمد، ص۱۲۷
- ↑ ر.ک:الخراج ص۱۹۳، فہرست
- ↑ شاخت، ص۲۳۱-۲۳۳
- ↑ ر.ک:بخاری، ج۲، ص۳۰۷؛ مسلم، ج۴، صص۱۹۱۰- ۱۹۱۴؛ ترمذی، ج۵۴، صص۶۷۲ -۶۷۴؛ ابن ماجہ، ج۱، ص۴۹؛ حاکم نیشابوری، ج۳، صص۳۱۲-۳۲۰
- ↑ حاکم نیشابوری، ج۳، صص۳۱۶- ۳۱۷
- ↑ ر.ک: شہرستانی، ج۱، ص۵۹؛ اسکافی، ص۲۲، مختلف مقامات ؛ ابوالقاسم کوفی،ص ۶۱؛ سید مرتضی، ج۴، صص۲۷۹-۲۸۶؛ الایضاح، صص۲۶- ۲۸؛ شماخی، ج۱، صص۳۴، ۳۷
- ↑ ر.ک:اشعری، ص۱۰۵
- ↑ ر.ک:طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ص۳۸
- ↑ ر.ک: ابن بابویہ، الخصال، صص۴۶۶- ۴۶۸، کمال الدین، صص۲۷۰-۲۷۱، ۲۷۹؛ نعمانی، صص۶۳، ۷۴- ۷۵؛ خزاز، صص۲۳-۲۷
- ↑ ر.ک:استرآبادی، ج۲، صص۶۱۰ -۶۱۲
- ↑ ر.ک: کندی، ج۱، ص۶۴؛ ابن سلام، صص۷۵-۷۶
- ↑ ر.ک: درجینی، ج۱، ص۴۷؛ ۲ EI، ذیل «اباضیہ»
مآخذ
- ابن آدم، یحیی، الخراج، احمد محمد شاکر، قاہره، ۱۳۴۷ق / ۱۹۲۸م.
- ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغہ، محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہره، ۱۳۷۸-۱۳۸۴ق.
- ابن ابی داوود، عبد اللہ، المصاحف، قاہره، ۱۳۵۵ق /۱۹۳۶م.
- ابن اثیر، علی، اسد الغابہ، قاہره، ۱۲۸۰ق.
- ابن اثیر، الکامل؛ ابن اسحاق، محمد، السیر و المغازی، سہیل زکار، دمشق، ۱۳۹۸ق /۱۹۷۸م.
- ابن بابویہ، محمد، الخصال، علی اکبر غفاری، قم، ۱۴۰۳ق /۱۳۶۲ش.
- ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا، نجف، ۱۳۹۰ق /۱۹۷۰م.
- ابن بابویہ، کمال الدین، علی اکبر غفاری، تهران، ۱۳۹۰ق.
- ابن جزری، محمد، غایۃ النہایہ، گ. برگشترسر، قاہره، ۱۳۵۱ق /۱۹۳۲م.
- ابن حجر عسقلانی، احمد، الاصابہ، قاہره، ۱۳۲۸ق.
- ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، حیدرآباد دکن، ۱۳۲۶ق.
- ابن حزم، علی، الاحکام فی اصول الاحکام، بیروت، ۱۴۰۵ق /۱۹۸۵م.
- ابن خالویہ، حسین، مختصر فی شواذ القرآن، گ. برگشترسر، قاہره، ۱۹۳۴م.
- ابن سعد، محمد، الطبقات الکبیر، زاخاو و دیگران، لیدن، ۱۹۰۴- ۱۹۱۸م.
- ابن سلاّم اباضی، بدءالاسلام، ورنر شوارتس و سالم بن یعقوب، ویسبادن، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۶م.
- ابن شبہ، عمر، تاریخ المدینہ المنورة، فہیم محمد شلتوت، حجاز، ۱۳۹۹ق /۱۹۷۹م.
- ابن عبدالبر، یوسف، الاستیعاب، علی محمد بجاوی، قاہره، ۱۳۸۰ق /۱۹۶۰م.
- ابن عبدالبر، أبو عمر یوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (م ۴۶۳)،الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،دار الجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲.
- ابن عبدربہ، احمد، العقد الفرید، احمد امین و دیگران، قاہره، ۱۹۴۰-۱۹۵۳م.
- ابن عساکر، علی، تاریخ مدینہ دمشق، سکینہ شہابی، دمشق، ۱۴۰۶ق / ۱۹۸۶م.
- ابن قتیبہ، عبد اللہ، تأویل مختلف الحدیث، محمد زہری نجار، بیروت، دارالجلیل؛
- ابن قیم جوزیہ، محمد، اعلام الموقعین، طہ عبدالرئوف سعد، بیروت، ۱۹۷۳م.
- ابن کثیر، اسماعیل، تفسیر، بولاق، ۱۳۰۰ق.
- ابن ماجہ، محمد، سنن، محمد فؤاد عبدالباقی، قاہره، ۱۹۵۲-۱۹۵۳م.
- ابن مجاہد، احمد، السبعة فی القراءات، شوقی ضیف، قاہره، ۱۳۷۲ق.
- ابن مہران، احمد، المبسوط، سبیع حمزه حاکمی، دمشق، ۱۴۰۷ق /۱۹۸۶م.
- ابن ندیم، الفہرست؛
- ابن ہشام، عبدالملک، السیرة النبویہ، ابراہیم ابیاری و دیگران، قاہره، ۱۳۷۵ق /۱۹۵۵م.
- ابواسحاق شیرازی، ابراہیم، طبقات الفقہاء، احسان عباس، بیروت، ۱۴۰۱ق /۱۹۸۱م.
- ابوداوود، سلیمان، سنن، محمد محیی الدین، عبدالحمید، قاہره، داراحیاء السنہ النبویہ؛
- ابوعمرودانی، عثمان، التیسیر، اوتوپرتسل، استانبول، ۱۹۳۰م.
- ابوالقاسم کوفی، علی، الاستغاثہ، قم، دارالکتب العلمیہ؛
- ابونعیم اصفہانی، احمد، حلیۃ الاولیاء، قاہره، ۱۳۵۱ق /۱۹۳۲م.
- احمد بن حنبل، مسند، قاہره، ۱۳۱۳ق.
- ارنؤوط، شعیب و حسین اسد، حاشیہ بر سیراعلام النبلاء ذهبی، بیروت، ۱۴۰۵ق.
- استرآبادی، علی، تأویل الا¸یات الظاہرة، محمد باقر موحد ابطحی، قم، ۱۳۶۶ش.
- اسفراینی، طاہر، التبصیر فی الدین، کمال یالموازنہوسف حوت، بیروت، ۱۴۰۳ق /۱۹۸۳م.
- اسکافی، محمد، المعیار و ، محمدباقر محمودی، بیروت، ۱۴۰۲ق /۱۹۸۱م.
- اشعری، علی، مقالات الاسلامیین، هلموت ریتر، ویسبادن، ۱۴۰۰ق /۱۹۸۰م.
- الایضاح، منسوب به فضل بن شاذان، بیروت، ۱۴۰۲ق /۱۹۸۲م.
- بخاری، محمد، صحیح، بولاق، ۱۳۱۵ق؛ بسوی، یعقوب، المعرفۃ و التاریخ، تحقیق اکرم ضیاءعمری، بغداد، ۱۹۷۵م.
- بغدادی، عبدالقاهر بن طاهر، الفرق بین الفرق، محمد زاهد کوثری، قاہره، ۱۳۶۷ق /۱۹۴۸م.
- بیهقی، احمد، السنن الکبری، حیدرآباد دکن، ۱۳۴۴ق.
- بلاذری، احمد، انساب الاشراف، ج۱، محمد حمیدالله، قاہره، ۱۹۵۹م.
- بلاذری، همان، ج۵، گویتین، بیت المقدس، ۱۹۳۶م؛ همو، فتوح البلدان، تحقیق دخویه، لیدن، ۱۸۶۶م.
- ترمذی، محمد، سنن، ابراہیم عطوة عوض، قاہره، ۱۳۸۱ق.
- جصّاص، احمد، احکام القرآن، محمد صادق قمحاوی، بیروت، ۱۴۰۵ق.
- جلودی، عبدالعزیز، «ما نزل من القرآن »، احمد پاکتچی، تراثنا، قم، ۱۴۱۲ق، شم ۲۴.
- حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصحیحین، حیدرآباد دکن، ۱۳۳۴ق؛
- خزاز، علی، کفایة الاثر، قم، ۱۴۰۱ق؛ خطیب بغدادی، احمد، تاریخ بغداد، قاہره، ۱۳۴۹ق.
- خزاز، تقیید العلم، یوسف عش، داراحیاء السنة النبویة، ۱۹۷۴م.
- خزاز، شرف اصحاب الحدیث، محمد سعید خطیب اوغلی، آنکارا، ۱۹۷۱م.
- خلیفة بن خیاط، تاریخ، سهیل زکار، دمشق، ۱۹۶۸م.
- خوارزمی، محمد، جامع مسانید ابی حنیفة، حیدرآباد دکن، ۱۳۳۲ق.
- دارمی، عبد اللہ، سنن، دمشق، ۱۳۴۹ق؛ درجینی، احمد، طبقات المشایخ بالمغرب، ابراہیم طلای، قسنطینہ، ۱۳۹۴ق /۱۹۷۴م.
- ذهبی، محمد، سیراعلام النبلاء، شعیب ارنؤوط و اکرم بوشی، بیروت ۱۴۰۴ق /۱۹۸۶م.
- رودانی، محمد، صلة الخلف، محمد حجی، بیروت، ۱۴۰۸ق /۱۹۸۸م.
- زمخشری، محمود، الکشاف، قاہره، ۱۳۶۶ق /۱۹۴۷م؛
- سبکی، عبدالوہاب، طبقات الشافعیہ الکبری، تحقیق عبدالفتاح محمد حلو و محمود محمد طناحی، قاہره، ۱۳۸۵ق /۱۹۶۶م.
- سرخسی، شمس الدین، المبسوط، تحقیق خلیل میس، بیوت، ۱۴۰۰ق /۱۹۸۰م.
- سیاری، احمد، القراءات، نسخہ خطی کتابخانہ آیت الله مرعشی، شم ۵۲۲۲.
- سید مرتضی، علی، الشافی فی الامامہ، تحقیق عبدالزہراء حسینی، تهران، ۱۴۰۷ق /۱۹۸۷م.
- سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہره، ۱۳۸۷ق /۱۹۶۷م.
- شماخی، احمد، السیر، تحقیق احمد سیایی، مسقط، ۱۴۰۷ق /۱۹۸۷م.
- شهرستانی، محمد، الملل و النحل، تحقیق محمد بن فتح الله بدران، قاہره، ۱۳۷۵ق /۱۹۵۶م.
- طبرانی، سلیمان، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبدالحمید سلفی، بغداد، وزارة الاوقاف؛
- طبری، تاریخ.
- طبری، تفسیر.
- طوسی، محمد، اختیار معرفۃ الرجال، تحقیق حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ش.
- طوسی، التبیان، نجف، ۱۳۷۶ق /۱۹۵۷م؛
- طوسی، الغیبة، نجف، ۱۳۸۵ق؛ ظاہریہ، خطی (حدیث)؛ عروة بن زبیر، مغازی رسول الله(ص)، تحقیق محمد مصطفی اعظمی، ریاض، ۱۴۰۱ق /۱۹۸۱م.
- فراء، یحیی، معانی القرآن، تحقیق احد یوسف نجاتی و محمدعلی نجار، قاہره، ۱۹۷۲م.
- فرات کوفی، تفسیر، نجف، ۱۳۵۴ق.
- کلبی، ہشام، جمہرة النسب، تحقیق ناجی حسن، بیروت، ۱۴۰۷ق /۱۹۸۶م.
- کندی، محمد، بیان الشرع، تحقیق عبدالحفیظ شلبی، مسقط، ۱۴۰۲ق /۱۹۸۲م.
- المبانی ، مقدمتان فی علوم القرآن، تحقیق آرتور جفری، قاہره، ۱۹۵۴م.
- مرعشلی، یوسف عبدالرحمان، فہرس احادیث المستدرک علی الصحیحین، بیروت، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۶م.
- مرغینانی، علی، الہدایہ ، همراه فتح القدیر، قاہره، ۱۳۱۹ق.
- مزی، یوسف، تحفۃ الاشراف، بمبئی، ۱۳۹۶ق /۱۹۷۶م.
- مسلم بن حجاج، صحیح، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، قاہره، ۱۹۵۵م.
- مقدسی، محمد، احسن التقاسیم، تحقیق دخویہ، لیدن، ۱۹۰۶م؛
- مقدسی، یوسف، عقدالدرر، تحقیق عبدالفتاح محمدحلو، قاہره، ۱۳۹۹ق /۱۹۷۹م.
- نسائی، احمد، سنن، قاہره، ۱۳۴۸ق؛
- نعمانی، محمد، الغیبہ، بیروت، ۱۴۰۳ق /۱۹۸۳م.
- نووی، محیی الدین، تہذیب الاسماء و اللغات، قاہره، ادارة الطباعة المنیریہ.
- واقدی، محمد، المغازی، تحقیق مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶م.
- یعقوبی، احمد، تاریخ، نجف، ۱۳۵۸ق.
- Goldziher, I., Die Richtungen der islmischen Koranauslegung, Leiden, 1970.
- N N ldeke, Th., Geschichte des Qorans, Leipzig, 1919; Schacht, J., the Origins of Muhammadan Juriprudence, Oxford, 1953.