ایران کا اسلامی انقلاب
ایران کا اسلامی انقلاب امام خمینی کی قیادت میں شروع ہونے والی سب سے بڑی عوامی تحریک کے نتیجے میں سنہ 1979ء میں کامیاب ہوا جس سے ایران میں بادشاہی حکومت کا خاتمہ اور اسلامی جمہوریہ قائم ہوئی۔
اس انقلاب کے نیتجے میں جو شیعہ مراجع تقلید کی سربراہی میں شروع اور کامیاب ہوا، ایران میں اسلامی اور شیعہ طرز تفکر پر مبتنی حکومت قائم ہوئی۔ شعیہ علماء بالخصوص حوزہ علمیہ قم نے لوگوں کی ہدایت اور اس تحریک کو صحیح سمت دینے میں نہایت اہم کردار ادا کیئے۔ اسلامی جمہوریہ کا نعرہ جو اس تحریک میں لوگوں کی زبان پر جاری ہوتے تھے درحقیقت اس تحریک کے بانی امام خمینیؒ کے کلمات سے لئے گئے تھے۔
اس تاریخی تحریک کا آغاز سنہ 1963ء میں بادشاہی حکومت کے اسلام مخالف اقدامات پر امام خمینی اور دوسرے علماء کی مخالفت سے ہوا۔ سنہ 1964ء کو عاشور کے دن مدرسہ فیضیہ قم میں حکومت پر شدید اعتراضات پر مبنی تقریر کرنے پر امام خمینی کو گرفتار کیا گیا۔ یہ خبر اسی سال 15 خرداد(5 جون 1963ء) کے واقعے نیز حکومت مخالف عوامی تحریکوں کا سبب بنی اور مختلف شہروں میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ لوگوں کی جھڑپیں ہوئیں میں جس کے نتیجے میں کئی لوگوں زخمی یا شہید ہوئے۔
پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے اسلام مخالف قانون جس کے تحت نو منتخب ارکان اسمبلی کیلئے مسلمان ہونے کی شرط ختم کر دی گئی تھی، پر اعتراض کرنے کے جرم میں 4 نومبر 1963ء میں امام خمینی کو جلا وطن کر کے ترکی اور اس کے بعد عراق کے شہر نجف بھیج دیئے گئے۔ اس کے بعد لوگوں کے احتجاج اور مظاہرے بھی کم ہو گئے۔ لیکن نومبر 1977ء کو امام خمینی کے فرزند سید مصطفی خمینی کی مشکوک وفات کے بعد ایک بار پھر علانیہ طور پر حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو گئے۔
تین مہینے بعد تہران کے ایک اخبار میں شیعہ مراجع تقلید بالاخص امام خمینی کی توہین پر مشتمل ایک مضمون شایع ہوا جس کی وجہ سے حکومت مخالف مظاہروں میں ایک بار پھر تیزی آگئی۔ 9 جنوری سنہ 1978ء کو قم میں مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کے مسلحانہ تشدد کے بعد یہ عوامی تحریک دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئی۔ اس کے بعد مذکورہ تاریخ کو شہید ہونے والے شہداء کے چہلم کے موقع پر قم اور دوسرے شہروں میں اعتراضات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ ان مظاہروں میں روز بروز شدت آتی گئی یہاں تک کہ 16 جنوری سنہ 1979ء کو ایران کے بادشاہ محمد رضا پہلوی ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
امام خمینی عراق سے پیرس چلے گئے تھے اور اپنے پیغامات اور تقریروں کے ذریعے انقلاب کی رہبری کر رہے تھے یکم فروری 1979ء کو ایران واپس آگئے اور اسی سال 11 فروری کو بادشاہی نظام مکمل طور پر ختم ہو گیا۔
تاریخچہ
محمد رضا شاہ پہلوی کی حکومتی پالیسیوں کی مخالفت سنہ ١٣٣٠ شمسی کو تیل کی صنعت کا قومی شکل اختیار کرنے کے ساتھ کسی حد تک شروع ہوچکی تھی۔ فدائیان اسلام جو حکومت کی شدید مخالفت کرنے والا ایک گروہ جس کی قیادت سید مجتبی نواب صفوی کے ہاتھ میں تھی. اس گروہ کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ حکومت دین اسلام اور شیعہ مذہب کے خلاف ہے۔
اگرچہ نواب صفوی اور اس کا گروہ حوزہ علمیہ قم کے علماء اور اساتید کی حمایت یافتہ تھے. اس کے باوجود حوزہ علمیہ قم جس کے زعیم آیت اللہ بروجردی تھے، کی طرف سے حکومت کے خلاف کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آ رہا تھا. آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد جب مراجع عظام کی تعداد زیادہ ہو چکی تھی اس وقت مختلف مراجع دینی کی طرف سے حکومت کی مخالفت دیکھنے کو ملی۔
ریاستی اور صوبائی فورم کی منظوری پر اعتراض
١٦ مہر سنہ ١٣٤١ش کو حب کابینہ نے ریاستی اور صوبائی فورم کی منظوری دی جس کے مطابق منتخب ممبران کیلئے مسلمان ہونے اور قرآن پر حلف اٹھانے کی شرط ختم ہو چکی تھی نیز عورتوں کو بھی ووٹ دینے کا حق دیا گیا، [1] امام خمینی اور دوسرے علماء نے اس کی کھلی مخالفت کا اعلان کر دیا امام خمینی، آیت اللہ محمد رضا گلپایگانی اور آیت اللہ سید کاظم شریعت مندی نے ایک میٹنگ رکھی جس میں اس قانون پر اعتراض کیا.[2] اس کے بعد حکومت نے اسی سال ١٠ آذر کو اس فورم کے بارے میں اعلان کیا کہ ١٣٤١/٧/١٦ کا یہ فورم اجرا کے قابل نہیں ہے.
امام خمینی کی نظر میں حکومت کی طرف سے "مسلمان ہونے" کی شرط کو ختم کرنے کا مقصد دوسرے فرقوں جیسے بھائیوں کو حکومت میں شامل کرنا تھا، بہائی فرقے سے تعلق رکھنے والے اس وقت تک حکومت میں کوئی مقام حاصل نہیں کر سکتے تھے. کسی اسلامی ملک میں کسی بھی آسمانی کتاب کے اوپر حلف لینے کا جواز، آپ کی نظر میں قرآن کی بے احترامی تھی اور عورتوں کو دی جانے والی حق رائے دہی فقط ایک افسانہ تھا اور اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی کیونکہ اول: مگر کیا مردوں کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا تھا جو اب عورتوں کو بھی دیا جا رہا تھا، دوم: عورتوں کی حق رائے دہی کا مقصد اصل میں انکو منحرف کرنااور ان کیلئے ایک غلط اور منحرف نمونہ(ماڈل) پیش کرنا تھا.[3]
سفید انقلاب اور اس کی مخالفت
سنہ ١٣٤٢شمسی کو محمد رضا پہلوی نے سفید انقلاب کے نام سے اصلاحات کا آغاز کیا اور یہ طے پایا تھا کہ ان اصلاحات کے شقوق رفرنڈم کے بعد اجراء ہونگے. اس انقلاب کے ابتدائی چھ اصلی شقوق درج ذیل تھے:
- ارضی اصلاحات اور جاگیردارانہ نظام ارباب و رعیت کا خاتمہ۔
- جنگلوں اور ارتفاعات کا قومی ہونا۔
- سرکار کی ملکیت میں کارخانوں کو نظام حصص میں تبدیل کرنا اور ارضی اصلاحات کی ضمانت کے طور پر ان کے حصص کی فروخت.
- کارخانوں کے خالص منافع میں مزدورں کی شراکت۔
- عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دینے کی خاطر انتخابات کے قوانین پر نظر ثانی۔
- دیہاتوں میں تعلیم و ثقافت کو عام کرنے کی خاطر سپاہ دانش کا قیام۔[4]
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا گیا ۔[5]
آیت اللہ خمینی ان اصلاحات کے مخالفین میں سے تھے ۔آپ نے استفتا کا جواب دیتے ہوئے ان اصلاحات کے متعلق دو اشکال کئے
مدرسہ فیضیہ کا واقعہ
ایجاد شدہ کشیدگی کی وجہ سے امام خمینی نے ایک اعلان میں کہا: حکومت اسلام کو خطرے میں ڈالنے کی پوری کوشش کر رہی ہے اسی لئے میں اس سال عید نوروز کو عزا اور امام عصر(عج) کے حضور تسلیت پیش کرنے کا نام دیتا ہوں اور لوگوں کے لئے خطرے کا اعلان کرتا ہوں.[6]+
دوسرے دن ٢ فروردین سنہ ١٣٤٢ امام صادقؑ کی شہادت کی مناسبت سے آیت اللہ گلپائگانی کی طرف سے عصر کے وقت مدرسہ فیضیہ میں مجلس کا پروگرام ہو رہا تھا. شاہ کے طرفداروں کے دو گروہ ایک ٧٠ افراد اور دوسرا ٣٠ افراد پر مشتمل تھا جو مجلس کے دونوں طرف کھڑے تھے اور باری باری صلوات بھیج رہے تھے. [7] تقریر ختم ہوتے ہی ایک نے بلند آواز میں کہا کہ شاہ کی سلامتی کے لئے صلوات پڑھیں لوگ یہ آواز سنتے ہی حیران ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی لڑائی شروع ہو گئی[8] کمانڈر اور فوج کے افراد جس کے پاس پہنچتے تھے کہتے کہ جاوید شاہ کہو اس کے بعد اس کو ہاتھوں اور لاتوں سے مارنا شروع کر دیتے. کچھ تعداد میں طلباء مدرسے کی چھت پر چڑھ کر پتھر اور اینٹیں پھینکنے لگے.[9] کئی تعداد میں طلاب اور دوسرے لوگ زخمی اور شہید ہوئے. شاہ کی فوج نے طلاب کی کتابوں کو پھاڑ دیا اور ان کے کمروں کا سب سامان مدرسے کے صحن میں پھینک دیا.[10] اس کے بعد آیت اللہ خمینی نے شاہ کے نام سخت اعلان لکھا:-098-/-poiu/یہ جو شاہ دوستی کے نام پر مذہبی مقامات کی اہانت کر رہے ہیں. شاہ دوستی کا مطلب لوٹ مار، اسلام کی بے حرمتی، مسلمانوں سے بدسلوکی، اور علمی مراکز سے یہ برتاؤ، شاہ دوستی یعنی قرآن اور اسلام کو نقصان پہنچانا، اسلام کے نام و نشان کو جلانا اور اسلامیت کا آثار مٹانا... اس حال میں تقیہ حرام ہے اور حقائق کا اظہار واجب ہے. ..[11]
١٥خرداد سنہ ١٣٤٢
آیت اللہ خمینی سنہ ١٣٨٣ھ ق، ساڑھے چھ بجے (١٣ خرداد ١٣٤٢ش) کو اعلان شدہ وقت کے مطابق مدرسہ فیضیہ قم میں حاضر ہو گئے اور اپنی تقریر میں وقت کے شاہ پر واضح طور پر اعتراض کیا. [12] آپ نے کربلا کا واقعہ پیش کرنے کے بعد بادشاہی حکومت کی فوج کے ہاتھوں مدرسہ فیضیہ قم پر فروردین سنہ ١٣٤٢ کو کیے گئے حملے کو واقعہ کربلا سے تشبیہ دی. [13] بادشاہی حکومت کی فوج نے آیت اللہ سید روح اللہ خمینی، سید حسن قمی، بہاء الدین محلاتی اور دو اور علماء کو رات کے وقت گرفتار کر کے تہران لے گئے. [14] ١٥ خرداد کی صبح قم اور دوسرے شہروں کے لوگوں کو جب گرفتاری کی خبر ہوئی تو انہوں نے بہت سخت اعتراض شروع کئے. اور حکومتی سپاہیوں نے اعتراض کرنے والوں پر تیر اندازی شروع کر دی. اور اعتراض کرنے والوں نے لکڑیوں اور پتھروں سے مقابلہ کیا. کچھ تعداد میں لوگ زخمی اور شہید ہوئے. بعض علماء نے ٹیلی گراف کے ذریعے خط اور اعلانیہ منتقل کئے. [15] اور کچھ علماء تہران چلے گئے. [16] ١٥ فروردین سنہ ١٣٤٣، کو ذی الحجہ اور محرم کے ختم ہونے سے پہلے ہی آیت اللہ خمینی آزاد ہو کر اپنے گھر قم منتقل کر دئیے گئے.
انقلاب کا عروج اور کامیابی
آبان سنہ ١٣٥٦ھ ش، کو امام خمینی کے فرزند سید مصطفی خمینی کی ناگہانی موت کی وجہ سے [17] پہلوی حکومت کے مخالفین سیکورٹی آلات کو ہی قتل کی وجہ سمجھتے تھے۔ جس کی وجہ سے بڑے اجلاس منعقد کئے گئے اور ایران میں مخالفت اوج کو پہنچ گئی۔[18]
(ایران واستعمار سرخ و سیاہ) یہ ایک مضمون کا نام تھا ١٧ دی سنہ ١٣٥٦ کو خفیہ ادارہ کے ایک اخبار میں منتشر کیا گیا جس کے دستخط احمد رشیدی مطلق نے کئے اور یہ مضمون مستعار کے نام لکھا گیا تھا، جس میں آیت اللہ خمینی کے بارے میں سخت الفاظ کا استعمال کیا گیا تھا اور آپکو ایک بے اعتقاد مرد اور استعمار کے دفتر کا طرفدار معرفی کیا گیا۔ اس توہین آمیز مضمون پر سخت اعتراض کئے گئے اور یہی باعث بنا کہ پہلوی حکومت پر اچانک اعتراض شروع ہو گئے۔ [19]
دوسرے شہروں میں بھی لڑائیاں اور اعتراضات شدت اختیار کر گئے۔ ١٧ شہریور سنہ ١٣٥٧ کو حکومت کے آدمیوں نے بہت زیادہ تعداد میں لوگوں کو قتل کیا۔
اب آیت اللہ خمینی کو امام خمینی کا نام دیا گیا تھا اب امام عراق چھوڑ کر فرانس کی طرف جانے کو مجبور ہو گئے. فرانس میں انقلابیوں کا اپنے رہبر کے ساتھ رابطہ آسان ہو گیا۔ سنہ ١٣٥٧ دی کو محمد رضا پہلوی ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا اور اس کے تقریباً ایک مہینے بعد ١١ بہمن کو آیت اللہ خمینی ١٥ سال کی جلاوطنی کے بعد ایران واپس آ گئے اور اس کے دس دن بعد ٢٢ بہمن کو پہلوی کا بادشاہی نظام بالکل ختم ہو گیا۔
مخالف علماء
اکثر علماء بادشاہی حکومت کے مخالف آیت اللہ خمینی کے شاگرد اور چاہنے والے تھے. جن میں سے اکثر حوزہ علمیہ قم میں علم حاصل کرتے تھے اور امام خمینی کے عراق جانے کے بعد ان میں سے زیادہ تر حوزہ علمیہ نجف میں منتقل ہو گئے.
انقلاب میں شیعوں کا کردار
انقلاب کا اصلی رہبر اہل تشیع کا ایک مرجع تقلید تھا اور باقی سب رہبر اور طرفدار بھی حوزہ علمیہ قم کے محصل تھے اور بہت سے وقت کے مراجع عظام بھی انقلاب کے طرفدار تھے. زیادہ تعداد میں استاد اور شاگرد خصوصاً حوزہ علمیہ قم سے تعلق رکھنے والے معترض تھے اور بادشاہی حکومت کے خلاف اشتہار بھی لکھتے تھے۔
نویں اور دسویں محرم سنہ ١٣٥٧ کو سب سے بڑے اور مہم مظاہرے کئے گئے جس میں لوگ واقعہ عاشورا اور امام حسین(ع) کی عزاداری کے لئے سڑکوں پر نکلے تھے. سب مساجد اور امام بارگاہیں بادشاہی حکومت کے مخالفین کا اڈہ بن گئی تھیں۔
سب انقلابیوں کی زبان پر یہی شعار تھا کہ ہم اسلامی حکومت یا جمہوری اسلامی کے طالب ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ خلجی، عباس؛ ۱۳۸۱ش، چاپ اول، ص ۱۰۲.
- ↑ روحانی (زیارتی)، سید حمید؛ ۱۳۶۰ش، ص ۱۴۹.
- ↑ روحانی، سید حمید. ۱۳۶۱، ص ۱۳۵.
- ↑ پہلوی، محمدرضا؛ ۱۳۷۱. ص ۱۳۱- ۱۴۴.
- ↑ پہلوی، محمدرضا؛ ۱۳۷۱. ص ۱۳۱- ۱۴۴.
- ↑ صحیفہ امام خمینی، ج ۱، ص ۱۵۶.
- ↑ باقری، علی، ۱۳۷۷، ص ۲۰۱.
- ↑ باقری، علی؛ ۱۳۷۷، ص ۱۱۵.
- ↑ منصوری، جواد؛ ۱۳۷۶، ص۱۲۹.
- ↑ دوانی، علی؛بیتا، ج۳، ص ۲۶۵-۲۶۴.
- ↑ صحیفہ امام، ج۱، صص ۱۷۹-۱۷۷
- ↑ صحیفہ امام، ج۱، ص: ۲۴۸-۲۴۳.
- ↑ صحیفہ امام، ج۱، ص: ۲۴۸-۲۴۳.
- ↑ عبدالوہاب فراتی، ۱۳۷۹، ص ۱۳۱.
- ↑ غلامرضا سلیمانی، ۱۳۷۶، ص ۱۹۶.
- ↑ ماہنامهٔ اندیشہ و تاریخ سیاسی ایران معاصر، خرداد ۱۳۸۲، شمارہ ۹، ص ۳۰.
- ↑ باقی، عماد الدین، ۱۳۷۶.
- ↑ بازتاب ہا و پیامد ہای رحلت اسرار آمیز آیت الہ مصطفی خمینی بہ روایت اسناد، ۱۳۸۹ ش.
- ↑ شاہدی مظفر، روزنامہ ایران سال نوزدہم، ش. ۵۵۵۷ (۲۳ دی ۱۳۹۲): ۱۰.
مآخذ
- خلجی، عباس؛ اصلاحات آمریکایی و قیام ۱۵ خرداد، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ۱۳۸۱ش، چاپ اول.
- روحانی (زیارتی)، سید حمید؛ بررسی و تحلیلی از نہضت امام خمینی، تہران، انتشارات راه امام، ۱۳۶۰.
- پہلوی، محمدرضا؛ پاسخ بہ تاریخ، (بہ کوشش شہریار ماکان)، انتشارات شہرآب چاپ اول ۱۳۷۱.
- مدنی، جلال الدین؛ تاریخ سیاسی معاصر ایران، قم، انتشارات اسلامی (وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم)، ۱۳۸۷، چ پانزدہم، ج ۲.
- روحانی سید حمید؛ بررسی و تحلیلی از نہضت امام خمینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی (وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم)، ۱۳۶۱، چ ۲.
- اسناد انقلاب اسلامی، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ۱۳۷۴، ج ۱.
- امام خمینی (ره)؛ صحیفہ نور، مجموعہ رہنمودہای امام خمینی، مرکز مدارک فرہنگی انقلاب اسلامی، تہران، ۱۳۶۱، ج ۱.
- دوانی، علی؛ نہضت روحانیون ایران، بیجا، بنیاد فرہنگی امام رضا (ع)، بیتا، ج۳.
- باقری، علی؛ خاطرات پانزده خرداد (دفتر پنجم) خاطرات سید محمد کوثری، تہران، دفتر ادبیات انقلاب اسلامی، ۱۳۷۷.
- عبدالوہاب فراتی، تاریخ شفاہی انقلاب اسلامی، از مرجعیت امام خمینی تا تبعید، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ۱۳۷۹.
- ماہنامہ اندیشہ و تاریخ سیاسی ایران معاصر، خرداد ۱۳۸۲، شمارهٔ ۹.
- حميد روحاني (زيارتي)، نہضت امام خميني، تہران واحد فرہنگي بنياد شہيد ، ۱۳۶۴ش.
- محمدتقي علويان، شناخت حقيقت [بي جا، بي نا ، بي تا] ص ۲۸- ۲۱ .
- باقی، عماد الدین، «مروری بر زندگینامہ آیت الله شہید حاج سید مصطفی خمینی»، اطلاعات (ویژه نامہ)، ش ۲۲۲۷، ۱ آبان ۱۳۷۶ ش.
- بازتابہا و پیامدہای رحلت اسرار آمیز آیت الله مصطفی خمینی بہ روایت اسناد، تدوین سجاد راعی گلوجہ، تہران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ۱۳۸۹ ش.
- روزنامہ ایران سال نوزدہم، ش. ۵۵۵۷ (۲۳ دی ۱۳۹۲): ۱۰.