ابو امامہ اَسْعَدِ بْن زُراره (متوفی 1 ھ، 623 ء)، لقب اسعد الخیر، صحابی پیغمبر (ص) اور مدینہ کے اولین مسلمانوں میں سے ہیں۔ انہوں نے مدینہ میں اسلام کی تبلیغ کی۔ یہاں تک نقل ہوا ہے کہ انہوں نے شہر کے بتوں کو توڑ ڈالا اور مسلمانوں کے ساتھ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ آنحضرت (ص) نے عقبی کے دوسرے پیمان میں انہیں ان کے قبیلہ بنی نجار کا نقیب مقرر کیا۔ اسعد کو رسول خدا (ص) سے بیحد تعلق خاطر تھا اور آپ (ص) بھی ان سے محبت آمیر سلوک فرماتے تھے۔ اسعد کے انتقال پر آنحضرت (ص) نے بنفس نفیس ان کے جنازہ پر نماز پڑھائی اور انہیں بقیع میں دفن کیا۔ نقل ہوا ہے کہ سورہ بقرہ کی 142 ویں آیت بعض اصحاب پیغمبر (ص) کے سلسلہ میں نازل ہوئی، جن میں اسعد بھی شامل تھے۔ ایک قول کے مطابق مدینہ میں اولین نماز جمعہ انہوں نے قائم کی۔
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | ابو امامہ اسعد بن زرارہ |
کنیت | ابو امامہ |
لقب | اسعد الخیر |
محل زندگی | مدینہ، |
مہاجر/انصار | انصار |
اقارب | سعد بن معاذ |
مدفن | جنت البقیع |
دینی معلومات | |
اسلام لانا | ہجرت مدینہ سے قبل |
وجہ شہرت | صحابی، نقیب النقباء |
کنیت و لقب
اسعد کی کنیت ابو امامہ اور لقب اسعد الخیر تھا۔ گویا مدینہ میں اسلام کو لانے میں پیش قدمی کرنے کی وجہ سے انہیں اسعد الخیر کہا گیا ہے۔[1]
سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں
اسعد بن زرارہ مدینہ کے اولین مسلمانوں میں سے تھے۔ جنہوں نے مدینہ کی طرف پیغمبر اکرم (ص) کی ہجرت سے پہلے مکہ میں آپ سے ملاقات کی اور اسلام قبول کیا۔[2] ان کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنی سے نجار سے تھا[3] اور ان کا شمار زمانہ جاہلیت میں ایک خدا کی پرستش کرنے والوں میں ہوتا تھا۔[4]
رسول خدا (ص) سے تعارف
سیرت کی کتابوں میں رسول خدا (ص) سے ان کی پہلی ملاقات کا واقعہ بعض اختلاف کے ساتھ نقل ہوا ہے اور ان تمام روایات کی بازگشت مدینہ والوں کے رسول اسلام (ص) سے رابطہ کی کیفیت اور عقبی کی مشہور بیعتوں کی طرف ہوتی ہے۔
ابن سعد کی روایت کے مطابق، جس زمانہ میں اوس و خزرج کے درمیان دیرینہ قبائلی اختلافات نے شدت اختیار کر لی تو اسعد، ذکوان بن عبد قیس مدینہ سے مکہ آئے۔ جب انہیں رسول اکرم (ص) کی شہرت کے سلسلہ میں معلوم ہوا تو وہ آپ کی خدمت پہچے اور آپ کی گفتگو سماعت کرنے کے بعد اسلام قبول کر لیا۔ اس کے وہ مدینہ واپس آ گئے اور وہاں اسلام کی تبلیغ کرنے لگے اور کچھ عرصہ کے بعد مدینہ کے چند افراد کے ساتھ رسول خدا (ص) خدمت میں شرفیاب ہوئے[5] اور انہوں نے آپ (ص) کے ساتھ ایک عہد و پیمان کیا۔ یہ عہد بیعت عقبی اول کے نام سے مشہور ہے۔[6]
آنحضرت کی طرف سے نقیب النقباء
مدینہ والوں نے گروہ گروہ کی صورت میں آپ (ص) کے ہاتھ پر بیعت کی اور اسعد کے رشتہ دار بنی نجار کا دعوی تھا کہ اسعد پہلی فرد ہیں جنہوں نے آنحضرت (ص) کے ہاتھوں پر بیعت کی ہے۔[7] بیعت عقبی دوم کے بعد ہر قبیلہ سے کسی ایک کو نقیب منتخب کیا گیا تا کہ وہ اپنے قبیلہ کے سلسلہ میں ذمہ دار ہوں۔ اسعد بھی ان 12 نقباء میں سے ایک تھے۔[8] ایک روایت کے مطابق رسول خدا (ص) نے نقیب النقباء قرار معین کیا۔[9]
رسول خدا (ص) سے ان کا رابطہ
بیعت عقبہ کی شب[10] اور قبا و مدینہ میں آنحضرت (ص) کے ورود کے موقع پر کی گئی اسعد کی گفتگو اور ان کی نیکیاں[11] ان کے ایمان کے استحکام اور آپ (ص) سے ان کے عمیق رابطہ کا پتہ چلتا ہے۔ جب تک آپ (ص) قبا میں رہے اسعد برابر ان کی زیارت کے لئے آتے تھے اور حضرت (ص) کی نماز جماعت میں بھی شرکت کرتے تھے۔[12]
پیغمبر اکرم (ص) بھی ان سے بیحد انس کا اظہار فرماتے تھے، اس قدر کہ آپ نے مدینہ میں وارد ہونے کے بعد قورا اسعد کے سلسلہ میں سوال کیا۔[13] ان کی بیماری میں عیادت فرمائی اور ان کے علاج کے لئے اقدام کیا۔[14]
مدینہ میں اسلام کی تبلیغ
اسعد بن زرارہ نے مدینہ واپسی پر وہاں دین اسلام کی تبلیغ کا کام شروع کیا۔ یہاں تک نقل ہوا ہے کہ انہوں نے شہر کے بتوں کو توڑ ڈالا[15] اور مسلمانوں کے ساتھ نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔ اسی طرح سے ذکر ہوا ہے کہ انہوں نے مدینہ میں نماز جمعہ قائم کی۔[16] لیکن مدینہ میں ان کی تبلیغ اور نماز قائم کرنے کے بارے میں سیرت نگاروں میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اس لئے کہ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق، آنحضرت (ص) نے عقبی اولی کے بعد وہاں کے مسلمانوں کی درخواست پر مصعب بن عمیر کو تعلیم قرآن کے لئے مدینہ بھیجا[17] اور عقبی دوم میں وہ انصار کے ہمراہ آپ (ص) کی زیارت کے لئے مکہ آئے۔[18]
ایک دوسری روایت کے مطابق، مصعب کے وہاں جانے کا موضوع عقبی دوم کے بعد سے مرتبط ہے۔[19] بہرحال جیسا کہ واقدی کا ماننا ہے گویا تعلیم قرآن مصعب کے حوالہ تھی اور نماز جماعت اسعد کے ذمہ۔[20] مصعب نے مدینہ آنے کے بعد اسعد کے گھر میں قیام کیا اور وہیں سے اپنے ذمہ داریاں نبھائیں۔[21]
وفات
رسول خدا (ص) کی مدینہ ہجرت کے بعد اسعد کے حالات کے سلسلہ میں کوئی خاص معلومات دسترس میں نہیں ہیں۔ لیکن ابھی ہجرت کو چند ماہ نہیں ہوئے کہ اسعد بیمار ہو گئے اور علاج کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شوال کے مہینہ میں ابھی مسجد نبوی (ص) کی تعمیر کا کام مکمل نہیں ہوا تھا کہ ان کا انتقال ہو گیا۔[22] آپ (ص) ان کی تجہیز و تشییع میں شامل ہوئے[23] اور ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ یہ مدینہ میں آنحضرت (ص) کی پہلی نماز جنازہ تھی۔[24] انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا اور نقل ہوا ہے کہ وہ بقیع میں دفن ہونے والے پہلے انسان ہیں۔[25]
ان کی وفات کے بعد بنی نجار آنحضرت (ص) کے پاس آئے اور درخواست کی کہ ان کے لئے کسی نقیب کا انتخاب کریں۔ آپ نے فرمایا وہ خود نقیب ہونگے۔ بنی نجار اس بات پر بیحد افتخار کرتے تھے۔[26] اسعد کی نسل باقی نہیں رہی۔[27]
ان کی شان میں نازل بعض آیات
1۔ اصحاب پیغمبر میں سے بعض افراد کی وفات بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف قبلہ کے تبدیل ہونے کے حکم سے پہلے ہوئی، ان میں اسعد بن زرارہ بھی شامل ہیں، قبلہ کی اس تبدیلی کی وجہ سے بعض یہودی علماء نے ان افراد کی نماز کے سلسلہ میں شبہہ ایجاد کرنا شروع کر دیا[28] تو اسعد اور دیگر اصحاب کے خاندان والوں نے آنحضرت (ص) سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو ان کے جواب میں سورہ بقرہ کی 143 ویں آیت کا یہ حصہ نازل ہوا[29]: وَمَا کانَ اللّهُ لِیضِیعَ إِیمَانَکمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِیمٌ اور ان کے ایمان ضائع نہ ہونے کی خبر دی۔
2۔ مقاتل بن سلیمان سے نقل ہوا ہے کہ سورہ آل عمران کی آیت 102 اور 103 ثعلبہ بن غنم اور اسعد بن زرارہ کے تفاخر کے سلسلہ میں نازل ہوئی۔ البتہ ان دلائل کے پیش نظر جو آئندہ سطور میں ذکر ہوں گے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تفاخر کی اس داستان کی نسبت اسعد کی طرف دینا صحیح نہیں ہے۔ تفاخر کا واقعہ اور اس پر تنقید کا ذکر ذیل میں کیا جائے گا:
قبیلہ اوس سے ثعلبہ بن غنم اور قبیلہ خزرج سے اسعد بن زرارہ نے ایک دوسرے پر تفاخر کرنا شروع کیا۔ ثعلبہ نے کہا: خزیمہ ذو الشہادتین، حنظلہ غسیل الملائکہ، عاصم بن ثابت جنہوں نے دین کی حمایت کی اور سعد بن معاذ جس کے بنی قریظہ کے سلسلہ میں حکم سے خداوند راضی ہو گیا، ہم میں سے تھے۔ اسعد نے کہا: ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو زید جو قرآن کے حامل اور حافظ تھے اور سعد بن عبادہ جو انصار کے رئیس اور خطیب تھے، ہم میں سے تھے۔ دونوں نے تفاخر نے بحث و جدل کی شکل اختیار کر لی اور دونوں نے غصہ میں اپنے قبیلہ سے مدد طلب کی اور اسلحہ ہاتھ میں لے لیا۔
اس واقعہ کے نتیجہ میں سورہ آل عمران کی آیت 102 اور 103 آنحضرت (ص) پر نازل ہوئی اور اس میں ان دونوں کو تقوی الہی اور اتحاد و ہم دلی کی نصیحت کی۔ ان آیات کی تلاوت کے بعد انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ صلح کر لی:[30]
یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُواْ اتَّقُواْاللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِیعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَیکمْ إِذْ کنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَینَ قُلُوبِکمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا...
اس بات کے مد نظر کہ اس روایت میں نقل ہونے والے بعض افتخارات، اسعد بن زرارہ کی وفات (پہلی صدی ہجری) کے بعد پیش آئے ہیں۔ اس طرح کی باتوں کی ان کی طرف نسبت دینا صحیح نہیں معلوم ہوتا ہے۔ مثلا حنظلہ جنگ احد میں شہید ہوئے اور بنی قریظہ و سعد بن معاذ کی داستان پانچویں صدی ہجری میں پیش آئی۔ بعید نہیں ہے کہ یہ واقعہ اسعد کے بھائی سعد سے مربوط ہو جو روایت کے مطابق منافقین میں سے تھا۔[31]
حوالہ جات
- ↑ بَلاذُری، انساب الاشراف، ج۱، ص۲۴۳.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج۳، ص۶۰۸؛ خلیفہ، الطبقات، ص۹۰-۹۱
- ↑ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج۲، ص۴۲۹؛ ہاشمی بغدادی، المحبر، ص۲۶۹.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۱، ص۱۶۹؛ ابن جوزی، المنتظم، ج ۳، ص۲۰۳.
- ↑ ن ک: طبری، تاریخ طبری، ج۲، ص۳۵۴- ۳۵۵
- ↑ ر.ک: ابن سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج۱، ص۲۱۸، قس: ج۱، ص۲۱۹
- ↑ ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۲، ص۷۳، ۸۱ و ج۱، ص۸۹؛ طبری، تاریخ طبری، ج۲، ص۳۶۴؛ قس: ابن سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج۱، ص۲۲۲
- ↑ ر.ک: ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۲، ص۸۵
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۲۵۴
- ↑ احمد بن حنبل، مسند، ج۴، ص۲۶۸؛ بیہقی، دلائل النبوه، ج۱، ص۳۰۲.
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ص۷۶، ۷۸؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج۳، ص۱۵۹.
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ص۷۶.
- ↑ احمد بن حنبل، مسند، ج۵، ص۲۶.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۳، ص۴۵۸؛ ابن عبد البر، الاستیعاب، بیروت، ج۱، ص۱۷۵.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج۳، صص۶۰۹ -۶۱۰
- ↑ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج۲، ص۴۳۵؛ سہیلی، روض الانف، ج۴، ص۱۰۰ـ۱۰۱؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۱۰، ص۴۳۱.
- ↑ ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۲، ص۷۶
- ↑ ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۲، ص۸۱.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، قاہره، ج۴، ص۱۴۷۳.
- ↑ ر.ک: بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، صص۲۳۹، ۲۴۳، ۲۶۶؛ طبری، تاریخ طبری، ج۲، ص۳۵۷
- ↑ ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۲، ص۷۶؛ طبری، تاریخ طبری، ج۲، ص۳۵۹
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج۳، ص۶۱۱؛ طبری، تاریخ طبری، ج۲، ص۳۹۷؛ ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۱، ص۱۰۰، ۱۵۳؛ خلیفہ بن خیاط، تاریخ، ج۱، ص۱۴
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج ۳، ص۴۵۹.
- ↑ ابن شبہ، تاریخ المدینہ، ج۱، ص۹۶؛ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج۱، ص۲۰۹.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج۳، ص۶۱۱ -۶۱۲
- ↑ ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۱، ص۱۵۴؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج۳، ص۶۱۱
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج۳، ص۶۰۸
- ↑ بغوی، معالم التنزیل، ج۱، ص۱۲۳.
- ↑ واحدی، اسباب النزول، ص۴۳؛ طبرسی، مجمع البیان، ج ۱، ص۴۱۷.
- ↑ میبدی، کشف الاسرار، ج۲، ص۲۲۹؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۸۰۴.
- ↑ واقدی، المغازی، ج۳، ص۱۰۰۹.
مآخذ
- ابن جوزی (م ۵۹۷ ق)، عبد الرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الملوک والامم، بہ کوشش نعیم زر زور، چ۱، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۲ق
- ابن حجر عسقلانی (م ۸۵۲ ق)، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، بہ کوشش علی محمد معوض و دیگران، بیروت، دار الکتب العلمیہ،۱۴۱۵ق
- ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر
- ابن سعد (م ۲۳۰ ق)، محمد، الطبقات الکبری، بہ کوشش محمد عبد القادر عطا، چ۲، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق
- ابن عبد البر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، بہ کوشش علی محمد بجاوی، قاہره، ۱۳۸۰ق /۱۹۶۰ع
- ابن عبد البر(م ۴۶۲ ق)، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، بہ کوشش علی محمد معوض و دیگران، چ۱، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق
- ابن ہشام، عبد الملک، السیره النبویہ، بہ کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاہره، ۱۳۵۵ق /۱۹۳۶ع
- ابن شبہ (م ۲۶۲ ق)، تاریخ المدینہ المنوره، بہ کوشش فہیم محمود شلتوت، قم، دار الفکر، ۱۴۱۰ق
- ابن کثیر دمشقی (م ۷۷۴ ق)، اسماعیل، البدایہ والنہایہ، بہ کوشش علی محمد معوض و عادل احمد، دوم، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق
- احمد بن حنبل شیبانی (م ۲۴۱ ق)، ابو عبدالله، مسند، چ۳، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۱۵ق
- بغوی (م.۵۱۶ق.)، حسین بن سعود، معالم التنزیل فی التفسیر والتأویل، چ۱، بیروت، دار الکتب العلمیہ،۱۴۱۴ق
- بَلاذُری، احمد، انساب الاشراف، بہ کوشش محمد حمیدالله، قاہره، ۱۹۵۹ع
- بیہقی (م ۴۵۸ ق)، احمد بن حسین، دلائل النبوة و معرفة احوال صاحب الشریعہ، بہ کوشش عبد المعطی قلعجی، اول، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۵ق
- خلیفہ بن خیاط، الطبقات، بہ کوشش اکرم ضیاء عمری، ریاض، ۱۴۰۲ق /۱۹۸۲ع
- خلیفہ بن خیاط، تاریخ، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۳۸۷ق /۱۹۶۷ع
- سہیلی(م۵۸۱ق)، عبد الرحمن، الروض الانف، بہ کوشش عبد الرحمن الوکیل، چ۱، بیروت، دار احیاء التراث و مؤسسة التاریخ العربی، ۱۴۱۲ق
- طبرسی (م۵۴۸ق)، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، بیروت، دارالمعرفة، ۱۳۹۹ق
- طبرسی (م۵۴۸ق)، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفہ و افست، تہران، ناصر خسرو،۱۴۰۶ق
- طبری، تاریخ طبری
- میبدی (م۵۲۰ق)، ابو الفضل رشیدالدین، کشف الاسرار و عدة الابرار، بہ کوشش علی اصغر حکمت، چہارم، تہران، امیر کبیر، ۱۳۶۱ش
- واحدی (م۴۶۸ق)، علی بن احمد، اسباب النزول، بہ کوشش ایمن صالح شعبان، قاہرة، دار الحدیث، [بی تا]
- واقدی (م.۲۰۷ق.)، محمدبنعمر، المغازی، بہ کوشش مارلون جونس، چ۳، بیروت، عالم الکتب، ۱۴۰۴ق
- ہاشمی بغدادی (م۲۴۵ق)، محمد بن حبیب، المحبر، بہ کوشش ایلزه لیختن شتیتر، بیروت، دار الافاق الجدیدة، [بی تا]