آیت الکرسی
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
آیت کا نام | آیت الکرسی |
سورہ | بقرہ |
آیت نمبر | 255 |
پارہ | 3 |
صفحہ نمبر | 42 |
محل نزول | مدینہ |
موضوع | عقائد |
مضمون | توحید، اللہ تعالی کے اسامی اور صفات |
مربوط آیات | 256 اور 257 بقرہ |
آيت الکرسی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 255 کو کہا جاتا ہے۔ بعض مفسرین اسی سورت کی آیت نمبر 256 اور 257 کو بھی مضامین میں ہماہنگی کی وجہ سے آیت الکرسی میں شامل کرتے ہیں۔ قرآن مجيد کی صرف اسی آیت میں "خدا کی کرسی" کا نام آیا ہے جہاں فرماتے ہیں:"وَسِعَ کُرسِیُّهُ السَّمواتِ و الارضَ (ترجمہ: اس کی کرسی (علم و اقتدار) آسمان و زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔) یہ آیت اسی وجہ سے پیغمبر اکرمؐ کے زمانے سے ہی "آيۃ الكرسى" کے نام سے مشہور ہے۔
ائمہ معصومین کی احادیث میں اس آیت کا پڑھنا ہر حال میں اور بالاخص نماز کے بعد، نیند سے پہلے، گھر سے باہر جاتے وقت، کسی خطرے سے دوچار ہوتے وقت، کسی سختی یا مشکلات میں گرفتاری کے وقت، سواری پر سوار ہوتے وقت اور آنکھوں کی بیماری سے نجات پانے کیلئے پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید اور مستحب گردانا گیا ہے۔ نماز وحشت میں بھی آیت الکرسی پڑھی جاتی ہے۔
متن اور ترجمہ
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 255 اور بعض مفسرین کے مطابق مذکورہ آیت کے علاوہ اسی سورت کی آیت نمبر 256 اور 257 آیت الکرسی کا جز ہے۔[1]
آیت الکرسی
|
ترجمہ
|
---|---|
اَللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ * لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّـهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ * اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ |
اللہ (ہی وہ ذات) ہے۔ جس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ہے۔ زندہ (جاوید) ہے۔ جو (ساری کائنات کا) بندوبست کرنے والا ہے۔ اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی (پیشگی) اجازت کے بغیر اس کی بارگاہ میں (کسی کی) سفارش کرے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے وہ اسے بھی جانتا ہے۔ اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اسے بھی جانتا ہے۔ اور وہ (بندے) اس کے علم میں سے کسی چیز (ذرا) پر بھی احاطہ نہیں کر سکتے۔ مگر جس قدر وہ چاہے۔ اس کی کرسی (علم و اقتدار) آسمان و زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ ان دونوں (آسمان و زمین) کی نگہداشت اس پر گراں نہیں گزرتی وہ برتر ہے اور بڑی عظمت والا ہے۔ دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے الگ واضح ہو چکی ہے۔ اب جو شخص طاغوت (شیطان اور ہر باطل قوت) کا انکار کرے اور خدا پر ایمان لائے اس نے یقینا مضبوط رسی تھام لی ہے۔ جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ اور خدا (سب کچھ) سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔ اللہ ان لوگوں کا سرپرست ہے جو ایمان لائے وہ انہیں (گمراہی کے) اندھیروں سے (ہدایت کی) روشنی کی طرف نکالتا ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے سرپرست طاغوت (شیطان اور باطل کی قوتیں) ہیں جو انہیں (ایمان کی) روشنی سے نکال کر (کفر کے) اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہی دوزخی لوگ ہیں جو اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ |
اہم الفاظ
اس آیت میں دو لفظ "قيوم" اور "كرسى" سب سے زیادہ محققین کی توجہ کا مرکز قرار پایے ہیں۔ لفظ "کرسی" تخت، علم اور قلمرو حکومت کے معنی میں آیا ہے۔[2]
ائمہ معصومین(ع) کی مختلف احادیث میں آیۃ الکرسی میں لفظ "کرسی" سے مراد خداوندعالم کا علم لیا گیا ہے۔ اس طرح اس آیت کا معنی یہ ہوگا کہ "خداوند عالم انکے آگے اور پیجھے سب چیزوں سے آگاہ ہے اور اس کے علم و آگاہی سے کوئی واقف نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ خود چاہے۔ اس کی کرسی(علم) نے آسمانوں اور زمین کو احاطہ کیا ہوا ہے۔ :[3]
امام صادقؑ کی ایک حدیث کے مطابق "کرسی" خدا کا مخصوص علم ہے اور کسی بھی پیغمبر یا ولی خدا کو اس سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ [4]
فضیلت اور خصوصیات
آیت الکرسی مضامین کے حوالے سے دینی تعلیمات کا عمیق سمندر ہے اور اس کے پڑھنے کی فضیلت اور انسانی زندگی میں اس کے جو آثار اور برکات ہیں اس کی طرف احادیث میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ علامہ طباطبایی فرماتے ہیں کہ آیت الکرسی کی عظمت اس آیت کا "توحید" اور خدا کی "قیمومیت" سے متعلق عمیق مطالب پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ اسم ذات کے علاوہ باقی تمام اسماء حُسنا کا مرجع خدا کی قیمومیت ہے۔[5]
یہ آیت پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں بھی آيۃالكرسى کے نام سے معروف تھی۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا کہ : قرآن کی باعظمت ترین آیت، آیت الکرسی ہے۔[6] مزید فرمایا: الفاظ کا سردار قرآن قرآنی سورتوں کا سرور سورہ بقرہ اور سورہ بقرہ کا سرور آیت الکرسی ہے۔[7] یہ آیت ہمیشہ تمام مسلمانوں کی خاص توجہ کا مرکز رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے تمام تعلیمات توحید پر استوار ہے اور آیت الکرسی میں توحید کو نہایت مختصر و مفید طور پر بیان فرمایا ہے۔ اس آیت میں خدا کی ذات، صفات اور افعال سب مورد بحث واقع ہوا ہے۔[8]
مختلف مواقع میں آیت الکرسی کی تلاوت کے آثار کے حوالے سے شیعہ و سنی دونوں طرف سے بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں۔ اس آیت کا پڑھنا ہر حالت میں بالاخص نماز کے بعد، سونے سے پہلے، گہر سے نکلتے وقت، کسی مشکل یا سختی سے آمنا سامنا ہوتے وقت، کسی سواری پر سورا ہوتے وقت اور آنکھوں کی سلامتی اور اس کو امراض سے بچانے کیلئے اس کا پڑھنا مستحب ہے۔[9]
کتابیات
بہت سارے دانشمندوں نے مستقل طور پر اس آیت کی تفسیر لکھی ہے۔ جن میں کمال الدین عبدالرزاق کاشانی، شمس الدین خفری، ملا صدرا اور ان کا بیٹا نیز معاصرین میں محمد تقی فلسفی ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ معینی، محسن، آیۃ الکرسی، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۱، ص۱۰۰.
- ↑ تفسیر نمونہ، ج۲، ص۲۷۲.
- ↑ عقاید اسلام در قرآن کریم، علامہ سید مرتضی عسگری، ص۴۷۳-۴۷۵
- ↑ صدوق، معانی الاخبار، ص۲۹.
- ↑ طباطبایی، المیزان،۱۴۱۷ق، ج۲، ص۳۳۷.
- ↑ سيوطى، جامع الصغير، ج۱، ص۴۷
- ↑ سيوطى، جامع الصغير، ج۲، ص۳۵
- ↑ غزالى، جواہر القرآن، ص۵۶
- ↑ معینی، محسن، آیۃ الکرسی، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۱، ص۱۰۱.
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد مہدی فولادوند، تہران: دارالقرآن الکریم، ۱۴۱۸ق/۱۳۷۶ش.
- سيوطى، جلال الدين، الجامع الصغير، قاہرہ، ۱۳۷۳ق.
- سیوطی، الدر المنثور، قم، ۱۴۰۴ق.
- شیخ صدوق، معانی الاخبار، تصحیح و تعلیق: علی اکبر الغفاری، قم: مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۳۷۹-۱۳۳۸ش.
- طباطبايى، محمد حسين، الميزان، بيروت، ۱۳۹۳ق.
- عسگری، سید مرتضی، عقائد اسلامی در قرآن کریم.
- غزالى، محمد، جواہر القرآن، قاہرہ، ۱۳۲۹ق.
- فخرالدين رازی، التفسير الكبير، بيروت، داراحياء التراث العربى.
- دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۱، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷.