جبر و اختیار
جبر و اختیار کا مسئلہ اسلامی فلسفہ اور علم کلام و عقائد میں سب سے اہم، قدیم ترین اور حساس ترین موضوعات میں سے ہے۔ دینی نقطہ نظر سے اس مسئلہ کی اہمیت اور حساسیت اس وجہ سے ہے کہ اس کا ارادہ الہی، قدرت و علم الہی نیز افعال بندگان بالخصوص اعمال کی تخلیق اور قضا و قدر جیسے مسائل سے گہرا تعلق ہے۔
اسلامی فکری اور عقیدتی تاریخ میں، عدل الہی، قضا و قدر سے متعلق قرآنی آیات، اجل، بندوں کے لیے رزق کا پہلے ہی طے ہونا، علم الہی اور آخر کار انسانی اعمال میں اسے اختیار حاصل ہونا اور قدرت الہی کے مابین تعلق وغیرہ ایسے مباحث ہیں جن پر کافی بحث و گفتگو ہوتی رہی ہے اور اس سلسلے میں مختلف نظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں اور یہ بحثیں آخرکار اس کا باعث بنیں کہ باقاعدہ طور پر بعض لوگوں نے فکری اور عقیدتی لحاظ سے جبریت پسندی کا نظریہ اپنایا اور انسان کو مسلوب الاختیار اور مجبورِ محض سمجھا جبکہ دوسری طرف بعض لوگ انسان کو مختار محض سمجھنے لگے۔ ان دونوں نظریات کے قائلین نے اپنے نظریات کے سلسلے میں مختلف تجزیے اور وضاحتیں پیش کی ہیں۔
کلامی و عقیدتی مباحث میں جہاں بندوں کے اعمال اور انسانی اعمال کی تخلیق نیز ان کے ساتھ علم الہی، ارادہ الہی اور قدرت الہی کے تعلق کی بابت بحث ہوتی ہے وہیں سے جبر و اختیار کی بحث اجاگر ہوتی ہے۔ جبریون(عقیدہ جبر کے حامل لوگ، انسان کو مجبور محض سمجھنے والے) کا خیال ہے کہ انسانی افعال کا اصل فاعل(انجام دینے والا) خدا ہے اور اس کے مقابلے میں انسان کو مختار کل سمجھنے والے لوگوں (اختیاریت پسند) کا خیال ہے انسانی افعال کا اصل فاعل خود انسان ہے۔ انسان کو اپنے افعال میں مختار سمجھنے والوں میں ایک گروہ ایسا ہے جو انسانی افعال میں خدا کے شامل ہونے کا مکمل انکار کرتا ہے۔ اس گروہ کا نام معتزلی ہے۔ اس سلسلے میں شیعہ امامیہ امر بین الامرین کےقاعدے سے استناد کرتے ہوئے انسانی افعال میں الہی کردار کو قبول کرتے ہیں البتہ اسے علت منحصرہ نہیں سمجھتے ہیں۔
جبر و اختیار کی بحث کا تاریخی پس منظر
یہ بحث کہ انسان اپنے افعال کی انجام دہی میں مجبور محض ہے یا آزاد؟ اسلام کی پہلی صدیوں میں پیش آنے پہلے والے اختلافات میں سے ایک ہے۔[1] مسلمانوں کی آسمانی مقدس کتاب قرآن مجید کی بعض آیات میں وجود کے تمام واقعات پر حاکمیت اور خالقیت نیز ان سب میں تقدیر الہی شامل ہونے کی بات گئی ہے جبکہ دوسری بعض آیات میں انسان کو اپنے افعال میں مکمل آزادی حاصل ہونے کی بات ملتی ہے۔[2] یہ آیات مسلمانوں کے درمیان دو قسم کے فکری اور عقیدتی نظریات پیدا ہونے کی بنیاد بن گئیں۔ بعض لوگوں نے انسان کو مجبورمحض مخلوق جانا[3] جبکہ دوسری طرف بعض لوگ انسان کو مکمل آزادی حاصل ہونے کا عقیدہ اپنایا۔[4]
جبر و اختیار کا مسئلہ ایک کثیر الجہتی مسئلہ ہے جس کو مختلف علوم جیسے فلسفہ، اخلاقیات، نفسیات، کلام، فقہ اور قانون میں اس پر بحث ہوتی ہے اور ہر ایک پر اس کا خاص اثر ہوتا ہے[5] شیعہ فلاسفر مرتضی مطہری کے مطابق جبر و اختیار کی فلسفیانہ تحلیل و تبیین سب سے زیادہ پیچیدہ مسائل میں سے ہے اور بہت کم فلسفی حضرات اس کو حل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔[6] ایک اور شیعہ فلاسفر اور ماہر الٰہیات محمد تقی جعفری نے انسانی افعال کی کیفیت صدور کے سلسلے مسلمان علماء کی 17 قسم کی رائے 17 پیش کی ہے کہ ان میں سے کچھ نظریات آپس میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔[7]
مکتب عدلیہ کے دو گروہ معتزلہ اور امامیہ کا عقیدہ ہے کہ انسان اپنے افعال کی انجام دہی میں مختار ہے۔[8] ان سے پہلے فرقے جہمیہ اور نجاریہ کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے افعال میں مشیت الہی کے تابع ہوتے ہیں۔[9] متکلمین اپنی مختلف کلامی کتابوں میں افعال الہی اور کیفیت تخلیق افعال کی بحث انسانی فعل اور فعل خدا کے درمیان تعلق پر بحث کی ہے۔[10]
بحث جبر و اختیار کا عقیدتی پہلو
جبر و اختیار کی بحث اسلامی پہلی صدیوں میں جبر پسندی اور آزادی ارادہ کے بارے میں شد و مد کے ساتھ بحثوں کا نتیجہ ہے۔[11] کتاب "فلسفہ علم کلام" کے مولف اور مغربی ماہر فلسفہ ہری وولفسن کے ایک جائزے کے مطابق آزادی ارادہ، متعدد دینی اور قرآنی تعلیمات سے متصادم ہے، جیسے: آزادی ارادہ اور قرآن کی تقدیر سے متعلق آیات، آزادی ارادہ اور اجل، آزادی ارادہ اور پہلے سے طے شدہ رزق، آزادی ارادہ اور خدا کا پیشگی علم و آگاہی اسی طرح آزادی ارادہ اور اللہ کی قدرت۔ ظاہری طور پر ان سب میں ناہماہنگی نظر آتی ہے۔[12]
عدل الہی
جبر و اختیار کے بارے میں بحث چھڑنے کے بنیادی محرکات میں سے ایک مسلمانوں کے مابین عدل الہی کے بارے میں اختلاف ہے۔ مکتب عدلیہ اپنے عقیدتی مبانیوں کی بنیاد پر یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ انسان کو اپنے افعال میں مجبور سمجھنا اور قبیح اعمال کو خدا کی طرف منسوب کرنا ظلم ہے اور خدا کسی پر ظلم نہیں کرتا۔[13] اس کے برعکس، مسلمانوں میں ایسے نظریات کے حامل لوگ بھی تھے جو اس بات پر عقیدہ رکھتے تھے کہ ہم اس بات کا تعین نہیں کر سکتے کہ کونسا فعل حُسن کا حامل ہے اور کونسا فعل قبیح ہے؟ بلکہ جو کچھ خدا کرتا ہے وہی حَسن اور عادلانہ ہے۔[14]
اللہ تعالیٰ کا پیشگی علم
خدا کے پیشگی علم کو "انسان کے مختار ہونے" کے نظریے سے ہماہنگ کرنا مسئلہ اختیار انسان کی بحث کے محرکات میں سے ایک ہے؛ کیونکہ توحیدی عقیدے کے مطابق، تخلیق سے پہلے، خدا جانتا ہے کہ کیا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا، اور اس عقیدے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کائنات اور واقعات جبراً و قہراً اس طرح سے ہونا ضروری ہے جو علم الہی سے مطابقت رکھتے ہوں۔ نتیجے کے طور پر، انسانی اختیار بے معنی ہو جائے گا۔[15]
خالقیت میں توحید
خالقیت میں توحید کے نظریے کے مطابق، خدا کی قدرت مطلق ہے اور یہ انسانی افعال سمیت ہر چیز پر احاطہ رکھتی ہے۔ قرآن کے سورہ صافات کی آیت نمبر 96 (وَاللَّہُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ؛ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا ہے اور ان چیزوں کو بھی جو تم بناتے ہو۔)[16] جیسے کچھ آیات سے مسلمانوں کے ایک گروہ نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف انسانی افعال کا خالق ہے۔ ایک طرف ہم انسان کو اپنے افعال میں مختار و مستقل جانیں اور دوسری طرف سے ہمہ جہت قدت الٰہی کا قائل ہوجائیں یہ دونوں آپس میں مطابقت نہیں رکھتا۔[17]
قضا و قدر اور اختیار انسان
مسلمانوں کے چند گروہوں کی جانب سے تقدیر گرایی کا نظریہ اس عقیدے کی بنیاد ہے کہ کائنات میں واقع ہونے والے تمام واقعات و حاثات پہلے سے طے شدہ ہیں اور تقدیر الٰہی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا اور انسان بھی تقدیر الہی کے دائرہ سے باہر کچھ نہیں کر سکتا۔[18] قضا اور قدر کی مختلف تشریحات اسلامی دنیا میں جبر و اختیار جیسے دو رجحانات کے ظہور کی بنیاد بنیں۔ بعض لوگ جبر پسندی کی طرف گئے اور بعض دیگر نے اختیار پسندی کا نظریہ اپنایا۔[19]
جبریت پسندی اور اس کی مختلف شاخیں
(Determinism) ڈیٹرمنزم یا جبریت پسندی انسانی افعال کے تجزیہ و تحلیل میں پیش کردہ ایک نظریہ ہے۔ جبریت پسندی نظریہ کے حامل لوگوں کو کلامی، علمی اور فلسفی تین ذیلی نظریات میں درجہ بندی کیا گیا ہے۔
کلامی جبریت پسندی
علم کلام کی رو سے جبریت پسند لوگ صفات الہیہ پر زور دیتے ہوئے انسان کو کلی طور مسلوب الفاعلیت سمجھتے ہیں اور صرف خدا کو انسان سے منسوب افعال کا حقیقی فاعل سمجھتے ہیں۔[20] صفات الٰہیہ پر بنا رکھتے ہوئے ان کا استدلال تین عناصر پر مشتمل ہے: خالقیت میں توحید، الہ کا ازلی ارادہ اور اس کا تمام چیزوں کے بارے میں پیشگی علم و آگاہی۔[21] عقائد کی تاریخ میں مسلمانوں کے ہاں جَہْمیّہ، نَجّاریہ، ضَراریّہ اور اشاعرہ جبرپسند نظریات کے حامل گروہوں میں سے جانے جاتے ہیں۔[22]
علمی جبریت پسندی
علمی جبریت پسندی تمام فطری اور طبیعی مظاہر کو فطری قوانین اور اسباب کا ناگزیر اثر سمجھتی ہے۔[23] اس فکری رجحان کے مطابق اگر کوئی اسباب و قوانین اور واقعات کے سلسلے میں آگاہی رکھتا ہو تو وہ انسان کے تمام افعال کو قطعی طور پیشنگوئی کر سکتا ہے۔ یہ نظریہ ہر قسم کی آزادی و اختیار اور امکان کی نفی کرتے ہوئے ضرورت اور جبر کا دفاع کرتا ہے۔[24]
فلسفیانہ جبریت پسندی
مسلم فلاسفرز انسانی افعال کے بارے میں اس کے مختار ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں اور جبریت پسندی کے مخالف ہیں،[25] فلاسفرز انسان کے افعال کو اختیاری اور ارادہ کا نتیجہ سمجھتے ہیں لیکن ان کے مطابق، انسان کا ارادہ بذات خود اختیاری عمل نہیں ہے۔[26] شیعہ فقہاء اور فلسفیوں کے ایک گروہ میں سے ابوالقاسم خوئی، محمد حسین نائینی، محمد باقر صدر اور غلام رضا فیاضی کا خیال ہے کہ مندرجہ بالا نظریے کا نتیجہ جبریت پسندی کو قبول کرنا ہے۔ یہاں اصل علیت کے قانون اور مراحل فعل انسانی کی اچھی طرح وضاحت کرنی چاہیے تاکہ انسان کے اختیار کی خوب تبیین و تشریح ہوسکے۔[27]
نظریہ اختیارپسندی اور اس کی ذیلی شاخیں
انسان سے صادر ہونے والے افعال کے مسئلے میں تحلیل و تشریح کے سلسلے میں ایک نظریہ اختیارپسندی کا نظریہ ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت بالخصوص مسلمانوں کے دو مکتب عدلیہ یعنی شیعہ اور معتزلہ اسی طرح اشاعرہ اور ماتریدیہ اختیار پسندی کے نظریے کو قبول کرتے ہیں۔ البتہ اختیار کی تشریح میں ان کے ہاں تین قسم کے مزید فرعی نظریے پایے جاتے ہیں: تفویض معتزلی، کسب اشاعرہ اور امامیہ کا "الامر بین الامرین" والا نظریہ۔
مکتب عدلیہ کے متکلمین جبریت پسندی کوعدل الہی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے عدل و حکمت خداوندی کی بنیاد پرانسان کو مختار قرار دیتے ہیں۔[28] ابن میثم بحرانی نے اس بات کی نشاندہی کرنے کے بعد کہ انسان کا اپنے افعال میں مختار و آزاد ہونا انتہائی واضح امور میں سے ہے اور اسے ثابت کی ضرورت نہیں ہے، یہ ذکر کیا ہے کہ ہر عقلمند شخص احسان کی تعریف اور ظلم کی مذمت کو اچھا سمجھتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اچھا اور برا عمل انجام دینے والا خود اپنے فعل کا بذات خود فاعل ہے۔[29] خواجہ نصیرالدین طوسی نے بھی یہی کہا کہ واضح فہم اس بات کا گواہ ہے کہ ہمارے اعمال کی بنیاد ہم پر ہی ہے کسی غیر پر نہیں ہے۔[30]
معتزلیوں کا تفویضی نظریہ
معتزلیوں کا تفویضی نظریہ یہ ہے کہ انسان اپنے عمل کا خود فاعل ہے اور خدا نے اسے انسان میں پیدا نہیں کیا ہے۔[31] اور خدا کو انسانی اعمال کا خالق نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ انسانی اعمال میں ظلم و جور بھی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے مبرا و پاک ہے۔[32] تفویضی نظریہ کے ناقدین اسے ایک قسم کی دہرییت سمجھتے ہیں جو کہ خالقیت میں توحید اور ربوبیت میں توحید کے اصول سے منافات رکھتی ہے۔[33] چنانچہ قدرت اور مالکیت الہی کی عمومیت کے ساتھ بھی منافات رکھتی ہے۔[34]
اشاعرہ کا نظریہ کسب
نظریہ کسب کو اشاعرہ نے جبریت پسندی کے ںطریے سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کے لیے پیش کیا ہے۔[35] یہ نظریہ اس بات پر مبنی ہے کہ خدا انسانی فعل کا خالق ہے اور انسان اس کا (کاسب) حاصل کرنے والا ہے۔[36] علمائے اشاعرہ نے "کسب" کی تشریح و تفسیر میں اختلاف کیا ہے اور اس کی متعدد تشریحات کی ہے۔ اس نظریہ کو جہاں اشاعرہ کے مخالفین نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہاں اشاعرہ کے بعض علماء نے بھی اسے جبریت پسندی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ناکافی سمجھا ہے۔[37] جامعۃ الازہر کے بزرگ عالم دین شیخ شلتوت کا خیال ہے کہ یہ نظریہ اپنی لغوی اور قرآنی اصطلاحات سے ہم آہنگ نہ ہونے کے علاوہ شرعی احکام کے مسئلہ، عدل الہی اور انسان کی شرعی ذمہ داری کے اصول کو بھی درست ثابت کرنے سے قاصر ہے۔ (انسان کو دیے ہوئے اختیار پر اس کی تمام ذمہ داریاں موقوف ہیں۔)[38]
امامیہ کا قانون "الامر بین الامرین"
"الامر بین الامرین" کا نظریہ شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے پیش کیا ہے اور مکتب امامیہ کے متکلمین اور حکمائے اسلام نے کی تبیین و تشریح کی ہے۔[39] اس نظریہ کے مطابق چونکہ انسانی افعال ممکنات میں سے ہیں اس لیے یہ انسان کے اختیار اور اس کی ملکیت میں ہیں اور خدا کو بھی اس پر اختیار حاصل ہے اور اس کی قدرت سے بھی باہر نہیں ہے(انسانی ارادہ اور افعال بھی اسی کی قدرت کے تحت داخل اور اسی کی مشیت کے تابع ہیں) اور یہ دونوں ایک دوسرے کے طول میں ہیں عرض میں نہیں۔ دوسرے لفظوں میں، جہاں انسانی افعال خود انسانوں سے مربوط ہیں ساتھ ہی ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ پر پر بھی مبنی ہے؛ تاہم، انسانی ارادہ و اختیار ارادہ الہی کےماتحت ہے عرض میں نہیں۔[40] مسلمان فلاسفرزں نے اصالت الوجود، وحدت وجود اور ممکن الوجود کا ذاتی طور پر واجب الوجود سے منسلک ہونا جیسے کئی فلسفیانہ بنیادوں پر الامر بین الامرین کی تشریح و تبیین کی ہے۔ حکمت متعالیہ کے صدرائی مکتب[41] کے پیروکاروں من جملہ امام خمینی[42] نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے۔
مونوگراف
اسلامی عقائد کی تاریخ میں مستقل اور غیر مستقل طور پر جبر و اختیار کے بارے میں دینی اور عقیدتی نقطہ نظر سینکڑوں کتابیں اور رسالہ جات عربی اور فارسی زبان میں لکھے گئے ہیں۔[43] محمد تقی جعفری کی تحریر کردہ کتاب "جبر و اختیار"،[44] "عزم اور آزاد مرضی" جعفر سبحانی کے دروس سے ماخوذ کتاب "جبر و اختیار" جسے علی ربانی گلپائیگانی مرتب کیا ہے،[45] سید محمد صادق روحانی کی تصنیف "جبر و اختیار"[46] اور محمد حسن قدردان قراملکی کی تحریر کردہ کتاب"نگاہ سوم بہ جبر و اختیار"[47] اس سلسلے کی زیادہ معروف کتابوں میں سے ہیں۔
متعلقہ موضوعات
حوالہ جات
- ↑ عبدہ، رسالۃ التوحید، 2005ء، ص17۔
- ↑ ولفسن، فلسفہ علم کلام، 1368شمسی، ص647۔
- ↑ ولفسن، فلسفہ علم کلام، 1368شمسی، ص648۔
- ↑ ولفسن، فلسفہ علم کلام، 1368شمسی، ص660۔
- ↑ مطہری، پاورقی اصول فلسفہ و روش رئالیسم، 1390شمسی، ج3، ص157؛ جعفری، جبر و اختیار، 1379شمسی، ص13۔
- ↑ مطہری، پاورقی اصول فلسفہ و روش رئالیسم، 1390شمسی، ج3، ص179۔
- ↑ جعفری، جبر و اختیار، 1379شمسی، ص220-225۔
- ↑ قدردان قراملکی، نگاہ سوم بہ جبر و اختیار، 1384شمسی، ص97۔
- ↑ شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج1، ص97۔
- ↑ رک: قاضی: شرح الاصول الخمسہ، 1422ق، ص217؛ ایجی، شرح المواقف، بیتا، ج8، ص145؛ عبدہ، رسالۃ التوحید، 2005م، ص47؛ حلی، کشف المراد، 1382شمسی، ص68۔
- ↑ ولفسن، فلسفہ علم کلام، 1368شمسی، ص706۔
- ↑ ولفسن، فلسفہ علم کلام، 1368شمسی، ص707-716.
- ↑ سبحانی، جبر و اختیار، 1381شمسی، ص366۔
- ↑ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، 1411ھ، ج2، ص277.
- ↑ ر.ک. ملاصدرا، الحکمۃ المتعالیۃ فی الأسفار الأربعۃ، 1386ھ، ج6، ص270–271 و ص281–283؛ پلانتینجا و دیگران، کلام فلسفی (مجموعہ مقالات)، 1384شمسی، ص 255–282۔
- ↑ سورہ صافات، آیہ 96۔
- ↑ جعفری، جبر و اختیار، 1379شمسی، ص227۔
- ↑ سبحانی، جبر و اختیار، 1381شمسی، ص129۔
- ↑ مطہری، انسان و سرنوشت، 1390، ص37-39۔
- ↑ سبحانی، محاضرات فی الالہیات، 1423ھ، ص192۔
- ↑ جعفری، جبر و اختیار، 1379شمسی، 17۔
- ↑ شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج1، ص97.
- ↑ جعفری، جبر و اختیار، 1379شمسی، ص17۔
- ↑ باربور، علم و دین، 1362، ص340-342؛ قدردان قراملکی، «اختیار، قانون علیت و دترمینیسم»، ص55-56.
- ↑ ملاصدرا، الحکمۃ المتعالیۃ، 1981ء، ج3، ص12۔
- ↑ مطہری، اصول فلسفہ و روش رئالیسم، 1389، ص612-626؛ ابنسینا، الہیات شفاء، 1404، ص437-439؛ ملاصدرا، الحکمۃ المتعالیۃ، 1981ء، ج2، ص224۔
- ↑ نائینی، أجود التقریرات، 1368شمسی، ج1، ص91؛ فیاضی، «جبر فلسفی از نگاہ قاعدہ ضرورت سابق».
- ↑ شہرستانی، ملل و نحل، 1364شمسی، ج1، ص61۔
- ↑ بحرانی، قواعد المرام، 1406ھ، ص108۔
- ↑ نصیرالدین طوسی، کشف المراد، 1413ھ، ص308۔
- ↑ قاضی، شرح الاصول الخمسۃ، 1422ھ، ص226۔
- ↑ قاضی، شرح الاصول الخمسۃ، 1422ھ، ص231۔
- ↑ ملاصدرا، اسفار، ۱۹۸۱ء، ج۶، ص۳۷۰۔
- ↑ صدوق، التوحید، ۱۳۵۷شمسی، ص۳۵۹۔
- ↑ قدردان قراملکی، نگاہ سوم بہ جبر و اختیار، 1384شمسی، ص240۔
- ↑ خیالی، شرح العقاید النسفیۃ، 1297ھ، ص115-117۔
- ↑ أمین، ضحی الاسلام، ج3، ص57۔
- ↑ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، مؤسسۃ النشر الإسلامي، ج2، ص198۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار،1403ھ، ج5، ص12۔
- ↑ مطہری، اصول فلسفہ و روش رئالیسم، ج3، ص163-174۔
- ↑ ملاصدرا، أسفار، 1981ء، ج6، ص373-378۔
- ↑ خمینی، الطلب و الارادۃ، 1421ھ، ص72-73۔
- ↑ سبحانی، جبر و اختیار، 1381شمسی، ص43۔
- ↑ جعفری، جبر و اختیار، 1379ہجری شمسی۔
- ↑ سبحانی، جبر و اختیار، 1382ہجری شمسی۔
- ↑ روحانی، جبر و اختیار، 1389ہجری شمسی۔
- ↑ قدردان قراملکی، ، 1384ہجری شمسی۔
مآخذ
- ایجی، عضدالدین عبدالرحمان بن احمد، شرح المواقف، قم، الشریف الرضی، بیتا۔
- بحرانی، ابنمیثم، قواعد المرام فی علم الکلام، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، 1406ھ۔
- پلانتینجا، الوین، و دیگران، کلام فلسفی (مجموعہ مقالات)، ترجمہ احمد نراقی و ابراہیم سلطانی، تہران، نشر صراط، 1384ہجری شمسی۔
- سبحانی، جعفر، محاضرات فی الالہیات، قم، مؤسسۃ الامام الصادق(ع)، چاپ ششم، 1423ھ۔
- جعفری، محمدتقی، جبر و اختیار، تہران، مؤسسہ تدوین و نشر آثار علامہ جعفری، 1379ہجری شمسی۔
- خیالی، احمد بن موسی، شرح العقاید النسفیۃ، پیشاور، مکتبۃ علوم الاسلامیہ، 1297ھ۔
- خمینی، سید روحاللہ، الطلب و الارادۃ، تہران، مؤسسۃ تنظیم و نشر آثار الامام الخمینی، 1421ھ۔
- روحانی، سید محمدصادق، جبر و اختیار، ترجمہ حمیدرضا صادقی، قم، مہر امیرالمومنین، 1389ہجری شمسی۔
- صدوق، التوحید، تحقیق سید ہاشم حسینی طہرانی، قم، نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، بیتا۔
- سبحانی تبریزی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل، قم، مؤسسۃ الامام الصادق علیہالسلام، 1428ھ۔
- شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، قم، الشریف الرضی، 1364ہجری شمسی۔
- نصیرالدین طوسی، محمد بن محمد، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، قم، نشر اسلامی وابستہ بہ حوزہ علمیہ قم، 1413ھ۔
- قاضی، عبدالجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسۃ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1422ھ۔
- قدردان قراملکی، محمدحسن، نگاہ سوم بہ جبر و اختیار، قم، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1384ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار الجامعۃ لدرر الأخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
- مطہری، مرتضی، اصول فلسفہ و روش رئالیسم، تہران، صدرا، بیتا۔
- مطہری، مرتضی، انسان و سرنوشت، انتشارات صدرا، چاپ چہاردہم، تہران 1374ہجری شمسی۔
- ملاصدرا، الحکمۃ المتعالیۃ فی الأسفار العقلیۃ الاربعۃ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1981ء۔
- ولفسن، ہری اوسترین، فلسفہ علم کلام، ترجمہ: احمد آرام، تہران، الہدی، 1368ہجری شمسی۔