فاطمہ جناح

ویکی شیعہ سے
(پاکستان کی خاتون اول سے رجوع مکرر)
فاطمہ جناح
مادر ملت
کوائف
لقبمادر ملت، خاتون پاکستان
تاریخ پیدائش31 جولائی 1893ء
آبائی شہرکراچی
ملک پاکستان
مشہوراقاربمحمد علی جناح (بھائی)
دیناسلام
مذہبشیعہ
سیاسی کوائف
مناصبآل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی ممبر
علمی و دینی معلومات


فاطمہ جناح پاکستان کے بانی سیاستدان محمد علی جناح کی بہن اور شیعہ سیاسی خاتون تھی۔ آپ کو پاکستان میں خاتون پاکستان یا مادر ملت سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے ساتھ رہی۔ بھائی کی حیات میں کوئی سیاسی عہدہ نہیں لیا۔ سنہ 1965ء میں صدارتی الیکشن میں حصہ لیا لیکن کامیاب نہ ہوسکی۔ فاطمہ نے برصغیر کی مسلم خواتین کو سیاسی مسائل میں شریک ہونے پر بہت زور دیا۔ فاطمہ جناح پر قائد اعظم کو بہت اعتماد تھا اور ہر بیانیہ یا حکم نامہ ان سے پڑھوانے کے بعد جاری کرتا تھا۔ جب برصغیر میں مسلم خواتین کےلیے انگریزی تعلیم کا حصول معیوب سمجھا جاتا تھا تو فاطمہ جناح اس وقت انگریزی سکول میں زیر تعلیم تھی۔ انہوں نے شعبہ طبابت میں اپنی تعلیم مکمل کی اور ڈینٹل ڈاکٹر بنی۔ فاطمہ جناج نے اپنے گھر پر وفات پائی؛ ان کی پہلی نمازِ جنازہ گھر پر کسی شیعہ عالم نے پڑھائی اور دوسری بار مزار قائد پر پڑھی گئی۔ فاطمہ کراچی میں مدفون ہوئی۔ ان کے جسد خاکی کو قبر میں اتارنے کے بعد شیعہ فقہ کے مطابق تلقین پڑھی گئی۔

سوانح حیات

فاطمہ جناح شیعہ سیاسی شخصیت[1] اور پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن تھی۔[2] فاطمہ جناح 31 جولائی 1893ء کو کراچی میں جناح پونجا کے ہاں پیدا ہوئی۔[3] والدین نے آپ کا نام فاطمہ رکھا۔[4] آپ بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی اور محمد علی جناح آپ کے سب سے بڑے بھائی تھے۔[5]

ابھی فاطمہ دو سال کی تھی آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا فاطمہ اپنی بہن مریم کے ہاں پرورش پائی۔[6] فاطمہ سنہ 1900ء میں والد کے ہمراہ کراچی سے بمبئی گئی۔[7] سات سال کی عمر میں آپ کے والد بھی اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے[8] جس کے بعد فاطمہ کی سرپرستی محمد علی جناح نے سنبھالی۔[9] محمد علی جناح نے اپنی بہن کو بمبئی کے اہم انگریزی سکول میں داخل کروادیا جبکہ مسلمانوں میں لڑکیوں کو تعلیم بالخصوص انگریزی تعلیم دلوانا معیوب سمجھا جاتا تھا اور انگریزی تعلیم سے تو نفرت کی جاتی تھی۔[10] لیکن محمد علی جناح تمام خاندان کی مخالفت کے باوجود اپنی چھوٹی بہن کو انگریزی بورڈنگ سکول میں داخل کرانے میں کامیاب ہوگئے[11] فاطمہ جناح نے سنہ 1910ء کو سینٹ پیٹرک اسکول کھنڈالہ سے میٹرک پاس کیا۔[12] کہا جاتا ہے کہ سنہ 1918ء میں جب محمد علی جناح کی شادی ہوئی تو فاطمہ جناح اپنی بڑی بہن کے گھر منتقل ہوگئی اور آٹھ سال تک وہیں مقیم رہی۔[13] فاطمہ جناح نے سنہ 1919ء میں ڈاکٹر احمد ڈینٹل کالج کلکتہ میں داخلہ لے لیا اور 1922ء میں Dentist کی سند حاصل کرکے واپس بمبئی آگئیں اور ایک ڈینٹل کلینک کھول کر پریکٹس شروع کردی۔[14] 1929ء میں قائد اعظم کی بیوی رتن بائی کے انتقال کے بعد محمد علی کی تنہائی اور پریشانی کو دیکھتے ہوئے فاطمہ ان کے پاس آگئیں اور محمد علی جناح کے انتقال تک ان کے ساتھ رہی۔[15] قائداعظم کی رحلت کے بعد آپ نے پاکستان میں جمہوریت کی بقا و بحالی کی خاطر استعمار پسند قوتوں اور جمہوریت دشمن عناصر کے خلاف صدائے حق بلند کی۔[16]

بھائی کے ہمراہ

فاطمہ جناح اپنے بھائی قائد اعظم کے ہمراہ

فاطمہ جناح قائد اعظم کے لئے بہن ہونے ساتھ ایک معتمد ساتھی بھی سمجھی جاتی تھی۔ کہا گیا ہے کہ آپ ہر سیاسی ملاقات میں بھائی کے ساتھ ہوتی تھی اور جناح کا ہر مسودہ اور بیان فاطمہ کے پڑھے بغیر جاری نہیں ہوتا تھا۔[17] اسی لئے قائد اعظم انہیں فل کونسل کہتے تھے۔[18]

آزادی پاکستان کی تحریک میں فاطمہ اپنے بھائی کے لئے بڑا سہارا تھیں اور ہمیشہ ان کے ساتھ تھی اور تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے فاطمہ نے مسلم خواتین کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اس کے لئے ملک کے مختلف شہروں کا سفر کیا۔ فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ اس نے قائد اعظم کی قیادت میں ایک سپاہی کی طرح دوسرے مسلمانوں کے دوش بدوش کام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریکِ پاکستان میں قائد اعظم ان کو ہر جگہ ساتھ رکھتے تھے لیکن انھیں کوئی سیاسی عہدہ نہیں دیا کیونکہ یہ ملک اپنے یا اپنی بہن کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے بنایا تھا۔[19] فاطمہ اپنے بھائی کی صحت کا بہت خیال رکھتی تھی اور ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی تھی اور جب جناح کوئٹہ منتقل ہوئے تو وہاں بھی ساتھ تھی اور قائد اعظم کا کھانا تک اپنی نگرانی میں پکواتی تھی۔[20]

فاطمہ جناح نے سنہ 1955ء میں "میرا بھائی" کے عنوان سے قائد اعظم کے بارے ایک کتاب لکھی جو 32 سال بعد سنہ 1978ء میں شائع کی گئی لیکن اس کے بعض صفحات حذف کئے گئے۔[21]

سیاسی سرگرمیاں

قائد اعظم محمد علی جناح:

مس فاطمہ جناح میرے لیے حوصلہ افزائی اور مدد و اعانت کامستقل سرچشمہ رہی ہیں جن دنوں اندیشہ تھا کہ برطانوی حکومت مجھے گرفتار کرکے مسلمانوں کی خدمت سے محروم کردے گی ان دنوں یہ میری بہن ہی تھی جس نے میرے حوصلے کو بلند رکھا۔ جب انقلاب رونما ہونے کو تھا فاطمہ کی باتیں میرے لیے حوصلہ افزا تھیں۔ ان کو میری صحت کی ہمیشہ فکر لاحق رہتی تھی اور انہی کی وجہ سے میں صحت مند رہا۔

فاطمہ سنہ 1938ء کو بمبئی پروفشنل مسلم لیگ کی ممبر بنی اور آل انڈیا مسلم لیگ کونسل میں ان کا نام سرفہرست تھا۔ 1939ء کے بعد وہ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی مستقل رکن رہیں۔[22] پروین شوکت علی کے مطابق فاطمہ جناح نے مسلم خواتین کو منظم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا[23] اور متعدد مقامات پر مسلم طالبات کی تنظیمیں بنائی۔[24]

فاطمہ جناح کو خاتون پاکستان کا لقب دیا گیا[25] اور پاکستان کے لئے انجام دی جانے والی خدمات کی وجہ سے آپ کو مادر ملت سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔[26]

قائد اعظم کی رحلت کے بعد فاطمہ جناح نے عملی سیاست سے کچھ فاصلہ لیا اور مختلف موقعوں پر قوم کو پیغامات کے ذریعے اپنا موقف پہنچاتی رہی اور مسلم لیگ کے اندرونی اختلافات کو ختم کرنے کے لئے بہت کوشش کی۔[27]

اکتوبر 1958ء میں سکندر مرزا نے ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرتے ہوئے اسمبلیوں کو منحل کر کے مارشل لاء نافذ کردیا اور جنرل محمد ایوب خان کو ناظم اعلی مارشل لاء مقرر کردیا جس نے چند دنوں بعد سکندر مرزا کو بھی معزول کر کے خود اقتدار سنبھال لیا۔[28] سنہ 1961ء میں ملک میں پارلیمانی نظام کے بدلے صدارتی نظام قائم کرنے کی سفارش کی گئی جس کے تحت 1965ء میں ملک میں صدارتی انتخابات ہوئے جس میں فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ ایوب خان کے علاوہ قومی سطح پر کوئی قیادت نہیں ہے لہذا ایوب خان تا حیات صدر ہونا چاہئے اس پر ملک کی پانچ بڑی جماعتوں نے ایوب خان کے خلاف اتحاد کیا اور متحدہ حزب اختلاف نے فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار منتخب کیا[29] نومبر 1964ء کو جمعیت المشائخ اور دیگر بہت سارے علما نے فتوا جاری کیا کہ اسلامی احکام کے مطابق کوئی خاتون سربراہ مملکت نہیں ہوسکتی ہے۔[30]

2 جنوری سنہ 1965ء کو ہونے والے انتخابات میں فاطمہ کو شکست ہوئی اور بعض کا کہنا ہے کہ ایوب خان کی یہ کامیابی دھونس دھاندلی سے ہوئی ورنہ فاطمہ جناح جیت چکی تھی۔[31]

محمد علی جناح کی وفات کے بعد فاطمہ جناح نے پاکستان کو درپیش خطرات کی نشاندہی کی جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت۔
  • بیرونی قرضوں کے ناقابل برداشت دباؤ۔
  • غربت اور معیشتی نا ہمواریوں کے خطر ناک اضافے۔
  • مشرقی پاکستان اور دیگر پس ماندہ علاقوں کی حالت زار۔
  • ناخواندگی اور سائنٹیفک تعلیم کے بارے میں حکومت کی مجرمانہ خاموشی۔
  • نصابات میں اسلامی اقدار اور خاص کر قرآنی تعلیمات کا فقدان۔
  • جمہوری اور پار لیمانی دستور کی تشکیل میں تاخیر۔
  • خارجہ پالیسی کے یک طرفہ اور غیر متوازن رویے۔[32]

سماجی خدمات

فاطمہ جناح معذور بچوں کی بہتری، تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہتی تھی اور قیام پاکستان کے بعد تنظیم آل پاکستان ڈیف اینڈ ڈمب ویلیفئر سوسائٹی بنائی گئی جس کی سربراہ فاطمہ جناح بنی۔ اس ادارے کے تحت پاکستان بھر میں مختلف ادارے قائم ہوئے اور لاہور میں اکتوبر 1962ء میں گنگ محل کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کیا گیا جہاں اسپیشل بچوں کے لئے اساتذہ کی تربیت دی جاتی تھی۔ گنگ محل کا نام در اصل اکبر بادشاہ نے دہلی میں اپنے محل کے گونگے بہرے شہزادوں و دیگر کے لیے الگ سے ایک محل بنایا تھا جہاں پر شاھی فیملی کے گونگے بہرے افراد قیام پذیر ہوتے اور ان کی تربیت دی جاتی تھی۔[33]

فاطمہ جناح نے خواتین کے لیے تعلیم نسواں اور تعلیم بالغاں کے مراکز بھی قائم کیے۔[34] اسی طرح نونہالوں پر توجہ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی اپیل پر نیشنل کمیٹی کی صدر بن گئی۔ اور مرکز بہبودی اطفال، زچہ خانے اور نوخیز بچوں کے مراکز کی تاسیس پر زور دیا۔[35]

آپ خواتین کے حقوق کے لئے بھی کوشاں رہی اور اسی حوالے سے تقسیمِ ہند اور اقتدار کی منتقلی کے دوران خواتین کی امدادی کمیٹی بنائی جس نے بعد میں آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) کی شکل اختیار کرلی۔[36]

وفات

فاطمہ جناح کے جنازے میں لاکھوں لوگوں کا اجتماع (فوٹو روزنامہ جنگ)

فاطمہ جناح 8 اور 9 جولائی 1967 کی درمیانی شب مختصر علالت کے بعد 73برس کی عمر میں قصر فاطمہ کلفٹن کراچی میں انتقال کر گئی۔[37] کہا جاتا ہے کہ 8 جولائی 1967ء کو کسی ولیمہ میں شرکت کے بعد واپس آکر سوگئی تھی لیکن 9 جولائی بمطابق یکم ربیع الثانی 1387ھ کی صبح پتہ چلا کہ وہ بستر پر ہی ابدی نیند سوگئی ہیں۔[38] اگر چہ موت کا سبب عارضہ قلبی قرار دیا گیا[39] لیکن بعض کا کہنا ہے کہ فاطمہ جناح کی موت مشکوک تھی؛ فاطمہ کو غسل دینے والوں کے بیان کے مطابق بدن پر زخم کے نشانات تھے جن سے قتل ہونے کا شک جنم لیتا تھا۔[40] لیکن حکومتِ وقت نے اس موت کے بارے میں تحقیقات کے نتیجے کو سامنے نہیں لایا۔[41] فاطمہ جناح کی جسد خاکی پر دو مرتبہ نماز جنازہ پڑھائی گئی پہلی نماز جنازہ مولانا ابن حسن چارجوی نے پڑھائی جو شیعہ تھے اور دوسری نماز جنازہ ایک اہل سنت عالم نے پڑھائی۔[42] مزار قائد پر دفنانے کی وصیت کے باوجود حکومت وقت آپ کے جسد خاکی کو میوہ شاہ قبرستان میں دفنانا چاہتی تھی لیکن عوامی مخالفت کے خوف سے مزار قائد کے احاطے میں دفنانے پر راضی ہوگئی[43] اور قائد اعظم کی قبر سے 120 فٹ کے فاصلے پر دفن ہوئی۔[44] جنازہ قبر میں اتارنے کے بعد شیعہ فقہ کے مطابق تلقین پڑھی گئی۔[45] آپ کے تشییع جنازے میں 6 لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی۔[46]آپ کی وفات پر پاکستان میں عام تعطیل کا اعلان ہوا۔[47]

محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال پر جناب رئیس امروہوی نے لکھا:

خالی رئیس رنج شکستہ پری نہیںرونا یہ ہے کہ ہمت پرواز بھی گئی
انجام کار قائداعظم کی ملک میںآواز رہ گئی تھی سو آواز بھی گئی[48]

مونوگراف

فاطمہ جناح کے بارے میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • فاطمہ جناح کے شب و روز بقلم ثریا خورشید۔
  • فاطمہ جناح حیات و خدمات، بقلم آغا حسین ہمدانی۔
  • مادر ملت، خاتون پاکستان فاطمہ جناح بقلم صفیہ ملک
  • شمع جمہوریت، آپ کی تقاریر کا مجموعہ ہے جسے وکیل انجم نے مرتب کیا ہے۔

حوالہ جات

  1. قائد اعظم شیعہ یا سنی!، روزنامہ پاکستان۔
  2. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص29۔
  3. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص29۔
  4. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص29۔
  5. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص29۔
  6. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص30۔
  7. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص30۔
  8. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص30۔
  9. صفیہ ملک، مادر ملت، خاتون پاکستان فاطمہ جناح، ص13
  10. صفیہ ملک، مادر ملت، خاتون پاکستان فاطمہ جناح، ص13
  11. صفیہ ملک، مادر ملت، خاتون پاکستان فاطمہ جناح، ص13
  12. صفیہ ملک، مادر ملت، خاتون پاکستان فاطمہ جناح، ص13
  13. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص34۔
  14. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص34۔
  15. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص38۔
  16. انیلہ مبشر، مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ: قائد کی دستِ راست اور مشیرِ خاص، ماہنامہ دختران اسلام، اگست 2022ء ص 18
  17. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص41-42۔
  18. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص41۔
  19. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص47۔
  20. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص51۔
  21. میرا بھائی، ریختہ سائٹ۔
  22. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص58۔
  23. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص60۔
  24. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص64۔
  25. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص68۔
  26. محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب مجید نظامی اور نوائے وقت نے دیا، نوائے وقت نیوز۔
  27. ملاحظہ ہو آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص68 کے بعد۔
  28. ملاحظہ ہو آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص82۔
  29. ملاحظہ ہو آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص91۔
  30. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص93۔
  31. ملاحظہ ہو آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص100۔
  32. فاطمہ جناح، جیو اردو۔
  33. شہزاد بھٹہ، پاکستان میں اسپشل ایجوکیشن کی تاریخ مادر ملت ڈاکٹر فاطمہ جناح اور معذور بچوں کی تعلیم و تربیت، جیوے پاکستان ویب سائٹ۔
  34. سعدیہ کریم، مادرِ ملت فاطمہ جناح کی ملی و سیاسی خدمات، ماہنامہ دختران اسلام، اگست 2022ء، ص30۔
  35. آغا حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص120۔
  36. کامران شیخ، مادرِ ملت فاطمہ جناح نے زندگی کے 17 سال کس گھر میں گزارے، آج ٹی وی ویب سائٹ۔
  37. حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص134۔
  38. حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص134۔
  39. حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص136
  40. جعفری، عقیل عباس، کیا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا؟، انڈپنٹنڈنٹ اردو ویب سائٹ۔
  41. جعفری، عقیل عباس، کیا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا؟، انڈپنٹنڈنٹ اردو ویب سائٹ۔
  42. حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص136
  43. جب مادر ملت کو چھ لاکھ غمزدہ ہجوم نے مزار قائد کے احاطہ میں سپرد خاک کیا
  44. حسین ہمدانی، فاطمہ جناح حیات و خدمات، 1978ء، ص141۔
  45. قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کا، روزنامہ ڈان نیوز۔
  46. جب مادر ملت کو چھ لاکھ غمزدہ ہجوم نے مزار قائد کے احاطہ میں سپرد خاک کیا
  47. جعفری، عقیل عباس، کیا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا؟، انڈپنٹنڈنٹ اردو ویب سائٹ۔
  48. جعفری، عقیل عباس، کیا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا؟، انڈپنٹنڈنٹ اردو ویب سائٹ۔

مآخذ