پاراچنار میں شیعہ نسل کشی

ویکی شیعہ سے
پاراچنار میں شیعہ نسل کشی
پاراچنار میں شیعہ نسل کشی کے واقعات میں شہداء کی تشییع جنازہ، سنہ 2024ء
پاراچنار میں شیعہ نسل کشی کے واقعات میں شہداء کی تشییع جنازہ، سنہ 2024ء
واقعہ کی تفصیلپاراچنار پر تحریک طالبان پاکستان کا حملہ
زمانسنہ 2007 سے 2024ء
مکانپاراچنار، پاکستان
سببشیعیان پاراچنار کا قتل عام
مقاصدشیعیان پارچنار کی نسل کشی اور انہیں علاقہ بدر کرنا
عناصرپاکستان میں سرگرم تکفیری عناصر (تحریک طالبان پاکستان)


پاراچنار میں شیعہ نسل کشی، پاکستان کے شہر پاراچنار میں شیعوں کے قتل عام کی طرف اشارہ ہے۔ عرصہ دراز سے تکفیری عناصر خاص کر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اس علاقے میں دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ ان واقعات میں سب سے طولانی‌ جنگ سنہ 2007ء کی ہے جو سنہ 2012ء تک جاری رہی جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شیعہ شہید یا زخمی ہوئے۔ سنہ 2012ء کے بعد بھی اس علاقے میں دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ رواں سال جولائی کے آخری عشرے میں شروع ہونے والے واقعے میں تکفیری عناصر کی جانب سے پاراچنار پر چاروں طرف سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک ہفتے کے اندر کم از کم 50 سے زیادہ مؤمنین شہید اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔

پاراچنار کا محل وقوع

پاراچنار صوبہ خیبر پختونخواہ کے «ضلع کرم» میں واقع ہے جو پاکستان اور افغانستان کا سرحدی علاقہ شمار ہوتا ہے۔ پاراچنار کی اکثریتی آبادی کا تعلق شیعہ مذہب سے ہے۔ ضلع کرم کا شمار فاٹا کے علاقوں میں ہوتا ہے۔ اس علاقے میں امن و امان قائم کرنے کی ذمہ داری پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح پاکستانی فوج کی ہے لیکن فرقہ‌ ورانہ تعصب کی بنیاد پر اس علاقے کو پاکستان کے دوسرے شہروں سے ملانے والا واحد راستہ ہمیشہ نا امنی کا شکار رہتا ہے۔[1] سکیورٹی اداروں میں تکفیری عناصر کے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی بار تکفیری عناصر کی طرف سے اس علاقے پر فرقہ ورانہ جنگ مسلط کی گئی جس میں ہزاروں بے گناہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔[2] اسی طرح چاروں طرف سے تکفیری عناصر کے محاصرے میں ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں بسنے والے مؤمنین سخت مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔[3]

تاریخچہ

سنہ 2007ء کی جنگ سے پہلے سنہ 1987 اور 1996ء میں دو بار پاراچنار پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں یہاں کے بہت سارے مؤمنین شیہد، زخمی یا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ طالبان اور تکفیری عناصر نے شیعیان حیدر کرار کو اس علاقے سے نکال بے دخل کرنے کے لئے کئی بار اس علاقے پر حملہ کیا۔[4] ان میں سب سے طولانی‌ جنگ سنہ 2007ء کی ہے جس کے دوران اس علاقے کے شیعوں کو چاروں طرف سے محاصرہ کیا گیا جو سنہ 2012ء تک جاری رہی۔‌ جنوری سنہ 2012ء سے جنوری 2013ء تک صرف ایک سال کے عرصے میں دہشت گردی کے 77 واقعات میں تقریبا 635 مؤمنین شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔[5]

سنہ 2007 سے 2012ء تک کی جنگ

سنہ 2007ء کو تحریک طالبان پاکستان نے اہل سنت کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے پاراچنار کے سنی نشین جنوبی حصے سے شیعہ نشین شمالی حصے کی طرف نقل مکانی کی،‌ جس کے بعد شیعوں پر ان کی اپنی زمینوں کو خالی کرانے اور ان پر قبضہ کرنے کے لئے زور دینا شروع کیا۔ اس سلسلے میں طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکر جہنگوی نے مختلف بہانوں سے شیعوں کے مقدسات کی توہین کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں آخر کار اس علاقے میں شیعوں کے ساتھ تکفیریوں کی جنگ شروع ہوئی۔ ان حملوں میں دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے تقریبا 650 شیعہ شہید ہوئے اور دشمن کے بھی کم از کم 1000 افراد مارے گئے۔ اسی سلسلے میں جنوری سنہ 2007ء کو پاراچنار کا نقشہ تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی جو شیعیان پاراچنار کے مطابق شیعوں کے خلاف سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا۔ طالبان کی طرف سے انجام دئے گئے نئے اقدامات کے نتیجے میں حکومت نے اس علاقے کی سکیورٹی طالبان کے سپرد کی جس پر اس تنظیم کے کارکنوں نے علاقے میں بد امنی پھیلانا شروع کیا۔ اس کے بعد شیعوں پر کئی حملے کئے گئے جن میں کم از کم 50 سے زیادہ مؤمنین شہید ہوئے۔[6] یہ نسل کشی سنہ 2008 تک جاری رہی جس کے نتیجے میں علاقے کے باسیوں میں خوراک اور ادویات کی قلت کے مسائل پیدا ہوئے۔[7] پاراچنار میں شیعوں کی نسل کشی اور محاصرہ جاری تھا یہاں تک کہ آخر کار نیٹو اور پاکستان آرمی اس علاقے میں امن و امان برقرار کرنے کے لئے شیعوں کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہوئے۔[8]

سنہ 2023ء کا واقعہ

مئی سنہ 2023ء کو تکفیری عناصر نے پاراچنار کے ایک سکول پر حملہ[9] کر کے 7 اساتذہ کو وحشیانہ طریقے پر قتل کیا۔[10] اس واقعے کے ایک ماہ بعد پاراچنار کے ایک اور مؤمن کو گولی مار کر شہید کیا گیا۔[11] ان واقعات کی وجہ سے علاقے میں ایک بار پھر جنگ چھڑ گئی جس کے نتیجے میں 6 افراد شہید اور 50 سے زیادہ زخمی ہوئے۔[12]

سنہ 2024ء کا واقعہ

پاکستانی پلیس کے مطابق رواں سال جولائی کے مہینے میں پاراچنار کے بشیرہ نامی ایک گاؤں کی زمینوں کی تقسیم کے معاملے میں اختلافات کو حل کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی۔ اختلاف کو حل کرنے کے لئے منعقد کی گئی نشست کے دوران 24 جولائی سنہ 2024ء کو ایک شخص نے جلسے کے شرکاء پر فائرینگ کی جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی یا مارے گئے۔ اس واقعے کے بعد پاراچنار اور اس کے اطراف میں مؤمنین پر متعدد حملے کئے گئے۔[13] ان جھڑپوں میں تکفیری عناصر نے ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کے ذریعے شیعوں پر حملہ کیا اور اس علاقے کی طرف جانے والی واحد شاہراہ کو بند کیا۔ اس واقعے میں پاکستان تحریک طالبان نے براہ راست حصہ لیا اور شیعیان پاراچنار کو قتل کرنے کے علاوہ ان کے مساجد اور دیگر مقامات کو بھی نقصان پہنچایا۔[14]

اس قتل و غارت گری کے واقعات میں 31 جولائی تک 50 مؤمنین شہید اور 170 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات ختم ہونے کے باوجود راستے ابھی تک بند ہیں جس کی وجہ سے شیعوں کو طبی مراکز تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔[15]

رد عمل

شیعیان پاراچنار کی نسل کشی کے سلسلے میں اس پوری تاریخ میں سب سے اہم رد عمل ان واقعات کو پرنٹ اور سوشل میڈیا پر سنسر کرنے کا مسئلہ ہے۔[16]

سنہ 2007ء کے واقعے کا رد عمل

سنہ 2007ء کو شیعیان پاراچنار پر مسلط کی گئی جنگ اور کم و بیش سنہ 2008ء تک اس علاقے کے مکینوں کو محاصرے میں رکھنے کی وجہ سے یہاں کے باسیوں میں خوراک اور ادویات کی قلت کا سامنا ہوا جس کا بعض میڈیا نے نوٹس لیا۔ تاہم عالمی میڈیا کی طرف سے ان واقعات کا نوٹس نہ لئے جانے پر علاقے کے عوام کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران بعض لوگ پارا چنار کے مکینوں کو القاعدہ اور طالبان سمجھ کر ان کا محاصرہ اور ان کو قتل کرنے کو ان کی سزا قرار دیتے تھے۔[17]

حالیہ واقعے کا رد عمل

رواں سال جولائی میں ہونے والے واقعات کے خلاف پاکستان کے علماء اور بزرگوں نے اپنے بیان میں ان واقعات کو تکفیری عناصر کی طرف سے علاقے کے مؤمنین کو پریشرائز کرنے کا اقدام قرار دیتے ہوئے ان واقعات کی مزمت کی۔[18] اسی طرح پاکستان کی شیعہ تنظیموں نے تکفیری عناصر اور دہشت گرد گروہوں کے ملی بگھت سے زمین اور جائیدات کی تقسیم کے بہانے علاقے کے شیعوں کو ہدف قرار دینے کی سازش کے شواہد میڈیا پر نشر کی۔[19] کراچی، پیشاور، گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر میں شیعیان پاراچنار کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔[20] پاراچنار کے مکینوں کی طرف سے پاکستان آرمی کو اس علاقے کے مکینوں خاص کر شیعہ کمیونیٹی کو سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام یا اس سلسلے میں دانستہ غفلت برتنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کو اس نسل کشی کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔[21]

شہید قائد علامہ عارف الحسینی کے فرزند سید علی حسینی نے پاراچنار کی حالات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اسے نہایت خطرناک قرار دیا۔ انہوں نے شیعہ نسل کشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے راستوں کی بندش اور خوراک اور ادویات کی قلت پر شدید غم و خصے کا اظہار کیا۔ اسی طرح تحریک جعفریہ پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی نے پاراچنار میں فوری جنگ بندی اور ان واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ سنیٹر علامہ ناصر عباس جعفری نے پاراچنار میں سکیورٹی کے مسائل میں اضافے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان آرمی اور سکیورٹی اداروں کو بدامنی پھیلانے والے عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں نمٹنے کا مطالبہ کیا۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر محمد افضل حیدری نے حکومت پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاراچنار میں امن و امان کے قیام میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔[22] ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے صدر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے ان واقعات کی مزمت کی۔[23]

ایران وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اپنے ایک بیان میں تکفیری عناصر کی طرف سے پاراچنار کے شیعوں پر کئے جانے والے مسلحانہ حملے کی مزمت کی۔[24] اسی طرح عالمی اسلامی بیداری فورم،[25] اہل بیت عالمی اسمبلی[26] اور مشہور خطیب علامہ حسین انصاریان نے ان واقعات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان کی مزمت کی۔[27]

حوالہ جات

  1. «در پاراچنار چہ می‌گذرد؟/ روایتی از محاصرہ وقتل عام شیعیان پاکستان»، خبرگزاری مہر۔
  2. «کشتار شیعیان در پاراچنار؛ درخواست توقف خشونت از دولت پاکستان»، عصر ایران۔
  3. «در پاراچنار چہ می‌گذرد؟/ روایتی از محاصرہ وقتل عام شیعیان پاکستان»، خبرگزاری مہر۔
  4. «نگاہی بہ گذشتہ و حال شیعیان پاراچنار در گفت‌وگوی ابنا با کارشناس مسائل پاکستان»، خبرگزاری ابنا۔
  5. «در پاراچنار چہ می‌گذرد؟/ روایتی از محاصرہ وقتل عام شیعیان پاکستان»، خبرگزاری مہر۔
  6. تحریریہ، «مصائب شیعہ بودن (گذری بر پیشینہ و وضعیت کنونی شیعیان پاراچنار)»،‌ 1393ہجری شمسی، ص36۔
  7. «15 نفر از شيعيان "پاراچنار" پاكستان جان خود را از دست دادند»، خبرگزاری فارس۔
  8. «نگاہی بہ گذشتہ و حال شیعیان پاراچنار در گفت‌وگوی ابنا با کارشناس مسائل پاکستان»، خبرگزاری ابنا۔
  9. «شہادت یک جوان شیعہ در پاراچنار پاکستان»،‌ خبرگزاری ابنا۔
  10. «نگاہی بہ گذشتہ و حال شیعیان پاراچنار در گفت‌وگوی ابنا با کارشناس مسائل پاکستان»، خبرگزاری ابنا۔
  11. «شہادت یک جوان شیعہ در پاراچنار پاکستان»،‌ خبرگزاری ابنا۔
  12. «نگاہی بہ گذشتہ و حال شیعیان پاراچنار در گفت‌وگوی ابنا با کارشناس مسائل پاکستان»، خبرگزاری ابنا۔
  13. «کشتار شیعیان در پاراچنار؛ درخواست توقف خشونت از دولت پاکستان»، عصر ایران۔
  14. «در پاراچنار چہ می‌گذرد؟/ روایتی از محاصرہ وقتل عام شیعیان پاکستان»، خبرگزاری مہر۔
  15. «نسل‌کشی شیعیان پاراچنار؛ جنایت جدید گروہ‌ہای تکفیری در پاکستان»، خبرگزاری میزان۔
  16. تحریریہ، «مصائب شیعہ بودن (گذری بر پیشینہ و وضعیت کنونی شیعیان پاراچنار)»،‌ 1393ہجری شمسی، ص36۔
  17. «مرگ کودکان پاراچنار و سكوت مرگبار جہان»،‌ عصر ایران۔
  18. «کشتار شیعیان در پاراچنار؛ درخواست توقف خشونت از دولت پاکستان»، عصر ایران۔
  19. «در پاراچنار چہ می‌گذرد؟/ روایتی از محاصرہ وقتل عام شیعیان پاکستان»، خبرگزاری مہر۔
  20. «در پاراچنار چہ می‌گذرد؟/ روایتی از محاصرہ وقتل عام شیعیان پاکستان»، خبرگزاری مہر۔
  21. «نسل‌کشی شیعیان پاراچنار؛ جنایت جدید گروہ‌ہای تکفیری در پاکستان»، خبرگزاری میزان۔
  22. «در پاراچنار چہ می‌گذرد؟/ روایتی از محاصرہ وقتل عام شیعیان پاکستان»، خبرگزاری مہر۔
  23. «معترضان در پایتخت پاکستان در محکومیت کشتار شیعیان «پاراچِنار» تجمع کردند»، ایرنا۔
  24. «نسل‌کشی شیعیان پاراچنار؛ جنایت جدید گروہ‌ہای تکفیری در پاکستان»، خبرگزاری میزان۔
  25. «جنایت پاراچنار توطئہ‌ سازماندہی شدہ است»، خبرگزاری ایرنا۔
  26. «مجمع جہانی اہل‌بیت (ع) با صدور بیانیہ‌ای، کشتار شیعیان در پاراچنار پاکستان را بہ شدت محکوم کرد»،‌ خبرگزاری دانشجو۔
  27. «واکنش شیخ حسین انصاریان بہ کشتار شیعیان در پاراچنار»، خبرگزاری دفاع‌پرس۔

مآخذ