محمد بن عبد الوہاب

ویکی شیعہ سے
(محمد ولد عبد الوھاب سے رجوع مکرر)
محمد بن عبد الوہاب
ذاتی کوائف
مکمل ناممحمد بن عبد الوہاب بن سلیمان بن علی بن محمد بن احمد بن راشد التمیمی
لقبشیخ محمد؛ ابن عبد الوہاب
تاریخ پیدائش1115ھ
محل پیدائشعُیَینہ
محل زندگیسعودی عرب
تاریخ وفات1206ھ
مشہور رشتہ دارعبد اللہ (بیٹا)، شیخ سلیمان بن عبدالوہاب (بھائی)
علمی معلومات
اساتذہشیخ عبد الوہاب (باپ)، شیخ عبداللہ بن ابراہیم نجدی (مدینہ)، شیخ محمد مجموعی (بصرہ)
شاگردعبد العزیز بن سعود، سعود بن عبد العزیز بن محمد
مادر علمیعربستان، عراق، ایران اور سوریہ
اجازہ روایت ازعبد اللہ بن ابراہیم، محمد بن حیات السندی، داغستانی و احسایی
تألیفاتالتوحید، کشف الشبہات
سیاسی اور سماجی سرگرمیاں
شہرتتأسیس وہابی فرقہ


محمد بن عبد الوہاب (1115-1206ھ) وہابی فرقے کے بانی تھے، جنہوں نے بہت سے علماء اور دیگر اسلامی مکاتب فکر کے پیروکاروں، خاص طور پر شیعوں کی تکفیر کی۔ ان کا شمار حنبلی مذہب کے علماء میں ہوتا تھا، انہوں نے توحید، شفاعت، توسل، زیارت اور اجتہاد جیسے مختلف مذہبی موضوعات پر اپنا مخصوص نظریہ پیش کیا اور اس کے خیال کے مطابق دین میں اصلاحات، شرک اور بدعت کا مقابلہ کر کے اہل حدیث کو زندہ کیا اور عقل پسندی کی نفی کی۔

محمد بن عبد الوہاب ابن تیمیہ اور ابن قیم جوزی کے افکار سے متاثر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے پیروکاروں کو انتہا پسندی اور جنگ کی طرف دھکیلتا تھا۔ ابن عبد الوہاب اسلامی حکمران اگرچہ وہ طاقت کے بل بوتے پر بر سر اقتدار آئے ہوں انہیں وسیع اختیارات کا حامل سمجھتا تھا اور مسلمانوں پر ان کی مکمل پیروی کرنا لازم سمجھتا تھا۔

انہیں القاعدہ، داعش اور طالبان جیسے تکفیری گروہوں کے فکری رہنماؤں میں سے سمجھا جاتا ہے اور ان کے نظریات کو شیعہ اور سنیوں کے درمیان خلیج کو گہرا کرنے میں کارگر سمجھا جاتا ہے۔

ابن عبد الوہاب کے افکار کی رد میں شیعہ اور غیر شیعہ محققین نے بہت سی تصانیف لکھی ہیں۔ محمد بن عبد الوہاب کے ناقدین نے شیعوں کے بارے میں ان کے خیالات کو شیعوں کے خلاف غیر علمی اور برا پروپیگنڈہ اور بہتان قرار دیا ہے۔ نیز، ابن عبد الوہاب پر اجتہاد، توحید، عبادت اور مسلمان ہونے کے معیار کے بارے میں غلط فہمی کا الزام لگایا گیا ہے۔ کچھ ناقدین اسے برطانوی انٹیلیجنس ایجنسی کا ایجنٹ سمجھتے ہیں جو اسلامی معاشرے میں انتشار پھیلانے اور سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے پر مأمور تھا۔

سنی شیعہ تفرقہ اور تکفیری تحریکوں کی افزائش میں کردار

محمد بن عبدالوہاب کے آراء اور نظریات مسلمانوں میں وہابیت کے نام سے ایک نئے فرقے کے قیام کا باعث بنے۔ آل شیخ اور آل سعود کے اتحاد نے 20ویں صدی عیسوی میں وہابی سعودی حکومت کے قیام کی راہیں ہموار کیں۔[1] اہل سنت مفکر محمد الباہی کا خیال ہے کہ وہابیت نے شیعہ اور سنی کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔[2] محمد بن عبد الوہاب کے نظریات کو رد کرنے اور اس کا دفاع کرنے میں مسلمان دانشوروں کے درمیان علمی اور اختلافی طویل المدت مناظروں کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کے درمیان اختلافات بڑھ گئے بلکہ عالم اسلام کی مادی اور روحانی توانائیاں بھی خرچ ہوئیں۔[3]

محمد بن عبد الوہاب القاعدہ، طالبان، داعش اور دیگر اسلامی تکفیری گروہوں کے اہم ترین دانشوروں میں سے ایک ہے اور انتہا پسندی اور تشدد ان کی نمایاں خصوصیات میں سے ہیں۔[4] انتہا پسندی کے بارے میں تحقیق کرنے والے ڈیویڈ کومینز کے مطابق القاعدہ، طالبان نیز عراق میں صدام کے سقوط کے بعد دہشتگرد گروہوں کی تشکیل اور ان کی کاروائیوں میں سعودی عرب کے مفتی اعظم عبد العزیز بن باز (1993-1999ء)، عبد اللہ عَزام اور پھر اسامہ بن لادن جیسوں کی تشریح اور تفسیر کے سائے میں محمد بن عبدالوہاب کے نظریات کی تاثیر ناقابل انکار ہے۔[5] تکفیری گروہوں کے بارے میں ماہر تجزیہ نگار سید مصطفی ہاشمی کا خیال ہے تکفیریوں کا نقطہ نظر قتل اور تباہی ہے اور داعش کی بربریت ابتدائی وہابیت سے اپنائی گئی ہے۔[6]

اسلامی علوم کے محقق مائیکل ڈیلون کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے 1970 کے عشرے سے تیل کی آمدنی کے ذریعے اسلامی دنیا کے مدرسوں اور مساجد میں وہابیت کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے کی گئی وسیع سرمایہ کاری پر 11 ستمبر کے واقعے کے بعد امن کے حوالے سے وسیع تحقیقات ہوئیں؛ کیونکہ جن لوگوں پر 11 ستمبر کے حملوں میں حصہ لینے کا الزام تھا ان میں زیادہ تر لوگ وہابی طرز کی مذہبی تعلیم یافتہ تھے۔[7] ان میں سے کچھ مطالعات سے پتا چلا ہے کہ وہابی تعلیمی نظام دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کے تئیں عدم برداشت کی علامت ہے۔[8]

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: طالبان, داعش اور سپاہ صحابہ

حالاتِ زندگی

محمد بن عبدالوہاب سے منسوب تحریر

محمد بن عبد الوہاب جنہیں شیخ محمد بھی کہا جاتا ہے، حجاز کے علاقہ نجد میں عُیَینَہ شہر میں 1115ھ بمطابق سنہ 1703 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے حنبلی علوم اور فقہ کی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں اپنے والد سے سیکھی۔ اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے اس نے حرمین شریفین کا سفر کیا اور مدینہ منورہ میں قیام کے دوران ابن تیمیہ کے افکار و نظریات سے آشنائی ہوئی اور اسی دوران لوگوں کو پیغمبر اکرمؐ کے روضے کی زیارت سے منع کرتے تھے۔[9] یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے بصرہ، بغداد، کردستان، اصفہان، ہمدان، قم، دمشق، استانبول، مصر اور ہندوستان کا سفر کیا اور بغداد اور اصفہان میں کئی سال تک قیام کیا۔[10] کچھ ذرائع نے محدود سفر کا ذکر کیا ہے۔[11]

محمد بن عبد الوہاب نے سب سے زیادہ تعلیم حنبلی علماء سے حاصل کی۔[12] اگرچہ اس نے سنہ 1143 ہجری سے شرک اور بدعت سے لڑنے اور اس کے اپنے خیال کے مطابق اسلام کو زندہ کرنے کے لیے اپنی دعوت کا آغاز کیا؛ لیکن سنہ 1153 ہجری میں ان کے والد (شیخ عبد الوہاب)، جو ان کے عقائد کے خلاف اور ان کی راہ میں رکاوٹ تھے، کی وفات کے بعد انہوں نے اپنے عقائد اور نظریات کا وسیع پیمانے پر پرچار کیا[13] سنہ 1157ھ (1744ء) میں ابن عبد الوہاب نے دِرعیہ کے حاکم اور آل سعود کے جد اعلی محمد بن سعود کے ساتھ اتحاد کیا اور ایک دوسرے کی بیعت کی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس نے آل سعود کے ساتھ اتحاد کے دوران ان لوگوں کے خلاف 20 سالوں میں 300 سے زیادہ جنگیں لڑیں جنہیں وہ مشرک سمجھتا تھا۔[14]بالآخر محمد بن عبدالوہاب 1206ھ (1792ء) میں 91 سال کی عمر میں مر گیا۔[15]

شیعوں کے بارے میں ان کا نظریہ

محمد بن عبد الوہاب نے "الرد علی الرافضة" نامی ایک رسالے میں شیعوں کے عقائد و نظریات کو مختلف موضوعات میں بیان کیا ہے جیسے امام علیؑ کی جانشینی، ابوبکر کی خلافت پر اعتراض، صحابہ پر تنقید، تقیہ، عصمت، رجعت، اذان، متعہ، جمع صلاتین، وضو کا طریقہ، تین طلاقیں اور اس طرح کے مسائل میں شیعوں کے عقیدہ کو اللہ کی کتاب، متواتر احادیث اور سیرت رسول اللہؐ کے مخالف قرار دیتے ہوئے ان کی انہیں کافر قرار دیا۔[16] محمد بن عبد الوہاب کے مطابق شیعوں نے قرآن، متواترہ احادیث، صحابہ کا اجماع، امت کے اکثریت کی مخالفت، صحابہ کی طرف فسق اور ظلم کی نسبت دینے کی وجہ سے پیغمبر اکرمؐ کی توہین کا مرتکب ہوئے ہیں اور آنحضرتؐ کی تحقیر کفر ہے۔[17] محمد بن عبد الوہاب نے شیعوں کے بارے میں سخت تعبیریں استعمال کی ہیں اور ان کو یہود، نصاری اور مجوس سے تشبیہ دی ہے۔[18] اس کا خیال ہے کہ شیعہ جانوروں کی تصاویر بنانے میں یہودیوں کی طرح ہیں، کپڑے پہننے میں عیسائیوں کی طرح ہیں اور مجوسیوں کی طرح، وہ خالق کی کثرت پر یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ خدا کو خیر کا خالق اور شیطان کو برائی کا خالق مانتے ہیں۔[19]

دوسری طرف بعض شیعہ محققین کا خیال ہے کہ محمد بن عبد الوہاب نے جہالت اور دشمنی کی بنا پر شیعوں پر الزام تراشی کی ہے اور شیعوں کی ایک غیر حقیقی شکل پیش کی ہے۔[20] اسی وجہ سے محمد بن عبد الوہاب کی تحریریں قابل اعتماد علمی تحریروں سے زیادہ پروپیگنڈہ لگتی ہیں۔[21] کلمہ شہادتین پڑھنے والے اور مذہبی عبادات بجا لانے والے شیعوں کی تکفیر اہل سنت کے مبانی کے خلاف سمجھی جاتی ہے۔[22] اہل سنت اصولوں کے مطابق تکفیر شریعت کا معاملہ ہے جو اللہ اور رسولؐ کے اختیارات میں سے ایک ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی قطعی دلیل کے بغیر دوسرے مسلمان پر کفر کا الزام لگائے۔[23] نیز محمد بن عبد الوہاب کا یہ دعویٰ بھی شیعوں پر بلادلیل ایک الزام ہے[24] کہ شیعوں کا امام حسنؑ کی نسل کے ختم ہونے اور نرینہ اولاد نہ ہونے پر اجماع ہے تاکہ امامت کو امام حسینؑ کی اولاد کے ساتھ خاص کریں۔[25] کہا گیا ہے کہ شیعہ مصادر جن میں سے شیخ مفید کی کتاب الارشاد میں امام حسنؑ کی 15 اولاد ذکر ہوئی ہے۔[26]

آراء و عقاید

محمد بن عبد الوہاب نے مختلف شعبوں میں اسلامی علماء اور مذاہب کے خلاف رائے کا اظہار کیا ہے۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

شرک و توحید

محمد ابن عبد الوہاب نے ابن تیمیہ کی پیروی کرتے ہوئے توحید کو ربوبیت، الوہیت اور اسماء و صفات کی تین اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ اس نے عبادت کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے ہر قسم کی دعا اور درخواست کو بھی عبادت اور شرک سمجھا ہے۔[27] اسی لئے ابن عبد الوہاب اولیاء اللہ سے شفاعت کی درخواست، پیغمبر اکرمؐ سے استغاثہ اور شَدّ رِحال (زیارتی سفر) حرم نبوی اور ائمہ دینؑ کے مزارات کی زیارت کو بدعت، حرام اور شرک سمجھتے تھے۔[28] محمد بن عبد الوہاب کی طرف سے شیعوں کی تکفیر اور ان کے قتل کے جواز کے فتویٰ کی ایک دلیل شفاعت سمجھا جاتا ہے۔[29] محمد ابن عبد الوہاب کا عقیدہ تھا کہ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے کے مشرکین مشکل حالات میں غیرِ خدا کی طرف رجوع کرتے تھے، لیکن ہمارے زمانے کے مشرکین بشمول شیعیان، سختیوں اور آرامش دونوں میں، اور وہ بھی مردوں سے متوسل ہوتے ہیں، پس ہمارے زمانے کے مشرکین زمانہ جاہلیت کے مشرکوں سے بدتر ہیں۔[30]

محمد بن عبد الوہاب کے نظرئے کی رد میں کہا گیا ہے کہ اس نے لفظ "الہ" کی غلط تشریح و تفسیر کی ہے اور اسے صرف معبود ہی کے معنی میں لیا ہے، جبکہ قرآن کی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ "الہ" کے معنی صرف معبود نہیں بلکہ کبھی "خالق" کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی "رب" کے معنی میں، اور جاہلیت کے دور کے مشرکین نہ صرف عبادت میں مشرک تھے بلکہ مخلوق اور ربوبیت میں بھی شرک کے مرتکب تھے۔[31] جعفر سبحانی کے نزدیک توحید کے چھے مرتبے (ذاتی، صفاتی، افعالی، خالقی، عبادی اور ربوبی) ہیں۔ ان کے مطابق محمد بن عبد الوہاب کی طرف سے مسلمانوں کی تکفیر اور شرک کا وسیع معنی، توحید کے بارے میں ان کی ناقص فہم و ادراک کی وجہ سے ہے۔[32]دوسری طرف، یہ کہا جاتا ہے کہ جو مسلمان، خاص کر شیعہ شفاعت پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام اثر خدا کی طرف سے ہے اور کوئی بھی چیز مستقل طور پر تاثیر نہیں ڈال سکتی ہے۔[33] اولیاء الہی سے شفاعت طلب کرنا اللہ کی اجازت سے ہے اور توحید کے خلاف یا شرک نہیں ہے۔[34]

توسل اور زیارت

محمد بن عبد الوہاب شیعہ عقائد میں سے پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کی زیارت اور ان سے توسل کو شرک اور کفر کا باعث سمجھتے تھے اور اس طرح کے اعمال کے مرتکب ہونے والوں کی جان و مال کو حلال سمجھتے تھے۔ اس نے مزارات اور ضریح کو سب سے بڑے بت کے طور پر متعارف کرایا۔[35] مسلم سیاسی نظریات کے محقق جمشیدی راد کا خیال ہے کہ اسلامی فرقوں بالخصوص اسلامی تعلیمات کے احترام میں شیعہ طریقہ کار کے خلاف اموی افکار کو ابن تیمیہ نے ایک نظریہ بنا دیا اور وہابیت نے اسے عملی طور پر نافذ کیا۔[36]

جعفر سبحانی کہتے ہیں کہ محمد بن عبد الوہاب کی طرف سے قبروں کی زیارت کو کفر و شرک قرار دینا دین نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے اور کہتے ہیں، قبور کی زیارت رسول اللہؐ کی سیرت کا حصہ ہے اور سورہ توبہ کی آیت 48 میں جو منع آئی ہے وہ منافقوں کے قبروں سے مختص ہے۔[37] صحاح ستہ کی روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ اپنی والدہ گرامی کی قبر اور زیارت قبور بقیع کی زیارت کے لئے جاتے تھے اور ان کے لئے دعا کرتے تھے۔[38]

اجتہاد

محمد بن عبد الوہاب نے آزادانہ اجتہاد کرنے اور اہل سنت کے چاروں مذاہب کی تقلید نہ کرنے پر زور دیا ہے۔[39] اس بنا پر انہوں نے حنبلی مکتب کے علاوہ تمام سنی مکاتب فکر کی مخالفت کی ہے[40] اور صریح طور پر اعلان کیا کہ اگر اہل سنت کے ائمہ اربعہ کی بات قرآن اور سنت سے متصادم ہو تو اسے دیوار سے دے مارو۔[41]

ناقدین نے کہا ہے کہ اگرچہ اجتہاد اور اسلاف کے نظریات کی طرف لوٹ آنے کا دعویٰ تو کیا ہے؛ لیکن اس کا مطلب احمد ابن حنبل، ابن تیمیہ، ابن قیم اور خود محمد ابن عبد الوہاب کے آراء کی طرف لوٹنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔[42]

تکفیر

کہا گیا ہے کہ ابن عبد الوہاب نے ہر اس شخص کو کافر قرار دیا جو اس کے نظریات اور عقائد کے خلاف تھا۔ شیعوں کے علاوہ، اس نے اپنے زمانے کے بہت سے سنی علماء اور حنبلیوں کی بھی تکفیر کی۔[43] وہابیت کے پیروکار عصام العماد کے مطابق محمد بن عبد الوہاب نے تکفیر کو فروغ دیا اور معاصر شخصیات کی تکفیر سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔[44] اس مرحلے پر وہ چوتھی صدی سے لے کر اب تک کی اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار کے مسلمانوں کو کافر سمجھتے تھے۔ محمد بن عبد الوہاب کے مطابق صرف ان کے پیروکار ہی مسلمان ہیں۔ محمد بن عبد الوہاب کے بھائی شیخ سلیمان کے مطابق، ان کی پیروی کا مطلب اسلام میں چھٹا رکن ایجاد کرنا اور بدعت ہے۔[45] اس نے ہر اس شخص کو مرتد اور اس کے خلاف موت کا فتوا جاری کیا ہےجو اس سے الگ ہوا ہے اور اپنے کے پیروکاروں کو اس فتوے پر عملدر آمد کرنے کا حکم دیا ہے۔[46]

حدیث کی طرف رغبت

محمد بن عبد الوہاب نے ابن تیمیہ اور ابن قیم جوزی کے نظریات اور افکار سے الہام لیتے ہوئے اہل حدیث کے عقائد کی تجدیدِ بنا کی۔[47] حدیث کی طرف رغبت ایک طرح سے اسلام میں کلامی اور عقلی شعبے کے خلاف قیام تھا اور اسی سبب ان کے پیروکار شیعوں اور دین میں ہر قسم کے نئے نظرئے کی مخالفت کرتے ہیں۔[48] بعض محققین کے مطابق محمد بن عبدالوہاب کے فکری عمل کا بنیادی مقصد دینی متون سے تمسک کر کے اسلام کی اصالت اور حقیقت کو محفوظ کرنا ہے اور اس سلسلے میں وہ عقل کی حجیت کو انکار کر کے اس مقصد پہنچنے کا واحد ذریعہ دینی متون اور سلف صالح کی سیرت قرار دیتے ہیں۔[49]

آمریت اور تشدد

محمد بن عبد الوہاب کے مطابق، اسلامی حکمران، خواہ وہ طاقت کے بل بوتے پر اقتدار میں آیا ہو، اسے پورا اختیار حاصل ہے اور مسلمانوں پر اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔[50] نیز، اس کی رائے کے مطابق، اگر نرمی اور رواداری کام نہ آئے تو اسلحے کے زور اور مسلح جنگ کے ذریعے اسلام سے بدعتوں اور خرفات کو ختم کیا جائے۔[51]

محمد بن عبد الوہاب نے آل سعود کی پہلی حکومت کے بانی محمد بن سعود (وفات: 1765ھ) کے ساتھ اتحاد کے فوراً بعد 18ویں صدی عیسوی میں عُیَیْنہ علاقے کے امیر کے خلاف کفر، شرک اور قتل کا فتوا جاری کیا اور ابن سعود کو عُیَیْنہ پر حملہ کرنے کی ترغیب دی۔[52] بعض کا کہنا ہے کہ اس حملے میں بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے، ان کے گھروں کو لوٹ لیا گیا اور ان کی ناموس کی عصمت دری کی گئی۔[53] کہا گیا ہے کہ محمد بن عبد الوہاب نے عیینہ کے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد توحید کی دفاع کے بہانے دیگر اسلامی علاقوں پر بھی حملہ کیا جن میں نجد اور اس کے گردونواح، حجاز، یمن، شام اور عراق کے کچھ حصے شامل ہیں اور ہر وہ شہر جو اس کے عقائد کو قبول نہیں کرتا تھا، اسے لوٹ لیا گیا اور اس کے باسیوں کو قتل کر دیا گیا۔[54]

آثار

کتاب التوحید تألیف محمد بن عبدالوہاب

محمد بن عبد الوہاب کی تالیفات اکثر چھوٹی ہوتی ہیں اور عقائد، فقہ اور تاریخ و سیرت پر مشتمل ہوتی ہیں۔[55] اور علمی اعتبار سے ضعیف اور کمزور سمجھی جاتی ہیں۔[56] ان کی بعض اہم تالیفات درج ذیل ہیں:

  • کتاب التوحید؛ محمد بن عبد الوہاب کی ایک چھوٹی سی کتاب ہے جو سب سے اہم اور مشہور تصنیف ہے اور وہابیت کے بنیادی عقاید کو بیان کرتی ہے۔[57]
  • کشف الشبہات؛ اس کتاب میں اہل سنّت علما کی طرف سے محمد بن عبدالوہاب پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔
  • الاصول الثلاثة؛ اس رسالے میں تین اصول (رب، دین اور نبی کی شناخت) کو بیان کیا ہے۔
  • اصول الایمان
  • القواعدالاربع؛ محمد بن عبد الوہاب کی نظر میں شرک سے نجات کے بارے میں لکھی گئی ہے۔[58]

انگلستان سے تعلق کا گمان

مَلِک عبد العزیز یونیورسٹی ریاض کے سابق پروفیسر عبد اللہ محمد سندی کا خیال ہے کہ برطانوی ایجنٹوں نے محمد بن عبدالوہاب کو وہابی عقائد سے آراستہ کر کے انہیں اسلامی دنیا اور سلطنت عثمانیہ کو تباہ کرنے کے مقصد کے حصول کے لئے رہبر بنایا۔ سندی نے لکھا ہے کہ ابن عبد الوہاب کا پہلی بار برطانوی جاسوس مسٹر ہمفر سے اس وقت سامنا ہوا جب وہ نوجوان تھا اور بصرہ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور ہمفر نے اس کے ساتھ طویل مدتی دوستی قائم کی اور رقم اور تحائف سے اس کی مدد کی۔[59] مکہ کے شافعی مذہب کے مفتی سید احمد زینی دحلان نے محمد بن عبدالوہاب کی طرف سے وہابی فرقے کے قیام کو عالم اسلام میں فتنہ قرار دیا ہے۔[60]

انتقادی تألیفات

شیعہ اور غیر شیعہ علماء اور محققین کے ساتھ ساتھ غیر مسلم محققین کی طرف سے محمد بن عبد الوہاب کے نظریات اور افکار کے نقد میں کئی تنقیدی تصانیف کتابوں، مقالوں اور تحقیقی مقالوں کی شکل میں شائع کی گئی ہیں۔ بعض مآخذ میں اس حوالے سے لکھی جانے والی تین سو سے زائد کتابوں کا نام درج کیا گیا ہے۔ یہاں پر ان میں سے بعض کتابوں کا ذکر کرتے ہیں:

عبد الوہاب کے افکار اور نظریات کے خلاف بعض تنقیدی تالیفات
نام نوعیت زبان مصنف مصنف کا مذہب
منہج الرشاد لمن اراد السداد کتاب عربی جعفر کاشف الغطاء شیعہ
کشف الارتیاب فی اتباع محمد بن عبدالوہاب کتاب عربی سیدمحسن امین عاملی شیعہ
فصل الخطاب فی نقض مقالة ابن عبدالوہاب کتاب عربی محمد بن عبدالنّبی نیشابوری شیعہ
البناء علی قبور الانبیاء و الاولیاء کتاب عربی سید مرتضی عسکری شیعہ
شرک و بدعت کتاب فارسی مصطفی نورانی شیعہ
کشف النّقاب عن عقائد ابن عبدالوہاب کتاب عربی سید علینقی نقوی لکہنوی شیعہ
درس ہایی از شفاعت کتاب فارسی سید تقی طباطبایی قمی شیعہ
دلیل واقعی در جواب وہّابی کتاب فارسی سید حسین عرب باغی شیعہ
لمع الشہاب فی سیرة محمد بن عبدالوہاب کتاب عربی احمد مصطفی ابوحاکمة سنی
الردّ علی ابن عبدالوہاب کتاب عربی شیخ احمد مصری احسائی سنی
فصل الخطاب فی الرّد علی محمّد بن عبدالوہّاب کتاب عری شیخ سلیمان بن عبدالوہّاب سنی
فصل الخطاب فی ردّ ضلالات ابن عبدالوّہاب کتاب عربی احمد بن علی بصری قپانچی شافعی سنی
فتاوی العلماء فی تحریم تکفیر المسلمین کتاب عربی زین العابدین شابغدادی سنی
الردّ علی ابن عبدالوہاب کتاب عربی عبدالوہاب بن احمد برکات شافعی مکی سنی
بررسی دیدگاہ محمدبن عبدالوہاب دربارہ شرک و مشرک مقالہ فارسی حسین رجبی شیعہ
ردیہ فقہای تونس بر اندیشہ ہای محمد بن عبدالوہاب مقالہ فارسی محمدحسین رفیعی شیعہ[61]

حوالہ جات

  1. «نگاہی بہ زندگی محمد بن عبدالوہاب، بنیانگذار وہابیت»، وبگاہ دبیرخانہ کنگرہ جہانی مقابلہ با جریان ہای افراطی و تکفیری۔
  2. «شیعہ در نگاہ وہابیان»، پایگاہ اطلاع رسانی پگاہ حوزہ۔
  3. ملاحظہ کریں: «سیر مطالعاتی نقد وہابیت(مقدماتی)»، پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریان ہای تکفیری۔
  4. جمشیدی راد، «فرقہ وہابیت و اہداف سیاسی آن»، ص186۔
  5. Dillon, Wahhabism is it a factor in the spread of global terrorism?, P49-56۔
  6. ہاشمی، «الگوگیری داعش از وہابیت دورہ اول (بخش اول: عملکرد)»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریانہای تکفیری۔
  7. Dillon, Wahhabism is it a factor in the spread of global terrorism?, P56
  8. Dillon, Wahhabism is it a factor in the spread of global terrorism?, P57
  9. «نگاہی بہ زندگی محمد بن عبدالوہاب، بنیانگذار وہابیت»، وبگاہ دبیرخانہ کنگرہ جہانی مقابلہ با جریان ہای افراطی و تکفیری۔
  10. علی خانی، «اندیشہ سیاسی محمد بن عبدالوہاب (1)»، وبگاہ راسخون۔
  11. «نگاہی بہ زندگی محمد بن عبدالوہاب، بنیانگذار وہابیت»، وبگاہ دبیرخانہ کنگرہ جہانی مقابلہ با جریان ہای افراطی و تکفیری۔
  12. Dillon, Wahhabism is it a factor in the spread of global terrorism?, P13
  13. «نگاہی بہ زندگی محمد بن عبدالوہاب، بنیانگذار وہابیت»، وبگاہ دبیرخانہ کنگرہ جہانی مقابلہ با جریان ہای افراطی و تکفیری۔
  14. العماد، «نقد شیخ محمد عبد الوہاب از درون»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریان ہای تکفیری۔
  15. «نگاہی بہ زندگی محمد بن عبدالوہاب، بنیانگذار وہابیت»، وبگاہ دبیرخانہ کنگرہ جہانی مقابلہ با جریان ہای افراطی و تکفیری۔
  16. ملاحظہ کریں:ابن عبدالوہاب النجدی، الرسالة فی الرد علی الرافضة، 1427ق، ص42-117۔
  17. ملاحظہ کریں:ابن عبدالوہاب النجدی، الرسالة فی الرد علی الرافضة، 1427ق، ص42-117۔
  18. ملاحظہ کریں:ابن عبدالوہاب النجدی، الرسالة فی الرد علی الرافضة، 1427ق، ص105-110۔
  19. ملاحظہ کریں:ابن عبدالوہاب النجدی، الرسالة فی الرد علی الرافضة، 1427ق، ص105-110۔
  20. خورشیدی، «نقد برخی از افترائات محمد بن عبدالوہاب بہ شیعہ»، پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہی و جریان ہای تکفیری۔
  21. خورشیدی، «نقد برخی از افترائات محمد بن عبدالوہاب بہ شیعہ»، پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہی و جریان ہای تکفیری۔
  22. خورشیدی، «نقد برخی از افترائات محمد بن عبدالوہاب بہ شیعہ»، پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہی و جریان ہای تکفیری۔
  23. خورشیدی، «نقد برخی از افترائات محمد بن عبدالوہاب بہ شیعہ»، پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہی و جریان ہای تکفیری۔
  24. خورشیدی، «نقد برخی از افترائات محمد بن عبدالوہاب بہ شیعہ»، پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہی و جریان ہای تکفیری۔
  25. ابن عبدالوہاب النجدی، الرسالة فی الرد علی الرافضة، 1427ق، ص78
  26. خورشیدی، «نقد برخی از افترائات محمد بن عبدالوہاب بہ شیعہ»، پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہی و جریان ہای تکفیری۔
  27. ملاحظہ کریں:سبحانی تبریزی، درسنامہ نقد وہابیت، 1398شمسی، ص53-57۔
  28. مہاجر، «بہرہ برداری وہابیت از واژہ «سلف»»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریان ہای تکفیری. ہاشمی، «مفہوم «الہ» از منظر محمد بن عبدالوہاب»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریان ہای تکفیری۔
  29. عباسی، «وہابیت و تکفیر شیعہ»، وبگاہ پژوہہ۔
  30. «چہار قاعدہ کلی «وہابیت» برای رہایی از «شرک»»، وبگاہ آئین رحمت۔
  31. «وہابیون چہ برداشتی از کلمہ (الہ) دارند؟»، وبگاہ آئین رحمت
  32. ملاحظہ کریں:سبحانی تبریزی، درسنامہ نقد وہابیت، 1398شمسی، ص53-57۔
  33. «چہار قاعدہ کلی «وہابیت» برای رہایی از «شرک»»، وبگاہ آئین رحمت۔
  34. «چہار قاعدہ کلی «وہابیت» برای رہایی از «شرک»»، وبگاہ آئین رحمت۔
  35. علی پور، قیطاسی و دارابی، «تأثیر اندیشہ ہای ابن تیمیہ بر خطوط فکری و خط مشی گروہ ہای سلفی-تکفیری»، 1396شمسی، ص43۔
  36. جمشیدی راد، «فرقہ وہابیت و اہداف سیاسی آن»، ص182۔
  37. سبحانی تبریزی، درسنامہ نقد وہابیت، 1398شمسی، ص270۔
  38. سبحانی تبریزی، درسنامہ نقد وہابیت، 1398شمسی، ص270۔
  39. علی پور، قیطاسی و دارابی، «تأثیر اندیشہ ہای ابن تیمیہ بر خطوط فکری و خط مشی گروہ ہای سلفی-تکفیری»، ص43۔
  40. علی پور، قیطاسی و دارابی، «تأثیر اندیشہ ہای ابن تیمیہ بر خطوط فکری و خط مشی گروہ ہای سلفی-تکفیری»، ص43۔
  41. محیطی، فرمانیان، «بازخوانی نگاہ سلفیان بہ اجتہاد و تقلید»، ص463۔
  42. ملاحظہ کریں:محمدیان خراسانی، «اجتہاد از نگاہ وہابیون»، ص192۔
  43. العماد، «نقد شیخ محمد عبد الوہاب از درون»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریان ہای تکفیری
  44. العماد، «نقد شیخ محمد عبد الوہاب از درون»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریان ہای تکفیری
  45. العماد، «نقد شیخ محمد عبد الوہاب از درون»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریان ہای تکفیری۔
  46. العماد، «نقد شیخ محمد عبد الوہاب از درون»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریان ہای تکفیری۔
  47. علی پور، قیطاسی و دارابی، «تأثیر اندیشہ ہای ابن تیمیہ بر خطوط فکری و خط مشی گروہ ہای سلفی-تکفیری»، ص44۔
  48. جمشیدی راد، «فرقہ وہابیت و اہداف سیاسی آن»، ص182۔
  49. علی پور، قیطاسی و دارابی، «تأثیر اندیشہ ہای ابن تیمیہ بر خطوط فکری و خط مشی گروہ ہای سلفی-تکفیری»، ص44۔
  50. جمشیدی راد، «فرقہ وہابیت و اہداف سیاسی آن»، ص182
  51. رفیع، «تأثیر نفوذ وہابیت در پاکستان بر روابط این کشور با جمہوری اسلامی ایران»، ص212۔
  52. رضوانی، «محمد بن عبدالوہاب»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہی و جریان ہای تکفیری۔
  53. رضوانی، «محمد بن عبدالوہاب»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہی و جریان ہای تکفیری۔
  54. رضوانی، «محمد بن عبدالوہاب»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہی و جریان ہای تکفیری۔
  55. عظیمی، «آثار و کتب محمدبن عبدالوہاب»، وبگاہ پژوہہ،
  56. سعادتی، «تقابل توحید محمد بن عبدالوہاب با توحید قرآنی»، ص84۔
  57. سعادتی، «تقابل توحید محمد بن عبدالوہاب با توحید قرآنی»، ص84۔
  58. عظیمی، «آثار و کتب محمدبن عبدالوہاب»، وبگاہ پژوہہ. «محمد بن عبدالوہاب»، پایگاہ اطلاع رسانی آیت اللہ مکارم شیرازی۔
  59. Sindi, "Britain, the Rise of Wahhabism and the House of Saud", Kana's website۔
  60. ملاحظہ کریں:زینی دحلان، فتنہ وہابیت، مشعر، ص18-50۔
  61. «فہرست کتبی کہ در رد وہابیت نوشتہ شدہ» وبگاہ تی وی شیعہ؛ رفیعی، «ردیہ فقہای تونس بر اندیشہ ہای محمد بن عبدالوہاب»؛ رجبی، «بررسی دیدگاہ محمدبن عبدالوہاب دربارہ شرک و مشرک»۔

مآخذ

  • «شیعہ در نگاہ وہابیان»، 1386شمسی، حوزہ نیوز ایجنسی
  • «محمد بن عبدالوہاب»، آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ مکارم شیرازی، تاریخ اشاعت: 9 مہر 1402شمسی، تاریخ مشاہدہ: 9 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • «نگاہی بہ زندگی محمد بن عبدالوہاب، بنیانگذار وہابیت»، ویب سائٹ دبیر خانہ، تاریخ اشاعت: 28 خرداد1396شمسی، تاریخ مشاہدہ: 19 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • «فہرست کتبی کہ در رد وہابیت نوشتہ شدہ»، ویب سائٹ ٹی وی شیعہ، تاریخ اشاعت: 22دی 1393شمسی، تاریخ مشاہدہ: 24مہر 1402ہجری شمسی۔
  • «سیر مطالعاتی نقد وہابیت(مقدماتی)»، الواہابیت ویب سائٹ، تاریخ اشاعت: 17 شہریور 1394شمسی، تاریخ مشاہدہ: 24 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • آئین رحمت، «چہار قاعدہ کلی «وہابیت» برای رہایی از «شرک»»، آئین رحمت ویب سائٹ، تاریخ اشاعت: بی تا، تاریخ مشاہدہ: 19مہر 1402ہجری شمسی۔
  • ابن عبدالوہاب النجدی، محمد، الرسالة فی الرد علی الرافضة، تحقیق ابوبکر عبدالرزاق، صنعا، دارالاثار، 1427ھ۔
  • العماد، عصام، «نقد شیخ محمد عبد الوہاب از درون»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریان ہای تکفیری، تاریخ اشاعت: 27 شہریور 1392شمسی، 16 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • جمشیدی راد، جعفر، «فرقہ وہابیت و اہداف سیاسی آن»، مندرج در نشریہ مطالعات سیاسی، 1389شمسی،
  • خورشیدی، وحید، «نقد برخی از افترائات محمد بن عبدالوہاب بہ شیعہ»، پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہی و جریان ہای تکفیری، تاریخ اشاعت:20 اسفند1394شمسی، تاریخ مشاہدہ: 19مہر 1402ہجری شمسی۔
  • رجبی، حسین، «بررسی دیدگاہ محمدبن عبدالوہاب دربارہ شرک و مشرک»، مندرج در مجلہ سراج منیر، بہار 1391ہجری شمسی۔
  • رضوانی، علی اصغر، «محمد بن عبدالوہاب»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہی و جریان ہای تکفیری، تاریخ اشاعت:18 مہر 1392شمسی، تاریخ مشاہدہ: 15 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • رفیع، حسین، «تأثیر نفوذ وہابیت در پاکستان بر روابط این کشور با جمہوری اسلامی ایران»، مندرج در فصلنامہ مطالعات روابط بین الملل، شمارہ 32، 1394ہجری شمسی۔
  • رفیعی، محمدحسین، «ردیہ فقہای تونس بر اندیشہ ہای محمد بن عبدالوہاب»، مندرج در فصلنامہ پیام بہارستان، بہار 1390ہجری شمسی۔
  • زینی دحلان، سید احمد، فتنہ وہابیت، ترجمہ ہمایون ہمتی، بی جا، مشعر، بی تا.
  • سبحانی تبریزی، جعفر، درسنامہ نقد وہابیت، تحقیق و اضافات مرتضی محیطی، قم، مرکز مدیریت حوزہ ہای علمیہ، 1398ہجری شمسی۔
  • سعادتی، باقر، «تقابل توحید محمد بن عبدالوہاب با توحید قرآنی»، مندرج در فصلنامہ تحقیقات کلامی زمستان 1396ہجری شمسی۔
  • عباسی، حبیب و تکفیر شیعہ»، پژوہہ ویب سائٹ، تاریخ اشاعت: 24 آبان 1393شمسی، 18 مہر1402ہجری شمسی۔
  • عظیمی، مہری، «آثار و کتب محمدبن عبدالوہاب»، پژوہہ ویب سائٹ، تاریخ اشاعت: 24 آبان 1393شمسی، تاریخ مشاہدہ: 11 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • علی پور، جواد، قیطاسی، سجاد و دارابی، مہدی، «تأثیر اندیشہ ہای ابن تیمیہ بر خطوط فکری و خط مشی گروہ ہای سلفی-تکفیری»، مندرج در فصلنامہ اندیشہ سیاسی در اسلام، تابستان 1396ہجری شمسی۔
  • علی خانی، علی اکبر، «اندیشہ سیاسی محمد بن عبدالوہاب (1)»، وبگاہ راسخون، تاریخ اشاعت:30 خرداد 1396شمسی، تاریخ مشاہدہ: 10 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • محمدیان خراسانی، حامد، «اجتہاد از نگاہ وہابیون»، مندرج در سراج منیر، پژوہش نامہ تخصصی نقد وہابیت، دور اول شمارہ سوم، پاییز 1390ہجری شمسی۔
  • محیطی، مجتبی، فرمانیان، مہدی، «بازخوانی نگاہ سلفیان بہ اجتہاد و تقلید»، مندرج در فصلنامہ پژوہش ہای فقہی، تابستان 1400ہجری شمسی۔
  • مہاجر، «بہرہ برداری وہابیت از واژہ «سلف»»،مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریان ہای تکفیری، تاریخ اشاعت: 18 بہمن 1401شمسی، تاریخ مشاہدہ: 16 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • ہاشمی، «الگوگیری داعش از وہابیت دورہ اول (بخش اول: عملکرد)»، مندرج در پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریانہای تکفیری، تاریخ اشاعت:7 مرداد 1402شمسی، تاریخ مشاہدہ: 16 مہر 1402ہجری شمسی۔