جنت الفردوس
جنت الفردوس بہشت کا سب سے اعلی اور بہترین مقام ہے۔ بہشت کا یہ حصہ ایسے افراد کے ساتھ مختص ہے جنہوں نے ایمان اور عمل صالح میں ممتاز مقام حاصل کئے ہیں۔ احادیث کے مطابق اس بہشت کی روشنائی خود خدا کے نور سے ہے اور بہشت کے چاروں نہروں کا سرچشمہ بھی یہی بہشت ہے۔
تعریف
فردوس کا لفظ لغت میں باغ[1] اور بہشت[2] کے معنی میں آتا ہے۔ اصطلاح میں بہشت کے بہترین اور اعلی مقام کو فردوس کہا جاتا ہے[3] جو بہشت کے سب سے اوپر والے حصے میں واقع ہے جس کے اوپر عرش الہی واقع ہے۔[4]
یہ لفظ قرآن میں دو بار استعمال ہوا ہے۔[5] پیغمبر اسلامؐ نے سفارش کی ہے کہ جب بھی خدا سے کسی چیز کی درخواست کرو تو جنت الفردوس کی درخواست کرو۔[4]
خصوصیات
احادیث کے مطابق جنت الفردوس کی دیواریں نور سے بنی ہیں اور اس کے کمروں اور غرفوں کا نور خداوند عالم کے نور سے ہے۔[6] جنت الفردوس میں سفید اور زرد دو قصر ہیں جن میں سے ایک پیغمبر اسلامؐ اور آپ کی اہل بیت کا جبکہ دوسرا حضرت ابراہیم اور ان کی اہل بیت کا ہے۔[7]
پیغمبر اسلامؐ سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں جنت الفردوس کو بہشت کا بہترین مقام قرار دیا گیا ہے۔ بہشت کے چاروں نہروں کا سر چشمہ بھی اسی میں ہوگا۔[8] امام رضاؑ نے بھی اس بہشت میں موجود ایک قصر اور محل کی خبر دی ہے جو مختلف جواہرات سے مزین ہو گا، یہاں کی مٹی سے خوشبو آتی ہو گی اور مختلف اقسام کے درخت اور خوش آواز پرندے موجود ہونگے۔[9]
ساکنین
آیات اور روایات میں جنت الفردوس کے ساکنین کے مختلف مصادیق ذکر ہوئے ہیں۔ سورہ کہف میں جنت الفردوس کو ایمان لانے والے اور عمل صالح انجام دینے والوں کا مقام قرار دیا ہے۔[10] سورہ مؤمنون میں عہد پیمان پر ثابت قدم رہنے اور نمازوں کو وقت کی پابندی کے ساتھ ادا کرنے والے امانت داروں کو جنت الفردوس کا وارث قرار دیا گیا ہے۔[11] احادیث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں کو بھی جنت الفردوس میں جانے والوں میں شمار کیا گیا ہے۔[3]
پیغمبر اسلام سے منقول ایک حدیث میں آپؐ اور آپ کی اہل بیتؑ نیز حضرت ابراہیم اور ان کی اہل بیت کو جنت الفردوس میں جانے والوں کے عنوان سے نام لیا ہے۔[7] پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد حضرت فاطمہ(س) نے آپؐ کو جنت الفردوس کے مکینوں میں سے قرار دئے ہیں۔[12]
بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ عمومی طور پر ایمان اور عمل صالح میں اعلی مقام پر فائز ہونے کو جنت الفردوس میں داخل ہونے کا معیار قرار دیا جا سکتا ہے۔[13]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۶، ص۱۶۳۔
- ↑ دہخدا، لغتنامہ، واژہ فردوس۔
- ↑ 3.0 3.1 فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۲۱، ص۵۰۲۔
- ↑ 4.0 4.1 طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۶، ص۲۹۔
- ↑ سورہ مومنون، آیہ ۸-۱۱؛ سورہ کہف، آیہ۱۰۷۔
- ↑ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیۃ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۹۶۔
- ↑ 7.0 7.1 عریضی، مسائل علی بن جعفر و مستدرکاتہا، ۱۴۰۹ق، ص۳۴۵۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۷۶۹۔
- ↑ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۲۴۔
- ↑ سورہ کہف، آیہ۱۰۷۔
- ↑ سورہ مؤمنون، آیہ ۸-۱۱۔
- ↑ طبرسی، إعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۳۷۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۲، ص۵۶۹۔
مآخذ
- ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، محقق و مصحح: جمال الدین میردامادی، بیروت، دارالفکر، دارصادر، چاپ سوم، ۱۴۱۴ھ۔
- دہخدا، علیاکبر، لغتنامہ۔
- شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، محقق و مصحح، علیاکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
- شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، محقق، موسوی خرسان، حسن، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری بأعلام الہدی، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، چاپ سوم، ۱۳۹۰ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ، محمد جواد بلاغی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ھ۔
- طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
- عریضی، علی بن جعفر، مسائل علی بن جعفر و مستدرکاتہا، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔
- فخر رازی، ابوعبداللہ محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔