جنۃ الخلد

ویکی شیعہ سے

جَنَّۃَُ الخُلد یا بہشت جاویدان، ایک قرآنی تعبیر ہے جو سورہ فرقان میں آئی ہے۔[1] لغت میں "خُلْد" کے معنی کسی جگہ سے نکالے بغیر وہاں رہنے کے ہیں۔[2]

خدا نے سورہ فرقان کی آیت نمبر 15 اور 16 میں پرہیزگاروں اور اہل تقوا کے لئے بہشت جاویدان کا وعدہ دیا ہے جو ہمیشہ رہنے کے ساتھ ساتھ اس کے ساکنین بھی ہمیشہ کے لئے اس میں رہیں گے۔[3]

بعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ لفظ "جنت" کا لفظ "خلد" کی طرف اضافہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جنت ہمیشہ باقی رہے گی اور کسی وقت بھی ختم نہیں ہو گی۔[4]

احادیث میں بھی جنۃ الخلد کی تعبیر آئی ہے۔ پیغمبر اسلامؐ ان لوگوں کے لئے علیؑ اور اولاد علیؑ سے محبت کرنے کی سفارش کرتے ہیں جو آپ جیسی زندگی اور موت کے خوہاں ہیں اور ہمیشہ رہنے والی بہشت (جنۃ الخلد) کے طلب گار ہیں جسے خدا نے اپنے نبی کے لئے وعدہ دیا ہے۔[5] ایک اور حدیث میں شیخ صدوق نے پیغمبر اسلامؐ سے نقل کیا ہے کہ جو شخص ماہ رجب میں 18 دن روزہ رکھے، وہ جنۃ الخلد میں حضرت ابراہیم کے ساتھ ہوگا۔[6]

کتاب أمالی شیخ صدوق میں منقول ایک حدیث کے مطابق اس بہشت میں نور کے ایک لاکھ شہر موجود ہونگے۔[7]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. اسحاق‌نیا تربتی، «جنۃ الخلد»، ج۱۰، ص۶۴۔
  2. حسینی زبیدی، تاج العروس‏، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۴۳۷۔
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۵، ص۳۹۔
  4. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص۱۸۹۔
  5. ابن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۱۱۸۔
  6. شیخ صدوق، ثواب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۵۶۔
  7. شیخ صدوق، الأمالی، ۱۴۰۰ق، ص۵۲۔

مآخذ

  • ابن طاووس، علی بن موسی، الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف، محقق و مصحح: علی عاشور، قم، نشر خیام، چاپ اول، ۱۴۰۰ھ۔
  • اسحاق‌نیا تربتی، رضا، «جنۃ الخلد»، دایرہ المعارف قران کریم، قم، بوستان کتاب، ۱۳۹۱ش۔
  • حسینی زبیدی، محمد مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس‏، محقق و مصحح: على ہلالى، علی سيرى، بیروت، دارالفكر، ۱۴۱۴ھ۔
  • شیخ صدوق، الامالی، بیروت، اعلمی، چاپ پنجم، ۱۴۰۰ھ۔
  • شیخ صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، قم، دارالشریف الرضی للنشر، چاپ دوم، ۱۴۰۶ھ۔
  • طباطبائی، سید محمد حسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، چاپ پنجم‏، ۱۴۱۷ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔