کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ (کتاب)

ویکی شیعہ سے
کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ
مشخصات
مصنفعلی بن عیسی اربلی (692 ھ)
موضوعتاریخ
زبانعربی
تعداد جلد3
طباعت اور اشاعت
ناشردار الاضواء للطباعۃ والنشر والتوزيع - بيروت لبنان


کَشْفُ الغُمَّہ فی مَعْرِفَة الأئمّہ (ع) چہاردہ معصوم (ع) کے معجزات، فضائل اور حالات زندگی میں لکھی گئی کتاب ہے جسے شیعہ عالم دین بہاء الدین علی بن عیسی اربلی (متوفا 692 ھ) نے تالیف کیا۔ دشمنان اہل بیت کے سامنے اہل بیت کی حقانیت اور آئمہ کے متعلق غلو کرنے والوں کے مقابلے کی غرض سے لکھی گئی۔ اس کتاب میں اہل سنت اور شیعہ کے قدیمی مآخذ سے استفادہ کیا گیا ہے۔

مؤلف

ابو الحسن علی بن عیسی ہَکّاری (متوفا 692 ھ)، مشہور بنام بہاء الدین اِرْبِلی ساتویں صدی ہجری کے شیعہ محدّث اور مورّخ ہیں۔ بہاء الدین اِرْبِلی اِرْبِل نامی جگہ پیدا ہوئے اور وہیں پروان چڑھے۔[1] ان کے والد فخر الدین عیسی معروف بنام ابن جِجْنی اربل اور اس کے نواح کے حاکم تھے۔

موضوع و محتوا

یہ کتاب پیامبر(ص)، فاطمہ زہرا(س) اور ائمہ اثنی عشر (ع) کے حالات زندگی، مناقب اور معجزات کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ نیز حضرت خدیجہ(س) کی جانب بھی اشارہ موجود ہے۔

یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصے میں زندگانی پیامبر اسلام(ص) اور امام علی(ع) ہے اس کی تاریخ اختتام شعبان 678 ھ[2] ہے دوسرے حصے میں حضرت فاطمہ، حضرت خدیجہ اور ائمہ طاہرین کی زندگی مذکور ہے۔ اس کی تاریخ اختتام رمضان 687 ھ ذکر ہوئی ہے۔[3] انہوں نے کتاب کے مقدمے میں اپنے تشیع کی صراحت کی ہے[4] اور وہ اہل بیت علیہم السلام کو ثقلین میں سے ایک ثقل سمجھتے ہیں، ان سے دوستی اور دشمنی کو خدا سے دوستی اور دشمنی کا عنوان دیتے ہیں۔ انہوں نے اہل سنت سے چند مناظرے بھی کئے[5] اور اصحابنا الشیعہ[6] و انّا معاشر الشیعہ[7] کی تعبیریں بھی اسی کتاب کا حصہ ہیں۔ اربلی نے ہر باب کے اختتام پر اہل بیت علیہم السلام کی شان میں ایک قصیدہ بھی لکھا ہے۔ یہ کتاب وسائل الشیعہ اور بحار الانوار کے منابع سے بھی ہے۔[8]

تاریخ تالیف

اس کتاب کے دو جز ہیں۔ پہلے جزو کی تاریخ اختتام 678 ہجری اور دوسرا جزو 682 ہجری کو تمام ہوا[9] کشف الغمہ میں جن منابع سے استناد ہوا ہے ان میں سے بعض اس وقت دسترس میں نہیں ہیں۔

سبب تالیف

مؤلف کتاب کے مقدمے میں لکھتا ہے:

مدت سے اس کا ارادہ رکھتا تھا کہ اہل بیت(ع) کے اوصاف اور ان سے متعلق روایات کا ایک مجموعہ اکٹھا کروں ... جبکہ اہل سنت نے ائمہ کی تاریخ اور ان کے فضائل ذکر نہیں کئے ہیں یہانتک کہ سنی علما ان کے ناموں تک سے آشنا نہیں ہیں۔ لہذا میں ارادہ کیا ان شخصیات کی تاریخ ذکر کروں تا کہ ان کی حقانیت مبغضین اور دشمنان اہل بیت کیلئے واضح اور روشن ہو جائے نیز آئمہ کے متعلق غلو کرنے والے اس کام سے ہاتھ اٹھا لیں۔

مزید کتاب کی تالیف کے ہدف کے متعلق کہتا ہے:

بہت سے لوگ موسی بن جعفر (ع) کی قبر کی زیارت کا تمسخر اڑاتے ہیں جبکہ انہی میں سے کئی لوگ فقرا اور صوفیوں کی قبور کی زیارت کو جاتے ہیں۔[10]

روش

اربلی نے تدوین کتاب میں گذشتہ آثار و منابع سے استفادہ کیا اور عمده مطالب ان سے نقل کرتا ہے۔ وہ صرف بعض روایات کے ذیل میں توضیحات اور اپنے اعتراضات نقل کرتا ہے۔ ہر معصوم کے احوال کے آخر میں ایک قصیدہ ذکر کرتا ہے۔ اس کتاب کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ معصوم کے مناقب و فضائل کے بیان میں اہل سنت روایات کو شیعہ روایات کی نسبت مقدم رکھتا ہے۔ تا کہ مخالفین کیلئے انہیں قبول کرنا آسان ہو۔

مؤلف نے اپنی کلامی نظر سے استفادہ کیا اور تاریخ ائمہ شیعہ میں اثبات امامت کی ادلہ، معجزات اور کرامات کو ذکر کیا ہے۔[11]

مولف نے علمی اور تاریخی اخبار پر تکیہ کرتے ہوئے مخالفین کے عقائد کی بارے میں فیصلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

بعض مقامات پر مصنف نے شیعہ علما کے بر عکس اپنی رائے کا اظہار کیا ہے مثلا وہ امام رضا(ع) کی شہادت کو مأمون کے ہاتھوں نہیں سمجھتا ہے۔[12]

ترجمے و تعلیقے

کشف الغمّہ چند مرتبہ تلخیص اور ترجمہ ہو چکی ہے۔[13] اسی طرح اس کے بعض حصے جدا جدا صورت میں بھی چھپے ہیں مثلا زین العابدین، محمد الباقر اور حیاة الامام جعفرالصّادق کا زندگی نامہ۔[14] بعض تراجم :

  • محراب القلوب، مترجم علی بن فیض إربلی.
  • حسن بن حسین بیہقی کا ترجمہ.
  • بنام مناقب ، مترجم علی بن حسن زواره‌ای، دسویں صدی ہجری کا مفسر۔
  • ترجمہ از نعمت اللہ بن قریش رضوی مشہدی.
  • سِیرُ الائمہ یا اکسیر التواریخ، مترجم میرزا محمد بن محمد رفیع شیرازی ملک الکتاب.
  • ترجمہ از ملا عبد اللطیف آذربائجانی ملا باشی.[15]

اسی طرح کفعمی، صاحب مصباح کے اس پر تعلیقات موجود ہیں۔

طباعت

کشف الغمہ سنہ 1421 ھ میں انتشارات رضی قم نے شائع کی۔

حوالہ جات

  1. فرّوخ، تاریخ الادب العربی، ۱۹۸۹م، ج۳، ص۶۶۱.
  2. اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۷۰
  3. اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۳۴۳
  4. اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۳
  5. اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۸۵، ۳۴۰
  6. اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۸۶
  7. اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۵۲
  8. بہاء الدین اربلی، ترجمہ فارسی، ج۱، مقدمہ شعرانی، ص۱۶
  9. الذریعہ، ج۱۸، ص۴۷، ۴۸.
  10. اربلی، کشف الغمة، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۴، ۵.
  11. کشف الغمہ، رسول جعفریان. مجموعہ مقالات کنگره شیخ مفید.
  12. کتابخانہ دیجیتال نور.
  13. نک: افندی اصفہانی، ج۱، ص۱۷۷، ج۵، ص۳۴۳؛ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج۴، ص۱۳۹، ۴۲۵
  14. اربلی، رسالہ الطیف، ۱۹۶۸م، ص۲۲؛ قس زرکلی، ج۴، ص۳۱۹ کہ پہلے کو مستقل ایک کتاب سمجھتا ہے۔
  15. تہرانی، الذریعہ، ج۴، ص۱۳۰. ج۱۲، ص۲۷۶. ج۲۰، ص۱۴۷.

منابع

  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة، بیروت،‌ دار الاضواء، ۱۴۰۵ق.
  • اربلی، علی بن عیسی بہاء الدین، رسالہ الطیف، چاپ عبد الله جبوری، بغداد ۱۳۸۸/۱۹۶۸.
  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت،‌ دار الاضواء، ۱۴۰۳ق.
  • جعفریان، رسول، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمہ، مجموعہ مقالات کنگره شیخ مفید، شماره ۲۸.
  • کتاب شناخت سیره معصومان، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نور.
  • در شناخت امامت (معرفی کتاب «کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمہ)، خردنامہ ہمشہری خرداد ۱۳۸۷ شماره ۲۶.
  • فروخ، عمر، تاریخ الادب العربی، بیروت ۱۹۸۹.