آیت زکات

ویکی شیعہ سے
(آیت صدقات سے رجوع مکرر)
آیت زکات
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت زکات
سورہتوبہ
آیت نمبر60
پارہ10
شان نزولمنافقین اور اعرابی کے بارے میں
محل نزولمدینہ
موضوعفقہی
مرتبط موضوعاتمستحقین زکات
مربوط آیاتسورہ توبہ آیت 103


آیت زکات سورہ توبہ کی آیت نمبر 60 کو کہا جاتا ہے جس میں زکات کے مستحقین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو یہ ہیں: فقرا، مساکین، زکات جمع کرنے والا عملہ، مؤلفۃ القلوب، غلام، مقروض، فی سبیل للہ اور راستے میں تنگدست ہونے والے۔ فقہاء مذکورہ آیت سے استناد کرتے ہوئے زکات کے مستحقین کو درج بالا انہی امور میں منحصر قرار دیتے ہیں۔

یہ آیت لفظ صدقات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے آیت صدقہ کے نام سے بھی پہچانی جاتی ہے۔

آیت کا متن اور ترجمہ

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿۶۰﴾


صدقات (مالِ زکوٰۃ) تو اور کسی کے لئے نہیں صرف فقیروں کے لئے ہے مسکینوں کے لئے ہے اور ان کارکنوں کے لئے ہے جو اس کی وصولی کے لئے مقرر ہیں۔ اور ان کے لئے ہے جن کی (دلجوئی) مطلوب ہے۔ نیز (غلاموں اور کنیزوں کی) گردنیں (چھڑانے) کے لئے ہے اور مقروضوں (کا قرضہ ادا کرنے) کے لئے ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہے اور مسافروں (کی مدد) کے لئے ہے یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔۔



سورہ توبہ: آیت 60

وجہ تسمیہ

سورہ توبہ کی آیت نمبر 60 کو آیت زکات کہا جاتا ہے؛[1] کیونکہ اس آیت میں زکات کے مستحقین کا ذکر کیا گیا ہے۔[2] بعض خاص اموال کا حد نصاب تک پہچنے پر اس میں سے ایک معینہ مقدار مستحقین کو دینا زکات کہلاتا ہے۔[3]

مذکورہ آیت لفط "صدقات"[4] پر مشتمل ہونے کی وجہ سے آیت صدقات[5] یا آیت صدقہ[6] کے نام سے بھی پہچانی جاتی ہے۔ صدقہ اس مال کو کہا جاتا ہے جسے خدا کی خشنودی کی نیت سے کسی فقیر کو دیا جاتا ہے۔[7] راغب اصفہانی کے مطابق صدقہ مستحب امور میں جبکہ زکات واجب امور میں استعمال ہوتا ہے؛ لیکن واجب زکات کو چونکہ صاحب مال اپنی رغبت اور خوشی سے ادا کرتا ہے اس لئے اسے صدقہ بھی کہا جاتا ہے۔[8]

بعض مفسرین سورہ توبہ کی آیت نمبر 103 کو آیت زکات کا نام دیتے ہیں۔[9] چنانچہ اس بات کی طرف احادیث میں بھی اشارہ ہوا ہے۔[10] اس آیت میں زکات ادا کرنے کا حکم بیان ہوا ہے۔[11]

شأن نزول

آیت زکات ایک اعرابی کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں آیا اور زکات کی درخواست کی؛ پیغمبر اکرمؐ اس کی طرف توجہ دئے بغیر زکات کی تقسیم میں مشغول رہا۔ اس نے پیغمبر اکرمؐ کے زکات تقسیم کرنے کے طریقہ کار پر اعتراض کیا جس کے نتیجے میں مذکورہ آیت نازل ہوئی۔[12] اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے تقسیم زکات کے طریقہ کار پر منافقین کے اعتراضات اور ناراضگی پر یہ آیت نازل ہوئی تھی۔[13]

مضامین

آیت زکات میں مستحقّین زکات کو بیان کیا گیا ہے[14] جو درج ذیل ہیں:

  • فقرا: فقیر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے سالانہ اخراجات پورے نہ کر سکتا ہو۔[15]
  • مساکین: مسکین بھی فقیر کی مانند ہے لیکن اکثر مفسرین کے مطابق مسکین اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کی حالت فقیر سے بھی بدتر ہو۔[16] اس بنا پر ان دونوں کے فرق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فقیر تنگدست ہونے کے باوجود لوگوں سے مدد کی درخواست نہیں کرتا؛ لیکن مسکین تنگدستی کی شدت کی وجہ سے لوگوں سے مدد کی درخواست کرتا ہے۔[17] البتہ بعض مفسرین فقیر اور مسکین کو ایک ہی معنی میں لیتے ہیں۔[18] اسی طرح بعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر یہ دونوں لفظ ایک ساتھ ذکر ہوں تو ان دونوں کا معنی مختلف ہو گا لیکن اگر صرف ایک لفظ ذکر ہو تو دوسرا بھی اس میں شامل ہو گا۔[19]
  • الْعامِلِينَ عَلَيْہا: زکات جمع اور تقسیم کرنے والا عملہ۔[20]
  • مؤلفۃ القلوب: اس سے مراد وہ کفار ہیں جو مالی حمایت کی بنا پر مسلمانوں کے نزدیک ہوتے ہیں یا اسلام کی دفاع کرتے ہیں۔ شیخ طوسی اس سے پیغمبر اکرمؐ کے زمانے کے وہ اشراف مراد لیتے ہیں جن کو آنحضرتؐ اسلام کی طرف راغب ہونے اور جنگ میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کی بنا پر زکات دیا کرتے تھے۔[21] لیکن دوسرے علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ ان سے مراد ہر زمانے میں وہ لوگ ہیں جن کو زکات میں سے کچھ مال دینے کی صورت میں اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جنگوں میں مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں۔[22] بعض مفسرین ان کو صرف کفار میں منحصر کرتے ہیں جبکہ دوسرے اس میں بعض مسلمانوں کو بھی شامل کرتے ہیں۔[23] فاضل مقداد اسے صرف پیغمبر اکرمؐ کے زمانے تک محدود سمجھتے ہیں اور عصر غیبت میں شیعہ فقہاء کے فتوے کو اسی مورد کے ساتھ مخصوص قرار دیتے ہیں۔[24] جبکہ ان کے مقابلے میں علامہ طباطبائی اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ مورد بھی دوسرے موارد کی طرح کسی خاص زمانے سے مختص نہیں بلکہ ہر زمانے کو شامل کرتا ہے۔[25]

بعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ زکات کا عملہ اور مؤلفۃ قلوب کا حصہ ساقط ہوا ہے۔[26] شیخ طوسی اس کی علت امام معصومؑ کی عدم موجودگی بیان کرتے ہیں۔[27] لیکن آیت اللہ جوادی کے مطابق فقہائے امامیہ احادیث سے اسنتاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مؤلفۃ قلوب کے حصہ ہمیشہ کے لئے ہے۔[28]

  • فِي الرِّقابِ (غلاموں اور کنیزوں کی آزادی کے لئے): کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ غلام یا کنیز ہیں جنہوں نے اپنے مالکوں سے مال ادا کر کے اپنے آپ کو آزاد کرنے کا عہد و پیمان باندھے ہیں؛ البتہ اس میں وہ مؤمن غلام اور کنیز بھی شامل ہیں جو مشکلات میں گرفتار ہوں۔[29] بعض فقہاء کے مطابق چونکہ موجودہ دور میں غلام نہیں پائے جاتے اس بنا پر ان کا حصہ اس زمانے میں جنگی اسیروں کو آزاد کرنے میں صرف کیا جائے گا۔[30]
  • الْغارِمِينَ (مقروض): اس سے مراد وہ مقروض ہیں جو قرض لے کر گناہ میں صرف نہیں کرتے۔[31]
  • فِي سَبِيلِ اللَّہِ (خدا کی راہ میں): اگرچہ بعض فی سبیل اللہ کو صرف جہاد میں منحصر سمجھتے ہیں؛[32] لیکن اکثر علما اس میں وہ تمام فلاحی امور کو شامل کرتے ہیں جو عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود میں کام آتے ہیں جیسے مساجد، راستے اور پلوں کی تعمیر وغیرہ۔[33]
  • ابْنِ السَّبِيل (سفر میں تنگدست ہونے والے): اس سے مراد وہ مسافر ہیں جو سفر میں تنگدست ہو گئے ہوں اگرچہ اپنے وطن میں وہ امیر ہی کیوں نہ ہوں۔[34] آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق ابن سبیل سے مراد خدا کی راہ میں ہجریت کرنے والے مسافر ہیں جیسے حج، عمرہ، زیارت اور تعلیم کے لئے سفر کرنے والے؛ نہ ہر مسافر جو راستے میں تنگدست ہو گئے ہوں۔[35]

آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق اکثر فقہا پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کی سیرت سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ زکات کی تقسیم میں مساوات ضروری نہیں؛ بلکہ مستحقین زکات کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دیا جانا چاہئے۔[36]

فقہا زکات کے مستحقین کو بیان کرنے میں آیت زکات سے استناد کرتے ہیں اور اس بنا پر ان کو درج بالا آٹھ قسموں میں منحصر سمجھتے ہیں۔[37]

تفسیری نکات

مفسرین نے اس آیات میں صدقات کی تفسیر زکات سے کی ہیں؛[38] کیونکہ زکات کو صدقہ بھی کہا جاتا ہے۔[39] کہتے ہیں کہ صدقات سے مراد واجب صدقات جیسے زکات مال، زکات فطرہ، خراج اور کفارات ہیں۔[40]

عربی لغت میں لفظ "إِنَّمَا" انحصار پر دلالت کرتا ہے اس بنا پر زکات کے مستحقین مذکورہ آٹھ گروہ میں منحصر ہیں۔[41] بعض مفسرین کے مطابق "فَریضَۃً مِنَ اللَّہ‏[؟؟]" کی تعبیر زکات کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے[42] جبکہ بعض مفسرین کے مطابق اس تعبیر سے زکات کو مذکورہ مستحقین میں صرف کرنے کا وجوب سمجھ میں آتا ہے۔[43]

زکات کے مستحقین کے بیان میں مذکورہ آیت کا طریقہ کار مختلف ہے۔ پہلے چار موارد: لِلْفُقَراءِ وَ الْمَساكِينِ وَ الْعامِلِينَ عَلَيْہا وَ الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُم‏[؟؟] "لام" کے ساتھ جبکہ دوسرے چار موراد: وَ فِي الرِّقابِ وَ الْغارِمِينَ وَ فِي سَبِيلِ اللَّہِ وَ ابْنِ السَّبِيل‏[؟؟] "فی" کے ساتھ آیا ہے۔ اس اختلاف کی کئی وجوہات ذکر کی گئی ہیں۔[44] علامہ طباطبائی کے مطابق اس کی سب سے بہترین علت یہ ہے کہ پہلے چار موارد میں مستحقین، زکات کا مالک بنتے ہیں، اس بنا پر انہیں "لام" کے ساتھ لایا ہے جو کہ ملکیت پر دلالت کرتا ہے؛ جبکہ آخری چار موارد میں مستحقین، زکات کا مالک نہیں بنتے؛ بلکہ زکات ان موارد میں صرف کرنے کی اجازت دی گئی ہے، اس بنا پر ان کو "فی" کے ساتھ لایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر کسی غلام یا کنیز کو خرینے کے لئے جو زکات دی جاتی ہے وہ اس غلام یا کنیز کی ملیکت میں نہیں آتی۔[45] آیت اللہ مکارم شیرازی اس بات کے معتقد ہیں کہ صرف دو موارد غلام اور فی سبیل اللہ کے ساتھ آئے ہیں، زکات کا مالک نہیں بنتے۔[46]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں : طوسی، الخلاف،‌ ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۳۹۷؛ محقق حلی، المعتبر، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۵۷۷ و ۶۳۲؛ فخر رازی، تفسیر کبیر،‌ ۱۴۲۰ق، ج۲۰، ص۳۲۸۔
  2. سرمدی،‌ «آیہ زکات»، ص۱۰۱؛ معینی، «آیہ زکات»، ص۹۰۔
  3. نجفی،‌ جواہر الکلام، بیروت، ج۱۵، ص۲و۳۔
  4. سرمدی، «آیہ زکات»، ص۱۰۱۔
  5. قرطبی، الجامع،‌ ۱۳۶۴ش، ج۲، ص۲۴۱؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۳۵۶ و ج۴، ص۵۷۔
  6. ابن عربی، احکام القرآن، ۱۴۰۸ق، ج‏۱، ص۲۳۸۔
  7. راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ق، ص۴۸۰۔
  8. راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ق، ص۴۸۰۔
  9. ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۱۶۳، ج۶، ص۱۱،‌ج۹، ص۱۰۶؛ قرطبی، الجامع، ۱۳۶۴ش، ج۷،‌ ص۱۰۰؛
  10. کلینی،‌ الکافی، ‌۱۴۰۷، ج۳، ص۴۹۷؛ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق،‌ ج۲، ص۱۳۔
  11. طباطبایی، المیزان،‌۱۳۹۰ق، ج۹، ص۳۷۷؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۸، ص۱۱۷۔
  12. ابن ابی‌حاتم، تفسیر قرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۶، ص۱۸۱۷۔
  13. فاضل مقداد، کنزالعرفان، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۲۳۴۔
  14. طباطبایی، المیزان،‌۱۳۹۰ق، ج۹، ص۳۱۰ و ۳۱۳؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۸، ص۴۔
  15. طباطبایی، عروۃ الوثقی،‌ ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۹۹۔
  16. فاصل مقداد، کنز العرفان، ۱۳۷۳ش،‌ ج۱،‌ ص۲۳۵ و ۲۳۶؛ طباطبایی، المیزان،‌۱۳۹۰ق، ج۹، ص۳۱۰ و ۳۱۱؛ نجفی، جواہر الکلام،‌ بیروت، ج۱۵، ص۳۰۰۔
  17. طوسی، التبیان، دار احیاء‌التراث العربی، ج۵،‌ ص۲۴۳؛ طبری،‌ جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۰، ص۱۱۰؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۸، ص۶۔
  18. طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج۵، ص۲۴۳و۲۴۴؛ فاضل مقداد،‌ کنزالعرفان، ‌۱۳۷۳ش، ج۱،‌ ص۲۳۴۔
  19. طباطبایی، عروۃ الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۴،‌ ص۹۸؛ جوادی آملی، تسنیم، ۱۳۹۳ش، ج۳۴، ص۲۸۸ و ۲۸۹۔
  20. طباطبایی، المیزان،‌۱۳۹۰ق، ج۹، ص۳۱۱؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۸، ص۵۔
  21. طوسی، التبیان، دار احیاء‌ التراث العربی، ج۵،‌ ص ۲۴۴۔
  22. طباطبایی، المیزان،‌۱۳۹۰ق، ج۹، ص۳۱۱؛ جوادی آملی، تسنیم، ۱۳۹۳ش، ج۳۴، ص۲۸۴، ۲۹۴ و ۲۹۵۔
  23. ملاحظہ کریں:‌ فاصل مقداد، کنز العرفان، ۱۳۷۳ش،‌ ج۱،‌ ص۲۳۶؛ فخر رازی، تفسیر کبیر،‌ ۱۴۲۰ق، ج۱۶،‌ص۸۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۸، ص۹ و ۱۰۔
  24. فاصل مقداد، کنز العرفان، ۱۳۷۳ش،‌ ج۱،‌ ص۲۳۶۔
  25. طباطبایی، المیزان،‌۱۳۹۰ق، ج۹، ص۳۱۴۔
  26. طوسی، التبیان، دار احیاء‌التراث العربی، ج۵،‌ ص۲۴۵؛ طوسی، النہایہ،۱۴۰۴ق، ص۱۸۵؛ فخر رازی، تفسیر کبیر،‌ ۱۴۲۰ق، ج۱۶،‌ص۸۹۔
  27. طوسی، النہایہ،۱۴۰۴ق، ص۱۸۵۔
  28. جوادی آملی، تسنیم، ۱۳۹۳ش، ج۳۴، ص۳۱۹ و ۳۲۰۔
  29. فاصل مقداد، کنز العرفان، ۱۳۷۳ش،‌ ج۱،‌ ص۲۳۷؛ طباطبایی، المیزان،‌۱۳۹۰ق، ج۹، ص۳۱۱۔
  30. جوادی آملی، تسنیم، ۱۳۹۳ش، ج۳۴، ص۲۹۷؛ قرطبی، الجامع، ۱۳۶۴ش، ج۸، ص۱۸۳۔
  31. طوسی، التبیان، دار احیاء‌التراث العربی، ج۵،‌ ص۲۴۴؛ فاصل مقداد، کنز العرفان، ۱۳۷۳ش،‌ ج۱،‌ ص۲۳۷۔
  32. طوسی، النہایہ، ۱۴۰۴ق، ص۱۸۴؛ قرطبی، الجامع، ۱۳۶۴ش، ج۸، ص۱۸۵۔
  33. ملاحظہ کریں: فاصل مقداد، کنز العرفان، ۱۳۷۳ش،‌ ج۱،‌ ص۲۳۷؛ فخر رازی، تفسیر کبیر،‌ ۱۴۲۰ق، ج۱۶،‌ص۸۷؛ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۱۵، ص۳۶۸۔
  34. طوسی، التبیان، دار احیاء‌التراث العربی، ج۵،‌ ص۲۴۵؛ فاصل مقداد، کنز العرفان، ۱۳۷۳ش،‌ ج۱،‌ ص۲۳۷۔
  35. جوادی آملی، تسنیم، ۱۳۹۳ش، ج۳۴، ص۲۸۳، ۳۰۳ و ۳۰۴۔
  36. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۸، ص۸۔
  37. ملاحظہ کریں: طوسی، النہایہ،۱۴۰۴ق، ص۱۸۴ و ۱۸۵؛ محقق حلی، المعتبر، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۵۶۴-۵۷۸؛ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۱۵، ص۲۹۶-۳۷۲۔
  38. ملاحظہ کریں:‌ طوسی، التبیان، داراحیاء التراث العربی، ج۵، ص۲۴۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۰، ۳۱۰: طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۰، ص۱۰۹، ۱۱۵ و ۱۱۶۔
  39. فخر رازی، تفسیر کبیر،‌ ۱۴۲۰ق، ج۱۶،‌ص۸۷۔
  40. جوادی آملی، تسنیم، ۱۳۹۳ش، ج۳۴، ص۲۸۱ و ۲۸۷۔
  41. فخر رازی، تفسیر کبیر،‌ ۱۴۲۰ق، ج۱۶،‌ص۸۰؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۸، ص۴۔
  42. طباطبایی، المیزان،‌۱۳۹۰ق، ج۹، ص۳۱۳؛ قرطبی، الجامع، ۱۳۶۴ش، ج۸، ص۱۹۲۔
  43. ابن ابی‌حاتم، تفسر قرآن العظیم، ج۶، ص۱۸۲۶؛ فخر رازی، تفسر کبیر،‌ ج۱۶، ص۸۹؛ طباطبایی، المیزان،‌۱۳۹۰ق، ج۹، ص۳۱۳۔
  44. ملاحظہ کریں:‌ طباطبایی، المیزان،‌۱۳۹۰ق، ج۹، ص۳۱۲ و۳۱۳؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۸، ص۱۲ و ۱۳۔
  45. طباطبایی، المیزان،‌۱۳۹۰ق، ج۹، ص۳۱۳۔
  46. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۸، ص۱۳۔

مآخذ

  • ابن‏‌ عربی، محمد بن عبداللہ، احکام القرآن ، بیروت، دار الجیل، چاپ اول، ۱۴۰۸ھ۔
  • ابن‏‌ کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دار الكتب العلمیۃ، منشورات محمد علی بیضون، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
  • جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، تحقیق و تنظیم روح اللہ رزقی، قم، اسراء، چاپ اول، ۱۳۹۳ش۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن، بیروت، دار الشامیہ، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
  • سرمدی، محمود، «آیہ زکات»، در دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، انتشارات سلمان‌زادہ، چاپ دوم، ۱۳۹۷ش۔
  • صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، من لا يحضرہ الفقيہ، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ مؤسسہ اعلمی، چاپ دوم، ۱۳۹۰ھ۔
  • ‌ طباطبایی، سید محمد کاظم، عروۃ الوثقی(محشی)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران،‌ ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن‌(تفسیر طبری)،‌ بیروت، دارالمعرفۃ، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
  • طریحی، فخرالدين بن محمد، مجمع البحرین، تہران، مرتضوى، چاپ سوم، ۱۳۷۵ش۔
  • طوسی، محمد بن حسن،‌ التبان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار احیاء‌ التراث العربی، چاپ اول، بی‌تا۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، دفتر انتشارات اسلامی، وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم، چاپ اول، ۱۴۰۷ھ۔
  • طوسى، محمد بن حسن، النہايۃ في مجرد الفقہ و الفتاوى، بیروت،، دارالكتاب العربي، چاپ دوم، ۱۴۰۰ھ۔
  • عیاشى، محمد بن مسعود، التفسیر (تفسیر العیاشی)، تہران، مکتبۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۸۰ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، کنزالعرفان فی فقہ القرآن،‌ تصحیح محمدباقر شریف‌زادہ و محمدباقر بہبودی، تہران، انتشارات مرتضوی، چاپ اول، ۱۳۷۳ش۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبير (مفاتیح الغیب)، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ھ۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ اول، ۱۳۶۴ش۔
  • كلينی، محمد بن یعقوب، الكافی، تہران، دار الكتب الإسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • محقق حلّی، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، قم، مؤسسہ سید الشہداء(ع)، چاپ اول، ۱۴۰۷ھ۔
  • معینی،‌ محسن،‌ «آیہ زکات»، در دانشنامہ قرآن کریم، ج۱، تہران، دوستان، چاپ اول،‌۱۳۷۷ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، چاپ دہم، ۱۳۷۱ش۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام في شرح شرائع الاسلام، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، بی‌تا۔