کلام امامیہ

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


کلام امامیہ اسلام کے کلامی مذاہب میں سے ایک ہے، جس کا سب سے اہم امتیازی عنصر مسئلہ امامت کا عقیدہ ہے۔ کلام امامیہ اپنے طریقوں اور منابع میں قرآن، سنت رسول (ص) اور ائمہ معصومینؑ اور عقلی دلیل کا استعمال کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کلام امامیہ کا آغاز پیغمبر اکرم (ص) کے وصال کے فوراً بعد ہوا اور اسی دوران ہی علم کلام کے اہم ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ، امامت اور پیغمبرخدا(ص) کی خلافت کے بارے میں بحث ہوئی۔

بعض محققین کا عقیدہ ہے کہ امام علیؑ پہلے مسلمان شخصیت تھے جنہوں نے خدا کی ذات و صفات، حُدوث و قِدَم، بساطت وجود ذات الہی اور وحدت و کثرت جیسے مسائل پر بات کی۔ امام علیؑ کے بعد دیگر ائمہ معصومینؑ نے ان جیسے علمی مسائل پر بحثیں کیں اور دیگر مذاہب ادیان کے ماہرین الہیات اور علماء کے سوالات کے جوابات دیے، ان کے ساتھ علمی مںاظرے کیے اور مسائل پر بحث کی۔ نیز ہشام بن حکم اور مومن الطاق جیسے نامور متکلمین کی پرورش کی۔


امام مہدی کی غیبت کے بعد کلام امامیہ نے مختلف تاریخی ادوار گزارے۔ انہی ادوار میں متعدد مذہبی مکاتب وجود میں آنے کے ساتھ تین مختلف زاویہ نگاہ سے اپنی ترقی اور نشوونما کو جاری رکھا: نص پسندی، عقلیت پسندی(Rationalism) اور عقلیت پسندی و نقل کا ترکیب شدہ عنصر۔ کلام امامیہ تین عمومی اصول، توحید، نبوت اور قیامت میں دیگر اسلامی کلامی مکاتب کے ساتھ مشترک ہے۔ دو دیگر اصول یعنی امامت و عدل کلام امامیہ کی امتیازی خصوصیات میں سے ہیں۔

کلام امامیہ کی چند اہم ترین کتابیں درج ذیل ہیں: اوائل‌المقالات، تصحیح‌ الاعتقاد، تجرید‌الاعتقاد اور کشف‌ المراد۔ ان کتابوں کے مصنفین کا شمار مذہب امامیہ کے ممتاز متکلمین میں ہوتا ہے، جو کہ بالترتیب یہ ہیں: شیخ مفید (336یا338-413ھ)، شیخ طوسی (385-460ھ)، خواجہ نصیر الدین طوسی (597-672ھ) اور علامہ حلی (648-726ھ)۔

تعریف

کلام امامیہ ان اسلامی کلامی مذاہب میں سے ایک ہے جو اپنے عقائد اور انہیں اخذ کرنے کے طریقوں اور منابع کے سلسلے میں قرآن، سنت نبوی(ص) اور ائمہ معصومینؑ اور عقلی دلیل کا استعمال کرتا ہے۔ یہ کلامی مذہب دوسری ثقافتوں اور تہذیبوں کے ساتھ تعامل میں اور ان کے زیر اثر پروان چڑھا اور ترقی کرتا چلا آیا ہے۔[1] کہتے ہیں کہ تاریخی منابع اور حدیثی استنادات کے مطابق امامت کا مسئلہ دیگر اسلامی کلامی مذاہب کے درمیان کلام امامیہ کی بنیادی شناخت ہے۔[2] البتہ بعض علما کا کہنا ہے کہ چونکہ کلام امامیہ کی توحید قرآن، سنت نبوی اور شیعہ ائمہؑ سے ماخوذ ہے اس لیے یہ چیز کلام امامیہ کی شناخت کی بنیاد قرار پاتی ہے۔[3]

آغاز

کہا جاتا ہے کہ کلام امامیہ کا نقطۂ آغاز رسول اللہ(ص) کی رحلت کے بعد ہے؛[4] کیونکہ سب سے پہلا کلامی نکتہ جو اس زمانے میں زیر بحث آیا، امامت و خلافت کا مسئلہ تھا اور مجموعی طور پر اس سلسلے میں دو نظریات سامنے آئے: پہلا نظریہ یہ کہ خلیفۂ رسول(ص) اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین ہوتا ہے اورپیغمبر(ص) کے ذریعے اس کا انتخاب ہوتا ہے؛ اور دوسرا نظریہ یہ کہ امامت و خلافت کو مسلمانوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔[5]

امام علیؑ اور مہاجرین و انصار پر مشتمل بزرگوں کی ایک جماعت اول الذکر نظریے کی حمایت کرتی تھی۔ انہوں نے اس سلسلے میں دو بنیادی دلائل سے استناد کیا ہے: پہلی دلیل وہ صریح نصوص ہیں جو پیغمبر خدا(ص) کی جانب سے بیان کیے گئے اور دوسری دلیل امام علیؑ کی افضلیت ہے۔[6] اس کے علاوہ، خدا کی صفات، قضا و قدر، جبر و تفویض اور توحید جیسے مسائل میں، جو کہ اسلامی دنیا کے قدیم ترین کلامی مسائل میں سے ہیں، شیعہ بھی پیش پیش رہے ہیں۔[7]

کہا جاتا ہے کہ امام علیؑ پہلی مسلمان شخصیت تھے جنہوں نے پہلی بار ذات و صفات خدا، حدوث و قِدَم، وجود خدا کی بساطت اور وحدت و کثرت جیسے مسائل کے بارے میں گہرے مطالب بیان کیے ہیں۔[8] مرتضی مطہری کے مطابق، نہج البلاغہ کے بنیادی حصوں میں سے ایک وہ کلامی مسائل ہیں جنہیں امام علیؑ نے بیان کیے ہیں، مجموعی طور پر نہج البلاغہ میں خطبات، خطوط اور کلمات قصار کی صورت میں کلامی مسائل تقریباً چالیس مرتبہ زیر بحث آئے ہیں۔[9] امام علیؑ کے بعد دیگر ائمہ معصومینؑ میں سے امام زین العابدینؑ، امام محمد باقرؑ، امام جعفر صادقؑ، امام رضاؑ، امام محمد تقیؑ اور امام علی نقیؑ نے کلامی مسائل پر بحث کی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے دفاع کے لیے اٹھائے گئے سوالات اور مسائل کے جوابات دیے، ان مسائل میں دیگر ادیان کے دانشوروں کے ساتھ مناظرے کیے اور بہت سے شاگردوں کی کلامی علوم کے سلسلے میں تربیت کی۔[10]

کلام امامیہ کے کلی اور عمومی اصول

کلام امامیہ میں تمام اسلامی کلامی مذاہب میں رائج عمومی اصول یعنی توحید، نبوت اور قیامت کے علاوہ[11] دو ایسے اصول بھی ہیں جن کے ذریعے کلام امامیہ دوسرے اسلامی کلامی مذاہب سے ممتاز[12] قرار پاتا ہے:

  • امامت:: متکلمین امامیہ اس بات پر متفق ہیں کہ امامت ایک ایسا مںصب اور مقام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کو عطا کیا ہے۔[13] شیعہ ماہرین الٰہیات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) کی وصال کے بعد امام علیؑ خدا کی طرف سے منصب امامت پر فائز ہوئے اور پیغمبرخدا(ص) کے بلا فصل جانشین بنے۔ ان کے بعد امام حسنؑ امامت کے منصب پر فائز ہوئے اور پھر امام حسینؑ اور ان کے بعد ان کی اولاد میں سے نوافراد، یعنی امام زین العابدینؑ، امام محمد باقرؑ، امام جعفر صادقؑ، امام موسی کاظمؑ، امام علی رضاؑ، امام محمد تقیؑ، امام علی نقیؑ، امام حسن عسکریؑ اور حضرت مہدی (عج) یکے بعد دیگرے امامت کا عہدہ سنبھالتے رہے۔[14]
  • عدل:: شیعہ بھی معتزلہ[15] کی مانند حُسن و قُبح عقلی کا عقیدہ رکھتے ہیں۔[16] حسن و قبح عقلی کا مطلب یہ ہے کہ عقل انسانی بذات خود اور خدا کے حکم کے بغیر افعال انسانی کے حُسن (نیک ہونے کا) اور قبح (ناپسند ہونے کا) کا حکم کرتی ہے[17] اور خدا بھی اس کے برخلاف نہیں کرتا ہے اور یہ اس لیے کہ خدا عادل ہے؛[18] یعنی وہ کچھ نہیں کرتا سوائے اس کے جو اچھا (نیک )ہے اورقبیح فعل اس سے سرزد نہیں ہوتا، وہ اپنے بندوں پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور اس کے گناہوں کے علاوہ کسی اور چیز کی سرزنش نہیں کرتا اور اس کے کیے کے علاوہ کسی دوسری چیز کی سزا نہیں دیتا۔[19] عدل کے مذکورہ معنی پر ایمان لایے جانے کی وجہ سے شیعہ اور معتزلہ کو عدلیہ کہتے ہیں۔[20] اس کے برخلاف اشاعرہ شرعی حسن و قبح کا عقیدہ رکھتے ہیں؛[21] یعنی وہ کہتے ہیں کہ اللہ جس چیز کا حکم دیتا ہے وہی نیک و اچھا ہے اور جس سے منع کرتا ہے وہی برا ہے، اس لیے جو کچھ خدا کرتا ہے اس میں حُسن پایا جاتا ہے۔[22]

کلام امامیہ کے تاریخی ادوار

محمد صفر جبریلی (علم کلام کے محقق اور استاد) نے اپنی "شیعہ کلام کے تاریخی ادوار" نامی کتاب میں کلام امامیہ کے دو پہلوؤں تاریخی ادوار کی ساخت اور اس کے نقطہ نظر کا تجزیہ و تحلیل کی ہے، جو درج ذیل ہے:[23]

ساخت

ساختی ارتقاء کے لحاظ سے کلام امامیہ نے کئی مراحل طے کیے ہیں:

  • تشکیل: کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کے وصال کے بعد کے ابتدائی ایام میں کلام امامیہ کی تشکیل کا آغاز ہوا جس میں کلام امامیہ غیر مدون شکل میں زیر بحث رہا۔[24]
  • توسیع: رسول اللہ (ص) کے وصال کے بعد سے دوسری صدی ہجری کے آغاز تک۔[25] اس دور میں کلام امامیہ کا آغاز امام علیؑ کے دور سے شروع ہوا اور پھر دوسرے ائمہ معصومینؑ نے اسے جاری رکھا یہاں تک کہ امام محمد باقرؑ اور امام جعفرصادقؑ کے دور میں اپنے عروج کو پہنچا۔[26] ہشام بن حکم، ہشام بن سالم، مومن الطاق اور حمران بن اعین ان افراد میں سے ہیں جن کو امام جعفرصادقؑ نے متکلم کے عنوان سے یاد کیا ہے۔[27]
  • موضوعاتی تالیف: دوسری اور تیسری صدی ہجری۔[28] اچوتھی صدی ہجری کے کتاب شناس بن ندیم کے مطابق، سب سے پہلے جس شخص نے کالم امامیہ کے سلسلے میں موضوعاتی کام کی تدوین کا آغاز کیا وہ علی بن اسماعیل میثمی (امام رضاؑ کے راوی) ہیں جنہوں نے سنہ 215 ھ میں وفات پائی۔[29] انہوں نے "کتاب الامامۃ" اور "کتاب الاستحقاق" کے عنوان سے دو کتابیں لکھیں۔[30] ان کے بعد کلامی موضوعات پر مقالے اور رسالہ جات لکھے گئے؛ خاص طور پر توحید اور عدل کے عنوان پر مختلف مقالے اور رسالہ جات منظر عام پر آئے۔[31]
  • وضاحت اور موضوعاتی ترتیب: تیسری اور چوتھی صدی ہجری۔[32] اس مرحلے پر، جو کہ امام مہدی کی غیبت کے دور کا آغاز ہے، متکلمین امامیہ نے معتزلہ اور اشاعرہ جیسے حریف مکاتب فکر کو مد نظر رکھ کر مکتب اہل بیتؑ پر مبنی کلامی مسائل کی وضاحت کی اور ان کو مخصوص موضوعات میں ترتیب دیا اور کلامی لحاظ سے جو اعتراضات دیے جاتے تھے ان کا جواب دیا گیا۔[33] اسی دور میں ابو سہل نوبختی نے امامت کے موضوع پر "التنبیہ" نامی کتاب تالیف کی۔[34] نیز ابن قبہ رازی نے "الانصاف" نامی کتاب لکھی،[35] اور شیخ صدوق نے اسماء و صفات الہی اور نفی تشبیہ کے موضوع پر التوحید تالیف کی،[36] اور غیبت کے موضوع پر کمال الدین و تمام النعمۃ[37] نامی کتاب تحریر کی۔
  • خاص ساختار کی ترتیب: 5ویں اور 6ویں صدی ہجری۔[38] اس دوران میں تین مشہور شیعہ متکلمین یعنی شیخ مفید، سیدِ مرتضی اور شیخ طوسی نے کلام امامیہ کو ایک خاص ساختار اور شکل دیا۔[39]
  • تبدیلی اور ارتقاء:: 7ویں اور 8ویں صدی ہجری۔[40] یہ مرحلہ "مکتب کلامی حلہ" کے ظہور کے ساتھ شروع ہوا، خاص طور پر سدید الدین حمصی کے قلمی آثار سے؛ اور خواجہ نصیر الدین طوسی کے زمانے میں اپنے عروج پر پہنچا۔ [41]خواجہ نصیر نے ایک نئے اور جدید طریقہ نیز فلسفیانہ اصولوں کے تحت کلام امامیہ میں تبدیلی کی نئی روح پھونک ڈالی۔[42] انہوں نے کتاب تجرید الاعتقاد تحریر میں لاکر کلامی مسائل کو ایک نیا رخ دیا اور اپنے بعد کے متکلمین کو متاثر کیا۔[43]
  • تفصیل و تلخیص کا مرحلہ: 9 ویں صدی ہجری سے 14 ویں صدی ہجری تک۔[44] اس دور میں زیادہ تر کلامی آثار ماضی کے کاموں کی تفصیل یا خلاصہ بندی ہے، خاص طور پر تجرید الاعتقاد نامی کتاب کی خلاصہ بندی کا کام اس دور میں انجام پایا۔[45] اس دور کا ایک اہم کلامی کام شوارق الالہام جیسی کتاب کی تالیف عمل میں آئی جو کہ کتاب تجرید الاعتقاد کی تفصیلی شرح ہے۔[46]
  • اصلاح اور تحرک کا مرحلہ: 14ویں صدی ہجری کے دوسرے نصف سے۔[47] اس دور کا آغاز سید جمال الدین اسد آبادی کے ساتھ علم کلام میں نئے مسائل کے وارد ہونے کے ساتھ ہوا اور محمد جواد بلاغی، سید ہبۃ الدین شہرشتانی، سید محمد حسین طباطبائی اور مرتضی مطہری جیسے علمائے کلام کی علمی تحقیق کے ساتھ اب بھی جاری ہے۔[48]

نقطہ نگاہ

کلام امامیہ کے چند اہم نقطہ نگاہ درج ذیل ہیں:

  • نص‌ پسندی: یہ کلام امامیہ میں ایک ایسا نقطہ نظر ہے جس کی بنیاد پر صرف نقلی ذرائع اور استدلال مجاز ہے۔ نص پسندی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دینی تعلیمات کی معرفت و شناخت، احادیث کی تحلیل و تاویل میں عقل کو استقلال حاصل نہیں ہوگا۔[49] نص پسندی کو ائمہ معصومینؑ کے دور میں، خاص طور پر امام علی رضاؑ کے دور میں موجود حدیث گرایی کا تسلسل سمجھا گیا ہے۔[50] یہ نقطہ نظر عصر غیبت میں شیخ صدوق اور محمد بن حسن صفار قمی جیسے ماہرین الہیات کے دور میں "مکتب کلامی قم" میں تبدیل ہوگیا۔[51]
  • عقلیت پسندی تأویلی:اس نقطہ نظر میں دینی تعلیمات کی شناخت، انہیں ثابت کرنے اور جانچنے کے لیے عقل کو ایک منبع و ماخذ سمجھا جاتا ہے، اور جہاں ایک قطعی عقلی دلیل کا کسی نقلی دلیل سے ٹکراؤ کی صورت میں عقلی دلیل کو ترجیح دے کر نقلی دلیل کی تاویل کیا جاتی ہے۔[52] بعض محققین نے یونانی فلسفہ اور معتزلی فلسفہ سے واقفیت کی وجہ سے نوبختی خاندان کو کلام امامیہ میں عقلیت پسندی کے بانی کے طور پر متعارف کرایا ہے۔[53] یہ نقطہ نظر مکتب کلامی بغداد تھا جو شیخ مفید، سید مرتضیٰ اور شیخ طوسی جیسے ماہرین الہیات کے قلمی آثار کے ساتھ اپنے عروج پر پہنچا۔[54] اس کے بعد سلسلہ مکتب کلامی حلہ میں بھی جاری رہا۔[55]
  • فلسفیانہ عقلیت پسندی: اس نقطہ نظر میں متکلم فلسفیانہ طریقہ استعمال کرتے ہوئے دینی تعلیمات کی وضاحت، انہیں استحکام بخشتے ہوئے ان کا دفاع کرتا ہے۔[56]

مرتضی مطہری کے مطابق، فلسفیانہ عقلیت پسندی کا ظہور خواجہ نصیر الدین طوسی کے ذریعے کلام امامیہ میں کتاب تجرید الاعتقاد کی تصنیف کے ساتھ ہوا[57] اور اس کے بعد بعض دیگر شیعہ متکلمین جیسے محقق لاہیجی کے ذریعے بھی جاری رہا۔[58]

کلام امامیہ اور دیگر کلامی مکاتب کے مابین فرق اور مشترکات

کلام امامیہ کے بعض کلامی مسائل اور ان مسائل پر بحث کے طریقے کے لحاظ سے کلام امامیہ اور دیگر کلامی مذاہب؛ خاص طور پر اشاعرہ اور معتزلہ کے مابین اختلاف پائے جانے کے ساتھ ساتھ ان میں کچھ مشترکات بھی پائے جاتے ہیں:[59]

عقیدتی مسائل

کلام امامیہ اور دیگر کلامی مذاہب کے مابین بعض اختلافی کلامی مسائل حسب ذیل ہیں:

  • اللہ کی ذات و صفات کی عینیت: علمائے امامیہ اور بعض معتزلہ علما کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی صفات اس کے علم و قدرت والی صفت کی طرح عین ذات خداوند ہیں؛[60] لیکن اشاعرہ کا عقیدہ ہے کہ صفات الہی قدیم اور زائد (وعارض) بر ذات ہیں۔[61]
  • حُسن و قُبح عقلی: امامیہ اور معتزلہ حسن و قبح عقلی کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ اور بعض اخباری شیعہ اس کے منکرہیں۔[62]
  • جبر و اختیار: معتزلہ نظریہ تفویض پر یقین رکھتا ہے۔ یعنی ان کا ماننا ہے کہ انسان اپنے اعمال کو انجام دینے میں مجبور نہیں ہے اور انہیں اپنی طاقت اور اختیار کے ساتھ مکمل آزادانہ طور پر انجام دیتا ہے۔[63] دوسری طرف اشاعرہ نظریہ کسب کے قائل ہیں۔[64] نظریہ کسب کے مطابق، خدا ہر چیز کا خالق ہے، حتیٰ کہ انسانی اعمال کا بھی؛ انسان محض اپنے اعمال کو خدا سے کسب کرتا ہے؛ بعبارت دیگرجس وقت انسان سے کوئی فعل صادر ہوتا ہے تواللہ تعالیٰ اس میں طاقت پیدا کرتا ہے۔[65] ان دونوں (تفویض و کسب) نقطۂ نظر کے بر خلاف، شیعہ ان کے مابین درمیانی نظریہ (الامر بین الامرین) پر یقین رکھتے ہیں، جو کلام امامیہ کی خصوصیات میں سے ہے۔[66] اس نظریہ کے مطابق انسان اپنے اختیار سے اعمال انجام دیتا ہے اور ان میں اس کا اپنا ارادہ بھی ہے اور اللہ کا ارادہ بھی اس پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن یہ دونوں ارادے ایک دوسرے کے طول میں ہیں، عرض میں نہیں۔[67]
  • اِحباط عمل: امامیہ اور اشاعرہ عدمِ احباط کے قائل ہیں یعنی انسان کا گناہ اس کے نیک اعمال اور عبادات کو ضائع نہیں کرتا، صرف بعض مخصوص گناہ ایسے ہیں سابقہ اعمال حطب ہوجاتے ہیں جیسے شرک و کفر۔ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ گناہ انسان کے نیک اعمال کو حبط کرتا ہے۔[68]
  • کبیرہ گناہ کے مرتکب حکم: امامیہ اور اشاعرہ کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب مومن ہے لیکن فاسق ہے۔ خوارج (اباضیہ فرقے کے علاوہ) ایسے شخص کو کافر سمجھتے ہیں۔ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ یہ شخص نہ مومن ہے اور نہ کافر۔ بلکہ یہ کفر اور ایمان کے ایک درمیانی درجے میں واقع ہے جسے "منزلۃ بین المنزلتین" کہتے ہیں۔[69]

روش اور طریقہ

دینی تعلیمات کے اخذ کے لحاظ سے روش اور طریقہ اخذ میں بھی کلام امامیہ اور دیگر کلامی مکاتب کے مابین کچھ فرق اور مشترکات پائے جاتے ہیں۔[70] مشہور ہے کہ معتزلہ نے عقلیت پسندی کے لحاظ سے افراطی راستہ اختیار کیا ہے اور عقلی دلیل اور نقلی دلیل کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں معتزلہ نقلی دلیل کے ظاہرکی تاویل کیا کرتے تھے۔ ہے۔ عقلی وجہ سے۔[71] دوسری طرف اہل حدیث ایک ایسا کلامی مکتب ہے جو اعتقادی مسائل میں تمام تر توجہ نصوص کی ظاہر پر مرکوز رکھتے ہیں اور عقیدتی معاملات میں کسی بھی تاویل اور عقلی تحلیل کے مخالف ہیں۔[72] اشاعرہ اور ماتریدیہ جیسے کلامی مکاتب ایک درمیانی طریقہ اختیار کرتے ہوئے عقلیت پسندی اور نقلی گرائی کے درمیانی راہ پر چلے ہیں۔[73]

مرتضی مطہری کے مطابق، کلام امامیہ کا طریقہ کار اہل حدیث کے طریقہ کار کی طرح نہیں ہے، اہل حدیث عقیدتی امور میں عقلی استدلال کے استعمال کا سرے سے انکار کرتے ہیں۔ کلام امامیہ اشعری فکر کی طرح بھی نہیں ہے جو عقل کو اپنی اصالت سے نکال کر اسے الفاظ کے ظہور کے تابع بنا دیتے ہیں۔ کلام امامیہ عقل کے اعتبار سے ایک خاص مقام رکھتا ہے؛ لیکن وہ معتزلیوں کی عقلیت پسندی کو بھی انتہا پسندانہ روش سمجھتے ہیں۔ معتزلی فکرعقلی تو ہے لیکن یہ جدل پر تکیہ کرتا ہے؛ جبکہ کلام امامیہ (خاص طور پر خواجہ نصیر الدین طوسی کے بعد) میں عقلی برہان کو رجحان پایا جاتا ہے۔[74] البتہ شیعوں کے ہاں اخباری جیسے گروہ بھی موجود ہیں جنہوں نے عقیدتی مسائل کو سمجھنے کے لیے صرف نصوص کے ظاہر پر انحصار کیا ہے۔[75]

کلامی برجستہ آثار اورعظیم ماہرین الہیات

مکتب امامیہ کی چند اہم ترین کلامی کتابیں یہ ہیں: اوائل‌ المقالات، تصحیح‌ الاعتقاد، تجرید‌ الاعتقاد اور کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد (کتاب).[76] ان کتابوں کے مصنفین بالترتیب یہ ہیں: شیخ مفید (336 یا 338-413ھ)، شیخ طوسی (385-460ھ)، خواجہ نصیر الدین طوسی (597-672ھ) اور علامہ حلی (648-726ھ)۔ ان کا شمار برجستہ ترین امامیہ متکلمین میں ہوتا ہے۔[77]

ذیل میں مذکورہ کتابوں میں سے بعض اور امامیہ کی دیگر کلامی کتب کے بارے میں کچھ وضاحتیں بیان کی جاتی ہیں:

  • کتابُ‌ التّوحید: اس کتاب میں توحید و شناخت ذات خدا، صفات، اسماء و افعال الہی اور دیگر کلامی مسائل کے بارے میں موجود روایات کا مجموعہ ہے جسے شیخ صدوق نے مرتب کیا ہے۔[78]
  • الاعتقادات: اس کتاب کو بھی شیخ صدوق نے لکھا ہے۔ اس میں 45 ابواب ہیں اور ہر باب کے شروع میں مصنف نے شیعوں کے اہم ترین کلامی مسائل کو "باب الاعتقاد فی..." کے عنوان سے بیان کیا ہے۔[79]

شیخ مفید کی تصنیف کردہ کتاب "تصحیح اعتقادات الامامیہ" ان شیعہ کلامی کتابوں میں سے ہے جو شیخ صدوق کی کتاب "اعتقادات" پر تنقیدی زاویہ نگاہ سے تحریر کی گئی ہے۔ں لکھی گئی ہے۔[80]

  • الاِحتجاج علیٰ اَہلِ اللِّجاج: یہ شیعہ روائی کتب میں سے ہے جسے چھٹی صدی ہجری کے متکلم اور فقیہ احمد ابن علی طبرسی نے لکھی ہے۔ اس کتاب میں ائمہ معصومینؑ کی وہ احادیث موجود ہیں جن میں مخالفین کے خلاف دلائل اور احتجاج پیش کیا گیا ہے۔[81]
  • تجرید الاعتقاد: خواجہ نصیرالدین طوسی کی اس کتاب کی چند خصوصیات یہ ہیں: کلامی مسائل کو برہانی روش کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، کلامی مسائل کے انتخاب اور انہیں ترتیب دینے میں ابتکار کو بروئے کار لایا گیا ہے نیز کلامی مسائل میں فلسفے کی چاشنی رکھی گئی ہے۔ ان خصوصیات نے اس کتاب کو اس سے پہلے کے دیگر کلامی آثار سے ممتاز کیا ہے اور اس کے بعد کے کلامی آثار کو متاثر کیا ہے۔[82] تجرید الاعتقاد پر بہت سی شرحیں بھی لکھی گئی ہیں[83] علامہ حلی کی لکھی ہوئی کتاب "کشف المراد" اس کتاب کی پہلی اور اہم ترین شروحات میں سے ایک ہے۔[84]
  • منشور عقاید امامیہ: یہ جعفر سبحانی کی فارسی میں لکھی گئی کتاب ہے جس میں شیعہ عقائد کو دس حصوں اور ایک سو پچاس عقیدتی اصول کی شکل میں اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔[85]

مکاتب و مناہج کلام امامیہ

کلام امامیہ میں مختلف طریقے اور مکاتب مناہج موجود ہیں،[86] جن میں سے بعض تاریخ کے لحاظ سے درج ذیل ہیں:

نمبر شمار نام مکتب تاریخ تأسیس

(صدی ہجری)

غالب نقطہ نظر برجستہ متکلمین کلامی آثار خصوصیات
1 مکتب کلامی قم تیسری اور چوتھی صدی ہجری نص‌ پسندی ابن‌ ولید قمی، محمد بن حسن صفار قمی، شیخ صدوق بصائرالدرجات، التوحید، الاعتقادات آثار حدیثی کلامی کی تدوین، نظریہ تفویض و غلو کے ساتھ مقابلہ، حجیت خبر واحد پر یقین اور عقیدتی مسائل میں ان سے استناد کرنا[87]
2 مکتب کلامی بغداد چوتھی صدی ہجری عقلیت پسندی شیخ مفید، سید مرتضی، محمد بن علی کراجکی اوائل‌المقالات، الشّافی، تنزیہ‌ الانبیاء، کنزالفوائد دیگر مذاہب و ادیان کے علما کے ساتھ بحث و تمحیص، کلام امامیہ میں عقلیت پسندی کی ترقی، عقیدتی مسائل میں خبر واحد کی حجیت کا قائل نہ ہونا[88]
3 مکتب کلامی نجف پانچویں صدی ہجری نص پسندی اور عقلیت پسندی کی ترکیب شیخ طوسی، ابو علی طوسی، فضل بن حسن طبرسی الاقتصاد الہادی الی طریق الرشاد، کتاب‌الغیبۃ، اعلام الوری باعلام الہدی اجتہاد کی بنیاد پر مذہب امامیہ کو استحکام بخشنا، عقیدتی مسائل میں حجیت خبر واحد کا قائل نہ ہونا[89]
4 مکتب کلامی رے چھٹی صدی ہجری عقلیت پسندی سدید الدین حِمَّصی رازی، جعفر بن محمد دوریستی، عبدالجلیل قزوینی المُنقَذ مِنَ التَّقلید، نقض اعتدالی راستہ اپنانا، مختلف کلامی مکاتب کے ساتھ مناظرہ[90]
5 مکتب کلامی حلہ ساتویں صدی ہجری فلسفیانہ عقلیت پسندی اور نص پسندی خواجہ نصیرالدین طوسی، علامہ حلی، ابن‌میثم بَحرانی، سید بن طاووس، فاضل مقداد تجریدالاعتقاد، نہج الحق و کشف الصدق، قواعدالمرام، اللَّوامع الالہیۃ فلسفیانہ کلام کو رائج کرنا، اعتدال و میانہ‌ روی، آزاد اندیشی، کلام مقارن کا عام کرنا[91]
6 مکتب کلامی شیراز دسویں صدی ہجری فلسفیانہ عقلیت پسندی جلال‌ الدین دوانی، میرسید شریف جرجانی حاشیۃ التجرید، نور الہدایۃ فی اثبات الامامۃ آزادانہ فکر کا رواج، فلسفیانہ کلام کی مباحث کی طرف رجحان[92]
7 مکتب کلامی اصفہان گیارہویں صدی ہجری عقلیت پسندی اور نص پسندی دونوں کا امتزاج ملا محسن فیض کاشانی، محقق لاہیجی، علامہ مجلسی حیاۃالقلوب، علم الیقین فی اصولِ الدین، شوارق‌الاِلہام روائی متون کی تشریح، تصوف کا مقابلہ، شیعہ معارف کی تبلیغ و ترویج، دینی کتب کی فارسی زبان میں تدوین اور ترجمہ[93]
8 مکتب تفکیک چودہویں صدی ہجری نص پسندی اور عقلیت پسندی کا امتزاج میرزامہدی اصفہانی، میرزاجواد تہرانی، محمد رضا حکیمی، محمد باقر ملکی میانجی ابواب الہدی (کتاب)، بیان الفرقان (کتاب)، توحیدالامامیۃ دینی علوم کو فلسفیانہ اور صوفیانہ افکار سے الگ کرنے پر زور دینا، وحی کی تعلیمات میں کسی بھی فلسفیانہ اور صوفیانہ تعبیر کو رد کرنا[94]
9 قم چودہویں اور پندرہویں صدی ہجری عقلیت پسندی سید محمد حسین طباطبایی، مرتضی مطہری، جعفر سبحانی، محمد تقی مصباح یزدی شیعہ در اسلام، مقدمہ‌ای بر جہان‌بینی اسلامی، منشور عقاید امامیہ (کتاب)|منشور عقاید امامیہ جدید کلامی مسائل پیش کرنا، مادیت پسندی اور الحاد سے مقابلہ، کلامی مراکز و ادارہ جات کی تأسیس[95]


حوالہ جات

  1. کاشفی، کلام شیعہ (ماہیت، مختصات و منابع)، 1386شمسی، ص110۔
  2. کاشفی، کلام شیعہ (ماہیت، مختصات و منابع)، 1386شمسی، ص110۔
  3. جبرئیلی، درآمدی بر کلام شیعہ، 1400شمسی، ص39۔
  4. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1363شمسی، ج5، ص278-279۔
  5. ربانی گلپایگانی، «کلام و اندیشہ‌ہای کلامی امامیہ»، ص135۔
  6. ربانی گلپایگانی، «کلام و اندیشہ‌ہای کلامی امامیہ»، ص135۔
  7. ربانی گلپایگانی، «کلام و اندیشہ‌ہای کلامی امامیہ»، ص135-136۔
  8. ملاحظہ کیجیے: نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 1، ص 39-40۔
  9. مطہری، سیری در نہج‌البلاغہ، 1395شمسی، ص49۔
  10. کاشفی، کلام شیعہ (ماہیت، مختصات و منابع)، 1386شمسی، ص114۔
  11. سبحانی، رسائل و مقالات، 1433ھ، ج1، ص246-248۔
  12. سبحانی، رسائل و مقالات، 1433ھ، ج1، ص248۔
  13. سبحانی، رسائل و مقالات، 1433ھ، ج1، ص248۔
  14. شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ص93؛ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1379شمسی، ص198-199۔
  15. شہرستانی، الملل و النحل، 1415ھ، ج1، ص58۔
  16. حلی، نہج الحق و کشف الصدق، 1982ء، ص82۔
  17. علامہ حلی، کشف‌المراد، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ص280-281۔
  18. علامہ حلی، کشف المراد، 1430ھ، ص417؛ علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدق، 1982ء، ص72۔
  19. سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج3، ص340۔
  20. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375شمسی، ص333، 417، 418۔
  21. شہرستانی، الملل و النحل، 1415ھ، ج1، ص115۔
  22. علامہ حلی، کشف المراد، 1430ھ، ص417۔
  23. ملاحظہ کیجیے: جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص48-66۔
  24. ربانی گلپایگانی، «کلام و اندیشہ‌ہای کلامی امامیہ»، ص135۔
  25. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص49۔
  26. جمعی از نویسندگان، معجم طبقات المتکلمین، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1424ھ، ج1، ص79-80؛ کاشفی، کلام شیعہ (ماہیت، مختصات و منابع)، 1386شمسی، ص148۔
  27. مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج3، ص94۔
  28. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص49۔
  29. ابن‌ ندیم، الفہرست، دار المعرفۃ، ص249۔
  30. ابن‌ ندیم، الفہرست، دار المعرفۃ، ص249۔
  31. جبرئیلی، «کلام شیعی؛ دورہ‌ہای تاریخی، رویکردہای فکری»، ص93۔
  32. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص51۔
  33. جبرئیلی، «کلام شیعی؛ دورہ‌ہای تاریخی، رویکردہای فکری»، ص94۔
  34. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج4، ص438۔
  35. نجاشی، رجال النجاشی، 1416ھ، ص375۔
  36. شیخ صدوق، التوحید، 1423ھ، ص17-18۔
  37. شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، 1395ھ، ج1، ص2-4۔
  38. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص51۔
  39. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص52۔
  40. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص52۔
  41. کریمی، نقش حدیث در استنباط کلامی حلہ، 1398شمسی، ص36؛ جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص52۔
  42. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص52۔
  43. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص326-328۔
  44. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص53۔
  45. جبرئیلی، «کلام شیعی؛ دورہ‌ہای تاریخی، رویکردہای فکری»، ص94۔
  46. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص54۔
  47. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص55۔
  48. سبحانی، مدخل مسائل جدید در علم کلام، 1382شمسی، ج1، ص9؛ جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص55۔
  49. طباطبایی، تاریخ حدیث شیعہ، 1390شمسی، ص78۔
  50. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص98۔
  51. عابدی، مکتب کلامی قم، 1384شمسی، ص20-21؛ کاشفی، کلام شیعہ (ماہیت، مختصات و منابع)، 1386شمسی، ص154۔
  52. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص156۔
  53. کاشفی، کلام شیعہ (ماہیت، مختصات و منابع)، 1386شمسی، ص153۔
  54. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص73-74۔
  55. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص82-83۔
  56. جمعی از نویسندگان، کلام فلسفی، ترجمہ ابراہیم سلطانی و آرش نراقی، 1384شمسی، ص7۔
  57. مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج3، ص88۔
  58. کاشفی، کلام شیعہ (ماہیت، مختصات و منابع)، 1386شمسی، ص159۔
  59. ملاحظہ کیجیے: سبحانی، رسائل و مقالات، 1433ھ، ج1، ص367۔
  60. ملاحظہ کیجیے: سبحانی، رسائل و مقالات، 1433ھ، ج1، ص369۔
  61. سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج2، ص89۔
  62. سبحانی، رسالۃ فی التحسین والتقبیح العقلیین، 1420ھ، ص120۔
  63. سبحانی، رسائل و مقالات، 1433ھ، ج1، ص376۔
  64. سبحانی، سبحانی، الإنصاف فی مسائل دام فیها الخلاف، 1433ھ، ج3، ص105۔
  65. اشعری، اللمع فی الرد اہل الزیغ و البدع، المکتبۃ الازہریۃ للتراث، ص76؛ سبحانی، جبر و اختیار، 1423ھ، ص270۔
  66. سبحانی، رسائل و مقالات، ج5، ص228۔
  67. سبحانی، الإنصاف فی مسائل دام فیہا الخلاف، 1423ھ، ج3، ص97۔
  68. سبحانی، رسائل و مقالات، 1433ھ، ج1، ص369۔
  69. سبحانی، رسائل و مقالات، 1433ھ، ج1، ص373۔
  70. ملاحظہ کیجیے: جبرئیلی، درآمدی بر کلام شیعہ، 1400ھ، ص273-295۔
  71. جبرئیلی، درآمدی بر کلام شیعہ، 1400ھ، ص272-273۔
  72. جبرئیلی، درآمدی بر کلام شیعہ، 1400ھ، ص279۔
  73. جبرئیلی، درآمدی بر کلام شیعہ، 1400ھ، ص287۔
  74. مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج3، ص93۔
  75. مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج21، ص107۔
  76. کاشفی، کلام شیعہ (ماہیت، مختصات و منابع)، 1386شمسی، 1387شمسی، ص52۔
  77. کاشفی، کلام شیعہ (ماہیت، مختصات و منابع)، 1386شمسی، ص52۔
  78. شیخ صدوق، التوحید، 1423ھ، ص17-18۔
  79. شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ص127-129۔
  80. شہرستانی، «مقدمہ»، در تصحیح اعتقادات الإمامیۃ، 1414ھ، ص19-20۔
  81. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص13۔
  82. حسینی جلالی، «مقدمہ»، در کتاب تجرید الاعتقاد، 1407ھ، ص71؛ کاشفی، کلام شیعہ (ماہیت، مختصات و منابع)، 1386شمسی، ص158۔
  83. ملاحظہ کیجیے: سبحانی، «مقدمہ»، در کتاب شوارق الالہام، 1425ھ، ج1، ص9-20؛ کاشفی، کلام شیعہ (ماہیت، مختصات و منابع)، 1386شمسی، ص158۔
  84. اشمیتکہ، اندیشہ‌ہای کلامی علامہ حلی، ترجمہ احمد نمایی، 1389شمسی، ص57۔
  85. ملاحظہ کیجیے: سبحانی، منشور عقاید امامیہ، 1376شمسی، 301-346۔
  86. برای نمونہ نگاہ کنید بہ جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (از عصرغیبت تا خواجہ نصیر طوسی)، 1389شمسی، ص66؛ عطایی نظری، «نگاہی بہ ادوار و مکاتب کلامی امامیہ در قرون میانی»، ص171۔
  87. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص66-68؛ فرمانیان و صادقی کاشانی، نگاہی بہ تاریخ تفکر امامیہ از آغاز تا ظہور صفویہ، 1394شمسی، ص36۔
  88. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص73-74؛ جعفری، «مقایسہ‌ای میان دو مکتب فکری شیعہ در قم و بغداد در قرن چہارم ہجری»، ص20-23۔
  89. شیخ طوسی، التبیان، احیاء التراث العربی، ج1، ص3؛ جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص77؛ رضوی، تاریخ کلام امامیہ؛ حوزہ‌ہا و جریان‌ہای کلامی، 1396شمسی، ص286۔
  90. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، 1389شمسی، ص79-80۔
  91. کاشفی، کلام شیعہ (ماہیت، مختصات و منابع)، 1386شمسی، ص157؛ جبرئیلی، «مدرسہ حلہ»، ص26-28۔
  92. جبرئیلی، شخصیت‌ہا، آثار، مدارس و منابع کلامی شیعہ، 1397شمسی، ص219-220؛ رضوی، تاریخ کلام امامیہ؛ حوزہ‌ہا و جریان‌ہای کلامی، 1396شمسی، ص439۔
  93. برای نمونہ نگاہ کنید بہ جبرئیلی، شخصیت‌ہا، آثار، مدارس و منابع کلامی شیعہ، 1397شمسی، ص220-225۔
  94. حکیمی، «عقل خودبنیاد دینی»، ص127-129۔
  95. ملاحظہ کیجیے: جبرئیلی، شخصیت‌ہا، آثار، مدارس و منابع کلامی شیعہ، 1397شمسی، ص232-237۔

مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • ابن‌ندیم، محمد اسحاق، الفہرست، بیروت، دار المعرفۃ، بی‌تا۔
  • اشعری، علی ابن اسماعیل، اللمع فی الرد اہل الزیغ و البدع، قاہرہ، المکتبۃ الازہریۃ للتراث، بی‌تا۔
  • اشمیتکہ، زابینہ، اندیشہ‌ہای کلامی علامہ حلی، ترجمہ احمد نمایی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1389ہجری شمسی۔
  • جبرئیلی، محمدصفر، «کلام شیعی؛ دورہ‌ہای تاریخی، رویکردہای فکری»، قبسات، شمارہ 38، دی‌ماہ 1384ہجری شمسی۔
  • جبرئیلی، محمدصفر، سیر تطور کلام شیعہ (دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیرالدین طوسی)، قم، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1389ہجری شمسی۔
  • جبرئیلی، محمدصفر، شخصیت‌ہا، آثار، مدارس و منابع کلامی شیعہ، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، 1397ہجری شمسی۔
  • جبرئیلی، محمدصفر، درآمدی بر کلام شیعہ، قم، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ اول، 1400ہجری شمسی۔
  • جبرئیلی، محمدصفر، مدرسہ حلہ.، فصلنامہ فرہنگ زیارت، شمارہ 12، مہر ماہ 1391ہجری شمسی۔
  • جعفری، یعقوب، «مقایسہ‌ای میان دو مکتب فکری شیعہ در قم و بغداد در قرن چہارم ہجری»، در مقالات فارسی(مجموعہ مقالات کنگرہ شیخ مفید، ج69)، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، کلام فلسفی، ترجمہ ابراہیم سلطانی و احمد نراقی، تہران، انتشارات صراط، 1384ہجری شمسی۔
  • جمعی از نویسندگان، معجم طبقات المتکلمین، مؤسسہ امام صادق(ع)، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1424ھ۔
  • حسینی جلالی، محمدجواد، «مقدمہ»، در تجرید الاعتقاد، تألیف خواجہ نصیر الدین طوسی، تہران، مکتب الاعلام الاسلامی،چاپ اول، 1407ھ۔
  • حکیمی، محمدرضا، «عقل خودبنیاد دینی»، نشریہ بازتاب اندیشہ، شمارہ 21، آذر 1380ہجری شمسی۔
  • حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، 1982ء۔
  • حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1430ھ۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، «کلام و اندیشہ‌ہای کلامی امامیہ»، کیہان اندیشہ، شمارہ 54، خرداد و تیر 1373ہجری شمسی۔
  • رضوی، رسول، تاریخ کلام امامیہ؛ حوزہ‌ہا و جریان‌ہای کلامی، قم، انتشارات دار الحدیث، چاپ دوم، 1396ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، الإنصاف فی مسائل دام فیہا الخلاف، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1423ھ۔
  • سبحانی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بی‌تا۔
  • سبحانی، جعفر، جبر و اختیار، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1423ھ۔
  • سبحانی، جعفر، منشور عقاید امامیہ، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1376ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، رسائل و مقالات، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1433ھ۔
  • سبحانی، جعفر، رسالۃ فی التحسین والتقبیح العقلیین، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1420ھ۔
  • سبحانی، جعفر، مدخل مسائل جدید در علم کلام، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1382ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، «مقدمہ»، در شوارق الالہام، تألیف محقق لاہیجی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1425ھ۔
  • شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق امیر علی مَہنا و علی حسن فاعور، بیروت، دارالمعرفہ، چاپ چہارم، 1415ھ۔
  • شہرستانی، ہبۃ‌الدین، «مقدمہ»، در تصحیح اعتقادات الامامیہ، تألیف شیخ مفید، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، كنگرہ شیخ مفید، 1414ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، تحقیق: سیدہاشم حسینی تہرانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1416ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تہران، انتشارات اسلامیہ، 1395ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی التفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، بنیاد علمی و فکری علامہ طباطبایی، 1363ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، شیعہ در اسلام، قم، انتشارات بوستان کتاب، 1379ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمد کاظم، تاریخ حدیث شیعہ، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحدیث، 1390ہجری شمسی۔
  • طبرسی، حمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، صحیح محمدباقر خرسان، شہد، نشر مرتضی، چاپ اول، 1403ھ۔
  • عابدی، احمد، مکتب کلامی قم، قم، آستانہ مقدسہ قم، انتشارات زائر، چاپ اول، 1384ہجری شمسی۔
  • فرمانیان، مہدی و مصطفی صادقی کاشانی، نگاہی بہ تاریخ تفکر امامیہ؛ از آغاز تا ظہور صفویہ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، چاپ اول، 1394ہجری شمسی۔
  • کاشفی، محمدرضا، کلام شیعہ (ماہیت، مختصات و منابع)، قم، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
  • کریمی، مہدی، نقش حدیث در استنباط کلامی حلہ، قم، مرکز بین‌المللی ترجمہ و نشر المصطفی، چاپ سوم، 1398ہجری شمسی۔
  • مشکور، محمدجواد، فرہنگ فرق اسلامی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1375ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، سیری در نہج‌البلاغہ، قم، انتشارات صدرا، 1395ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، قم، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، تحقیق موسی شبیری زنجانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1416ھ۔