نوبختی خاندان

ویکی شیعہ سے
نوبختی خاندان
خاندان کا تعارف
زمانہدوسری صدی ہجری سے پانچویں صدی کے اوائل
نژادایرانی
وجہ نام‌گذارینوبخت سے منسوب
محل استقراربغداد
حکومت
معروف افراد
دینی علماءابوسہل بن نوبخت، ابو سہل نوبختی، حسین بن روح نوبختی، حسن بن موسی نوبختی

نوبختی خاندان ایران کا وہ مشہور شیعہ خاندان ہے جس کے افراد دوسری صدی ہجری کے وسط سے لے کر پانچویں صدی ہجری کے اوائل تک یعنی اڑھائی صدی تک رہے۔ وہ معروف منجّم، ادیب، متکلّم، منشی اور مؤلّف تھے۔ ابو سہل بن نوبخت، ابو سہل نوبختی، حسین بن روح نوبختی (نواب اربعہ) اور حسن بن موسی نوبختی مؤلف فرق الشیعہ اسی خاندان کے مشہور افراد ہیں۔

نسب

نوبخت اس خاندان کا بزرگ بنیادی طور ہر منجم تھا اور اس کا بیٹا ابو سہل منصور کے سامنے اپنے خاندان کا تعارف کرواتے ہوئے 4 اجداد کا ذکر کرتا ہے۔

ظاہری طور پر اس خاندان نے شہرت پانے کے بعد اپنے آپ کو گودرز کے بیٹے گیو سے منسوب کیا کہ جو خدائی نامہ اور شاہنامہ کے معروف پہلوان ہیں جیسا کہ ابو عُبادۀ بُحْتُری معروف شاعر نے اس خاندان کے دو افراد کی مدح میں دو قصیدے کہے ان میں ان دو افراد کو جوذرز (گودرز) و بیب (گیو) منسوب کیا ہے۔[1] جبکہ یہ دعوی درست نہیں ہے۔ [2]

مسعودی نے مروج الذّہب میں عباسی خلیفہ منصور کی خصوصیات میں ذکر کیا کہ وہ پہلا خلیفہ ہے جس نے سب سے پہلے منجموں کو اپنے نزدیک کیا اور نجوم کے احکام پر عمل کرتا تھا۔ نوبخت مجوسی منجّم اس کے ساتھ تھا اور اسی کے ہاتھوں پر اسلام لایا اور وہ القاہر کے زمانے میں ان نوبختیوں کا جد تھا۔ [3]

دیگر مآخذ سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ نوبخت منصور کا منجم تھا۔ خطیب بغدادی[4] کہتا ہے: منصور نے عراق کے شہر بغداد کا سنگ بنیاد اس ساعت میں رکھا جسے نوبخت نے معین کیا تھا۔ ابو ریحان بیرونی [5] کے مطابق نوبخت نے بغداد کے سنگ بنیاد رکھنے کے وقت اور ساعت کے تعین کو اپنے ذمہ لیا۔ اسی طرح خطیب بغدادی[6] خلیفۂ منصور عباسی کے حالات میں ابوسہل بن علی بن نوبخت کی درج ذیل حکایت نقل کرتا ہے:

اس کا جد نوبخت زرتشتی مذہب کا پابند تھا اور علم نجوم کو بہت احسن طریقے سے جانتا تھا۔ جب وہ اہواز کے زندان میں تھا۔ خلیفۂ منصور نے عباسیوں کا آئندہ دیکھ لیا تھا کہ اسے زندان میں لا رہے تھے۔ اس کی ہیبت و جلالت نے نوبخت پر اپنا اثر چھوڑا۔ نوبخت اس کے پاس گیا اس سے مقام پیدائش، نسب، نام اور اس کی کنیت کا استفسار کیا اور وہ اسے خوشخبری دیتا ہے کہ مملکت خوزستان، فارس، خراسان، ماد کی طرف کے پہاڑ اس کے تصرف میں آ جائیں گے۔ اس وقت منصور ایک خط نوبخت کو اس مضمون کا خط لکھ کر دیتا ہے: رحمان و رحیم خدا کے نام سے !اے نوبخت! اگر خداوند نے مسلمانوں پر کشادگی فرمائی اور مسلمانوں کے کندھوں سے بار ستم کم کیا تو صاحبان حق کے روکے گئے حق انہیں واپس لوٹائے جائیں گے اور جو تم نے ہمارے میں خدمت انجام دی ہے ہم اسے غفلت نہیں برتیں گے۔ دستخط: ابوجعفر.
منصور کے خلافت حاصل کرنے کے بعد نوبخت اس کے پاس وہ خط لے کر گیا۔ منصور نے کہا: میں تمہاری یاد میں تھا اور تمہاے آنے کا منتظر تھا۔ پس اس خدا کا شکر گزار ہوں جس نے اپنے وعدۂ حق کو پورا کیا اور گمان کو یقین میں بدلا نیز اس امر (خلافت) کو ان کے اہل کی طرف لوٹایا۔ نوبخت نے اسلام قبول کیا اور منصور کا منجم اور مولا ہو گیا۔

طبری 145 ق کے واقعات میں خروج ابراہیم بن عبداللہ بن حسن معروف قتیل باخَمْری کے متعلق کہتا ہے: پہلے ابراہیم کی فوج نے منصور کو شکست دی۔ منصور اپنے خاتمے کی فکر میں تھا کہ منجم نیبختِ (نوبخت) آ گیا اور اس نے کہا: اے امیرالمؤمنین! تجھے فتح حاصل ہو گی اور ابراہیم مارا جائے گا۔ منصور نے اس کی بات قبول نہیں کی تو نوبخت نے کہا: تم مجھے اپنے پاس اسیر کر لو اگر ایسا نہ ہوا تو میں اپنے قتل ہونے کو کہوں گا۔ اسی دوران ابراہیم کی شکست اور اس کے فرار کی خبر پہنچی۔ [7]

ابوسہل بن نوبخت

نوبخت کے بعد اس کا بیٹا ابو سہل بن نوبخت منجم منصور عباسی ہوا۔

تاریخ الحکماء میں قفطی کا بیان ہے:

ابو سہل بن نوبخت ایرانی منجّم اقتران کواکب اور ان سے مربوط واقعات سے آگاہی کا ماہر تھا جبکہ اس کا باپ نوبخت منصور کا ندیم اور منجم تھا۔ نوبخت (بڑھاپے) کی وجہ سے منصور سے مصاحبت جاری نہ رکھ سکا تو منصور نے اسے کہا: اپنے بیٹے کو اپنی جگہ پر لے آؤ پس نوبخت نے اپنے ابو سہل کو اپنی جگہ پر رکھا۔ ابو سہل کہتا ہے: جب مجھے منصور کے پاس لے کر گئے تو منصور نے اس سے نام پوچھا: اپنا نام بتاؤ۔ میں نے کہا: خرشاذماہ طیماذماہ مازرباذ خسرو ابہمشاذ۔ منصور نے پوچھا: یہ سب تمہارے نام ہیں۔ منصور نے ہنس کر کہا: تمہارے باپ نے کچھ نہیں کیا ہے۔ تو ان دو امروں میں سے ایک کو اختیار کرو: ان سب ناموں سے ہاتھ اٹھا لو اور صرف طیماذ پر اکتفا کرو یا میں تمہارے لئے ایک کنیت انتخاب کرتا ہوں جو ابو سہل ہے۔ پس میں اس کنیت پر راضی ہو گیا۔ پس اس کے بعد میری کنیت اس قدر معروف ہو گئی کہ اس نے میرے نام کی جگہ لے لی۔ [8]

ابن ندیم کے مطابق ابو سہل بن نوبخت فارسی سے عربی میں ترجمہ کرتا تھا اور اس کے علم و دانش کی بنیاد فارسی کتابوں پر تھی،اس نے کئی کتابیں تالیف کی تھیں۔ ان کے نام الفہرست میں مذکور ہیں۔[9] ان میں سے کتاب النّہمطان یا الیہبطان ہے جو علم نجوم اور علم موالید میں لکھی گئی۔ ابن ندیم اس کتاب سے علم نجوم کی تاریخ کے متعلق مطالب نقل کرتا ہے۔ [10] اس علم کی اصل کو زمان جمشید میں ایرانیوں کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ اس کی دوبارہ تدوین کا کام سکندر کے غلبے کے بعد اور اسکے بعد ملوک الطوایف (اشکانیان) کے زمانے میں انجام پایا۔ اس علم کا آخر اردشیر ساسانی اور اس کا بیٹا شاپور سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر انوشیروان کا نام اس بارے میں یادگار رہ گیا۔ ابو سہل ہارون کے زمانے میں زندہ تھا اور ابن ندیم[11] نے «خزانہ الحکمہ» میں کہا ہے وہ اس وقت کام کرتا تھا۔

ابوسہل نوبختی

اسماعیل بن علی بن اسحاق بن ابی سہل ابن نوبخت (۲۳۷ ـ شوال ۳۱۱ق)، معروف بنام ابوسہل نو بختی امامیہ کا نامدار متکلم جو خاندان نوبخت میں سے ساکن بغداد تھا۔ وہ بغداد کے اندر غیبت صغرا کے زمانے میں امامیہ کا ایک بلند مرتبے کا حامل عالم تھا اور عام شیعہ لوگوں کے نزدیک اسکا ایک خاص مقام تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ مسئلۂ امامت اور خاص طور پر غیبت امام دوازدہم(ع) سے متعلق بحث و تمحیص میں گزارا۔

ابوسہل نے بچپنے میں [[امام زمان|امام غایب(ع)] کی ملاقات کا شرف حاصل کیا نیز سفارت حسین بن روح نوبختی کے زمانے میں اسکے حسین سے قریبی تعلقات رہے۔

حسین بن روح نوبختی

ابوالقاسم حسین بن روح نوبختی (متوفا326 ہ ق) سومین نایب خاص امام مہدی(عج) کے تیسرے نائب خاص تھے اور دوسرے نائب امام زمانہ محمد بن عثمان کے معتمد افراد میں سے تھے نیز وہ ان کے پاس بغداد آتے جاتے رہتے۔[12] وہ اصحاب امام حسن عسکری(ع) میں سے تھے۔ محمد بن عثمان نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں امام مہدی(عج) کے دستور کے مطابق اپنا جانشین مقرر کیا۔ اس کے بعد شیعہ حضرات اپنے اموال دینے کیلئے اس سے رجوع کرتے تھے۔[13] مدت نیابت او ۲۱سال بہ طول انجامید.

حسن بن موسی نوبختی

ابو محمد حسن بن موسی نَوبَختی امامیہ کے متکلمین اور فلاسفہ میں سے ہے جس کا زمانہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری قمری کا تھا۔ وہ ان پہلے مسلمان دانشوروں میں سے ہے جس نے ملل و نحل کے موضوع پر کتاب لکھی۔ یہ ابو سہل نوبختی کے شاگردوں میں سے تھا۔

نوبختی نے غیبت امام زمان (عج) کے زمانے میں مختلف فرقوں کے اعتقادی اصول سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد فلسفیانہ عقلی دلائل کے ذریعے امامیہ کے اعتقادات کو ثابت کیا۔

اس نے معتزلی اور امامیہ کے مشہور علما جیسے ابوعلی جبائی، ابوالقاسم بلخی، محمد بن عبداللہ بن مَمَلک اصفہانی اور ابن قبہ رازی سے منظرے کئے۔ نوبختی کی متعدد تالیفات تھیں۔ ان میں سے بعض آثار ساتویں صدی ہجری قمریموجود رہے لیکن اب ان آثار میں سے صرف فرق الشیعہ باقی ہے۔

حوالہ جات

  1. اقبال، ص۶ و۷
  2. ر.ک دانشنامہ بزرگ اسلامی، زیر عنوان آل نوبخت نوشتہ عباس زریاب
  3. مسعودی، مروج الذہب، ج۸، ص۲۹۰
  4. تاریخ بغداد، ج۱، ص۶۷
  5. بیرونی، ص ۲۷۰
  6. تاریخ بغداد، ج۱۰، ص۵۴-۵۵
  7. تاریخ طبری، ج۳، ص۳۱۷
  8. تاریخ الحکماء، ص۴۰۹
  9. الفہرست، ص۳۳۳
  10. الفہرست، صص ۲۹۹-۳۰۱
  11. الفہرست، ص۳۳۳
  12. شیخ طوسی،الغیبہ، ص۲۲۳
  13. طوسی،الغیبہ، صص ۲۲۴- ۲۲۶

مآخذ

  • ابن طاووس، علی بن موسی، فرج المہموم، نجف، ۱۳۶۸ھ۔
  • ابن ندیم، الفہرست، کوشش رضا تجدد، تہران، ۱۳۵۰ہجری شمسی۔
  • اقبال، عباس، خاندان نوبختی، تہران، ۱۳۵۷ہجری شمسی، جم‌۔
  • بیرونی، ابوریحان، آثارالباقیہ، کوشش ادوارد زاخائو، لایپزیک، ۱۹۲۳ء۔
  • خطیب بغدادی، احمدبن علی، تاریخ بغداد، بیروت، دارالکتاب
  • طبری، محمدبن جریر، تاریخ، کوشش دخویہ، لیدن، ۱۸۸۱ء۔
  • قفطی، علی بن یوسف، تاریخ الحکماء، کوشش ج. لیپرت، لایپزیک، ۱۹۰۳ء۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، کوشش باربیہ دومینار، پاریس، ۱۸۷۴ء۔
  • نجاشی، احمدبن علی، رجال، قم، مکتبہ الداوری.

بیرونی ربط