قطب الدین راوندی

ویکی شیعہ سے
(صاحب خرائج سے رجوع مکرر)
قطب الدین راوندی
کوائف
مکمل نامقطب‌ الدین سعید بن عبد الله بن حسین بن ہبة الله راوندی کاشانی
تاریخ وفات573 ھ
مدفنصحن امام رضا (ع) حرم حضرت معصومہ (ع) قم
علمی معلومات
اساتذہفضل بن حسن طبرسی، عماد الدین طبری، صفی الدین مرتضی بن داعی رازی، ابو نصر الغازی و ۔۔۔
شاگردابن شہر آشوب، منتجب الدین رازی و ۔۔۔۔
تالیفاتالخرائج والجرائح، منھاج البراعۃ، تھافت الفلاسفۃ، آیات الاحکام، قصص الانبیاء و ۔۔۔
خدمات
سماجیمحدث، مفسر، متکلم، فقیہ، فلسفی


قطب‌ الدین سعید بن عبد الله بن حسین بن ہبة الله راوندی کاشانی (متوفی 573 ھ)، قطب راوندی کے نام سے معروف، چھٹی صدی ہجری کے بڑے شیعہ محدث، مفسر، متکلّم، فقیہ، فلسفی و مورخ اور تفسیر مجمع البیان کے مولف فضل بن حسن طبرسی کے شاگردوں میں سے ہیں۔ ان کی بہت سی تالیفات ہیں جن میں سب سے مشہور کتاب الخرایج و الجرائح ہے۔

ابن شہر آشوب مازندرانی اور منتجب الدین رازی ان کے مشہور ترین شاگرد ہیں۔

سوانح عمری

ان کی صحیح تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے۔ لیکن ان ک محل ولادت کاشان سے نزدیک شہر راوند ہے۔[1] افندی اصفہانی کہتے ہیں: ان کا نام زیادہ تر ان کے جد یعنی سعید بن ہبۃ اللہ سے انتساب کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔[2] ان کی کنیت ابو الحسن و ابو الحسین بیان ہوئی ہے۔[3]

انہوں نے ابتدائی تعلیم راوند میں اپنے والد اور دادا سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ قم چلے گئے۔ افندی اصفہانی کے مطابق انہوں نے بزرگان حدیث سے اصفہان، خراسان اور ہمدان میں روایات سنیں اور نقل کی ہیں۔[4]

اولاد

سید محسن امین عاملی نے قطب الدین راوندی کے عالم و فاضل بیٹوں کے نام اس طرح ذکر کئے ہیں:

  • شیخ علی بن سعید
  • شیخ محمد بن سعید، کتاب عجالۃ المعرفہ کے مولف
  • شیخ حسین بن سعید[5]

بزرگان و علماء کی نظر میں

علامہ امینی: قطب راوندی بزرگ اور منتخب علماء شیعہ میں سے ہیں اور ان کا شمار شیعہ مسلک کے فقہ و حدیث کے اساتذہ، نوابغ اور رجال علم و ادب میں ہوتا ہے۔ ان کی کثیر تالیفات میں کسی بھی طرح کا کوئی عیب نہیں پایا جاتا ہے اور ان کے فضائل، تلاش و کوشش، دینی خدمات، نیک اعمال اور قیمتی تصنیفات میں کسی بھی طرح کا شائبہ نہیں پایا جاتا ہے۔[6]

صاحب روضات الجنات: وہ فقیہ، ممتاز و معتبر شخصیت کے مالک اور متعدد تصنیفات کے مولف ہیں۔[7]

میرزا عبد اللہ افندی اصفہانی: شیخ، امام فقیہ، قطب الدین راوندی فاضل، عالم، متبحر، فقیہ، محدث، متکلم، احادیث و روایات کے عالم اور شاعر تھے۔[8]

شیخ عباس قمی: وہ عالم، متبحر، فقیہ، محدث، مفسر، محقق ۔۔۔ اور بزرگ ترین شیعہ محدثین میں سے ہیں۔[9]

ابن حجر عسقلانی، بزرگ اہل سنت عالم: وہ شیعہ مذہب اور تمام علوم میں عالم و فاضل تھے اور تمام علوم میں صاحب تالیف تھے۔[10]

مشایخ و اساتذہ

  • عماد الدین طبری صاحب بشاره المصطفی
  • صفی الدین مرتضی بن داعی رازی صاحب تبصره العوام
  • شیخ ابو جعفر محمد بن علی حلبی
  • محمد بن اسماعیل مشهدی
  • ابو الحسن محمد بن علی تمیمی نیشاپوری
  • عبد الرحیم بن احمد شیبانی
  • ابو نصر الغازی
  • ابو صمصام ذوالفقار بن محمد بن معبد حسینی
  • ابو جعفر بن کمیح
  • ابو صمصام احمد بن محمد علی مرشکی
  • ابو السعید حسن بن علی لار آبادی
  • ابو القاسم حسن بن محمد حدیقی[11]

شاگرد

  • صیر الدین حسین بن سعید راوندی، ان کے بیٹے
  • ظهیر الدین محمد بن سعید راوندی، ان کے دوسرے بیٹے
  • قاضی احمد بن علی بن عبد الجبار طوسی
  • قاضی جمال الدین علی بن عبد الجبار طوسی
  • فقیہ علی بن محمد مدائنی
  • فقیہ عز الدین محمد بن حسن علوی بغدادی
  • زین الدین ابو جعفر محمد بن عبد الحمید بن محمود دعویدار
  • رشید الدین محمد بن علی، معروف بہ ابن شہر آشوب مازندرانی، ان کے مشهور ترین و برجستہ ‌ترین شاگرد
  • شیخ منتجب الدین رازی[12]

تالیفات و تصنیفات

قطب راوندی کی تصنیفات کی تعداد 60 کے قریب کتاب و رسائل پر مشتمل ہیں۔ مختلف علوم میں آپ نے کتابیں لکھی ہیں جن میں الخرائج و الجرائح سب سے مشہور تالیف ہے جو پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کے معجزات کے بارے میں ہے۔ انہوں نے نہج البلاغہ پر بھی ایک کتاب لکھی ہے جو منہاج الراعۃ فی شرح نہج البلاغہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

وفات و مدفن

قطب الدین راوندی نے 573 ھ میں وفات پائی[13] اور ان کے جنازہ کو روضہ حضرت معصومہ (ع) کے صحن میں دفن کیا گیا۔ آیت اللہ مرعشی نجفی کے حکم پر ان کی قبر پر ایک بڑا سنگ قبر نصب کیا گیا۔ ان کی قبر صحن اتابکی (حضرت امام رضا) میں داخل و خارج ہوتے وقت دیکھی جا سکتی ہے۔ آیت اللہ اراکی نے آخوند محمد جلالی کے واسطہ سے اپنے استاد (شیخ محمد حسن) سے نقل کیا ہے کہ مشروطہ تحریک کے زمانہ کے قریب صحن کی تعمیر کی وجہ سے قطب راوندی کی قبر میں ایک شگاف پیدا ہو گیا اور میں نے نزدیک سے ان دونوں گھٹنے سالم دیکھے۔ آیت اللہ اراکی کا بیان ہے:

میں نے پہلے بھی اس داستان کو سنا تھا اور یہ بات قم کی عوام میں متواتر تھی کہ قطب راوندی کا جنازہ تازہ ہے۔[14]

حوالہ جات

  1. امین، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۲۳۹.
  2. افندی، ریاض العلماء، ج۲، ص۴۱۹.
  3. امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۲۱ق، ج۷، ص۲۳۹.
  4. افندی، ریاض العلماء، ج۲، ص۴۲۵.
  5. امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۲۱ق، ج۷، ص۲۴۰.
  6. امینی، الغدیر، ج۵، ص۳۷۹.
  7. خوانساری، روضات الجنات، ج۴، ص۶ و ۷.
  8. افندی، ریاض العلماء، ج۲، ص۴۱۹.
  9. قمی، الکنی و الالقاب، ج۳، ص۷۲.
  10. عسقلانی، لسان المیزان، ۱۳۹۰ ق، ج۳، ص۴۸.
  11. خوانساری، روضات الجنات، ج۴، ص۷.
  12. بہ نقل از ریاض العلماء، روضات الجنات، اعیان الشیعہ و ...
  13. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ ق، ج۱۰۵، ص۱۳۵.
  14. مهدی ‌پور، اجساد جاویدان، ۱۳۸۹.ص۱۵۲

مآخذ

  • ابن أبی الحدید، شرح نهج البلاغہ، محمد أبو الفضل إبراهیم، ‌دار إحیاء الکتب العربیہ، ۱۹۵۹ م.
  • افندی، عبدالله، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، قم، مطبعة الخیام، بی‌تا.
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف، ۱۴۲۱ق.
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، بیروت، دار الکتاب العربی، بی‌تا.
  • صادقی، مصطفی، دیدگاه تاریخی راوندیان، نامہ تاریخ‌ پژوهان، تابستان ۱۳۸۶ - شماره ۱۰.
  • عسقلانی، ابن حجر، لسان المیزان، بیروت، الاعلمی، ۱۳۹۰ ق.
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان، بی‌تا.
  • قمی، عباس، الکنی و الالقاب، تهران، مکتبة الصدر، بی‌تا.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسة الوفاء، ۱۴۰۳ ق.
  • مهدی‌ پور، علی‌ اکبر. اجساد جاویدان. قم، حاذق، ۱۳۸۹ش.