ملا عبد اللہ بہابادی

ویکی شیعہ سے
ملا عبد اللہ بہابادی یزدی
شہر بہاباد میں ملاعبد اللہ کا مجسمہ
شہر بہاباد میں ملاعبد اللہ کا مجسمہ
کوائف
تاریخ ولادتدسویں صدی ہجری کے اوائل
آبائی شہربہاباد شہر یزد
تاریخ وفات981ھ، نجف
مدفنبہاباد یا نجف
علمی معلومات
تالیفاتالحاشیۃ علی تہذیب المنطق، اﻟﺘﺠﺎرة اﻟﺮاﺑحہ فی ﺗﻔﺴﯿر اﻟﺴﻮرۃ واﻟﻔﺎﺗﺤـۃ، حاشیۃ علی إرشاد الأذہان، شرح القواعد فی الفقہ، شرح العجالۃ وغیرہ
خدمات
سماجیحرم امام علیؑ کے متولی اور خزانہ دار
ویب سائٹhttp://www.molaabdellah.ir/


مُلّا عَبْد اللہ بَہابادی یا ملا عبداللہ یزدی (متوفی: 981ھ)، ایران کے صفویہ دور حکومت کے شیعہ مفسر، فقیہ منطقی اور کتاب حاشیہ ملا عبد اللہ کے مصنف ہیں۔ ان کی کتاب حاشیہ سالوں سال سے حوزات علمیہ کے درسی نصاب میں شامل ہے۔

صفویہ حکمرانوں کی جانب سے انہیں حرم امام علیؑ کی تولیت اور خزانہ داری پر منصوب کیا گیا تھا۔ ان کے بعد ان کی اولاد اور رشتہ دار جعفر کاشف‌ الغطاء تک اس عہدے پر فائز رہے ہیں۔

اصفہان اور نجف میں ملا عبد اللہ نے مدارس کی بنیاد رکھی۔ شیخ بہایی، حسن بن زین‌ الدین عاملی اور سید محمد موسوی عاملی منجملہ ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔ تفسیر، فقہ، منطق، فلسفہ، کلام اور ادبیات عرب میں وہ صاحب تألیفات تھے۔ ان کے قلمی آثار سلیس، عام فہم اور مبالغہ آرائی سے دور تھے۔

سوانح حیات

ملا عبد اللہ بہابادی یزدی جو کہ نجم‌ الدین کے لقب سے ملقب تھے، ایران کے شہر یزد کے شیعہ عالم دین شہاب‌ الدین حسین کے فرزند تھے۔ مورخین کے مطابق آپ دسویں صدی ہجری کے اوائل میں بہاباد[1] (شہر یزد کے جنوب میں 210 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے) میں پیدا ہوئے۔[2]

کہا جاتا ہے کہ نجف میں ان کی اخلاقی خصوصیات اور علمی مقامات کی وجہ سے صفویہ[یادداشت 1] حکمرانوں کی جانب سے انہیں حرم امام علیؑ کا متولی و خزانہ‌دار منصوب کیا گیا تھا، ان کے بعد ان کی اولاد اور رشتہ دار جعفر کاشف‌ الغطاء تک اس عہدے پر فائز رہے ہیں۔[3] نجف میں طایفہ اَلمُلّا[4] یا مُلالی[5] ملا عبد اللہ سے منسوب ہیں۔ بعض ملاعبد اللہ اور صفویہ دربار کے درمیان رابطے کو شیعوں کے مشکلات کے حل میں مؤثر قرار دیتے ہیں۔[6]

فلاسفہ اور متکلمین کے ساتھ روا رکھنے والا سخت سلوک اور رویہ کو ملا عبد اللہ کی نجف کی طرف ہجرت کی علت قرار دی جاتی ہے۔[7]

بعض کتابوں میں ملا عبد اللہ کو شہابادی،[8] شاہ‌ آباد اور شاہ‌ آبادی کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے جسے نسخہ‌ برداروں کی غلطی قرار دی گئی ہے[9] جو الذریعہ اور ریحانۃ الادب جیسی کتابوں تک بھی سرایت کر گئی ہے۔ لفظ «بہاباد» کو غلطی سے شہاباد اور گزر زمان کے ساتھ شاہ‌ آباد لکھا گیا ہے۔[10]

تعلیم

ملا عبد االلہ نے ابتدائی تعلیم بہاباد میں حاصل کی۔ انہوں نے حوزہ‌ علمیہ شیراز، اصفہان اور نجف میں تعلیم حاصل کی ہیں۔ مقدس اردبیلی جیسی شخصیات کو ان کے کلاس فیلو شمار کئے جاتے ہیں۔[11] ان کے بعض اساتذہ میں: مدرسہ منصوریہ کے بانی غیاث‌ الدین منصور دشتکی، اور دسویں صدی ہجری کے فلاسفر جلال‌ الدین محمود شیرازی شامل ہیں۔[12]

بہابادی نے نجف اور اصفہان میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی اور مدرسہ ﻣﻨﺼﻮریہ شیراز میں تدریس کی خدمات انجام دیں۔ شیخ بہایی کو ان کے شاگردوں میں شمار کیا جاتا ہے۔[13]اسی طرح شہید ثانی کے فرزند اور کتاب مَعالِم کے مصنف حسن بن زین‌ الدین اور کتاب مَدارک الاحکام کے مصنف محمد عاملی کو علوم عقلی میں ملا عبد اللہ کے اساتذہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔[14]

وفات

بہاباد میں ملا عبداللہ بہابادی سے منسوب مقبرہ

ملاعبد اللہ یزدی سنہ 981ھ کو وفات پاگئے؛[15] لیکن ان کے محل دفن کے بارے میں منابع میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض منابع کے مطابق ملاعبد اللہ کو نجف[16] میں اور بعض منابع کے مطابق انہیں بہاباد میں ان سے منسوب ایک مقبرہ میں دفن کیا گیا ہے۔[17]

علمی خدمات

نجف میں ایک مدرسہ اور ایک لائبریری ملا عبد اللہ اور ان کے خاندان سے منسوب ہے۔[18] انہوں نے شیراز، اصفہان اور نجف[19] میں اسلامی علوم کی تدریس کی ذمہ داری نبھائی ہے۔

آثار

ملا عبد اللہ تفسیر،[20] فقہ، منطق،[21] فلسفہ، کلام اور ادبیات عرب میں صاحب تألیف تھے۔[22] سلیس، عام فہم اور مبالغہ آرائی سے دور ہونا ان کی تألیفات کی خصوصیات میں ذکر کی گئی ہیں۔[23] ان کی بعض تألیفات یہ ہیں:

کتاب الحاشیۃ علی تہذیب المنطق کا پہلا صفحہ، محمد عارف الخالدی کے قلم سے

حاشیہ ملا عبد اللہ کو کتاب تہذیب المنطق تفتازانی کی شہرت کا سب سے بڑا عامل تصور کیا گیا ہے۔[26] اصل کتاب سے زیادہ کتاب کے حاشیے پر توجہ دینے کی علت کتاب حاشیہ کی دقت اور جامعیت بیان کی گئی ہے۔[27]کتاب حاشیہ ملا عبد اللہ پر بھی مختلف شروحات اور حاشیے لگائے گئے ہیں۔[28]

حاشیۃ علی اِرشاد الاَذہان،[30] اَلحاشیۃُ علی تفسیر انوار التَّنزیل ( تفسیر بیضاوی کے نام سے مشہور)،[31] تہذیب المنطق پر فارسی شرح، شرح القواعدِ فی الفقہ، شرح العجالۃ[یادداشت 2] اور اَلحاشیۃُ علیٰ شرحِ الشَّمسیہ ان کے دیگر آثار میں سے ہیں۔[32]

مونوگراف

کتاب «آخوند ملا عبداللہ بہابادی (صاحبْ‌حاشیہ)»، تحریر: احمد ترحمی‌ بہابادی، یہ کتاب ملا عبد اللہ بہابادی یزدی کی حالات زندگی اور علمی خدمات پر لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب سنہ 1375ہجری شمسی کو منظر عام پر آگئی ہے۔[33]

حوالہ جات

  1. نجفی، «ملا عبداللہ یزدی در الذریعہ»، ج1، ص98۔
  2. عبدی‌پور، «بررسی و تحلیل سیرہ علمی و عملی علامہ ملا عبداللہ بہابادی یزدی»، ص27۔
  3. حرزالدین، تاریخ النجف الأشرف، 1385ہجری شمسی، ج1، ص224۔
  4. امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج8، ص53۔
  5. خلیلی، موسوعۃ العتبات المقدسۃ، 1407ھ، ج7، ص242۔
  6. العبد الخانی، «زندگی و شخصیت علمی و عملی ملاعبداللہ یزدی»، ص204۔
  7. رشیدزادہ، «مقایسہ تطبیقی حاشیہ ملاعبداللہ و المنطق مظفر»، ص268۔
  8. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج3، ص348۔
  9. ملاحظہ کریں: عبدی‌پور، «بررسی و تحلیل سیرہ علمی و عملی علامہ ملا عبداللہ بہابادی یزدی»، ص50-51۔
  10. عبدی‌پور، «بررسی و تحلیل سیرہ علمی و عملی علامہ ملا عبداللہ بہابادی یزدی»، ص51۔
  11. موسوی خوانساری، روضات الجنات، 1390ہجری شمسی، ج4، ص228۔
  12. اﻓﻨﺪی، ریاض اﻟﻌﻠﻤﺎء، 1415ھ، ج3، ص191-192۔
  13. حرعاملی، امل‌الآمل، 1362ہجری شمسی، ج2، ص160؛ موسوی خوانساری، روضات الجنات، 1390ہجری شمسی، ج4، ص228۔
  14. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج13، ص161؛ امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج8، ص53؛ حرعاملی، امل‌الآمل، 1362ہجری شمسی، ج2، ص160۔
  15. روملو، احسن التواریخ، 1357ہجری شمسی، ص611۔
  16. حرزالدین، تاریخ النجف الأشرف، 1385ہجری شمسی، ج2، ص274؛ عبدی‌پور، «بررسی و تحلیل سیرہ علمی و عملی علامہ ملا عبداللہ بہابادی یزدی»، ص39۔
  17. افشار، یادگارہای یزد، 1375ہجری شمسی، ج1، ص195۔
  18. حرزالدین، معارف الرجال، 1405ھ، ج2، ص5۔
  19. عبدی‌پور، «بررسی و تحلیل سیرہ علمی و عملی علامہ ملا عبداللہ بہابادی یزدی»، ص99۔
  20. آقابزرگ طہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج3، ص348؛ ج4، ص278۔
  21. حرعاملی، امل‌الآمل، 1362ہجری شمسی، ج2، ص160۔
  22. اﻓﻨﺪی، ریاض اﻟﻌﻠﻤﺎء، 1415ھ، ج3، ص191-193؛ نجفی، «ملا عبداللہ بہابادی یزدی در الذریعہ»، ص102-114۔
  23. زرکلی، الاعلام، 2002م، ج4، ص80۔
  24. امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج8، ص53؛ آقابزرگ طہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج6، ص53۔
  25. مؤسسہ النشر الاسلامی، «مقدمہ»، در الحاشیہ علی تہذیب المنطق، ص3۔
  26. طباطبایی لطفی، و قاسمی، «مطالعہ توصیفی حاشیہ ملا عبداللہ بہابادی از منظر تحلیل ژانر»، ص26۔
  27. طباطبایی لطفی، و قاسمی، «مطالعہ توصیفی حاشیہ ملا عبداللہ بہابادی از منظر تحلیل ژانر»، ص26۔
  28. ملاحظہ کریں: آقابزرگ طہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج12، ص59 و 181؛ ج15، ص177؛ ج18، ص10؛ غلامی بدربانی، «سبک‌شناسی شروح و تعلیقات حاشیہ ملا عبداللہ در دوران معاصر»، ص215۔
  29. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ؛ ج3، ص348، شمارہ 1256۔
  30. اﻓﻨﺪی، ریاض اﻟﻌﻠﻤﺎء، 1415ھ، ج3، ص191-192۔
  31. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ؛ ج4، ص278۔
  32. حرزالدین، معارف الرجال فی تراجم العلماء و الأدباء، 1405ھ، ج2، ص7۔
  33. ترحمی‌ بہابادی، آخوند ملا عبداللہ بہابادی (صاحب حاشیہ)، 1375ہجری شمسی، مقدمہ۔

نوٹ

  1. ملا عبد اللہ بہابادی کے دور میں صفویہ شہنشاہوں میں شاہ طہماسب اول (919-981ھ) اور ان کے بیٹے شاہ اسماعیل دوم (944-985ھ) تھے (سیوری، ایران عصر صفوی، 1387ہجری شمسی، ص57؛ معصوم، تاریخ سلاطین صفویہ، 1351ہجری شمسی، ص15-16)۔
  2. ریاض العلماء میں عبد اللہ افندی کے مطابق علم منطق میں تفتازانی کی ایک کتاب ہے جس کا نام تہذیب المنطق ہے جس پر جلال الدین دوانی نے حاشیہ‌ لکھا ہےجس کا نام العجالہ ہے اور ملا عبد اللہ بہابادی نے دوانی کے حاشیہ پر حاشیہ لکھا ہے جس کا نام الخرارۃ فی شرح العجالہ ہے (افندی، ریاض العلماء، 1415ھ، ج3، ص193)۔

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت،‌ دار الاضواء، 1403ھ۔
  • افندی، عبداللہ بن عسی‌بیگ، ریاض العلماء و حیاض‌ الفضلاء، بیروت، مؤسسۃ تاریخ العربی، 1415ھ۔
  • افشار، ایرج، یادگارہای یزد معرفی ابنیہ تاریخی و آثار باستانی، تہران، انجمن آثار و مفاخر فرہنگی، خانہ کتاب یزد، چاپ دوم، 1375ہجری شمسی۔
  • العبد الخانی، ساجدہ، «زندگی و شخصیت علمی و عملی ملاعبداللہ یزدی»، در مجموعہ مقالات کنگرہ بین‌المللی علامہ ملا عبداللہ بہابادی یزدی، ج1، تابستان 1395ہجری شمسی۔
  • «امام جمعہ بہاباد: کنگرہ بزرگداشت علامہ ملاعبداللہ بہابادی در بہاباد برگزار می‌شود»، خبرگزاری مہر، تاریخ درج مطلب: 17 آذر 1401، تاریخ اخذ: 25 آبان 1402ہجری شمسی۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، با تصحیح و تنظیم حسن امین، بیروت،‌ دار التعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
  • ترحمی‌ بہابادی، احمد، آخوند ملا عبداللہ بہابادی (صاحب حاشیہ)، بہاباد، نشر بہاباد، چاپ اول، 1375ہجری شمسی۔
  • حرزالدین، محمدحسین، تاریخ النجف الأشرف، بہ تحقیق عبد الرزاق محمدحسین حرز الدین، قم، دلیل ما، 1385ش/ 1427ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، امل الآمل فی علماء جبل العامل، بغداد، مکتبۃ الأندلس، 1362ہجری شمسی۔
  • خلیلی، جعفر، موسوعۃ العتبات المقدسۃ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1407ھ۔
  • رازی، امین احمد، تذکرہ ہفت اقلیم، تہران، سروش، 1378ہجری شمسی۔
  • رشیدزادہ، محمد، «مقایسہ تطبیقی حاشیہ ملاعبداللہ و المنطق مظفر»، در مجموعہ مقالات کنگرہ بین‌المللی علامہ ملا عبداللہ بہابادی یزدی، ج1، تابستان 1395ہجری شمسی۔
  • روملو، حسن بیگ، احسن التواریخ، بہ تصحیح عبدالحسین نوایی، تہران، بابک، چاپ اول، 1357ہجری شمسی۔
  • زرکلی، خیرالدین بن محمود، الاعلام، بیروت، دارالعلم للملائین، چاپ پانزدہم، 2002م۔
  • طباطبایی لطفی، سید عبدالمجید، و قاسمی، طاہرہ، «مطالعہ توصیفی حاشیہ ملا عبداللہ بہابادی از منظر تحلیل ژانر»، در مجموعہ مقالات کنگرہ بین‌المللی علامہ ملا عبداللہ بہابادی یزدی، ج1، تابستان 1395ہجری شمسی۔
  • عبدی‌پور، حسن، «بررسی و تحلیل سیرہ علمی و عملی علامہ ملا عبداللہ بہابادی یزدی»، کنگرہ بین‌المللی علامہ ملا عبداللہ بہابادی یزدی، ج، بی‌تا۔
  • غلامی بدربانی، حسین، «سبک‌شناسی شروح و تعلیقات حاشیہ ملا عبداللہ در دوران معاصر»، در مجموعہ مقالات کنگرہ بین‌المللی علامہ ملا عبداللہ بہابادی یزدی، ج2، تابستان 1395ہجری شمسی۔
  • مؤسسۃ النشر الاسلامی، «مقدمہ»، در الحاشیہ علی تہذیب المنطق، تألیف المولی عبداللہ الیزدی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ پانزدہم، 1433ھ۔
  • موسوی خوانساری، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان، چاپ اول، 1390ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدعلی، «ملا عبداللہ بہابادی یزدی در الذریعہ»، در مجموعہ مقالات کنگرہ بین‌المللی علامہ ملا عبداللہ بہابادی یزدی، ج1، تابستان 1395ہجری شمسی۔