شفاعت

ویکی شیعہ سے
(شفیع سے رجوع مکرر)
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


شفاعت مسلمانوں کے درمیان رائج عام عقائد میں سے ایک ہے، جس سے مراد دوسروں کو معاف کرانے کے لیے درگاہ الہی میں کسی کو واسطہ قرار دینا ہے۔ البتہ مسلمان علماء کے مابین شفاعت کے معنی اور اس کے دائرہ کار کے سلسلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ امامیہ، مرجئہ اور اشاعرہ کا عقیدہ ہے کہ شفاعت صرف مرتکب کبیرہ کی ہوسکتی ہے۔ البتہ امامیہ کے نزدیک صرف وہی لوگ شفاعت کے مستحق ہونگے جن کے دین سے اللہ تعالیٰ راضی ہوں۔ دوسری طرف، معتزلہ اور زیدیہ جیسے مکاتب فکر کا خیال ہے کہ شفاعت کا مطلب ہے جلب منفعت اور ثواب میں اضافہ کرنا اور یہ صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو اپنی خطاؤں سے توبہ کرتے ہیں اور مطیع خدا ہیں۔

علمائے اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پیغمبر خداؐ شفاعت کرنے والوں میں سے ہیں۔ مذہب امامیہ ائمہ معصومینؑ کو بھی اپنے شفیع مانتے ہیں۔ علمائے اسلام نے شیعہ اور اہل سنت و جماعت کتابوں سے استناد کرتے ہوئے انبیاء، علمائے دین، شہداء، مومنین اور حافظین قرآن کو بھی شفاعت کرنے والوں میں شمار کیا ہے۔ بعض وہابی نظریات کے حامل لوگوں نے پیغمبرؐ کی شفاعت کو صرف اسی صورت میں مقبول قرار دی ہے جب آپؐ بقید حیات تھے۔ اس نظریے کو دوسرے مسلمان علماء نے مسترد کیا ہے۔

علمائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ شفاعت کرنے والوں کی شفاعت، کفار اور مشرکین کو شامل نہیں ہوگی۔ نیز شیعہ ائمہ کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کو ہلکا سمجھنے والا، غالی اور ظالم بادشاہ شفاعت سے محروم ہوںگے۔

شفاعت کا لفظ قرآن میں تقریباً 30 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ بعض قرآنی آیات کے مطابق شفاعت کرنے کا حق صرف خدا کو حاصل ہے اور دوسری بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے حق شفاعت کو پیغمبرؐ اور بعض دیگر حضرات کو بھی عطا کیا ہے۔

شفاعت کے موضوع پر جعفر سبحانی نے کتاب "الشفاعۃ فی الکتاب و السنۃ" اور سید کمال حیدری نے کتاب "الشفاعۃ" تحریر کی ہے۔

تمام مسلمانوں کا مشترکہ عقیدہ

اسلام میں شفاعت کے ثابت ہونے کے لحاظ سے تمام مسلمان اتفاق نظر رکھتے ہیں۔[1] علامہ مجلسی نے اپنی کتاب "حق الیقین" میں اس پر عقیدہ رکھنے کو ضروریات دین میں سے جانا ہے۔[2] ابن‌ تیمیہ نے شفاعت کو اس کے اصل ثبوت کے لحاظ سے تمام مسلمانوں کا مشترکہ عقیدہ قرار دیا ہے۔ ان کے نظریے کے مطابق شفاعت کے بارے میں موصولہ احادیث تواتر کی حد تک ہیں اور صحیح و معتبر حدیثی کتب میں یہ احادیث نقل ہوئی ہیں۔[3] شیخ صدوق کی حضرت امام جعفر صادقؑ سے نقل کردہ حدیث کے مطابق اگر کوئی شفاعت کا انکار کرے تو وہ شیعہ ہی نہیں ہے۔[4]

البتہ شفاعت کے معنی اور اس کے آثار کے سلسلے میں مسلمان دانشوروں اور اسلامی فِرَق کے مابین اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[5] امامیہ، اشاعرہ اور مرجئہ کے مطابق شفاعت کے معنی گنہگاروں سے ضرر کو دفع کرنا اور ان کو دیے جانے والے عقاب و عذاب سے محفوظ رکھنا ہے۔[6] بعض دیگر مکاتب فکر جیسے معتزلہ کے مطابق شفاعت کے معنی ہیں اللہ کی اطاعت اور توبہ کرنے والوں کے ثواب میں اضافہ اور ان کے لیے حصول منفعت ہیں۔ [7]

کہا جاتا ہے کہ لفظ "شفاعت" اپنے دیگر مشتقات کے ساتھ قرآن مجید میں تقریبا 30 مقامات پر استعمال ہوا ہے۔[8] اسی طرح شیعہ[9] اور اہل سنت[10] منابع حدیثی میں پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ سے شفاعت سے متعلق بعض روایات نقل کی گئی ہیں نیز متکلمین اور مفسرین کے مابین بھی شفاعت کےموضوع پر بحث ہوئی ہے۔[11] یہودیوں اور عیسائیوں کے یہاں بھی شفاعت کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔[12]

مفہوم‌ شناسی

مسجد نبوی میں شفاعت کے موضوع پر نصب شدہ ایک حدیث

مستحق عقاب شخص یا اشخاص سے عذاب و عقاب کو اٹھائے جانے کے طلب کرنے کو شفاعت کہتے ہیں۔[13] بعبارت دیگر گنہگار انسان کے گناہ کی بخشش کے لیے کسی کو واسطہ اور ثالثی قرار دینے کو شفاعت سے تعبیر کرتے ہیں۔[14]

شفاعت کے دینی اور عرفی معنی میں فرق

شیعہ مفسر قرآن ناصر مکارم شیرازی نے شفاعت کے دینی اور عرفی معنی میں فرق بیان کرتے ہوئے اپنے نظرہے کو یوں بیان کیا ہے کہ عرف میں عام طور شفاعت سے یہ مفہوم اخذ کیا جاتا ہے کہ شفاعت کرنے والا اپنے مقام اور اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے کسی صاحب قدرت و اختیار کی رائے کو اس کے ماتحتوں کی سزا کے سلسلے میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس معنی کے تحت شفاعت پانے والوں کی روح میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی؛ لیکن قرآن اور احادیث کی اصطلاح میں شفاعت وہ ہے جس میں شفاعت پانے والے شخص میں تبدیلی مد نظر ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، قرآن و احادیث میں مذکور شفاعت کی یہ خاصیت ہے کہ شفاعت پانے والے میں ایک معنوی اور روحی تبدیلی لا کر اس کو ناگوار صورت حال سے نکالتی ہے اور اسے ایسی صفت کے حامل بنادیتی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ اپنے شفیع سے ایک معنوی رابطہ قائم کرتا ہے اور یہ رابطہ باعث بنتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کو معاف کرانے کا مستحق ٹھہرتا ہے۔[15]

شفاعت یعنی ہدایت و رہبری

بعض علما شفاعت کو ہدایت و رہبری سے تعبیر کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شفاعت یعنی عالَم دنیا میں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کی تجلی یہ ہے کہ ان کی طرف سے انسانوں کو ہدایت و رہبری میسر ہوتی ہے لہذا جو شخص ہدایت و رہبری سے محروم رہتا ہے وہ روز آخرت شفاعت سے محروم رہ جائے گا۔[16] بعض علما جیسے مرتضی مطہری اور جعفر سبحانی وغیرہ نے پیغمبر اسلامؐ اور دیگر انبیاء کی اپنی اپنی امتوں کی شفاعت کو قرآنی شفاعت قرار دی ہے۔ یہاں تک کہ علما و رہبران دینی کی شفاعت کو بھی اسی شفاعت کی قسموں میں سے قرار دی ہے جن کی ہدایت و رہبری سے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔[17]

شفاعت کا توسل و مغفرت سے رابطہ

جعفر سبحانی کے مطابق توسل کی کئی قسمیں ہیں ان میں سے ایک طلب شفاعت ہے ان شخصیات سے جن کو اللہ تعالیٰ نے حق شفاعت عطا کیا ہے۔ طالب شفاعت ان کی پناہ مانگتے ہوئے ان سے شفاعت کا طلبگار ہوتا ہے اور شفیع کا کام یہ ہے کہ وہ درگاہ الہی سے شفاعت طلب کرنے والے کے لیے طلب بخشش کرتا ہے۔[18] جیسا کہ مشہور دعا، دعائے توسل میں "شفاعت" اور "توسل" کا لفظ ایک دوسرے کے ساتھ استعمال ہوئے۔ اس دعا میں چودہ معصومینؑ کو وسیلہ قرار دیتے ہوئے ان سے شفاعت کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔[19]

مرتضی مطہری کے مطابق شفاعت وہی مغفرت و بخشش الہی ہے۔ شفاعت کی نسبت جب سرچشمہ خیر و رحمت اللہ کی طرف دی جاتی ہے تو اس صورت میں "مغفرت" کہا جاتا ہے اور جب اس کی نسبت رحمت کے وسیلوں اور واسطوں کی طرف دی جاتی ہے تو اس صورت میں "شفاعت" کی تعبیر استعمال ہوتی ہے۔[20]

شفاعت‌ کرنے والے

تمام مسلمان علما کا اتفاق نظر ہے کہ پیغمبر خداؐ شفیع ہیں۔[21] ان کی رائے کے مطابق وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَکَ عَسَیٰ أَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُودًا میں مذکور مقام محمود،[22] سے مراد "مقام شفاعت" ہے جسے اللہ نے پیغمبر خداؐ کو دینے کا وعدہ کیا ہے۔[23] شیخ مفید اپنی کتاب اوائل المقالات میں لکھتے ہیں: مذہب امامیہ کے علما کا اجماع ہے کہ پیغمبر خداؐ کے علاوہ امام علیؑ اور باقی ائمہؑ بھی روز قیامت اپنے شیعوں کی شفاعت کریں گے۔[24] انہوں نے اپنے مدعا کے اثبات کے لیے کچھ روایات سے استناد کیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیؑ اور باقی ائمہ معصومینؑ روز قیامت شفیع ہونگے۔[25]

اس آیت مبارکہ لا یَمْلِکُونَ الشَّفاعَةَ إِلاَّ مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً[26] سے معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت کا حق صرف انہیں کو حاصل ہے کہ جنہوں نے اللہ سے عہد کیا ہو۔[27] مفسرین نے "عہد" کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔[28] کچھ مفسرین جیسے طَبرسی اور سید محمدحسین طباطبایی کے مطابق" عہد" سے مراد خدا پر ایمان اور اس کی جانب سے مبعوث کردہ انبیاء کی تصدیق ہے۔[29] بعض دیگر مفسرین نے عہد کو عمل صالح[30] اور دیگر مفسرین نے اس سے مراد توحید اور اسلام[31] لیا ہے۔ بعض شیعہ مفسرین نے کچھ احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے [32] امام علیؑ اور باقی ائمہ کرامؑ کی ولایت کو عہد الہی قرار دیا ہے۔[33]

بعض علما سورہ نجم کی آیت 26 سے استناد کرتے ہوئے ملائکہ کو بھی شفاعت کرنے والے سمجھتے ہیں۔[34] نہج البلاغہ میں امام علیؑ سے منسوب ایک حدیث کے مطابق قرآن مجید بھی شفیع ہے۔[35] شیعہ اور اہل سنت بعض روائی کتب میں منقول کچھ احادیث کے مطابق پیغمبران، علمائے دین، شہداء،[36] مؤمنین[37] اور حافظین قرآن[38] بھی حق شفاعت رکھنے والوں میں سے ہیں۔ نیز شیعہ روائی کتب میں منقول بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے ہمسایے ایک دوسرے کی اسی طرح رشتہ دار بھی ایک دوسرے کی شفاعت کر سکیں گے۔[39] بعض روایات میں توبہ کو بھی شفیع کے عنوان سے یاد کی ہے۔[40]

شفاعت‌ پانے والے

و أمّا شَفاعَتِي ففي أصحابِ الكَبائرِ ما خَلا أهلَ الشِّركِ و الظُّلمِ؛ میری شفاعت اسے نصیب ہوگی جو مرتکب گناہ کبیرہ ہونگے۔ البتہ مشرکین اور ستم پیشہ افراد کو میری شفاعت نہیں ملے گی۔

شیخ صدوق، شیخ صدوق، الخصال، 1362ہجری شمسی، ج2، ص355.

کون شفاعت کے مستحق ہیں؟ مسلمان علما کے مابین اس سلسلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[41] امامیہ نے سورہ انبیاء کی آیت 28[42] اور ائمہ معصومینؑ کی بعض روایات[43] سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ شفاعت صرف اس شخص کو ملے گی جس کے دین پر اللہ راضی ہو چاہے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو یا صغیرہ کا۔[44] ائمہؑ سے منقول بعض احادیث[45] کے مطابق امامیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ درگاہ الہی میں توبہ کرنے والوں کو شفاعت کی ضرورت نہیں ہوگی۔[46] اشاعرہ اور مرجئہ بھی امامیہ ہی کے مانند مرتکب گناہ کبیرہ کو پیغمبر خداؐ کی شفاعت کا مستحق سمجھتے ہیں۔[47] اس کے برعکس معتزلہ، خوارج اور زیدیہ کا ماننا ہے کہ شفاعت صرف ان مومنین کو ملے گی جنہوں نے سے گناہوں سے توبہ کی ہو۔[48] انہوں نے قرآن کی چند آیات جیسے سوره بقرہ آیت 48 اور سورہ غافر آیت 18 سے استناد کرتے ہوئے توبہ نہ کرنے والے مرتکب گناہ کبیره کو شفاعت کا مستحق نہیں سمجھا ہے۔[49]

امامیہ اور دیگر مکاتب فکر کے علما قرآن مجید کی کچھ آیات جیسے سورہ غافر آیت 18،[50] پیغمبر خداؐ[51] اور شیعہ ائمہؑ[52] کی کچھ روایات سے استناد کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق نظر کرتے ہیں کہ مشرکین اور کفار شفاعت کے مستحق نہیں ہیں۔[53]

امام جعفر صادقؑ نے پیغمبر خدؐا سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق نماز کو ہلکا سمجھنے والے شفاعت سے محروم ہونگے۔[54] نیز بعض دیگر روایات کے مطابق ناصبی، ظالم بادشاہ اور دین میں غلو ایجاد کرنے والوں کو بھی شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔[55]

شفاعت اذن خدا سے ہوگی

تمام مسلمان علما کا اتفاق نظر ہے کہ شفاعت کرنے والے اور شفاعت پانے والوں دونوں کو اذن خدا حاصل ہوگی۔ انہوں نے قرآن کی چند آیات جیسے سورہ بقرہ آیت 255،[56] سورہ یونس آیت 3،[57] سورہ طہ آیت 109،[58] سورہ نجم آیت 26[59] وغیرہ سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ شفاعت صرف اذن خدا سے ہوسکتی ہے۔

بعض علما نے قرآن مجید کی دیگر آیات جیسے قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِیعًا، (آپؐ) کہہ دیجئے کہ شفاعت پوری کی پوری اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے؛[60] اور مَا لَکُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلَا شَفِیعٍ، اس (اللہ) کے سوا نہ تمہارا کوئی سرپرست ہے اور نہ کوئی سفارشی،[61] سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ شفاعت صرف اللہ کی ذات سے مختص ہے۔[62] ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ حق شفاعت صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے لیکن مفسرین نے سورہ اسراء آیت 79 اور اس آیت کے ذیل میں منقول روایت[63] کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حق کو جسے قرآن مجید میں مقام محمود سے نام سے یاد کیا گیا ہے، اپنے رسول کو عطا کیا ہے۔[64] بعض علما نے اُن آیات سے استناد کیا ہے جن میں شفاعت کی قبولیت کو اذن خدا میں منحصر جانا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ حق شفاعت صرف اللہ کو حاصل ہے لیکن مذکورہ آیات کو مد نظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اللہ نے اپنے بعض مقرب بندوں کو اذن شفاعت عطا کیا ہے۔[65]

وہابیوں کی میت سے طلب شفاعت کی مخالفت

ابن‌ تیمیہ اور ان کے وہابی نظریہ رکھنے والے بعض پیروکار حضرت محمدؐ، میت اور دیگر شفاعت کرنے والوں سے طلب شفاعت کو شرک پر مبنی عمل سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ مجموعی طور پر سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو شفاعت کا حقدار نہیں سجمھتے ہیں ما سوا اللہ سے طلب شفاعت کرنے کو شرک شرک سمجھتے ہیں۔[66] ابن‌ تیمیہ کہتے ہیں کہ بعد از وفات پیغمبر خداؐ اصحاب رسول خداؐ نے کسی وقت آپؐ سے طلب شفاعت نہیں کی ہے۔ نیز ائمہ مذاہب اربعہمیں سے کسی ایک نے بھی اس کے استحباب یا واجب ہونے کا فتوا نہیں دیا ہے لہذا یہ عمل بغیر دلیل کے عمل شمار ہوگا نیز سیرت صحابہ اور ائمہ مذاہب اربعہ کی مخالفت ہوگی۔[67] عبد العزیز بن باز (سعودی عرب کے وہابی مفتی) نے ایک استفسار کے جواب میں کہا کہ شفاعت خدا کی ملکیت ہے اور رسول خداؐ اور دیگر شفاعت کرنے والے اپنی وفات کے بعد اللہ کی اس ملکیت میں دخل و تصرف نہیں کر سکتے، اس لیے کسی ایسے شخص سے شفاعت طلب کرنا جو وفات پاگیا ہے اور کسی کام کی انجام دہی پر قدرت نہیں رکھتا، شرک ہے اور یہ عمل جائز نہیں۔[68]

امام صادقؑ

إِنَّ شَفَاعَتَنَا لَا تَنَالُ مُسْتَخِفّاً بِالصَّلَاةِ؛ نماز کو ہلکا سمجھنے والوں کو ہماری شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔

شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، 1413ھ، ج1، ص206.

علم کلام کے محقق سید علی میلانی نے اہل سنت کے حدیثی منابع سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق یہ ثابت ہے کہ اصحاب پیغمبر خداؐ بعد از وفات رسول خداؐ بعض موقعوں پر شفاعت طلب کرتے تھے۔[69] اس روایت کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ ایک دفعہ عمر بن خطاب کے دور خلافت میں قحط سالی ہوئی؛ اصحاب پیغمبرؐ میں سے ایک شخص بلال بن حارث قبر رسول خداؐ کی زیارت کے لیے گیا۔ یہاں انہوں نے رسول خداؐ کو وسیلہ قرار دے کر بارش کی دعا کی تاکہ امت محمدی کو اس قحط سالی سے رہائی حاصل ہو۔[70]

جعفر سبحانی اپنی کتاب آئین وہابیت میں لکھتے ہیں کہ دنیا سے انتقال کرنے والوں سے طلب شفاعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم قبر میں مدفون ان کے اجساد سے طلب شفاعت کریں بلکہ ان کی پاک ارواح سے شفاعت طلب کرتے ہیں جو کہ عالم برزخ میں زندہ ہیں۔ چنانکہ قرآن نے بھی ان کے حیّ اور زندہ ہونے کی تصریح کی ہے۔[71]

شفاعت کا انکار اور اس کا جواب

بعض لوگ شفاعت کا انکار کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کچھ دلائل بھی یش کرتے ہیں؛ ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • شفاعت کا عقیدہ عدل الہی کے اصول کے خلاف ہے اور ظلم و جہالت سے مطابقت رکھتا ہے؛ اس بنیاد پر شفاعت پر ایمان لانا خدا کی توہین سمجھا جائے گا۔[72] البتہ آیت‌الله مکارم شیرازی کے مطابق گنہگار کو سزا دینا عین عدالت ہے اور شفاعت اللہ کی جانب سے بندوں پر ایک قسم کا فضل و احسان ہے، اس احسان کا ایک پہلو خود شفاعت پانے والے میں نمایاں ہوتا ہے اس طرح سے کہ وہ قابل شفاعت ٹھہرتا ہے اور دوسرا پہلو شفاعت کرنے والے کے حوالے سے ہے کہ اس کی عزت و آبرو اور صالح اعمال کی بنیاد پر اس کی شفاعت مورد قبول واقع ہوتی ہے۔[73]
  • شفاعت کا عقیدہ لوگوں کو گناہ اور الہی حدود کو پایمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ وہ اس کی وجہ سے بے پرواہ ہو کر جرات کے ساتھ گناہ انجام دیتا ہے۔[74]

اس اشکال کا جواب یہ کہ اگر مذکورہ اشکال کو مان لیا جائے تو یہ اشکال قرآن کی ان آیات پر بھی وارد ہوسکتا ہے جن میں گناہوں کی بخشش کی بات کی گئی ہے۔ جبکہ سب اس بات کو مانتے ہیں کہ مغفرت و بخشش سے مربوط آیات انسان کو بے پرواہی پر نہیں اکساتی اور نہ ہی حدود الہی سے عبور کا باعث بنتی ہیں۔[75] نیز شفاعت سے متعلق آیات مشیت الہی سے مشروط ہیں اور کوئی بھی اس بات کا یقین نہیں کر سکتا کہ شفاعت کرنے والوں کی شفاعت اس کو بھی شامل ہوجائے۔ اس بنا پر گناہوں کے ارتکاب میں لاپرواہی پیدا نہیں ہوسکتی۔ بلکہ شفاعت کے وعدے کا واحد اثر یہ ہے کہ یہ لوگوں کو امید بخشتا ہے اور رحمت الٰہی سے مایوسی کی حالت سے اسے نجات دلاتا ہے۔[76]

  • شفاعت سے علم خداوند اور ارادہ الہی میں تبدیلی آتی ہے اور یہ ایک محال و ناممکن چیز ہے۔ اس کی وضاحت یہ کہ شفاعت کرنے والا باعث بنتا ہے کہ اللہ اپنے ارادے اور مرضی کے برخلاف کام کرے حالانکہ خدا کے علم اور ارادے میں تبدیلی کا مطلب اس کی ذات میں تبدیلی ہے اور یہ ناممکن ہے اس لیے شفاعت بھی ناممکن ہے۔[77]

اس اعتراض کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اللہ کی جانب سے شفاعت کرنے والے کی شفاعت قبول ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ کے ارادے میں کوئی تبدیلی آجائے؛ بلکه اللہ کو یہ علم ہے کہ فلاں شخص کی مختلف حالتیں ہونگی، اب یہاں اس کی حالت متغیر ہونے کے علم رکھنے سے اللہ کے علم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، بلکہ اللہ کا علم اس شخص کی تبدیلیوں سے منسلک ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر فلاں شخص مختلف اسباب و عوامل کی بنیاد پر ایک حالت کا حامل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی اسی حالت کے مطابق ارادہ کرتا ہے اور اسی شخص میں کبھی کچھ دوسرے عوامل و اسباب کی وجہ سے کوئی اور حالت آجاتی ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی اسی حالت کے مطابق ارادہ کرتا ہے۔ مختلف عوامل و اسباب کی بنا پر حالت کی تبدیلی اور ارادہ الہی کا اسی حالت کے مطابق ہونے کو علم خداوند میں تبدیلی نہیں کہتے ہیں۔[78]

قیامت کے دن شفاعت ملنے کا انکار

بعض نے سورہ بقرہ آیت نمبر 254؛ یَوْمٌ لَا بَیْعٌ فِیهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَ لَا شَفَاعَةٌ...؛[79] "جس دن (قیامت) نہ سودے بازی ہوگی، نہ دوستی (کام آئے گی) اور نہ ہی سفارش"[80] اور دیگر آیات قرآن،[81] سے استناد کرتے ہوئے شفاعت کو صرف عالم دنیا تک محدود سمجھتے ہیں اور قیامت کے دن شفاعت ملنے کا انکار کرتے ہیں۔[82]

جواب: آیت‌ الله سبحانی کے مطابق یہ آیت مطلق طور پر قیامت کے دن شفاعت کی نفی نہیں کررہی؛ بلکہ جملہ "لا خُلۃ" کو مد نظر رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ صرف شفاعت باطل کو رد کیا گیا ہے۔[83] شفاعت باطل میں شفاعت کا طلبگار اپنے اعمال و دینی ذمہ داریوں سے جی چرانے کے بعد شفیع سے صرف دوستی اور اس کی طرف نسبت کی بنیاد پر شفاعت چاہتا ہے۔[84] بعض مفسرین کے مطابق اس آیت سے مطلق شفاعت کی نفی نہیں کی جارہی ہے بلکہ غیر مومن لوگوں کو شفاعت نصیب نہ ہونے کی بات ہورہی ہے۔[85] بعض شیعہ اور اہل سنت منابع حدیثی میں قیامت کے دن شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کے سلسلے میں احادیث بیان ہوئی ہیں۔[86]

کتابیات

وہ قلمی آثار جو شفاعت کے موضوع پر تحریر کیے گئے ہیں:

  • الشفاعۃ فی الکتاب و السنۃ: یہ کتاب 8 ابواب پر مشتمل ہے؛ پہلا باب شفاعت کے بارے میں مسلم دانشوروں کے نظریے کے بارے میں ہے۔ دوسرا باب قرآن میں شفاعت کے عنوان پر ہے، تیسرے باب میں شفاعت کی تعریف اور اس کے اقسام بیان ہوئے ہیں۔ چوتھے باب میں شفاعت کی توجیہات بیان ہوئی ہیں۔ پانچویں باب آثار شفاعت اور چھٹے باب میں ان افراد کا ذکر آیا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اذن شفاعت عطا کیا ہے، ساتویں باب میں طلب شفاعت کے سلسلے میں بحث ہوئی ہے۔ مولف نے شیعہ اور اہل سنت کتب حدیثی میں شفاعت کے سلسلے میں منقول احادیث کو اس کتاب کے آخری باب میں ذکر کیا ہے۔[87]
  • الشفاعۃ: مولف: سید کمال حیدری۔ اس کتاب میں ایک مقدمہ اور چھے ابواب بیان ہوئے ہیں۔ پہلے باب میں شفاعت کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کے ساتھ اس کی قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ دوسرے باب میں آثار شفاعت جبکہ تیسرے باب میں شفاعت سے متعلق کیے گئے اعتراضات اور اشکالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چوتھے باب میں شفاعت پانے والوں کی شرائط اور چھٹے باب میں شفاعت کرنے والوں سے شفاعت طلب کنے کے جواز کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔[88]
  • الشفاعۃ العظمی فی یوم القیامۃ: اس کتاب کا مولف فخر رازی ہیں۔ فخر رازی نے اس کتاب میں شفاعت کی تعریف، اس کا دائرہ، خوارج اور معتزلہ کے شفاعت کے سلسلے میں نظریات کا جائزہ لیا ہے۔ نیز شفاعت کے بارے میں اہل کتاب کا نظریہ پیش کیا ہے۔[89]
  • إثبات الشفاعۃ: مولف: شمس‌ الدین ذہبی، (آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت موّرخ اور عالم رجال)۔ مولف نے اس کتاب میں شفاعت کے بارے میں صحابہ رسولؐ سے منقول احادیث کو جمع کی ہے۔[90]

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. علامه حلی، کشف المراد، 1413ھ، ص416؛ جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص312.
  2. علامه مجلسی، حق الیقین، انتشارات اسلامیة، ج2، ص445.
  3. ابن‌تیمیه، مجموع الفتاوی، 1416ھ، ج1، ص313-314.
  4. شیخ صدوھ، الامالی، 1417ھ، ص370.
  5. ملاحظہ کیجیے: علامه مجلسی، بحار الانوار، 1983ء، ج8، ص29.
  6. ملاحظہ کیجیے: سید مرتضی، شرح جمل العلم و العمل، 1419ھ، ص157؛ علامه مجلسی، بحار الانوار، 1983ء، ج8، ص29؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج3، ص496.
  7. برای نمونه نگاه کنید به قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسة، 1422ھ، ص463.
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، دار الکتب الاسلامیة، ج1، ص273.
  9. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص101؛ شیخ صدوھ، من لایحضره الفقیه، 1413ھ، ج3، ص574.
  10. ملاحظہ کیجیے: بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج9، ص139؛ نسائی، سنن النسائی، 1406ھ، ج2، ص229.
  11. فنی اصل، «شفاعت از دیدگاه صدالمتألهین»، ص110.
  12. فخر رازی، الشفاعة العظمی فی یوم القیامة، 1988ء، ص7-10.
  13. سید مرتضی، رسائل الشریف الرضی، 1405ھ، ج1، ص150؛ شیخ طوسی، التبیان، دار إحیاء التراث العربی، ج1، ص213.
  14. مطهری، مجموعه آثار، 1389ہجری شمسی، ج1، ص254.
  15. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، دار الکتب الاسلامیة، ج1، ص271-272.
  16. خمینی، شرح چهل حدیث، 1380ہجری شمسی، ص150؛ مطهری، عدل الهی، 1391ہجری شمسی، ص226-230؛ سبحانی، الشفاعة فی الکتاب و السنة، قم، ص29-30.
  17. مطهری، عدل الهی، 1391ہجری شمسی، ص226-230؛ سبحانی، الشفاعة فی الکتاب و السنة، قم، ص29-30.
  18. سبحانی، استفتائات، 1389ہجری شمسی، ج2، ص15.
  19. علامه مجلسی، بحار الانوار، 1983ء، ج102، ص247-249.
  20. مطهری، عدل الهی، 1391ہجری شمسی، ص235.
  21. ملاحظہ کیجیے: شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص79؛ سید مرتضی، شرح جمل العلم و العمل، 1419ھ، ص156؛ جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص312.
  22. سوره اسراء، آیه 79.
  23. ملاحظہ کیجیے: طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص284؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج15، ص97؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج21، ص387.
  24. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص79-80.
  25. ملاحظہ کیجیے: شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص79-80؛ علامه مجلسی، بحار الانوار، 1983ء، ج8، ص41-42.
  26. سوره مریء، آیه 87.
  27. شیخ طوسی، التبیان، ج7، ص150.
  28. ملاحظہ کیجیے: شیخ طوسی، التبیان، ج7، ص150؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص452؛ طباطبایی، المیزان، انتشارات اسماعیلیان، ج14، ص111.
  29. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص452؛ طباطبایی، المیزان، انتشارات اسماعیلیان، ج14، ص111.
  30. شیخ طوسی، التبیان، ج7، ص150.
  31. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج3، ص499.
  32. قمی، تفسیر قمی، 1404ھ، ج2، ص57.
  33. ملاحظہ کیجیے: حویزی، نور الثقلین، 1415ھ، ج3، ص361.
  34. ملاحظہ کیجیے: طبرسی، مجمع البیان، 1413ھ، ج9، ص296؛ طباطبایی، المیزان، انتشارات اسماعیلیان، ج19، ص40؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج28، ص256.
  35. نهج البلاغه، تصحیح صبحی صالح، خطبه 176، ص252.
  36. شیخ صدوھ، الخصال، 1362ہجری شمسی، ج1، ص156؛ احمد بن حنبل، مسند احمد، 1421ھ، ج34، ص90.
  37. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص101.
  38. حر عاملی، وسائل الشیعه، 1416ھ، ج6، ص169؛ ترمذی، سنن الترمذی، 1395ھ، ج5، ص171.
  39. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص101.
  40. ملاحظہ کیجیے: نهج البلاغه، تصحیح صبحی صالح، حکمت 371، ص540.
  41. بهبهانی، شفاعت، 1392ہجری شمسی، ص33.
  42. ملاحظہ کیجیے: طباطبایی، المیزان، انتشارات اسماعیلیان، ج14، ص277.
  43. ملاحظہ کیجیے: علامه مجلسی، بحار الانوار، 1983ء، ج8، ص34.
  44. ملاحظہ کیجیے: شیخ صدوھ، الاعتقادات، 1414ھ، ص66.
  45. ملاحظہ کیجیے: شیخ صدوھ، من لایحضره الفقیه، 1413ھ، ج3، ص574.
  46. ملاحظہ کیجیے: شیخ صدوھ، من لایحضره الفقیه، 1413ھ، ج3، ص574؛ شیخ صدوھ، الاعتقادات، 1414ھ، ص66.
  47. سید مرتضی، شرح جمل العلم و العمل، 1419ھ، ص157؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج3، ص496–497.
  48. ملاحظہ کیجیے: قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسة، 1422ھ، ص463؛ سید مرتضی، شرح جمل العلم و العمل، 1419ھ، ص156؛ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، ج3، ص206.
  49. ملاحظہ کیجیے: قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسة، 1422ھ، ص464؛ جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص313.
  50. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج3، ص496.
  51. برای نمونه ملاحظہ کیجیے: ابن‌ماجه، سنن ابن‌ماجه، دار إحیاء الکتب العربیة، ج2، ص1440.
  52. ملاحظہ کیجیے: شیخ صدوھ، الخصال، 1362ہجری شمسی، ج2، ص355.
  53. شیخ صدوھ، الاعتقادات، 1414ھ، ص66؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج3، ص496.
  54. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج6، ص400.
  55. برقی، المحاسن، 1371ھ، ج1، ص186؛ علامه مجلسی، بحار الانوار، 1983ء، ج25، ص268–269.
  56. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج4، ص60؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج7، ص11.
  57. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج5، ص56؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، دار الکتب الاسلامیة، ج17، ص127.
  58. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج22، ص101.
  59. شیخ طوسی، التبیان، دار إحیاء التراث العربی، ج9، ص429-430.
  60. سوره زمر، آیه 44.
  61. سوره سجده، آیه 4.
  62. سبحانی، الشفاعة فی الکتاب و السنة، قم، ص19 و 58.
  63. ملاحظہ کیجیے: علامه مجلسی، بحار الانوار، 1983ء، ج8، ص48؛ بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج6، ص86؛ سیوطی، درالمنثور، دار الفکر، ج5، ص377.
  64. ملاحظہ کیجیے: طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج15، ص97؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص284؛ قرطبی، تفسیر قرطبی، 1384ھ، ج10، ص309.
  65. ملاحظہ کیجیے: طباطبایی، المیزان، انتشارات اسماعیلیان، ج1، ص156 و ج17، ص270.
  66. ملاحظہ کیجیے: ابن‌تیمیه، مجموع الفتاوی، 1416ھ، ج1، ص159؛ ابن‌عبدالوهاب، الرسائل الشخصیة، جامعة الإمام محمد بن سعود، ص154؛ منجد، موقع الإسلام سؤال و جواب، 1430ھ، ج1، ص938.
  67. ابن‌تیمیه، مجموع الفتاوی، 1416ھ، ج1، ص161-162.
  68. منجد، موقع الإسلام سؤال و جواب، 1430ھ، ج1، ص938.
  69. حسینی میلانی، الرد علی ابن‌تیمیة فی الشفاعة و الزیارة و الاستغاثة، 1435ھ، ص65-66.
  70. ملاحظہ کیجیے: عسقلانی، فتح الباری، 1379ھ، ج2، ص495.
  71. سبحانی، آیین وهابیت، جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، ص283-284.
  72. کسروی، خدا با ماست؛ بخوانند و داوری کنند، 1323ہجری شمسی، ص32-33.
  73. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج6، ص533.
  74. برای نمونه نگاه کنید به قلمداران، راه نجات از شر غلات، ص286.
  75. طباطبایی، المیزان، انتشارات اسماعیلیان، ج1، ص165؛ مطهری، عدل الهی، 1391ہجری شمسی، ص241.
  76. طباطبایی، المیزان، انتشارات اسماعیلیان، ج1، ص165؛ مطهری، عدل الهی، 1391ہجری شمسی، ص241.
  77. ملاحظہ کیجیے: رشیدرضا، تفسیر المنار، 1990ء، ج1، ص255؛ قلمداران، راه نجات از شر غلات، ص362.
  78. طباطبایی، المیزان، انتشارات اسماعیلیان، ج1، ص164-165؛ حیدری، الشفاعة، 1425ھ، ص161-162.
  79. سوره بقره، آیه 254.
  80. مکارم شیرازی، ترجمه قرآن کریء، 1380ہجری شمسی، ص42.
  81. سوره دخان، آیه 41.
  82. ملاحظہ کیجیے: قلمداران، راه نجات از شر غلات، ص294-295؛ رشیدرضا، تفسیر المنار، 1990ء، ج1، ص255.
  83. سبحانی، منشور جاوید، 1388ہجری شمسی، ج8، ص210.
  84. مدرسی، تفسیر هدایت، 1377ہجری شمسی، ج7، ص91.
  85. ملاحظہ کیجیے: شیخ طوسی، التبیان، دار إحیاء التراث العربی، ج2، ص306؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج2، ص156.
  86. ملاحظہ کیجیے: علامه مجلسی، بحار الانوار، 1983ء، ج8، ص34-37؛ مسلء، صحیح مسلء، دار إحیاء التراث العربی، ج1، ص188-191.
  87. سبحانی، الشفاعة فی الکتاب و السنة، قم، ص93.
  88. حیدری، الشفاعة، 1425ھ، ص433-439.
  89. فخر رازی، الشفاعة العظمی فی یوم القیامة، 1988ء، ص4-5 و 7-10.
  90. ذهبی، اثبات الشفاعة، 1420ھ، ص69-70.

مآخذ

  • قرآن۔
  • نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، مرکز البحوث الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
  • ابن‌عبدالوہاب، محمد، الرسائل الشخصیۃ، ریاض، جامعۃ الإمام محمد بن سعود، بی‌تا۔
  • ابن‌تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مجموع الفتاوی، مدینہ، مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف، 1416ھ۔
  • ابن‌ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن‌ماجہ، بیروت، دار إحیاء الکتب العربیۃ، بی‌تا۔
  • احمد بن حنبل، احمد بن محمد، مسند احمد، بی‌جا، مؤسسۃ الرسالۃ، 1421ھ۔
  • الہی قمشہ‌ای، مہدی، ترجمہ قرآن کریم، قم، نشر فاطمۃ الزہرا(س)، بی‌تا۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق محمد زہیر بن ناصر الناصر، دمشھ۔ دار طوق النجاۃ، 1422ھ۔
  • برقی، احمد بن محمد، المحاسن، قم، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ دوم، 1371ھ۔
  • بہبہانی، عبداللہ، شفاعت، قم، مجمع جہانی اہل بیت(ع)، 1392ہجری شمسی۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، مصر، شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی، چاپ دوم، الحلبی، 1395ھ۔
  • جرجانی، میر سیدشریف، شرح المواقف، قم، الشریف الرضی، 1325ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1416ھ۔
  • حسینی میلانی، سیدعلی، الرد علی ابن‌تیمیۃ فی الشفاعۃ و الزیارۃ و الاستغاثۃ، قم، نشر الحقائق، 1435ھ۔
  • حویزی، عبد علی بن جمعۃ، نور الثقلین، تحقیق سیدہاشم رسولی محلاتی، قم، اسماعیلیان، چاپ چہارم، 1415ھ۔
  • حیدری، سیدکمال، الشفاعۃ، قم، دار فراقد، 1425ھ۔
  • خمینی، سید روح‌اللہ، شرح چہل حدیث، قم، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1380ہجری شمسی۔
  • ذہبی، شمس‌الدین، اثبات الشفاعۃ، ریاض، مکتبۃ اضواء السلف، 1420ھ۔
  • رشیدرضا، محمد، تفسیر المنار، بی‌جا، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1990ء۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1388ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، آیین وہابیت، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، بی‌تا۔
  • سبحانی، جعفر، استفتائات، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1389ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، الشفاعۃ فی الکتاب و السنۃ، قم، بی‌نا، بی‌تا۔
  • سبحانی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، بی‌تا۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، رسائل الشریف الرضی، قم، دار القرآن الکریم، 1405ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، شرح جمل العلم و العمل، تہران، دار الأسوۃ ، 1419ھ۔
  • سیوطی، جلال‌الدین، الدر المنثور، بیروت، دار الفکر، بی‌تا۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، قم، مؤسسۃ البعثۃ، 1417ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1362ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی التفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات اسماعیلیان، بی‌تا۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1415ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان، بیروت، دار المعرفۃ، 1412ھ۔
  • عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، بیروت، دار المعرفۃ، 1379ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1413ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1983ء۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، حق الیقین، تہران، انتشارات اسلامیۃ، بی‌تا۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، الشفاعۃ العظمی فی یوم القیامۃ، قاہرہ، المکتبۃ الأزہریۃ للتراث 1988ء۔
  • فنی اصل، عباس، «شفاعت از دیدگاہ صدالمتألہین»، اندیشہ دینی، شمارہ 33، سال 1388ہجری شمسی۔
  • قاضی عبدالجبار، عبدالجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسۃ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • قرطبی، شمس‌الدین، تفسیر قرطبی، قاہرہ، دار الکتب المصریۃ، 1384ھ۔
  • قلمداران، حیدرعلی، راہ نجات از شر غلات، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دار الکتاب، چاپ سوء، 1404ھ۔
  • کسروی، احمد، خدا با ماست؛ بخوانند و داوری کنند، تہران، بی‌نا، 1323ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
  • مدرسی، سید محمدتقی، تفسیر ہدایت، مشہد، آستان قدس رضوی، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
  • مسلم، ابن‌حجاج نیشابوری، صحیح مسلم، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • مطہری، مرتضی، عدل الہی، قم، انتشارات صدرا، 1391ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ نہم، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، بی‌تا۔
  • منجد، محمدصالح، موقع الإسلام سؤال و جواب، بی‌جا، بی‌نا، 1430ھ۔
  • نسائی، احمد بن شعیب، سنن النسائی، تحقیق عبد الفتاح أبو غدۃ، حلب، مکتب المطبوعات الإسلامیۃ، 1406ھ۔