حفظ قرآن کا مطلب قرآن کو زبانی یاد کرنا ہے۔ اس کام کے لئے احادیث میں بہت زیادہ اجر و ثواب کا وعدہ دیا گیا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ سے مروی ایک حدیث میں لوگوں کے درمیان حافظ قرآن کے مرتبے کو امت کے درمیان خود رسول اکرمؐ کے مرتبے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ تاریخی اور حدیثی منابع کے مطابق پہلے حافظ قرآن خود حضرت محمدؑ تھے۔ پیغمبر اکرمؐ کے دور میں موجود حافظ قرآن کی تعداد معلوم نہیں۔ اس کے باوجود بعض احادیث کے مطابق میں 70 سے زیادہ حافظ قرآن موجود تھے۔

قرآن حفظ کرنے کے مختلف طریقے متعارف کئے گئے ہیں ان میں بصری طریقہ حفظ کو سب سے بہترین طریقہ قرار دیا جاتا ہے۔ مختلف اسلامی ممالک من جملہ ایران، ملائیشیا، مصر، اردن، لیبیا اور سعودی عرب میں سالانہ حفظ قرآن کے مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ سنہ 1390ہجری شمسی کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ‌ ای نے ایران کے ثقافتی امور کے ذمہ داروں کو 10 میلین حافظ قرآن کی تربیت کرنے کا حکم دیا۔

تعریف

حفظ قرآن کا مطلب قرآنی آیات کو زبانی یاد کرنا ہے۔[1]‌ بعض محققین کے مطابق تاریخی اور حدیثی شواہد کی بنا پر "حفظ قرآن" کی اصطلاح دوسری صدی ہجری کے وسط سے مذکورہ معنی میں استعمال ہوتے آ رہی ہے۔[2]دایرۃ المعارف تشیع نامی کتاب میں مقالہ حفظ قرآن کے مطابق صدر اسلام میں قرآن حفظ کرنے والوں کو "جَماع القرآن"، "قُرّاء القرآن" اور "حَمَلۃ القرآن" جیسی تعابیر سے یاد کرتے تھے۔[3]‌ لفظ "حفظ" عربی زبان میں حفاظت کرنے، پہرہ دینے اور زبانی یاد کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔[4]

علوم قرآن کی اصطلاح میں قرآن کو تجوید، ترتیل اور دیگر قواعد کی رعایت کرتے ہوئے پڑھنے والے کو "حافظ قرآن" کہا جاتا ہے؛ اسی طرح سُنَّت پیغمبرؑ اور احادیث کے راویوں اور مشایخ کے طبقات سے آگاہ شخص کو بھی "حافظ" کہا جاتا ہے۔[5]


ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ‌ای

خدا کی قسم کئی مرتبہ میں نے اپنے آپ سے کہا ہے کہ اگر ممکن ہو تو اپنا سب کچھ دے کر قرآن کو حفظ کر لوں گا؛ لیکن افسوس کہ یہ امکان پذیر نہیں ہے۔ اس عمر میں اب میں قرآن کو حفظ نہیں کر سکتا ہوں۔ لیکن آپ جوان ہیں، آپ لوگ ابھی چھوٹے ہیں اور قرآن کو حفظ کر سکتے ہیں

آیت اللہ خامنہ ای، «نشانہ را بہ خاطر بسپار»، وبگاہ دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای

اہمیت

بعض محققین سورہ عَلَق کی ابتدائی آیات میں قرآن پڑھنے کے حکم "اقراء" کو مد نظر رکھتے ہوئے حفظ قرآن کو قرائت کا پہلا اور کتابت قرآن کو اس کا دوسرا مرحلہ قرار دیتے ہیں۔[6] اس بنا پر رامیار اپنی کتاب تاریخ قرآن میں پیغمبر اکرمؐ کو قرآن کا پہلا "حافظ" قرار دیتے ہیں۔[7] معاصر مفسر قرآن علامہ طباطبائی سورہ احزاب کی آیت نمبر 34 میں ذکر سے مراد حفظ قرآن لیتے ہیں۔[8] اسی طرح طَبْرسی سورہ قمر کی آیت نمبر 17 میں قرآن کو ذکر کے لئے آسان کرنے سے مراد بھی "حفظ قرآن" لیتے ہیں۔[9]

صدر اسلام میں حفظ قرآن ایک قسم کی فضیلت اور برتری شمار کیا جاتا تھا۔ اسی بنا پر جنگ اُحُد میں شہید ہونے والے شہید حافظوں کو پیغمبر اکرمؐ کے چچا حمزہ کے نزدیک دفن کیا ہے۔[10]

شہید ثانی (متوفی: 965ھ) کے مطابق گذشتہ علما اس بات کے معتقد تھے کہ "حفظ قرآن" تمام دوسرے علوم پر مقدّم ہے۔ وہ علم فقہ اور حدیث کو صرف ان افراد کے لئے تعلیم دیتے تھے جو قرآن کو حفظ کر چکے ہوتے تھے۔[11]

لیبیا، اردن، ملائیشا، سعودی عرب اور ایران جیسے مختلف اسلامی ممالک میں حفظ قرآن کے سالانہ مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔[12]

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ‌ای نے سنہ 1390ہجری شمسی کو ملک کے ثقافتی امور کے ذمہ داروں کو ایک کروڑ حافظ قرآن کی تربیت کا حکم دیا۔[13] اسلامی جمہوریہ ایران میں حفظ قرآن کے قومی پروجیکٹ کے عہدیداروں میں سے ایک مہدی قراشیخلو کے مطابق اپریل 2021 ء میں ایران میں قرآن حفظ کرنے والوں کی تعداد کے صحیح اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔[14] اس کے باوجود ایران میں قرآن حفظ کرنے والوں کی تعداد تقریبا 20 سے 30 ہزار کے درمیان اندازہ لگایا جاتا ہے۔[15]

حفظ قرآن کی فضیلت

شیعہ مشہور محدث کُلَینی نے حفظ قرآن کی فضیلت سے مربوط احادیث کو ایک علیحدہ باب میں جمع کیا ہے۔[16] بعض احادیث کے مطابق حافظ قرآن کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ وہ یہ گمان کرے کہ خدا نے جو چیز اسے عطا کی ہے (یعنی حفظ قرآن) اس سے بہتر چیز کسی اور کو دیا ہے۔[17] پیغمبر اکرمؐ قرآن حفظ کرنے والوں کو امت کے برجستہ افراد میں شمار کرتے ہوئے ان کے مقام کو انبیاء اور علماء کے بعد قرار دیتے ہیں۔[18] آپؐ کے مطابق حاملان قرآن کی سرزنش یا اہانت کرنے والے خدا کی لعنت اور نفرین کا مستحق قرار پائیں گے۔[19] قیامت کے دن حافظ قرآن کی شفاعت ان کے خاندان کے دس ایسے افراد کے بارے میں قبول کی جائے گی جو دوزخ کے مستحق قرار پائے ہوں۔[20]

کلینی کے توسط سے امام صادقؑ سے نقل ہونے والی حدیث کے مطابق حفظ شدہ قرآنی آیات کی تعداد کے برابر انسان کو بہشت میں درجات دئے جائیں گے اور قیامت کے دن حافظ قرآن سے کہے گا قرآن پڑھو اور ہر آیت کی تلاوت کے ساتھ ایک درجہ اوپر جاؤ۔ بہشت کے سب سے اعلی درجہ حاملان قرآن کے لئے ہوگا۔[21]شیعہ فلسفی اور مفسر قرآن آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق درج بالا درجات اور فضائل سے بہرہ مند ہونے کے لئے قرآنی آیات کی ظاہری تلاوت اور حفظ کافی نہیں ہے؛ بلکہ دوسری احادیث کے مطابق ان آیات پر عمل کرنا اس کے عمل کی قبولیت کے لئے اصلی شرط ہے۔ آپ کا عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن انسان صرف ان آیات کو پڑھنے کی صلاحیت رکھے گا جن پر اس نے دنیا میں عمل کیا ہو۔[22]

ان تمام احادیث کے باوجود امام صادقؑ قرآنی آیات کو مصحف میں دیکھ کر پڑھنے کو زبانی پڑھنے سے بہتر اور زیادہ ثواب کا مستحق قرار دیتے ہیں۔ جس کی علت قرآنی آیات پر نگاہ کرنے کی وجہ سے آنکھوں کا قرآن سے بہرہ مند ہونا قررا دیتے ہیں۔[23]

حفظ کردہ آیات کی فراموشی

بعض فقہاء کے مطابق قرآن کو حفظ کرنا مستحب ہے۔[24] لیکن بعض احادیث میں ایسے اشخاص کے لئے دردناک عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے جو قرآن یا اس کے کسی سورت کو حفظ کرنے کے بعد فراموش کر دے۔ اس بنا پر ان احایث سے استناد کرتے ہوئے بعض فقہاء اس کام کو حرام[25] یا مکروہ یا حفظ کرنے کے بعد ان کی تلاوت جاری رکھنے کو اس وقت تک واجب قرار دیتے جبتک ان کے فراموش ہونے کا خطرہ ختم ہو جائے۔[26] دوسری طرف سے بعض فقہاء معارض احادیث سے استناد کرتے ہوئے مذکورہ احادیث میں نسیان اور فراموشی سے مراد قرآن کے ظاہری آیات کو حفظ کرنے کے بعد فراموش کرنا نہیں بلکہ ان کے مطابق عمل نہ کرنا یا ان کی ہدایت پر عمل پیرا نہ ہونا قرار دیتے ہیں اس انداز میں کہ یہ فراموشی بے اعتنایی کی وجہ سے ہو اور قرآن کے مہجور ہونے کا سبب بنے۔[27]

حفظ قرآن کے مختلف طریقے

حفظ قرآن کے مختلف طریقے رائج ہیں جن میں سمعی، تصوراتی اور بصری طریقہ حفظ شامل ہیں۔[28] حفظ قرآن کے طریقوں کی تعداد 20 سے زیادہ بیان کی گئی ہے[29] ان میں آیات کو بصری طریقے سے حفظ کرنے کو سب سے بہترین طریقہ مانے جاتے ہیں۔[30] اس طریقے میں قرآنی آیات کے مطالعے کے بعد متعلقہ صفحے پر ان آیات کی جغرافیایی حیثیت، کلمات اور حروف کے طرز تحریر وغیرہ کو دقیق طور پر ذہنشین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔[31]

حافظ قرآن کی تعداد

محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ صدر اسلام میں حافظ قرآن کی تعداد بہت زیادہ تھی، لیکن ان کی صحیح تعداد کا اندازہ نہیں ہے۔[32] سیوطی اس ادعا کے اثبات میں جنگ اُحُد، بئر مَعونہ اور جنگ یمامہ کے شہداء سے استناد کرتے ہیں۔[33] ان کے مطابق مورخین اس بارے میں کہتے ہیں کہ جنگ اُحد میں شہداء کی تعداد 74 تھی جن میں بہت سارے حافظ موجود تھے۔ اسی طرح ہجرت کے چوتھے سال صفر کے مہینے میں "بئر معونہ" کا واقعہ رونما ہوا جس میں 40 یا 70 قاری یا حافظ قرآن شہید ہوئے۔ اسی طرح پیامبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد "جنگ یمامہ" میں 1200 مسلمان مارے گئے جن میں تقریبا 450 یا 700 افراد صحابہ اور حاملان قرآن تھے۔[34]

سیوطی مردوں میں امام علیؑ، اُبَیّ بن کَعب، ابوالدَرْداء، مُعاذ بن جبل، زید بن ثابت، عبداللہ بن مسعود اور خواتین میں حضرت فاطمہ(س)، فِضّہ، عایشہ اور حَفْصہ کو عصر پیغمبر اکرمؐ کے مشہور حافظ قرآن میں شمار کرتے ہیں۔[35]

بعض شواہد کی بنا پر حافظ شیرازی کو حافظ قرآن قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کا تخلص "حافظ" اسی مناسبت سے رکھا گیا تھا۔[36] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ کربلایی کاظم ساروقی ایران کے شہر ساروق کا ایک انپڑھ اور بوڑھا کسان تھا جو زکات ادا کرنے اور حلال کمائی میں زیادہ محطاط ہونے کی بنا پر معجزانہ طور پر حافظ قرآن بن گیا تھا۔[37]

شیعہ عالم دین ابوالقاسم خَزْعلی (متوفی: 1394ہجری شمسی)، اور محمد تقی بُہلول (متوفی: 1384ہجری شمسی) بھی قرآن کے مشہور حفاظ میں شمار ہوتے ہیں۔[38]

مونوگراف

  • معجم حفّاظ القرآن عَبْر التاریخ، تحریر: محمد سالم مُحَیسِن: اس کتاب میں قرآن کے دسیوں قراء اور حافظ کی حالات زندگی بیان کی گئی ہے۔
  • معرفۃ القراء الکبار علی الطبقات و الاعصار یا طبقات القراء، تحریر: شمس‌ الدین محمد بن احمد بن عثمان ذہبی: اس کتاب کے مصنف نے قرآن کے قاریوں اور حفاظ کی طبقہ‌ بندی کی ہیں۔
  • اصول و روش‌ہای حفظ قرآن، تحریر: سید علی میرداماد نجف‌آبادی: یہ کتاب انتشارات مرکز بین‌ المللی ترجمہ و نشر المصطفی کے توسط سے شایع ہوئی ہے۔ اس کتاب کی پہلی فصل میں حفظ قرآن کی اہمیت اور الفاظ کی شناخت کی ضرورت پر بحث کی گئی ہے، فصل دوم میں حفظ کے اصول و مقدمات جبکہ تیسری فصل میں حفظ کے مختلف طریقوں اور حفظ شدہ مواد کی تثبیت کے لئے تکرار کی اہمیت پر بحث کی ہے۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. حسینی، «حفظ قرآن»، ص385۔
  2. حسینی، «حفظ قرآن»، ص385۔
  3. حسینی، «حفظ قرآن»، ص385۔
  4. مقری، مصباح المنیر، ذیل واژہ حفظ؛ شریف حسین، الافصحاح فی فقہ اللغہ، ذیل واژہ الحِفْظُ۔
  5. حسینی، «حفظ قرآن»، ص385۔
  6. رامیار، تاریخ قرآن، 1346، ص221۔
  7. رامیار، تاریخ قرآن، 1346، ص212و221۔
  8. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1370ہجری شمسی، ج16، ص313۔
  9. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج9، ص316۔
  10. زرنگار، حفظ قرآن، 1388ہجری شمسی، ص585۔
  11. شہید ثانی، منیۃ المرید، 1409ھ، ص 263۔
  12. «نگاہی بہ مسابقات بین‌المللی قرآن در جہان/ جایگاہ ایران کجاست؟»، خبرگزای بین‌المللی قرآن (ایکنا)۔
  13. «بیانات در دیدار قاریان و حافظان و اساتید قرآنی»، وبگاہ دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای۔
  14. «ہیچ آمار رسمی از تعداد حافظان قرآن ارائہ نشدہ است»، خبرگزاری تقریب۔
  15. «تعداد حافظان قرآن؛ فاصلہ بسیار از سند چشم‌انداز»، خبرگزاری جمہوری اسلامی ایران۔
  16. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص603۔
  17. محدث نوری، مستدرک الوسایل، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، ج4، ص237۔
  18. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج89، ص18و19۔
  19. متقی الہندی، کنز العمال، 1401ھ، ج1، ص523۔
  20. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج1، ص45۔
  21. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص603۔
  22. «انسان در قیامت ہر آیہ‌ای را نمی‌تواند بخواند»، خبرگزاری فارس۔
  23. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص613و614۔
  24. «جایگاہ حفظ قرآن کریم در روایات»، پایگاہ اطلاع‌رسانی راسخون۔
  25. حر عاملی، تفصیل وسائل الشیعۃ إلی تحصیل مسائل الشریعہ، ج6، ص195؛ «جایگاہ حفظ قرآن کریم در روایات»، پایگاہ اطلاع‌رسانی راسخون۔
  26. ابن‌فہد حلّی، عدۃ الداعی و نجاح الساعی، 1407ھ، ج1، ص291۔
  27. «فراموش کردن قرآن پس از حفظ آن»، وبگاہ حدیث نت۔
  28. «معرفی 7 تا از روش‌ہای حفظ قرآن کریم + سریعترین روش حفظ قرآن»، وبگاہ مؤسسہ قرآنی علیین۔
  29. موگہی، 20 روش حفظ قرآن، ص3۔
  30. «معرفی 7 تا از روش‌ہای حفظ قرآن کریم + سریعترین روش حفظ قرآن»، وبگاہ مؤسسہ قرآنی علیین۔
  31. «معرفی 7 تا از روش‌ہای حفظ قرآن کریم + سریعترین روش حفظ قرآن»، وبگاہ مؤسسہ قرآنی علیین۔
  32. رامیار، «حافظان قرآن در زمان رسول خداؑ»۔، پایگاہ اطلاع‌رسانی راسخون۔
  33. سیوطی، الاتقان، 1416ھ، ج1، ص193۔
  34. سیوطی، الاتقان، 1416ھ، ج1، ص193۔
  35. سیوطی، الاتقان، 1416ھ، ج1، ص193۔
  36. سعیدی، «قرائت قرآن در چہاردہ روایت و تضمین حافظ»، ص172، 173۔
  37. فعال عراقی، کربلایی کاظم ساروقی، ص1868۔
  38. «یادی از مرحوم آیت‌اللہ خزعلی؛ عالمی کہ حافظ قرآن بود»، خبرگزاری بین‌المللی قرآن؛ عبدالوہابی، «محمد تقی بہلول گنابادی (شیخ بہلول یا علامہ بہلول)»، وبگاہ فرہیختگان تمدن شیعی۔

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • ابن‌فہد حلی، احمد بن شمس‌الدین محمد، عدۃ الداعی و نجاح الساعی، بیروت، دار الکتاب العربی، 1407ہجری شمسی۔
  • «انسان در قیامت ہر آیہ‌ای را نمی‌تواند بخواند»، خبرگزاری فارس، تاریخ درج مطلب: 15شہریور1397ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 8مہر1402ہجری شمسی۔
  • «بیانات در دیدار قاریان و حافظان و اساتید قرآنی»، وبگاہ دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای، تاریخ درج مطلب: 11مرداد 1390ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 8 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • «تعداد حافظان قرآن؛ فاصلہ بسیار از سند چشم‌انداز»، خبرگزاری جمہوری اسلامی ایران، تاریخ درج مطلب: 26بہمن1392ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 4مہر1402ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعۃ إلی تحصیل مسائل الشریعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، بی‌تا۔
  • حسینی، سید محمد، «حفظ قرآن»، دایرۃ المعارف تشیع (ج6)، نشر شہید سعید محبی، 1380ہجری شمسی۔
  • رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، انتشارات امیرکبیر، 1369ہجری شمسی۔
  • رامیار، محمود، «حافظان قرآن در زمان رسول خدا ؑ»، پایگاہ اطلاع‌رسانی راسخون، تاریخ درج مطلب: 7مہر1395ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 8مہر1402ہجری شمسی۔
  • زرنگار، احمد، حفظ قرآن، در دانشنامہ جہان اسلام، تہران، مؤسسہ فرہنگی ہنری کتاب مرجع، 1388ہجری شمسی۔
  • سعیدی، علی، «قرائت قرآن در چہاردہ روایت و تضمین حافظ»، علوم اسلامی، ش12، 1387ہجری شمسی۔
  • سیوطی، جلال‌الدین، الاتقان فی علوم القرآن، لبنان، دار الفکر، 1416ھ۔
  • شریف حسین، موسی و عبد الفتّاح صعیدی، الافصحاح فی فقہ اللغہ، بیروت، مکتب الإعلام الإسلامی، 1410۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، منیۃ المرید، قم، مکتب الإعلام الإسلامی، 1409ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1370ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1415ھ۔
  • عبدالوہابی، مرتضی، «محمد تقی بہلول گنابادی (شیخ بہلول یا علامہ بہلول)»، وبگاہ فرہیختگان تمدن شیعی، تاریخ درج مطلب: 12 مہر 1394ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 30 آبان 1402ہجری شمسی۔
  • فعال عراقی، حسین، کربلایی کاظم ساروقی، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، دوستان-ناہید، 1377ہجری شمسی۔
  • قمی، شیخ عباس، نفس المہموم، ترجمہ کمرہ‌ای، تہران، چاپ اسلامیہ، 1376ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، دار الکتب الإسلامیہ، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، 1403ہجری شمسی۔
  • محدث نوری، حسین، مستدرک الوسایل، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، بی‌تا۔
  • متقی ہندی، علی بن حسام، کنز العمال فی سنن الأقوال و الأفعال، بیروت، مؤسسۃ الرسالہ، 1401ھ۔
  • مقری، محمد بن احمد، مصباح المنیر فی شرح غیریب الکبیر للرافعی، قم، انتشارات دارالہجرہ، 1397ہجری شمسی۔
  • موگہی، عبدالرحیم، 20 روش حفظ قرآن، در مجلہ شمیم یاس، شمارہ 20، آبان 1383ہجری شمسی۔
  • «فراموش کردن قرآن پس از حفظ آن»، وبگاہ حدیث نت، تاریخ مشاہدہ: 8مہر1402ہجری شمسی۔
  • «معرفی 7 تا از روش‌ہای حفظ قرآن کریم + سریعترین روش حفظ قرآن»، وبگاہ مؤسسہ قرآنی علیین، تاریخ مشاہدہ: 8مہر1402ہجری شمسی۔
  • «نگاہی بہ مسابقات بین‌المللی قرآن در جہان/ جایگاہ ایران کجاست؟»، خبرگزای بین‌المللی قرآن (ایکنا)، تاریخ درج مطلب: 4خرداد1393ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 8مہرماہ1402ہجری شمسی۔
  • «یادی از مرحوم آیت‌اللہ خزعلی؛ عالمی کہ حافظ قرآن بود»، خبرگزاری بین‌المللی قرآن، تاریخ مشاہدہ: 10 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • «ہیچ آمار رسمی از تعداد حافظان قرآن ارائہ نشدہ است»، خبرگزاری تقریب، تاریخ درج مطلب: 5 اردیبہشت 1400ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ:7 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • «نشانہ را بہ خاطر بسپار»، وبگاہ دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای، تاریخ درج مطلب: 4 مہر 1387ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 30 آبان 1402ہجری شمسی۔