آیت فیئ

ویکی شیعہ سے
(سورہ حشر آیت نمبر۷ سے رجوع مکرر)
آیہ فیئ
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیہ فیئ
سورہحشر
آیت نمبر7
پارہ29
صفحہ نمبر546
شان نزولغزوہ بنی‌ نضیر
محل نزولمدینہ
موضوعفقہی
مضمونفیئ کے اموال میں پیغمبر اکرمؐ کے حصے کے بارے میں


آیہ فیئ (سورہ حشر: 7)، فیئ میں شامل اموال کے مصرف کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ "فیئ" ان اموال کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ میں آجائے۔ یہ آیت غزوہ بنی‌ نضیر کے موقع پر نازل ہوئی۔ بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ اگرچہ یہ آیت غزوہ بنی نضیر سے حاصل ہونے والی غنیمت کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لیکن یہ حکم عام ہے اور اس میں وہ تمام غنائم شامل ہیں جو بغیر جنگ مسلمانوں کے ہاتھ آجائے۔ بعض مفسرین کے نزدیک آیت خمس کے ذریعے یہ آیت منسوخ ہوئی ہے اور اس کے احکام آیت خمس کے نزول سے پہلے سے مربوط ہیں۔

اس آیت کے مطابق فیئ کو چھ موارد میں صرف کیا جا سکتا ہے جو یہ ہیں: خدا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ذو القربی، ایتام، غریب و مسکین اور راستے میں تنگدست ہونے والا مسافر

متن اور ترجمہ

مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ‎


تو اللہ نے ان بستیوں والوں کی طرف سے جو مال بطور فئے اپنے رسول(ص) کو دلوایا ہے وہ بس اللہ کا ہے اور پیغمبر(ص) کا اور(رسول(ص) کے) قرابتداروں (ان کے) یتیموں اور (ان کے) مسکینوں اور مسافروں کا ہے تاکہ وہ مالِ فئے تمہارے دولتمندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور جو کچھ رسول(ص) تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ بےشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (سورہ حشر، آیت نمبر 7)


شأن نزول

آیہ فیئ اور اس سے پہلی والی آیات غزوہ بنی‌ نضیر کے بارے میں ہیں۔ بنی‌ نضیر ایک یہودی قبیلہ تھا جو مدینہ کے قریب کوہ نضیر کے اطراف میں آباد تھے، مسلمانوں کے ساتھ صلح اور میثاق نامہ کی خلاف ورزی کے بعد مسلمانوں نے اس قبیلے کا محاصرہ کیا۔ پیغمبر اکرمؐ نے ان کو محل سکونت چھوڑنے کے لئے کچھ دنوں کی مہلت دی۔ یہ آیت اس قبیلے سے حاصل ہوے والے غنائم کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[1]

کہا جاتا ہے کہ جب بنی نضیر کے گھر، باغ اور زرعی زمینیں مسلمانوں کے ہاتھ آگئیں تو بعض اصحاب نے پیغمبر اکرمؐ سے کہا کہ زمانہ جاہلیت کی سنت کے مطابق غنائم کا ایک چوتھائی حصہ نکال کر باقی ان کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اپنے درمیان تقسیم کر سکیں۔ یہ آیات اسی درخواست کے متعلق نازل ہوئیں جس میں تأکید کی گئی کہ یہ عنائم چونکہ جنگ کے بغیر حاصل ہوئی ہے لھذا یہ تمام اموال صرف خدا اور اس کے رسول کے ہیں۔[2] بعض کہتے ہیں کہ جب بنی‌ ضیر نے اپنے گھروں کو خالی کیا تو مسلمانوں نے پیغمبر اکرمؐ سے غنائم جنگی کی طرح خمس نکال کر باقی اموال مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا۔[3]

فیئ سے مراد

جنگ کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آنے والے غنائم کو فیئ کہا جاتا ہے۔[4] البتہ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ جنگ کے بغیر کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے ہاتھ آنے والے اموال کو فیئ کها جاتا ہے۔[5] اسی طرح بعض مفسرین کفار سے حاصل ہونے والے تمام اموال کو فیئ قرار دیتے ہیں چاہے جس راستے سے بھی حاصل ہوں۔[6] بعض لوگ جنگ کے ذریعے مسلمانوں کے ہاتھ آنے والی چیزوں کو غنیمت اور صلح یا جنگ کے علاوہ کسی اور طریقے سے حاصل ہونے والی چیزوں کو انفال قرار دیتے ہیں۔[7]

ان اموال کو فیئ نام دینے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ خدا نے اس کائنات میں موجود تمام نعمتوں کو اصل میں مؤمنین اور خاص کر پیغمبر اکرمؐ کے لئے پیدا کی ہیں اور جو لوگ مؤمن نہیں ہیں حقیقت میں ان لوگوں نے ان اموال پر غاصبانہ قبضہ کئے ہوئے ہیں(اگرچہ شرعی یا عرفی قوانین کے اعتبار سے یہ لوگ ان اموال کے مالک محسوب ہوتے ہیں)۔ اس بنا پر جب یہ اموال ان کے اصلی مالکان کے یہاں پہنچ جاتے ہیں تو انہیں «فیئ» کہا جاتا ہے۔[8] فیئ لغت میں بازگشت اور واپس آنے کو کہا جاتا ہے۔[9]

محتوا

بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ اگرچہ اس آیت میں غزوہ بنی‌ نضیر سے حاصل ہونے والی غنیمت کا تذکرہ کیا گیا ہے ، لیکن یہ حکم عام ہے اور اس میں وہ تمام غنائم شامل ہیں جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ میں آ گئی ہیں۔[10]

فیئ کا مصرف

اس آیت میں فیئ کے چھ مصارف کا ذکر کیا گیا ہے:

  • خدا کا حصہ: کہا جاتا ہے کہ یہ حصہ ایک قسم کا تشریفاتی حصہ ہے تاکہ ذیل میں ذکر کیے گئے دوسرے گروہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور اپنے حصے کو خدا کے حصے کے ساتھ دیکھیں۔ کیونکہ خدا کسی چیز کا محتاج نہیں ہے اور حقیقت میں دیکھا جائے تو کائنات کی تمام چیزوں کا اصل مالک خدا ہے۔[11]
  • پیغمبر اکرمؐ کا حصہ: جس میں حضورؐ کی ذاتی ضروریات سے لے کر اسلامی ریاست کے حاکم سے متعلق اخراجات بھی شامل ہیں۔[12]
  • ذو القربی کا حصہ:بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ ذو القربی میں پیغمبر اکرمؐ کے وہ قریبی رشتہ دار شامل ہیں[13] جو زکوۃ لینے سے محروم ہیں۔[14] بعض کا کہنا ہے کہ کچھ مفسرین ذو القربی میں لوگوں کو شامل سمجھتے ہیں[15]۔ اسی طرح بعض مفسرین کے مطابق اس حصے کا حقدار ہونے کے لئے غربت اور تنگدستی شرط ہے۔[16]
  • یتیموں، مسکینوں اور راستے میں تنگدست ہونے والے افراد کا حصہ: ان تین حصوں کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا یہ حصے پیغمبر اکرمؐ کے رشتہ داروں کے ساتھ مختص ہے یا عام لوگ بھی اس میں شامل ہیں؟ بہت سے شیعہ مفسرین اہل بیتؑ کی احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے، اس حصے کو پیغمبر اکرمؐ کے رشتہ داروں اور اہل بیتؑ کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں۔[17] جبکہ کہا جاتا ہے کہ اہل سنت کے بہت سے علماء اور مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ تین حصے کسی خاص گروہ سے مختص نہیں بلکہ اس میں تمام لوگ شامل ہیں۔[18] آیت اللہ مکارم شیرازی تفسیر نمونہ میں بعض احادیث نقل کرتے ہیں جن میں ان تین حصوں کو عام لوگوں کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور انہیں نبی مکرم اسلامؐ کے اہل بیتؑ سے مخصوص نہیں جانا گیا ہے۔[19] اس سلسلے میں آپ غزوہ بنی‌ نضیر میں سیرہ نبوی کا حوالہ دیتے ہیں جس میں پیغمبر اکرمؐ نے اس جنگ سے حاصل ہونے والے غنائم کو تمام مہاجرین اور انصار کے تین نیازمندوں میں تقسیم کیا، جس سے آپ نتیجہ لیتے ہیں کہ یہ تین حصے پیغمبر اکرمؐ کے رشتہ داروں کے ساتھ مختص نہیں ہے۔[20]

بعض مفسرین کے مطابق خداوند عالم نے «فیئ» کے مصارف کو بیان کرنے کے بعد ان اموال کو مذکورہ چھ گروہوں میں تقسیم کرنے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ، تاکہ یہ اموال صرف ثروتمندوں کے ہاتھ میں نہ رہے اور نیازمند حضرات اس سے محروم نہ رہیں۔[21] آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق فیئ میں پیغمبر اکرمؐ کا حصہ اسلامی ریاست کے حاکم ہونے کے عنوان سے مقرر ہوا ہے۔ اس بنا پر آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ان اموال میں پیغمبر اکرمؐ کے لئے حصہ مقرر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپؐ ان تمام اموال کو اپنی ذاتی احتیاجات میں صرف کریں؛ بلکہ اسلامی ریاست کے حاکم ہونے کے اعتبار سے آپ نیازمندوں کے حقوق کا مدافع اور محافظ ہے لھذا ان اموال کو آیت میں مذکور تمام مصارف میں صرف ہونا چاہئے۔[22]

اسی طرح خدا نے آیت کے آخری حصے میں تمام مسلمانوں کے لئے ایک کلی قاعدہ بیان کرتا ہے جس کے مطابق تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہر وقت اور ہر صورت میں پیغمبر اکرمؐ کے مطیق اور فرمانبردار رہیں اور جو بھی ایسا نہیں کرے گا ابتدی ہلاکت اور عذاب میں مبتلا ہوگا۔[23]

نسخ ہونا

بعض مفسرین کے مطابق کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آیہ فیئ آیہ خمس کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔ ان کے مطابق یہ آیت آیہ خمس سے پہلے غنائم کے حکم کے بارے میں ہے۔ اس بنا پر آیہ خمس نازل ہونے سے پہلے تمام عنائم کا حکم اس آیت کے مطابق تھا؛ لیکن آیہ خمس کے نازل ہونے کے بعد غنائم کے حکم میں تبدیلی آئی اور غنائم کا فقط ایک حصہ خدا اور پیغمبر اکرم کے لئے مختص ہوا ہے اور باقی اموال ان تمام مسلمانوں کے لئے ہے جو اس جنگ میں حاضر ہو گئے ہیں۔[24]

کیا آیت فیئ غزوہ بنی‌ نضیر کے بارے میں نازل ہوئی؟

بعض مفسرین اس آیت کے ذیل میں یہ سوال مطرح کرتے ہیں کہ اگر فیئ سے مراد وہ اموال ہوں جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آجائے، تو اس آیت میں غزوہ بنی‌ نضیر سے حاصل ہونے والے غنائم شامل نہیں ہیں؛ کیونکہ غزوہ بنی‌ نضیر کے غنائم مسلمانوں کے لئے بغیر جنگ کے نہیں بلکہ جنگ اور لشکر کشی کے بعد حاصل ہوئے ہیں۔[25]

اس سوال کے لئے دو جواب دئے گئے ہیں: پہلا یہ کہ بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت غزوہ بنی‌ نضیر کے بارے میں نازل نہیں ہوئی، بلکہ یہ آیت فدک کے بارے میں نازل ہوئی ہے، کیونکہ فدک کے واقعے میں فدک میں مقیم یہودیوں نے اسے جنگ اور خونریزی کے بغیر ترک کیا تھا۔[26] دوسرا یہ کہ بعض مفسرین اس آیت کی شأن نزول کو غزوہ بنی‌ نضیر ہی قرار دیتے ہیں؛ لیکن ان کا خیال ہے کہ بنی‌ نضیر اور مسلمانوں در حقیقت جنگ نہیں ہوئی تھی؛ کیونکہ اس جنگ کے بارے میں کوئی صحیح تاریخی رویداد نقل نہیں ہوئی ہے۔ اس بنا پر خدا نے اس واقعے سے حاصل ہونے والے غنائم کو جنگ کے بغیر حاصل ہونے والے غنائم میں سے قرار دیا ہے۔[27]

متعلقہ مقالات

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص501؛ طباطبایی، المیزان،‌ 1417ھ، ج19، ص208؛ ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج8، ص96؛ طبری، جامع‌البیان، 1412ھ، ج28، ص24؛ شریف لاہیجی، تفسیر لاہیجی،‌ 1373ہجری شمسی، ج4، ص429۔
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص501؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص564؛ فخر رازی،‌ مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج29، ص506؛ طبرسی، مجمع‌البیان، 1372ہجری شمسی، ج9، ص392۔
  3. طباطبایی، المیزان،‌ 1417ھ، ج19، ص208؛ طبری، جامع‌البیان، 1412ھ، ج28، ص24-25؛ ابوحیان اندلسی، البحر المحیط فی التفسیر، 1420ھ، ج10، ص140۔
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص502۔
  5. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص502؛ طباطبایی، المیزان،‌ 1417ھ، ج19، ص203؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص562؛ فخر رازی،‌ مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج29، ص506؛ ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج8، ص94؛ قمی کاشانی، منہج‌الصادقین،‌ 1330ہجری شمسی، ج9، ص223۔
  6. طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص563۔
  7. شریف لاہیجی، تفسیر لاہیجی،‌ 1373ہجری شمسی، ج4، ص430۔
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص502؛ شریف لاہیجی، تفسیر لاہیجی،‌ 1373ہجری شمسی، ج4، ص430۔
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص502؛ طباطبایی، المیزان،‌ 1417ھ، ج19، ص203؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص562؛ فخر رازی،‌ مفاتیح الغیب، 1420ھ،ج 29، ص506۔
  10. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص501؛ طباطبایی، المیزان،‌ 1417ھ، ج19، ص203؛ ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج8، ص95؛ طبری، جامع‌البیان، 1412ھ، ج28، ص25؛ شریف لاہیجی، تفسیر لاہیجی،‌ 1373ہجری شمسی،ج4، ص429۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص504؛ مظہری، تفسیر المظہری،‌ 1412ھ، ج9، ص238۔
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505۔
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505۔
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505۔
  15. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505۔
  16. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505۔
  17. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505؛ طباطبایی، المیزان،‌ 1417ھ، ج19، ص205؛ شریف لاہیجی، تفسیر لاہیجی،‌ 1373ہجری شمسی، ج4، ص430؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص564؛ قمی کاشانی، منہج‌الصادقین،‌ 1330ہجری شمسی، ج9، ص224۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505؛ طبرسی، مجمع‌البیان، 1372ہجری شمسی، ج9، ص391-392۔
  19. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص506۔
  20. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص506۔
  21. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص506؛ قمی کاشانی، منہج‌الصادقین،‌ 1330ہجری شمسی، ج9، ص224۔
  22. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص504۔
  23. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص507؛ قمی کاشانی، منہج‌الصادقین،‌ 1330ہجری شمسی، ج9، ص224۔
  24. طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص563؛ شریف لاہیجی، تفسیر لاہیجی،‌ 1373ہجری شمسی، ج4، ص433-434؛
  25. فخر رازی،‌ مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج29، ص506؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص503۔
  26. فخر رازی،‌ مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج29، ص506۔
  27. فخر رازی،‌ مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج29، ص506؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص503-504۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل‌ بن عمر،‌ تفسیر القرآن العظیم، تحقیق محمد حسین شمس الدین، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1419ھ۔
  • ابوحیان اندلسی، محمد بن یوسف، البحر المحیط فی التفسیر، تحقیق صدقی محمد جمیل، بیروت، دارالفکر، 1420ھ۔
  • شريف لاہيجى، محمد بن على، تفسير شريف لاہيجى، تحقيق ميرجلال‏‌الدين حسينى ارموى، تہران، داد، 1373ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، لبنان، دار المعرفہ، 1412ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مصحح احمد حبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • قمی کاشانی، ملا فتح اللہ، منہج الصادقین ، تہران، چاپخانہ محمد حسن علمی، 1330ہجری شمسی۔
  • مظہری، محمد ثناءاللہ، تفسیر المظہری، پاکستان، مکتبہ رشدیہ، 1412ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔