دکۃ القضاء

ویکی شیعہ سے
(دکة القضا سے رجوع مکرر)
مسجد کوفہ میں مقام دکۃ القضاء

دَکّۃ القضاء (فیصلہ کر نے کا چبوترہ) مسجد کوفہ میں ایک مقام ہے جہاں حضرت علی علیہ السلام فیصلے کیا کرتے تھے۔ اس مقام سے متعلق امام علی علیہ السلام کے مختلف فیصلے اور دوسرے واقعات نقل ہوئے ہیں۔ بعض فقہاء نے اسی سے استدلال کرتے ہوئے مسجد میں قضاوت کرنے کو مکروہ نہیں جانا ہے، اگرچہ علماء کے درمیان اس کی کراہت کا حکم مشہور ہے۔

اسی طرح اس مقام پر دو رکعت نماز، تسبیح جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ایک خاص دعا پڑھنا یہاں کے مخصوص اعمال میں سے ہیں جو مسجد کوفہ کے اعمال کے ساتھ انجام دئے جاتے ہیں۔

محل وقوع اور اہمیت

دکۃ القضاء مسجد کوفہ میں موجودایک مقام جو ایک چبوترے کی شکل میں تھا[1] جس پر بیٹھ کر امام علی علیہ السلام فیصلے کیا کرتے تھے[2]۔کچھ لوگ کا خیال ہے کہ اس کے اوپر کوئی سایہ نہیں تھا۔[3]اور یہ آیت (إِنَّ اللَّهَ یأمُرُ بِالعَدلِ وَ الإِحسانِ وَ إیتاءِ ذِی القُربیٰ وَ۔۔۔[؟؟])[4] ایک طرف کے ستون پر لکھی ہوئی تھی۔[5]

اعمال

دکۃ القضاء ایک مقام کی صورت میں مسجد کوفہ کے اندر ہے اور اس کے لئے چند مخصوص اعمال ہیں جن میں دو رکعت نماز، تسبیح جناب فاطمہ زہراؑ[6] اور مخصوص دعائیں[یادداشت 1] منقول ہیں۔[7] شیخ عباس قمی کے بقول، مشہور کے مطابق یہاں کے اعمال کو اعمال مسجد کوفہ کے آخر میں اور اعمال مقام امام صادقؑ کے بعد انجام دیا جاتا ہے۔[8] اس کے باوجود مفاتیح الجنان میں کتاب مصباح الزائر کے مطابق یہ اعمال مقام ابراہیمؑ (چوتھے ستون) کے بعد مذکور ہیں۔[9] بعض مآخذ میں اس مقام کو اور بیت الطشت کو ایک ہی جگہ قرار دیا گیا ہے اور ان کے لئے مشترک اعمال ذکر کئے گئے ہیں۔[10] جبکہ بعض دیگر نے ان دونوں مقامات کو ایک دوسرے سے متصل[11] لیکن الگ الگ مانا ہے اور ہر ایک کے لئے مخصوص اعمال ذکر کئے ہیں۔[12]

تاریخی واقعات

کتب فضائل میں دکۃ القضاء سے متعلق کچھ واقعات نقل ہوئے ہیں، منجملہ:

  1. اس لڑکی کی مشکل، حل کرنے کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کا معجزہ جو بغیر شادی کے بظاہر، حاملہ لگ رہی تھی۔[13]
  2. مولا علی کے ایک گنہگار شیعہ کا آگ میں نہ جلنا۔[14]
  3. مولا علی علیہ السلام کا بادلوں سے گفتگو کرنا اور بادلوں کا آپ کی ولایت کا اقرار کرنا نیز آپ کا بادلوں پر سوار ہو کر دوسرے مقامات پر جانا۔[15] کہا گیا ہے کہ امام علیؑ نے خطبہ شقشقیہ اسی واقعے کے بارے میں دیا ہے۔[16]کچھ داستانوں میں آیا ہے کہ دکۃ القضاء کے نزدیک امام زمانہ عجل اللہ فرجہ سے چند لوگوں نے ملاقات اور گفتگو کی۔[17]

فقہی استفادہ

مسجد میں فیصلہ کرنا ان احکام میں سے ہے جس کے مکروہ ہونے پر شہرت کا دعوی کیا گیا ہے۔[18] لیکن بعض فقہاء نے امام علیؑ کے دکۃ القضاء میں فیصلے کرنے سے استدلال کرتے ہوئے اسے مکروہ نہیں جانا ہے۔ [19] یا یہ کہ اس کراہت کے حکم کو معصوم سے متعلق نہیں جانا ہے۔[20]یا یہ کہ مسجد میں قضاوت کو صرف نماز کے اوقات میں مکروہ جانتے ہیں۔[21] البتہ ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول خداؐ، مسجد میں فیصلے کیا کرتے تھے۔[22] شیعہ عالم دین مرزا محمود طباطبائی(متوفی سنہ 1272ھ) نے دکۃ القضاء فی مسائل القضاء و الشہادات[23] یا دکۃ القضاء فی الا حکام و الشہادات[24] کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. «یا مَالِکی وَ مُمَلِّکی وَ مُتَغَمِّدِی [مُعْتَمَدِی] بِالنِّعَمِ الْجِسَامِ مِنْ غَیرِ اسْتِحْقَاقٍ وَجْهِی خَاضِعٌ لِمَا تَعْلُوهُ الْأَقْدَامُ لِجَلالِ وَجْهِک الْکرِیمِ لا تَجْعَلْ هَذِهِ الشِّدَّةَ وَ لا هَذِهِ الْمِحْنَةَ مُتَّصِلَةً بِاسْتِیصَالِ الشَّأْفَةِ وَ امْنَحْنِی مِنْ فَضْلِک مَا لَمْ تَمْنَحْ بِهِ أَحَدا مِنْ غَیرِ مَسْأَلَةٍ أَنْتَ الْقَدِیمُ الْأَوَّلُ الَّذِی لَمْ تَزَلْ وَ لا تَزَالُ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اغْفِرْ لِی وَ ارْحَمْنِی وَ زَکِّ عَمَلِی وَ بَارِک لِی فِی أَجَلِی وَ اجْعَلْنِی مِنْ عُتَقَائِک وَ طُلَقَائِک مِنَ النَّارِ بِرَحْمَتِک یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔»

حوالہ جات

  1. طہرانی، الذریعۃ، قم، ج۸، ص۲۳۵؛ محدثی، موسوعۃ عاشوراء، ۱۴۱۸ھ، ص۳۸۱۔
  2. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۸۰، ص۳۶۳۔
  3. ابن ادریس، السرائر الحاوی، ۱۴۱۰ھ، ج۲، ص۱۵۷۔
  4. سورہ نحل، آیہ۹۰۔
  5. قمی، مفاتیح الجنان، قم، ص۳۸۸۔
  6. انصاری زنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، ۱۴۲۸ھ، ج۲۲، ص۱۷۵۔
  7. ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ھ، ص۱۷۶–۱۷۷؛ شہید اول، المزار، ۱۴۱۰ھ، ص۲۵۲–۲۵۳؛ مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ھ، ص۴۹۵-۴۹۶۔
  8. قمی، مفاتیح الجنان، قم، ص۳۸۸۔
  9. قمی، مفاتیح الجنان، قم، ص۳۸۸۔
  10. ابن ادریس، السرائر الحاوی، ۱۴۱۰ھ، ج۲، ص۱۵۷۔
  11. مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۷، ص۴۱۲۔
  12. شہید اول، المزار، ۱۴۱۰ھ، ص۲۵۲–۲۵۳؛ مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ھ، ص۴۹۵-۴۹۶۔
  13. ابن عبدالوہاب، عیون المعجزات، قم، ص۲۱–۲۴؛ طبری، نوادر المعجزات، ۱۴۲۷ھ، ص۱۰۲–۱۰۹؛ ابن شاذان قمی، الروضۃ، ۱۴۲۳ھ، ص۱۸۲–۱۸۶؛ بحرانی، مدینةۃ معاجز، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۵۳–۵۶۔
  14. ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳، ص۷۴-۷۵۔
  15. ابن عبدالوہاب، عیون المعجزات، قم، ص۳۵ – ۳۸؛ طبری، نوادر المعجزات، ۱۴۲۷ھ، ص۱۳۲–۱۳۷؛ بحرانی، مدینۃ معاجز، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۵۴۶-۵۴۹۔
  16. ابن عبدالوہاب، عیون المعجزات، قم، ص۳۶؛ بحار الأنوار ط - بیروت، ج۵۴، ص: ۳۴۵؛ خویی، منہاج البراعۃ، ۱۴۰۰ھ، ج۳، ص۳۴۔
  17. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۵۳، ص۲۶۳–۲۶۵؛ محدث نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۴ھ، ج۲، ص۶۷۷–۶۷۹، ج۲، ص۷۵۱-۷۵۲۔
  18. مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۸۰، ص۳۶۲۔
  19. ابن ادریس، السرائر الحاوی، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۷۹، ج۲، ص۱۵۶–۱۵۷؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۸۰، ص۳۶۲۔
  20. مجلسی، روضۃ المتقین، ۱۴۰۶ھ، ج۲، ص۱۰۶؛ مازندرانی، شرح فروع الکافی، ۱۴۲۹ھ، ج۳، ص۲۸۹۔
  21. فیض کاشانی، الوافی، ۱۴۰۶ھ، ج۷، ص۵۰۷؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۸۰، ص۳۶۳۔
  22. ابن أبی‌جمہور، عوالی اللئالی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۳۴۴۔
  23. طہرانی، الذریعۃ، قم، ج۸، ص۲۳۵۔
  24. زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹ء ج۷، ص۱۷۸۔

مآخذ

  • ابن أبی‌جمہور، محمد بن زین‌الدین، عوالی اللئالی العزیزیۃ فی الأحادیث الدینیۃ، قم،‌ دار سیدالشہداء للنشر، ۱۴۰۵ھ۔
  • ابن ادریس، محمد بن احمد، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی (و المستطرفات)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۰ھ۔
  • ابن شاذان قمی، أبوالفضل شاذان بن جبرئیل، الفضائل، قم، رضی، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش۔
  • ابن عبدالوہاب، حسین بن عبدالوہاب، عیون المعجزات، قم، مکتبۃ الداوری، بی‌تا۔
  • ابن مشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۹ھ۔
  • انصاری زنجانی، اسماعیل، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء(س)، قم، دلیل ما، ۱۴۲۸ھ۔
  • بحرانی، سید ہاشم بن سلیمان، مدینۃ معاجز الأئمۃ الإثنی عشر و دلائل الحجج علی البشر، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، ۱۴۱۳ھ۔
  • زرکلی، خیر الدین، الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت، دارالعلم للملایین، چاپ ہشتم، ۱۹۸۹ھ۔
  • سبحانی، جعفر، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، بی‌تا۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، المزار فی کیفیۃ زیارات النبی و الأئمۃ(ع)، قم، مدرسہ امام مہدی(ع)، ۱۴۱۰ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر بن رستم، نوادر المعجزات فی مناقب الأئمۃ الہداۃ علیہم السلام، قم، دلیل ما، ۱۴۲۷ھ۔
  • طہرانی، آقابزرگ، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، قم، اسماعیلیان، بی‌تا۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن بن شاہ مرتضی، الوافی، اصفہان، کتابخانہ امام أمیرالمؤمنین علی(ع)، ۱۴۰۶ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان، قم، انتشارات اسوہ، بی‌تا۔
  • مازندرانی، محمدہادی، شرح فروع الکافی، قم، دارالحدیث للطباعۃ و النشر، ۱۴۲۹ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، زاد المعاد - مفتاح الجنان، بیروت، موسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۲۳ھ۔
  • مجلسی، محمدتقی، روضۃ المتقین فی شرح من لایحضرہ الفقیہ، قم، مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانبور، چاپ دوم، ۱۴۰۶ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • محدث نوری، میرزاحسین، نجم الثاقب فی أحوال الإمام الغائب، قم، مسجد جمکران، چاپ دہم، ۱۳۸۴ھ۔
  • محدثی، جواد، موسوعۃ عاشوراء، تعریب خلیل زامل عصامی، بیروت، دارالرسول الأکرم، ۱۴۱۸ھ۔
  • خویی، میرزا حبیب‌اللہ، منہاج البراعۃ فی شرح نہج‌البلاغۃ، تہران، مکتبۃ الإسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۰ھ۔