قاعدہ سوق المسلمین

ویکی شیعہ سے

قاعده سوقُ المسلمین ایک فقہی قاعدہ جس کے مطابق مسلمانوں کے بازار میں ذبح کیے گئے جانوروں کی کھال اور گوشت کی خرید و فروخت شرعی لحاظ سے جائز ہے اور اس طرح کے جانور پر پاکی کا حکم لاگو ہوگا لہذا شرعی طور پر اس کے تذکیہ کیے جانے کے بارے میں تحقیق کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ فقہاء اجماع، سیرت متشرعہ اور احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس قاعدہ کی حجیت کے قائل ہیں۔ فقہاء اس قاعدہ کو ظنی مگر معتبر دلائل میں سے میں شمار کرتے اور اس کو اصول عملیہ پر ترجیح دیتے ہیں۔ اصول فقہ کے دانشوروں کے مطابق جب کوئی شرعی دلیل (بینہ) یا خبر عادل قاعدہ سوق المسلمین سے متصادم ہو تو یہ قاعدہ لاگو نہیں ہوتا لہذا جانور کے عدم تزکیہ کا حکم جاری کیا جائے گا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ذبح شدہ جانور کی کھال اور اس کا گوشت شرعی لحاظ سے حلال نہیں ہوگا۔

قاعدے کا مفہوم

سوق‌ المسلمین یا مسلمانوں کا بازار ایک ایسا فقہی قاعدہ ہے جس کی بنیا پر حلال گوشت جانور کی کھال، اس کا گوشت اور اس کے باقی اجزاء کی مسلمانوں کے بازار میں خرید و فروخت جائز ہوگی اور اس کی حلالیت یا شرعی تذکیہ کے سلسلے میں تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں۔[1] سوق المسلمین سے مراد ایسا بازار ہے جہاں سارے یا اکثر خرید و فروخت انجام دینے والے مسلمان ہیں۔[2]

اہمیت

قاعده سوق‌ المسلمین ایسا قاعدہ ہے جس کے بارے میں ایک فقہی قاعدے کے عنوان سے بحث کی جاتی ہے۔[3] اسی طرح علم اصول فقہ میں ایک معتبر ظنی دلیل کے عنوان سے مختلف مقامات پر اس کی حجیت کے سلسلے میں بحث ہوتی ہے۔[4] مجتہدین فقہی ابواب میں سے باب صلاة، طہارت، تجارت، اَطعمہ و اشربہ اور صید و ذباحہ وغیرہ میں ان ابواب کے بعض شرعی احکام کے استنباط کے سلسلے میں اس قاعدے سے استناد کرتے ہیں۔[5]

بعض فقہاء کے نزدیک چونکہ معاشرے میں بعض لین دین مثلاً جانوروں اور ان کے گوشت، کھال اور ان کے دیگر حصوں کی خرید وفروخت شرعی لحاظ سے اس قاعدہ پر مبنی ہے، اگر اس قاعدے کی حجیت ثابت نہ ہو تو انجام پانے والے لین دین میں مسائل کا سامنا ہوگا۔ اب اس طرح کے مسائل سے بچنے کے لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ خود جانور ذبح کرے حالانکہ یہ اسلامی معاشرے کے نظام میں سختی اور خلل کا باعث ہوسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے بازار بے رونق ہو کر رہ جائیں گے۔[6] پس ان مسائل کے پیش نظر اس قاعدے کی بنا پر اسلامی ممالک میں حلال گوشت جانوروں کے گوشت اور باقی اجزاء (جیسے اون، کھال، چمڑا وغیرہ)[7] کی خرید و فروخت جائز ہے اور ان کے بارے میں پاکی اور طہارت کا حکم لاگو ہوگا۔[8]

باقی معتبر ظنی دلائل کے تناظر میں اس قاعدے کا مقام

قاعدہ سوق المسلمین چونکہ معتبر ظنی دلائل میں سے ہے لہذا اصول عملیہ کے ساتھ متصادم ہونے کی صورت میں قاعده سوق المسلمین مقدم ہوگا؛[9] کیونکہ اصول عملیہ وہاں جاری ہونگے جہاں انسان کو حکم شرعی کے لحاظ سے شک ہو حالانکہ امارہ اور معتبر ظنی دلیل کی موجودگی میں شک برطرف ہوجاتا ہے؛[10] لیکن قاعدہ سوق المسلمین باقی معتبر دلائل جیسے بینہ اور خبر عادل(موضوعات میں اس کی حجیت مقبول ہونے کی بنا پر)؛ کے ساتھ متعارض ہونے کی صورت میں باقی معتبر ظنی دلائل اس پر مقدم ہونگے۔[11]

مستندات

فقہاء اجماع، احادیث اور سیرت متشرعہ سے استناد کرتے ہوئے قاعده سوق المسلمین کی حجیت کو قبول کرتے ہیں۔

  • اجماع؛ شیعہ فقہاء کا قاعدہ سوق المسلمین کی حجیت پر اجماع ہے لہذا مسلمانوں کے بازار میں بکنے والے گوشت پاک اور حیوانوں کے باقی اجزاء کی خرید و فروخت اور دیگر استعمالات شرعی لحاظ سے حلال ہیں۔[12] بعض فقہاء کہتے ہیں کہ یہ اجماع مدرکی[یادداشت 1] ہے لہذا اس کی حجیت ثابت نہیں ہے۔[13]
  • سیرت متشرعہ؛ ائمہ معصومینؑ کے زمانے سے مسلمانوں کا طریقہ یہ رہا ہے کہ ذبح شرعی کے سلسلے تحقیق و جستجو کیے بغیر مسلمانوں کے بازار سے حلال جانوروں کا گوشت اور باقی اجزاء خریدے جاتے تھے۔[14]
  • روایات؛ شیخ حر عاملی نے اپنی کتاب وسائل الشیعۃ کے مختلف ابواب مثلا باب طہارت، صید و ذباحہ، اطعمہ و اشربہ(کھانے پینے کی چیزیں) اور باب تجارت میں متعدد احادیث کو نقل کیا ہے[15] جو اس قاعدے کی حجیت پر دلالت کرتی ہیں۔[16]

قاعدے کی حجیت کا دائرہ کار

اس قاعدے میں مسلمان سے مراد اس کے عمومی معنی ہیں اور صرف شیعہ امامیہ مد نظر نہیں، لہذا تمام اسلامی مذاہب پر مسلمان صدق آتا ہے۔[17] اسی طرح سوق المسلمین سے مراد اسلامی سرزمین کے بازار اور باقی مقامات ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو، ساروں کا مسلمان ہونا ضروری نہیں۔[18]

شہید ثانی کے نظریے کے مطابق اگر کسی سرزمین پر مسلمانوں اور غیر مسلمان آبادی برابر ہوں یا غیر مسلم آبادی زیادہ ہوں تو وہاں کے بازار کو سوق المسلمین نہیں کہا جاتا، مگر یہ کہ کسی مسلمان سے گوشت کی خریداری کی جائے۔ شہید ثانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوق المسلمین کے متحقق ہونے کے لیے اس سرزمین کا حاکم مسلمان ہونا ضروری نہیں۔[19] لیکن آیت اللہ بروجردی کی نظر میں مسلمانوں کی اکثریت سے مراد اس سرزمین کا حاکم مسلمان ہونا ہے اگرچہ آبادی کے لحاظ سے غیر مسلمان زیادہ ہی کیون نہ ہو۔[20]

سید علی طباطبائی نے اپنی کتاب ریاض المسائل میں سوق المسلمین کی شناخت کا معیار عرف قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق وہ بازار سوق المسلمین کہلائے گا جہاں کی پوری آبادی مسلمان ہو یا ان کی اکثریت ہو۔[21]

حوالہ جات

  1. موسوی بجنوردی، القواعد الفقهیة، 1377شمسی، ج4، ص160؛ بروجردی، تبیان الصلاة، 1426ھ، ج4، ص17۔
  2. مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل‌ بیت(ع)، 1387شمسی، ج2، ص43۔
  3. ملاحظہ کیجیے: بجنوردی، القواعد الفقهیة، 1377شمسی، ج4، ص155؛ ایروانی، دروس تمهیدیه فی القواعد الفقهیة، 1432ھ، ج2، ص77۔
  4. ملاحظہ کیجیے: شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1428ھ، ج3، ص20۔
  5. ملاحظہ کیجیے: محقق حلی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص78؛ نجفی، جواهر الکلام، 1432ھ، ج12، ص233۔
  6. سیفی مازندرانی، مبانی الفقه الفعال، 1425ھ، ج1، ص181؛ ایروانی، دروس تمهیدیه فی القواعد الفقهیة، 1432ھ، ج2، ص77۔
  7. رضایی‌نسب، یزدان‌بخش، «بررسی مبانی قفهی و حقوقی قاعده سوق المسلمین»، ص85۔
  8. انصاری، «بررسی قاعده سوق المسلمین و میزان حجیت آن»، ص7۔
  9. موسوی بجنوردی، القواعد الفقهیة، 1377شمسی، ج4، ص169۔
  10. سیفی مازندرانی، مبانی الفقه الفعال، 1425ھ، ج1، ص197۔
  11. سیفی مازندرانی، مبانی الفقه الفعال، 1425ھ، ج1، ص197۔
  12. سیفی مازندرانی، مبانی الفقه الفعال، 1425ھ، ج1، ص185۔
  13. سیفی مازندرانی، مبانی الفقه الفعال، 1425ھ، ج1، ص185۔
  14. موسوی بجنوردی، القواعد الفقهیة، 1377شمسی، ج4، ص155۔
  15. حرّ عاملی، وسائل الشیعة، 1414ھ، ج24، ص70 و ج27، ص292 و ج3، ص490 و ج4، ص455۔
  16. مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1370شمسی، ج2، 108-111۔
  17. ایروانی، دروس تمهیدیه فی القواعد الفقهیة، 1432ھ، ج2، ص87۔
  18. جواهری، بحوث فی الفقه المعاصر، 1419ھ، ج2، ص259۔
  19. شهید ثانی، حاشیة شرایع الاسلام، 1380شمسی، ج1، ص119۔
  20. بروجردی، تبیان الصلوة، 1426ھ، ج4، ص19-20۔
  21. طباطبایی، ریاض المسائل، 1412ھ، ج12، ص118۔

نوٹ

  1. اجماع مدرکی سے مراد وہ اجماع ہے جس کا مآخذ معلوم اور مشخص ہو؛ عوائد الایام، ص 360۔

مآخذ

  • انصاری، اعظم، «بررسی قاعده سوق المسلمین و میزان حجیت آن»، در ماهنامه کانون، تهران، نشر کانون سردفتران و دفتریاران، شماره 67، بهمن 1385ہجری شمسی۔
  • ایروانی، محمدباقر، دروس تمهیدیه فی القواعد الفقهیة، قم، دارالفقه للطباعة و النشر، چاپ پنجم، 1432ھ۔
  • بروجردی، سید حسین، تبیان الصلوة، قم، گنج عرفان للطبعة و النشر، چاپ اول، 1426ھ۔
  • جواهری، حسن، دروس فی الفقه المعاصر، دارالذخائر، بیروت، چاپ اول، 1419ھ۔
  • حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعة، قم، انتشارات مؤسسه آل‌البیت، 1414ھ۔
  • رضایی‌نسب، انسیه و هانیه یزدان‌بخش، «بررسی مبانی فقهی و حقوقی قاعده سوق المسلمین، در فصلنامه تخصصی فقهی و حقوقی عرشیان فارس، شیراز، سال اول، شماره چهارم، زمستان 1401ہجری شمسی۔
  • سیفی مازندرانی، علی‌اکبر، مبانی الفقه الفعال فی القواعد الفقهیة الاساسیة، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1425ھ۔
  • شهید ثانی، زین‌الدین بن علی، حاشیة شرایع الاسلام، قم، انتشارات بوستان کتاب، 1380ہجری شمسی۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، فرائد الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی، چاپ نهم، 1428ھ۔
  • طباطبایی، سید علی، ریاض المسائل، قم، مؤسسه انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1412ھ۔
  • مؤسسه دایرةالمعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل‌بیت(ع)، قم، انتشارات مؤسسه دایرةالمعارف الفقه الاسلامی، 1387ہجری شمسی۔
  • محقق حلی، نجم‌الدین جعفر بن الحسن، المعتبر فی شرح المختصر، قم، انتشارات مؤسسة سید الشهداء، چاپ اول، 1407ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، القواعد الفقهیة، قم، مدرسة الامام علی بن ابیطالب(ع)، چاپ سوم، 1370ہجری شمسی۔
  • موسوی بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقهیة، قم، نشر الهادی، 1377ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواهرالکلام فی شرح شرایع الاسلام، قم، مؤسسه نشر اسلامی، 1432ھ۔