قرعہ
قرعہ کسی ایک احتمال کا بےترتیب انتخاب ہے جب انسان کے پاس کسی ایک کے انتخاب میں کوئی شرعی اور عقلی راستہ نہ ہو۔ شیعہ روایات کے مطابق قرعہ اندازی ایک جائز عمل ہے اور مشکل اور نامعلوم کام کو حل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ مذہبی تاریخ میں قرعہ اندازی کا پس منظر حضرت یونسؑ کو سمندر میں ڈوبنے کے لئے انتخاب اور حضرت مریمؑ کی کفالت کے لئے حضرت زکریا کے انتخاب تک جاتا ہے۔ روایات کے مطابق بعض اوقات شرعی حکم کے تعین کے لیے قرعہ اندازی کی جاتی ہے۔ محمد حسین نائینی کے مطابق ان صورتوں میں قرعہ اندازی کی جگہ کا تعین کرنا مشکل ہے اور احادیث میں جو کچھ کہا گیا ہے یا پیشرو فقہاء نے جس مورد میں استفادہ کیا ہے انہی موارد پر اکتفا کیا جائے۔ استخارہ کو قرعہ اندازی کے مصادیق میں شمار کیا جاتا ہے اور فقہا قرعہ کی حجیت سے استناد کر کے استخارہ کی مشروعیت کا حکم لگاتے ہیں۔
قرعہ اندازی کا تذکرہ قواعد فقہ سے متعلق کتابوں میں "قاعدہ قرعہ" کے عنوان سے ملتا ہے، لیکن بعض فقہاء اسے ایک اصولی قاعدہ سمجھتے ہیں۔ فقہاء نے قرعہ اندازی کے جواز کے لیے سورہ یونس کی آیت نمبر 141 اور سورہ مریم کی آیت 44، سیرت عقلاء اور بعض احادیث کا حوالہ دیا ہے۔
احمد نراقی کے مطابق، ایسے معاملات جہاں قرعہ اندازی حقیقت کو دریافت کرنے کے لیے نہیں ہوتی ہے اور صرف ایک امکان کو انتخاب کرنے کے لیے کی جاتی ہے (جیسے بینکوں اور اسٹورز کی طرف سے کی جانے والی قرعہ اندازی)، اس مورد میں قرعہ ڈالنے کے لئے "نامعلوم" جیسے عنوانات کا صدق آنا ممکن نہیں ہے یعنی ان کو مجہول یا نامعلوم نہیں کہہ سکتے ہیں؛ لیکن جن روایات میں قرعہ کو ایک "منصفانہ طریقہ" اور "کام خدا پر چھوڑ دینا" سے تعبیر کی ہے یا وہ روایات جو غیر معین غلام کو آزاد کرنے کے بارے میں نقل ہوئی ہیں انہیں قرعہ کی مشروعیت پر دلیل قرار دے سکتے ہیں۔
قرعہ اور اس کی اہمیت
قرعہ اندازی کو ایسی جگہ پر بے ترتیب انتخاب کا نام ہے جہاں پریشان شخص کے سامنے کوئی شرعی اور عقلی راستہ نہ ہو۔[1] اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ احتمال کا انتخاب حقیقت کو دریافت کرنے کے لیے ہو، جیسے حضرت یونسؑ کے قصے میں گناہگار شخص کو پہچاننے کے لئے قرعہ اندازی ہوئی یا صرف احتمالات میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے کے لئے ہو اور حقیقت سے سروکار نہیں، جیسے حضرت مریمؑ کی کفالت کے لئے قرعہ یا بینکوں اور دکانوں کی قرعہ اندازی۔[2] قرعہ شیعہ روایات میں، "انصاف سے قریب راستہ"، "مسائل اور مجہول چیزوں کا راہ حل"، "مسائل کو خدا پر چھوڑنا" اور "بغیر غلطی کے انتخاب کرنا" جیسی عبارتوں کے ساتھ بیان ہوا ہے۔[3] بعض فقہاء کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ ان روایات میں "بغیر غلطی کے قرعہ اندازی کے حکم کو جاننے" کا مطلب یہ ہے کہ منتخب کردہ انتخاب خدا کی مشیت کے مطابق ہے[4] یا یہ کہ قرعہ ڈالنے کا عمل حل کے طور پر درست ہے۔ احادیث میں "قرعہ کا حکم بےخطا" قرار دینے کے بارے میں بعض فقہاء یہ احتمال دیتے ہیں کہ ان روایات میں جو انتخاب ہوا ہے وہ خدا کی مصلحت کے مطابق تھا۔[5]
فقہا کا کہنا ہے کہ قرعہ کے لئے کوئی خاص دعا اور طریقہ نہیں ہوتی ہے اور قرعہ اندازی کی روایات میں جو دعائیں مذکور ہیں وہ حقیقت کی طلب کے لیے مستحب دعائیں ہیں۔[6] اس کے علاوہ، بعض فقہاء کے مطابق قرعہ اندازی کسی مخصوص شخص کے لیے مختص نہیں ہے، سوائے عدالتی معاملات کے جہاں حکم کو معین کرنے کا حق امام یا ان کے نائب عام یا نائب خاص کو حاصل ہے۔[7] دوسری طرف، احمد نراقی کے مطابق، بعض فقہا، روایات کی بنا پر قرعہ کو صرف امام معصومؑ کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں۔[8] استخارہ، قرعہ اندازی کا ایک مصداق کے طور پر جانا جاتا ہے اور بعض فقہا قرعہ اندازی کے جواز کا حوالہ دے کر استخارہ کے جواز کا حکم دیتے ہیں۔[9]
شرعی احکام میں قرعہ
شیعہ فقیہ محمد حسین نائینی کے مطابق شریعت کے احکام کا تعین کرنے کے لیے قرعہ اندازی کا استعمال پیچیدہ ہے اور فقہا نے روایات سے استناد کرتے ہوئے جن موارد میں اسے انجام دیا ہے انہی موارد تک محدود رکھا جائے۔[10] لیکن شیعہ مرجع تقلید ناصر مکارم شیرازی کا خیال ہے کہ فقہاء سلف کا فتویٰ قرعہ پر مبنی نہیں ہے، ان کے مطابق فقہاء سلف کے لئے دوسرے موارد کی نسبت اس مورد میں کوئی ترجیح نظر نہیں آئی ہے اور ان کے فتوے انہی روایات پر مبنی تھے۔[11] فقہاء کے مطابق قرعہ وہاں ڈالا جاتا ہے جہاں امارہ، اصل عملی اور قاعدہ عدل و انصاف کا امکان نہ ہو۔[12] اس بنا پر قرعہ اندازی شبہات حکمیہ اور بعض ان شبہات موضوعیہ میں ہوتی ہے جن کے لئے کوئی خاص قاعدہ تشریع نہیں ہوئی ہے۔[13]
قواعدِ فقہ سے مربوط کتابوں میں قرعہ اندازی کے بارے میں «قاعدہ قرعہ» کے عنوان سے سیر حال بحث کی گئی ہے۔[14] لیکن بعض فقہا نے اسے اصولی قاعدہ قرار دیا ہے۔[15]علی اکبر سیفی مازندرانی کے مطابق شیعہ فقہا میں میر عبد الفتاح مراغی پہلے فقیہ ہیں جس نے اپنی کتاب عناوین الفقہیہ میں پہلی بار قرعہ کو قاعدہ کے نام سے ذکر کیا ہے۔[16] حسین کریمی کے مطابق وسائل الشیعہ اور مستدرک الوسائل میں قرعہ کے بارے میں 78 حدیث نقل ہوئی ہیں۔[17] فقہ کے بعض موارد جیسے؛ قَسْم، باب قضا، باب ارث، طہارت اور عتق کے بارے میں روایات اور فقہاء سلف کے فتؤوں میں قرعہ جاری ہوا ہے۔[18] بعض کا کہنا ہے کہ 17 مورد میں فقہا نے شرعی حکم کو قرعہ کے ذریعے معین کیا ہے۔[19]
دلایل حجیت قرعہ
بعض شیعہ فقہا کے مطابق قرعہ اندازی سے استناد جائز ہونا شیعہ علماء کے مابین اتفاقی، قطعی اور ناقابل انکار مسائل میں سے ہے۔[20] فقہا نے قاعدہ قرعہ کی حجیت کو ثابت کرنے کے لئے درج ذیل دلائل سے استناد کیا ہے:
- قرآنی آیات؛ اس حوالے سے دو آیتوں کی طرف اشارہ ہوا ہے:
- سورہ یونس آیت نمبر 141: جس کے مطابق حضرت یونس جو کہ معصوم تھے نے کشتی کی قرعہ کشی میں شرکت کی اور کوئی اعتراض نہیں کیا اور یہ اعتراض نہ کرنا اس عمل کی تائید شمار ہوتی ہے۔[21]
- سورہ مریم آیت نمبر 44: اس آیت کے مطابق حضرت زکریا اور بنی اسرائیل کے دوسرے علما نے حضرت مریمؑ کے مربی اور کفیل کو قرعہ اندازی کے ذریعے انتخاب کیا۔[22] بعض فقہا نے اسلام میں قرعہ ثابت کرنے کے لئے ان آیتوں کی دلیل کو ضعیف قرار دیا ہے۔[23]
- روایات؛ بعض فقہا کے مطابق قرعہ کی روایات تواتر کی حد تک ہیں اور یہ روایات دو طرح کی ہیں:
- وہ روایات جو کلی طور پر قرعہ کو نامعلوم اور مشکل کام سے رہائی کا راہ حل قرار دیتی ہیں۔[24] ان روایات کے مطابق قرعہ کا مطلب اپنے امور کو اللہ کے سپرد کرنا اور ہر اس مسئلے کا راہ حل ہے جس میں حکم معین نہیں ہے۔[25]
- وہ روایات جن میں قرعہ مشکل کے حل کے لئے استعمال ہوا ہے۔[26] روایات کے مطابق قرعے کے ذریعے معین ہونے والے کچھ موارد یہ ہیں: 1.جس بچے کا آزاد یا غلام ہونا معلوم نہ ہو؛[27] 2.جس گوسفند کا گوشت انسان کے وطی کرنے کی وجہ سے حرام ہوا ہے اور ریوڈ میں گوسفند معلوم نہ ہو تو اسے معلوم کرنے کے لئے؛[28] 3. وہ خنثی جس کا مرد یا عورت ہونا معلوم نہ ہو اس کے ارث کی مقدار معین کرنے کے لئے۔[29] 4.کسی شخص نے اپنی موت سے پہلے اپنے غلاموں میں سے ایک تہائی غلام کو غیر معین طریقے سے آزاد کیا ہو۔[30]
- سیرہ عقلا سماجی امور میں: باقر ایروانی کا کہنا ہے کہ عرف میں جب کسی مسئلے کو پوری طرح سے حل نہیں کرسکتے ہیں تو قرعہ اندازی پر مجبور ہوتے ہیں اور اس کے ذریعے بعض کو انتخاب کرتے ہیں اور شارع نے اس سیرت سے نہ فقط منع نہیں کیا ہے بلکہ "قرعہ سنت ہے"[31] کی تعبیر سے اس کی تائید کی ہے۔[32]
حوالہ جات
- ↑ کریمی قمی، قاعدۃ القرعۃ، 1420ھ، ص33۔
- ↑ کریمی قمی، قاعدۃ القرعۃ، 1420ھ، ص33؛ نراقی، عوائد الأيام في بيان قواعد الأحكام و مہمات مسائل الحلال و الحرام ، 1417ھ، ص663 و662۔
- ↑ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج3، ص92؛ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ق، ج6، ص240۔
- ↑ آشتیانی، قواعد الفقہیۃ (بحرالفوائد)، 1403ھ، ج3، ص219۔
- ↑ مکارم شیرازی، القواعد الفقہيۃ، 1411ھ، ج 1، ص331 ؛ نراقی، عوائد الأيام في بيان قواعد الأحكام و مہمات مسائل الحلال و الحرام ، 1417ھ، ص641۔
- ↑ ایروانی، دروس تمہيديۃ في القواعد الفقہيۃ، 1426ھ، ج 2، ص28 ؛ نراقی، عوائد الأيام في بيان قواعد الأحكام و مہمات مسائل الحلال و الحرام ، 1417ھ، ص669۔
- ↑ مکارم شیرازی، القواعد الفقہيۃ، 1411ھ، ج 1، ص366 -368؛ ایروانی، دروس تمہيديۃ في القواعد الفقہيۃ، 1426ھ، ج 2، ص28۔
- ↑ نراقی، عوائد الأيام في بيان قواعد الأحكام و مہمات مسائل الحلال و الحرام ، 1417ھ، ص653-658 ۔
- ↑ کریمی قمی، قاعدۃ القرعۃ، 1420ھ، ص12 ۔
- ↑ نائینی، فوائد الأصول، 1376شمسی، ج 4، ص680۔
- ↑ مکارم شیرازی، القواعد الفقہيۃ، 1411ھ، ج 1، ص362-363۔
- ↑ نائینی، فوائد الأصول، 1376شمسی، ج 4، ص680؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقہيۃ، 1411ھ، ج 1، ص362-363۔
- ↑ نائینی، فوائد الأصول، 1376شمسی، ج 4، ص679 ؛ کریمی قمی، قاعدۃ القرعۃ، 1420ھ، ص25؛ خوئی، مصباح الاصول، 1417ھ، ج3، ص343۔
- ↑ نگاہ کنید بہ: ایروانی، دروس تمہيديۃ في القواعد الفقہيۃ، 1426ھ، ج 2، ص9-40؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقہيۃ، 1411ھ، ج 1، ص321-380؛ فاضل لنکرانی، القواعد الفقہيۃ، 1416ھ، ص421 -442۔
- ↑ سیفی مازندرانی، مباني الفقہ الفعال في القواعد الفقہيۃ الأساسيۃ، 1425ھ، ج 3، ص224 ؛ فاضل لنکرانی، القواعد الفقہيۃ، 1416ھ، ص436۔
- ↑ سیفی مازندرانی، مباني الفقہ الفعال في القواعد الفقہيۃ الأساسيۃ، 1425ھ، ج 3، ص222۔
- ↑ کریمی قمی، قاعدۃ القرعۃ، 1420ھ، ص23و38۔
- ↑ مباني الفقہ الفعال في القواعد الفقہيۃ الأساسيۃ، ج 3، ص220 ؛ کریمی قمی، قاعدۃ القرعۃ، 1420ھ، ص23و38۔
- ↑ مہذب، «قرعہ در فقہ امامیہ و نگاہی بہ سابقہ تاریخی آن»، ص124۔
- ↑ حلی، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، 1410ھ، ج2، ص173؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقہيۃ، 1411ھ، ج 1، ص332 ؛ بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج 1، ص65 ۔
- ↑ ایروانی، دروس تمہيديۃ في القواعد الفقہيۃ، 1426ھ، ج 2، ص14 ، بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج 1، ص59 ۔
- ↑ ایروانی، دروس تمہيديۃ في القواعد الفقہيۃ، 1426ھ، ج 2، ص14 ، بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج 1، ص59 ۔
- ↑ ایروانی، دروس تمہيديۃ في القواعد الفقہيۃ، 1426ھ، ج 2، ص16و15؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقہيۃ، 1411ھ، ج 1، ص328۔
- ↑ بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج 1، ص60۔
- ↑ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج3، ص92۔
- ↑ بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج 1، ص62۔
- ↑ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج6، ص240۔
- ↑ عاملی، وسائل الشيعۃ، 1409ھ، ج 24، ص170 ۔
- ↑ کلینی، کافی، 1407ھ، ج7، ص158۔
- ↑ عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج23، ص103۔
- ↑ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج6، ص239۔
- ↑ ایروانی، دروس تمہيديۃ في القواعد الفقہيۃ، 1426ھ، ج 2، ص18 ۔
مآخذ
- آشتیانی، محمد حسن، قواعد الفقہیۃ (بحرالفوائد)، قم، انتشارات كتابخانہ آيت اللہ مرعشى نجفى، چاپ اول، 1403ھ۔
- ایروانی، باقر، دروس تمہيديۃ في القواعد الفقہيۃ ، قم، دار الفقہ، چاپ سوم، 1426ھ۔
- بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقہيۃ، قم، نشر الہادی، چاپ اول، 1419ھ۔
- حلی، ابن ادریس، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، نشر جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم ، چاپ دوم، 1410ھ۔
- خوئی، سید ابوالقاسم، مصباح الاصول، قم، داوری، چاپ پنجم، 1417ھ۔
- سیفی مازندرانی، مباني الفقہ الفعال في القواعد الفقہيۃ الأساسيۃ، قم، جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم ، چاپ اول، 1425ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، جامعہ مدرسین، قم، چاپ دوم، 1413ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، دارالکتب الاسلامیۃ، قم، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام ، قم، چاپ اول، 1409ھ۔
- فاضل لنکرانی، محمد، القواعد الفقہيۃ، قم، چاپخانہ مہر، چاپ اول، 1416ھ۔
- کریمی قمی، حسین، قاعدۃ القرعۃ، قم، نشر مركز فقہى ائمہ اطہار عليہم السلام ، چاپ اول، 1420ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، دار الکتب الاسلامیۃ، تہران، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، القواعد الفقہیۃ، قم، مدرسہ امام امير المؤمنين(ع)، چاپ سوم، 1411ھ۔
- مہذب، علی، «قرعہ در فقہ امامیہ و نگاہی بہ سابقہ تاریخی آن»، فصلنامہ مقالات و بررسی ہا، شمارہ 17 و 18، بہار 1353شمسی۔
- نائینی، محمد حسین، فوائد الاصول، قم، جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم، چاپ اول، 1376شمسی۔
- نراقی، احمد، عوائد الأيام في بيان قواعد الأحكام و مہمات مسائل الحلال و الحرام ، قم، انتشارات دفتر تبليغات اسلامى حوزہ علميہ قم ، چاپ اول، 1417ھ۔