حسین منی و انا من حسین

ویکی شیعہ سے
حسین منی و انا من حسین
حسین منی و انا من حسین
حرم امام حسینؑ کے دروازے پر «حسین منی...» کی روایت درج ہے
حرم امام حسینؑ کے دروازے پر «حسین منی...» کی روایت درج ہے
حدیث کے کوائف
موضوعفضائل امام حسینؑ
صادر ازرسول اللہؐ
اصلی راوییعلی العامری
اعتبارِ سندصحیح
شیعہ مآخذکامل الزیارات، شرح الاخبار، الارشاد
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


حُسَینٌ مِنّی و أنا مِن حسین (ارد میں: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں) امام حسینؑ کی فضیلت میں وارد ہونے والی ایک حدیث نبوی ہے ایک جملہ حدیث ہے جو نبوی سے امام حسینؑ کی فضیلت میں وارد ہوئی ہے جو شیعہ اور سنی حدیثی مآخذ میں نقل ہوئی ہے۔ اس حدیث کا سب سے قدیمی مآخذ اہل سنت عالم دین ابن‌ابی‌شیبہ (159–235ھ) کی کتاب المُصنَّف ہے اور شیعہ مآخذ میں سب سے پہلے ابن‌قولویہ (متوفی 368ھ) کی کتاب کامل الزیارات میں نقل ہوئی ہے۔

بعض کا کہنا ہے کہ یہ حدیث پیغمبر اکرمؐ اور امام حسینؑ کی روحی وحدت کو بیان کرتی ہے اور حسین سے محبت اللہ کی محبت اور شیعہ ائمہ کا امام حسینؑ کے نسل سے ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اسی طرح بعض مورخوں کا کہنا ہے کہ انا من حسین کی عبارت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اسلام کے بقا کا ضامن امام حسینؑ کا قیام ہے۔ یہ حدیث امام حسینؑ کے حرم کے دروازے پر بھی لکھی گئی ہے۔

اہمیت اور معرفی

«حسین مِنّی» کی حدیث رسول اللہؐ سے مروی امام حسینؑ کی فضیلت میں ایک حدیث ہے۔ سید ہاشم بحرانی کے بقول یہ حدیث شیعہ اور سنی مآخذ میں متعدد بار تکرار ہوئی ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی امام حسینؑ سے محبت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور شیعہ و سنی مآخذ میں بارہا تکرار کے ساتھ ذکر ہوئی ہے۔[1] «حسین مِنّی» کی حدیث امام حسینؑ کے حرم کے دروازے پر بھی لکھی ہوئی ہے۔[2] اسی طرح یہ حدیث امام حسینؑ کی ضریح کے ستونوں پر بھی حکاکی کی گئی ہے۔[3]

احادیث کتابوں کے مطابق[4] ایک دن رسول اللہؐ کسی دعوت پر جارہے تھے، راستے میں امام حسینؐ کو دیکھا جو بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ آنحضرتؐ امام حسین کی طرف گئے باہوں کو کھولا اور اپنے بغل میں لیا اور فرمایا:

«حُسَیْنٌ مِنِّی وَ أَنَا مِنْ حُسَیْنٍ، أَحَبَّ اَللَّہُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْناً، حُسَیْنٌ سِبْطٌ مِنَ اَلْأَسْبَاطِ؛ حسین مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں، اللہ اسے چاہتا ہے جو حسین کو چاہتا ہے حسین میرے نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔»[5][یادداشت 1]

حدیث کا مضمون

حکاکی حدیث «حسین منی» بر ضریح امام حسینؑ

بعض محققین کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں درج ذیل مضامین پائے جاتے ہیں:

  • پیغمبر اکرمؐ اور امام حسینؑ کے روح میں وحدت ہے
  • امام حسینؑ کی محبت اللہ کی محبوبیت کا سبب ہے
  • شیعہ ائمہ کی نسل کا تسلسل امام حسینؑ کی نسل سے ہے۔[6]

شافعی عالم دین، مَناوی (952–1031ھ) قاضی وکیع سے اس حدیث کی تشریح اور تفسیر یوں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ جانتے تھے کہ امام حسینؑ اور امت کے مابین ایک عظیم واقعہ رونما ہونا ہے اسی لئے آپ نے اس حدیث میں صرف امام حسینؑ کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے محبت، احترام اور جنگ میں حسینؑ اور پیغمبر اکرمؐ ایک ہیں اور احب اللہ من احب حسینا کہہ کر مزید اس بات کی تاکید کی ہے؛ کیونکہ حسین سے محبت رسول اللہؐ سے محبت ہے اور رسول اللہ سے محبت اللہ سے محبت ہے۔[7]

«أنا من حسین» کی عبارت کے بارے میں تاریخ اہل بیت کے ماہر، باقر شریف قرشی کہنا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ امام حسینؑ کا قیام اور شہادت اسلام کی بقا کا ضامن بنے اور اسی سبب پیغمبر اکرمؐ کے دینکی بقا کا ضامن بھی امام حسینؑ ہوا۔[8]

حدیث کے مآخذ اور اس کا اعتبار

اس حدیث کا سب سے قدیمی مآخذ اہل سنت عالم دین ابن‌ابی‌شیبہ (159–235ھ) کی کتاب المُصنَّف ہے[9] علما رجال نے انہیں موثق اور سچا قرار دیا ہے۔[10] اور شیعہ قدیم مآخذ میں ابن‌قولویہ (متوفی 368ھ) کی کتاب کامل الزیارات،[11] قاضی نعمان مغربی (283–363ھ) کی کتاب شرح الاخبار،[12] اور شیخ مفید (336-413ھ) کی ارشاد[13] میں یہ حدیث ذکر ہوئی ہے اور ان مآخذ سے بعد کی دیگر کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔[14]

علامہ مجلسی، کامل الزیارات کو معتبر اصل اور شیعہ فقہا کے مابین مشہور سمجھتے ہیں۔[15] کامل الزیارات میں اس روایت کے سلسلہ سند میں مذکور راویوں میں محمد بن عبداللہ جعفر حِمْیَری، ابی‌سعید حسن بن علی بن زکریا عَدَوی بصری، عبد الاَعلیٰ بن حَمّاد بُرْسی، وَہْب، عبداللہ بن عثمان، سعید بن ابی‌راشد و یَعْلی عامِری کا نام شامل ہے۔[16]

اہل سنت کی جن کتابوں میں یہ روایت ذکر ہوئی ہے ان میں مسند احمد بن حنبل،[17] سُنَن ابن‌ماجہ،[18] سنن تِرمذی[19] اور مستدرک علی الصحیحین[20] شامل ہیں۔ حاکم نیشابوری اس حدیث کو صحیح السند[21] جبکہ ہیثمی[22] اور ترمزی[23] اسے حسن سمجھتے ہیں۔

مونوگراف

آقابزرگ تہرانی کے بقول، «شرح حديث حسين منی و أنا من حسين‏» کے نام سے سید دلدار علی نقوی کے بیٹے سید محمد اور سید حسین بن سید دلدارعلی نقوی کے شاگرد مرزا محمد بن کاظم ہندی (متوفی 1289ھ) نے دو کتابیں لکھی ہیں۔[24] نیز بعض فہرست نویسوں کے مطابق شیخ محمد خالصی‌زادہ (متوفی 1342ھ) نے بھی «حديث حسين منی و أنا من حسين‏» کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جو نجف میں طبع ہوئی ہے۔[25]

نوٹ

  1. سبط اس روایت میں امام اور نقیب کے معنی میں ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے منتخب ہے اور انبیاء کی نسل سے ہے۔ (محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام حسین، 1388ش، ج1، ص474-477.)

حوالہ جات

  1. بحرانی، حلیۃ الأبرار، 1411ھ، ج4، ص127.
  2. رنجبرحسینی و حائری، «بررسی اعتبار و دلالت حدیث نبوی:حسین منی و انا من حسین»، ص7.
  3. «آیات، روایات و مضامین بہ کار رفتہ بر روی ضریح جدید امام حسین»، سایت خبرگزاری فارس.
  4. ابن‌قولویہ، کامل‌الزیارات، 1356ھ، ص53.
  5. ابن‌قولویہ، کامل‌الزیارات، 1356ھ، ص53.
  6. رنجبرحسینی و حائری، «بررسی اعتبار و دلالت حدیث نبوی:حسین منی و انا من حسین»، ص8.
  7. مناوی، فیض القدیر، 1356ھ، ج3، ص387.
  8. موسوی گرمارودی، فرہنگ عاشورا، 1368ش، ص163.
  9. ابن‌ابی شیبہ، المصنف، 1409ھ، ج6، ص380.
  10. رنجبرحسینی و حائری، «بررسی اعتبار و دلالت حدیث نبوی:حسین منی و انا من حسین»، ص9.
  11. ابن‌قولویہ، کامل‌الزیارات، 1356ھ، ص53.
  12. قاضی نعمان، شرح الأخبار، 1409ھ، ج3، ص112.
  13. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص127.
  14. رنجبرحسینی و حائری، «بررسی اعتبار و دلالت حدیث نبوی:حسین منی و انا من حسین»، ص8.
  15. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج1، ص27.
  16. ابن‌قولویہ، کامل‌الزیارات، 1356ھ، ص53.
  17. ابن‌حنبل، مسند، 1421ھ، ج29، ص103.
  18. ابن‌ماجہ، سنن، 1418ھ، ج1، ص101.
  19. ترمذی، سنن، 1419ھ، ج5، ص658.
  20. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، جلد 3، ص194.
  21. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، جلد 3، ص194.
  22. ہیثمی، مجمع الزوائد، 1414ھ، ج9، ص185.
  23. ترمذی، سنن، 1419ھ، ج5، ص658.
  24. آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، 1403ھ، ج13، ص196.
  25. مشار، فہرست کتابہای چاپی عربی، 1344ش، ص311.

مآخذ

  • «آیات، روایات و مضامین بہ کار رفتہ بر روی ضریح جدید امام حسین»، سایت خبرگزاری فارس،‌ تاریخ درج مطلب 15 اسفند 1391، تاریخ بازدید 1 خرداد 1402.
  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، بیروت، دار الأضواء، 1403ھ۔
  • ابن‌ابی شیبہ، ابوبکر عبداللہ بن محمد، المصنف فی الاحادیث والآثار، ریاض، مکتبۃ الرشد، 1409ھ۔
  • ابن‌حنبل، احمد، مسند، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1421ھ۔
  • ابن‌قولویہ، جعفر بن محمد قمی، کامل‌الزیارات، نجف، دار المرتضویہ، 1356ھ۔
  • ابن‌ماجہ، محمد بن یزید، سنن، بی‌جا، مکتبۃ ابی‌المعاطی، 1418ھ۔
  • بحرانی، سید ہاشم، حلیۃ الأبرار فی أحوال محمّد و آلہ الأطہار علیہم السلام، قم، مؤسسہ معارف اسلامیہ، 1411ھ۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن، قاہرہ، مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، 1395ھ۔
  • حاکم نیشابوری، ابو‌عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1411ھ۔
  • رنجبرحسینی، محمد و ماجدہ حائری، «بررسی اعتبار و دلالت حدیث نبوی:حسین منی و انا من حسین»، پژوہشنامہ معارف حسینی، سال 4، شمارہ 15، پاییز 1398ش.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • مشار، خان‌بابا، فہرست کتابہای چاپی عربی، بی‌جا، بی‌نا، 1344ش.
  • مغربی، نعمان بن محمد، شرح الأخبار فی فضائل الأئمۃ الأطہار علیہم السلام‏، قم، جامعہ مدرسین، 1414ھ۔
  • مناوی، زین‌الدین محمد، فیض القدیر، مصر، مکتبۃ التجاریۃ الکبری، 1356ھ۔
  • نووی، یحیی بن شرف، تہذیب الأسماء و اللغات، دمشق، دار الرسالۃ العالمیۃ، 1430ھ۔
  • ہیثمی، علی بن ابی‌بکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، قاہرہ، مکتبۃ القدسی، 1414ھ۔