شیخ مرتضی انصاری

ویکی شیعہ سے
(مرتضی انصاری سے رجوع مکرر)
شیخ مرتضی انصاری
شیخ انصاری سے منسوب تصویر
شیخ انصاری سے منسوب تصویر
کوائف
مکمل نامشیخ مرتضی انصاری
لقب/کنیتشیخ انصاری
تاریخ ولادت18 ذی الحجہ، عید غدیر، ۱۲۱۴ قمری
آبائی شہرایران، دزفول
تاریخ وفات18 جمادی الثانی سنہ ۱۲۸۱ ہجری قمری
مدفنروضہ حضرت امیر (ع)، نجف
نامور اقرباءجابر بن عبداللہ انصاری
علمی معلومات
اساتذہشیخ حسین انصاری دزفولی، سید محمد مجاہد، شریف العلماء مازندرانی، ملا احمد نراقی، شیخ موسی کاشف الغطاء، شیخ علی بن جعفر کاشف الغطاء، شیخ محمد حسن نجفی
شاگردمیرزای شیرازی، شیخ جعفر شوشتری، میرزا حبیب‌اللہ رشتی، سید حسین کوہ کمرہ‌ای و ....
تالیفاتکتاب رسائل (فرائد الاصول)، کتاب المکاسب المحرمۃ و ...
خدمات
سماجیفقیہ، اصولی،


شیخ مرتضی انصاری (1214۔1281 ھ)، شیخ انصاری کے نام سے معروف تیرہویں صدی کے شیعہ فقہاء میں سے تھے اور صاحب جواہر کے بعد مرجعیت عامہ کے منصب پر فائز تھے۔[1]

شیخ انصاری کو خاتم الفقہاء والمجتہدین‌ لقب دیا گیا تھا۔ انہوں نے علم اصول میں جدید روشوں کو متعارف کرتے ہوئے علم فقہ کو ایک نئے مرحلے میں وارد کیا۔ رسائل اور مکاسب محرمہ ان کی اہم ترین کتابوں میں سے ہیں۔ یہ کتابیں شیعہ حوزات علمیہ کے درسی نصابوں میں شامل ہے۔ ان کے بعد آنے والے علماء ان کے پیرو اور شاگر محسوب ہوتے ہیں۔ ان کی کتابیں بھی محقق حلی، علامہ حلی اور شہید اول کی کتابوں کی طرح ہمیشہ محققین کی توجہ کا مرکز بنی رہی ہیں اور بہت سارے محققین نے ان کتابوں پر حاشیے بھی لکھے ہیں۔[2]

شیخ انصاری نے سنہ 1281 ھ میں نجف میں وفات پائی اور امام علی (ع) کے روضہ اطہر میں مدفون ہیں۔[3]

نسب، ولادت اور وفات

شیخ انصاری 18 ذی الحجہ، عید غدیر کے دن سنہ 1412 ہجری کو ایران کے شہر دزفول میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین نے ان کی تاریخ ولادت عید غدیر کے دن ہونے کی وجہ سے ان کا نام مرتضی رکھا۔ ان کا نسب پیغمبر اکرم (ص) کے جلیل القدر صحابی جابر بن عبداللہ انصاری سے جا ملتا ہے۔[4] ان کے والد محمد امین (متوفی سنہ 1248 ہجری) ایک پرہیزگار عالم اور دینی مبلغ تھے۔ ان کی والدہ شیخ یعقوب بن شیخ احمد بن شیخ شمس الدین انصاری کی بیٹی تھیں۔ آپ ایک پرہیزگار اور متعبد خاتون تھیں اور آپ نے نماز شب کو آخر عمر تک ترک نہیں کیا۔ زندگی کے آخر میں وہ نابینا ہو گئی تھیں اس لئے شیخ انصاری ان کیلئے نماز تہجد کے مقدمات فراہم کرتے تھے حتی ضرورت کے موقع پر ان کیلئے وضو کا پانی بھی گرم کرتے تھے۔[حوالہ درکار]

شیخ انصاری کی ولادت سے پہلے ان کی والدہ نے ایک رات امام صادق (ع) کو عالم رؤیا میں دیکھا کہ سونے کی ملمع کاری شدہ ایک قرآن انہیں دیا تعبیر خواب کے ماہرین نے اس خواب کو ایک بلند پایہ اور صالح فرزند سے تعبیر کیا۔ آپ سے نقل ہوا ہے کہ آپ ہمیشہ کوشش کرتی تھیں کہ اپنے بچے کو دودھ پلاتے وقت با وضو ہوا رہیں۔ آپ نے سنہ 1279 ھ میں نجف اشرف میں وفات پائی۔[حوالہ درکار]

شیخ انصاری نے 18 جمادی الثانی سنہ 1281 ھ کو نجف میں وفات پائی اور حرم امام علی (ع) میں دفن ہوئے۔[حوالہ درکار]


تعلیم

شیح انصاری نے بچپن ہی میں قرآن اور اسلامی تعلیمات سے آشنا ہوگئے۔ قرآن اور ادبیات عرب کے بعد انہوں نے فقہ اوراصول اپنے چچا زاد بھائی شیخ حسین انصاری‌ سے حاصل کی اور جوانی کے عمر میں ان دو علوم میں اجتہاد کے درجے تک پہنچ گئے۔ تقریبا 20 سال کی عمر میں اپنے والد کے ہمراہ عتبات عالیات کی زیارت کیلئے عراق کا سفر کیا جہاں علاّمہ مجاہد سے آشنا ہوگئے اور ان کی اصرار پر کربلا میں ہی مقیم ہوئے۔[5] شیخ انصاری نے کربلا میں قیام کے دوران علاّمہ‏ مجاہد اور شریف العلما کے دروس میں شرکت کی اور ان سے بہت زیادہ علیم استفادہ کیا۔ اس کے بعد والی بغداد کی جانب سے کربلا پر حملہ کرنے کے سبب شیخ انصاری عراق سے ایران واپس تشریف لے آئے۔[6] لیکن ایک سال کے بعد دوبارہ کربلا تشریف لے گئے اور تقریبا دو سال تک دوبارہ شریف العلماء کی شاگردی اختیار کی۔ اس کے بعد نجف اشرف میں ایک سال تک شیخ موسی کاشف الغطا سے استفادہ کیا پھر اس کے بعد دوبارہ ایران واپس آگئے۔ اس بار انہوں نے تین یا چار سال کی مدت تک کاشان میں بلند پایہ عالم دین ملا احمد نراقی کی شاگردی اختیار کی۔ کاشان میں درس و تدریس کے دوران اصفہان میں حجت الاسلام شفتی سے ملاقات کی۔ آخر کار شیخ انصاری سنہ۱۲۴۹ کو دوبارہ نجف اشرف مشرف ہوئے اور کئی سال تک شیخ علی بن جعفر کاشف الغطاء کی شاگردی کی یوں وہ اجتہاد کے عظیم درجے تک پہنچ گئے۔[7]

اساتذہ

شیخ انصاری نے متعددی اساتذہ سے کسب فیض کیا جن کے نام درج ذیل ہیں:

شاگرد

اسلامی جمہوری ایران کے پوسٹ آفس نے شیخ انصاری کی تجلیل کیلئے شایع کردہ ٹکٹ

شیخ انصاری سے کسب فیض کرنے والے شاگردوں کی تعداد کو 500 سے 3000 نفر تک ذکر کئے ہیں ان میں سے چیدہ چید افراد کا نام درج ذیل ہیں:

مرجعیت

سنہ ۱۲۶۲ ھ میں شیعوں کی مرجعیت عامہ آیت اللہ شیخ محمد حسن صاحب جواہر کی طرف منتقل ہوئی۔ انہوں نے سنہ ۱۲۶۶ ھ کو اپنی عمر کے آخری لمحات میں شیعہ بلند پایہ علماء کے سامنے شيخ انصاري سے مخاطب ہو کر کہا:

ہذا مرجعکم من بعدی: میرے بعد یہ تمہارے مرجع ہیں۔[14]

شیخ انصاری نے شیخ علی کاشف الغطا، ان کے بھائی شیخ حسن کاشف الغطا اور شیخ محمد حسن صاحب جواہر کے بعد حوزہ علمیہ نجف کی سرپرستی کو ۱۲۶۶ سے ۱۲۸۱ یعنی ۱۵ سال تک سنبھالی اور شیعیان جہاں ان کی تقلید کرتے تھے۔

علمی میدان میں شیخ کی جدّت

شیخ انصاری کی شہرت اصول فقہ میں ان کی جدّت کی وجہ سے ہے، اور شیخ انصاری کی تحریر اور قدرت تحلیل کی وجہ سے علم فقہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا۔ ان کے فقہی اور اصولی ابتکارات میں سے بعض یہ ہیں: نظریہ انسداد باب علم کی نفی، نظریہ مصلحت سلوکیہ، نظریہ حکومت و ورود، اسی طرح اصول فقہ میں حجت کی بحث میں تغییرات ایجاد کرنا اور اسے استحکام بخشنا وغیرہ بھی شیخ انصاری کے ابتکارات میں سے ہیں۔[15][16]

فضائل اخلاقی

شیخ اعظم علمی قابلیت خاص کر فقہ اور اصول میں صاحب نظر ہونے کے ساتھ ساتھ دوسری کئی جہات میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ اخلاق، عرفان اور تقوا میں وہ ایک عظیم مقام پر فائز تھے اور ان کی احتیاط اور تواضع زبان زد خاص و عام تھے۔

مرجعیت قبول کرنے سے انکار

کہا جاتا ہے کہ صاحب جواہر کی جانب سے انہیں اپنا جانشین معرّفی کرنے اور باقی تمام فقہاء کی جانب سے بھی آپ کی مرجعیت کو قبول کرنے کے بعد بھی خود شیخ نے اس منصب کو قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا سعید العلماء مازندرانی جو اس وقت مازندران میں ہیں مجھ سے اعلم ہیں۔ اس بنا پر انہوں نے سعید العلما کیلئے ایک خط لکها جس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جب ہم دونوں شریف العلما کی کلاس میں جاتے تھے تو اس وقت ان کے دروس کو مجھ سے زیادہ آپ سمجھتے تھے لہذا آپ کو مرجعیت کے منصب کو قبول کرنا چاہئے۔ سعید العلما نے جواب میں لکھا کہ اگرچہ اس وقت میری ذہانت آپ سے زیادہ تھی لیکن اب میں کافی عرصے سے علمی بحث و مباحثوں سے دور ہوں جبکہ آپ علمی میدان میں تحقیق اور بحث و مباحثے میں مشغول ہو لہذا اس منصب کیلئے مجھ سے زیادہ آپ مناسب ہیں۔ ان کے اس جواب کے بعد شیخ انصاری قانع ہو جاتے ہیں اور مرجعیت کو قبول کرتے ہیں۔[17]

فرائد الاصول یا کتاب رسائل، علم اصول میں

ماں کا احترام اور ان کا استخارہ

عراق سے ایران واپس آنے کے کچھ عرصے بعد شیخ انصاری نے ایران کے دوسرے علماء سے کسب فیض کی خاطر مختلف شہروں کی سفر کا ارادہ کیا۔ لیکن شیخ انصاری کی والدہ جس نے کافی عرصہ بعد بیٹے کو اپنے پاس پایی تھی، نے شیخ کو اس سفر کی اجازت نہیں دی۔ شیخ انصاری نے والدہ کے احترام میں کچھ مدت کیلئے اس سفر کو مؤخر کیا تاکہ والدہ کو راضی کیا جا سکے۔ کافی گفت و شنید کے بعد شیخ انصاری کی والدہ استخارہ کرنے پر راضی ہو جاتی ہیں اور جب قرآن سے استخارہ نکالتی ہیں تو یہ آیت ظاہر ہوتی ہے:

وَأَوْحَینَا إِلَی أُمِّ مُوسَی أَنْ أَرْضِعِیه فَإِذَا خِفْتِ عَلَیه فَأَلْقِیه فِی الْیمِّ وَلَا تَخَافِی وَلَا تَحْزَنِی إِنَّا رَادُّوه إِلَیکِ وَجَاعِلُوه مِنَ الْمُرْسَلِینَ (ترجمہ: اور ہم نے مادر موسٰی کی طرف وحی کی کہ اپنے بچّہ کو دودھ پلاؤ اور اس کے بعد جب اس کی زندگی کا خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دو اور بالکل ڈرو نہیں اور پریشان نہ ہو کہ ہم اسے تمہاری طرف پلٹا دینے والے اور اسے مرسلین میں سے قرار دینے والے ہیں۔)[18]

اس کے بعد شیخ انصاری کی والدہ کی دل کو قرار آجاتی ہے اور وہ شیخ انصاری کو سفر پر جانے کی اجازت دے دیتی ہیں۔[حوالہ درکار]


زہد شیخ انصاری

باوجود یہ کہ شیخ انصاری اپنے زمانے میں شیعیان جہاں کی مرجعیت عامہ کے عہدے پر فائز تھے اور اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 4 کروڑ شیعہ ان کی تقلید کرتے تھے اور دنیا کے گوشہ و کنار سے وجوہات شرعیہ ان کی خدمت میں بھیجے جاتے تھے، لیکن شیخ انصاری ایک سادہ زندگی گزارتے تھے اور کم سے کم پر قناعت کرتے تھے۔ آپ ان وجوہات کو مدارس دینیہ اور فقراء کی مالی معاونت پر خرچ کرتے تھے اور خود ہمیشہ ایک فقیر کی مانند زندگی گزارتے تھے یہاں تک کہ زندگی کی ابتداء سے عمر کی آخری لمحات تک ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور زہد کی آخری منزل پر زندگی گزارتے تھے۔ ان کے زہد کے حوالے سے کئی داستانیں نقل ہوئی ہیں۔

انہوں نے اپنے بعد کوئی مال ارث میں نہیں چھوڑی اور جب اس دنیا سے چلے گئے تو ان کی کل جمع پونجی 17 تومان (ایرانی کرنسی) تھے اور اتنی مقدار میں وہ مقروض بھی تھے اور مذکورہ رقم کو اس قرضہ کو واپس کرنے کیلئے اکھٹا کیا ہوا تھا۔ ان کے ورثاء کے پاس ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات بھی نہیں تھے اور اس زمانے کے ایک مالدار شخص نے آپ کی تجہیز و تکفین کے اخراجات برداشت کئے۔[حوالہ درکار]


قلمی آثار

کتاب المکاسب (علم فقہ میں)
  • کتاب رسائل (فرائد الاصول)
  • کتاب المکاسب المحرمۃ
  • کتاب الصلاۃ
  • کتاب الطہارۃ
  • تقیہ کے موضوع پر ایک رسالہ
  • رضاع کے موضوع پر ایک رسالہ
  • ر قضاء میت کے موضوع پر ایک رسالہ
  • رمواسعہ و مضایقہ کے موضوع پر ایک رسالہ
  • عدالت کے موضوع پر ایک رسالہ
  • مصاہرہ کے موضوع پر ایک رسالہ
  • ملک اقرار کے موضوع پر ایک رسالہ
  • قاعدہ لاضرر و لاضرار کی تبیین میں ایک رسالہ
  • خمس کے موضوع پر ایک رسالہ
  • زکات کے موضوع پر ایک رسالہ
  • خلل صلوۃ کے موضوع پر ایک رسالہ
  • ارث کے موضوع پر ایک رسالہ
  • تیمم کے موضوع پر ایک رسالہ
  • قاعدہ تسامح پر ایک رسالہ
  • حجیت اخبار کے موضوع پر ایک رسالہ
  • قرعہ کے موضوع پر ایک رسالہ
  • تقلید کے موضوع پر ایک رسالہ
  • قطع و جزم کے موضوع پر ایک رسالہ
  • ظن کے موضوع پر ایک رسالہ
  • اصالۃ البرائہ کے موضوع پر ایک رسالہ
  • مناسک حج کے موضوع پر ایک رسالہ
  • استصحاب کے مباحث پر حاشیہ
  • نجاۃ العباد (توضیح المسائل) پر حاشیہ
  • نراقی کی کتاب عوائد پر حاشیہ
  • بغیۃ الطالب پر حاشیہ
  • اثبات التسامح فی ادلۃ السنن
  • التعادل و التراجیح

حوالہ جات

  1. مطہری، مجموعہ آثار، ج۱۴، ص۴۳۷.
  2. مطہری، مجموعہ آثار، ج۱۴، ص۴۳۷.
  3. مطہری، مجموعہ آثار، ج۱۴، ص۴۳۷.
  4. گلشن ابرار، ص۳۳۲.
  5. گلشن ابرار، ص۳۳۲.
  6. شیخ مرتضی انصاری، زندگانی و شخصیت شیخ انصاری، صص۸۶ ـ ۸۴.
  7. اعیان الشیعۃ، صص۴۵۶ ـ ۴۵۵.
  8. زندگی و شخصیت شیخ انصاری، ص۱۷۹.
  9. زندگی و شخصیت شیخ انصاری، ص۱۹۰.
  10. زندگی و شخصیت شیخ انصاری، ص۱۸۲.
  11. زندگی و شخصیت شیخ انصاری، ص۱۹۷.
  12. زندگی و شخصیت شیخ انصاری، ص۱۸۸.
  13. آقا بزرگ، طبقات، ج۱، ص۸۰۵؛ امین، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۱۶۷.
  14. فقہای نامدار شیعہ، ص۳۴۱ و ۳۴۲.
  15. علی پور، مہدی، درآمدی بر تاریخ علم اصول، ص۳۶۵بہ بعد.
  16. رسائل، ج۳، صص۲۴۵ ـ ۲۳۳؛ صص۳۹۶ ـ ۳۹۴.
  17. اعیان الشیعۃ، صص۴۵۶ ـ ۴۵۵.
  18. سورہ قصص/آیت نمبر7

مآخذ

  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، دار التعارف، بیروت.
  • انصاری، مرتضی، زندگی و شخصیت شیخ انصاری، کنگرہ جہانی بزرگداشت دویست مین سالگرد تولد شیخ انصاری.
  • رفیعی پور علوی علویجہ، سید عباس، «‌شیخ انصاری »، در گلشن ابرار، چاپ سوم، نشر معروف، ۱۳۸۵ش.
  • «شیخ مرتضی انصاری »، کتابخانہ طہور.
  • عقیقی بخشایشی، فقہای نامدار شیعہ، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی.
  • علی پور، مہدی، درآمدی بر تاریخ علم اصول، مرکز جہانی علوم اسلامی دفتر تدوین متون درسی، قم، ۱۳۸۲ش.
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج۱۴ (خدمات متقابل اسلام و ایران)، تہران، صدرا، ۱۳۷۷ش.