باب الحوائج، ضرورتوں کی درگاہ یا اپنی ضرورتوں تک پہنچنے کے راستے کے معنا میں ہے۔ باب الحوائج کا عنوان خاندان اہل بیت سے امام کاظمؑ، حضرت عباسؑ اور علی اصغرؑ کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ بہت سے شیعہ معتقد ہیں کہ یہ ہستیاں حاجات کی برآوری میں نہایت مؤثر ہیں۔ یہ لقب احادیث میں بیان نہیں ہوا ہے۔

باب الحوائج شخصیات

باب الحوائج حاجتوں کی درگاہ اور مجازی طور پر حاجتوں کی بر آوردہ ہونے کی درگاہ کے معنا میں استعمال ہوتا ہے۔ [1] یہ اصطلاح آئمہ طاہرین سے منقول روایات میں استعمال نہیں ہوئی ہے لیکن شیعوں کے عمومی معاشرے میں خاندان اہل بیت کے چند افراد کیلئے بولی جاتی ہے۔ فارسی لغت: فرہنگ سخن اور لغت‌نامۂ دہخدا میں یہ لقب دو شخصیتوں: امام موسی کاظمؑ شیعوں کے ساتویں امام [2] اور حضرت عباسؑ جو واقعہ کربلا میں امام حسین کی فوج کے پرچمدار تھے، کے لئے استعمال ہوا ہے۔ [3] جواد محدثی نے فرہنگ عاشورا میں علی اصغر[4] کا نام بھی اسی لقب کے ضمن ذکر کیا ہے۔ وہ کربلامیں شہید ہونے والوں میں سے سب سے کم عمر تھے۔

امام کاظمؑ

احادیث میں یہ لقب ان امام کی نسبت ذکر نہیں ہوا بلکہ یہ لقب ان کی شہادت کے بعد ذکر ہوا اور اسے سب سے پہلے امام کاظمؑ کے متعلق ابن‌ شہر‌آشوب (488-588 ھ) نے اپنی کتاب مناقب میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے: بغداد میں مقابر قریش میں باب تین کے بائیں جانب (امام موسی کاظم) کو دفن کیا گیا پھر ان کی قبر باب الحوائج میں تبدیل ہو گئی۔[5]

علامہ مجلسی نے بھی بحار الانوار امام موسی کاظم کی توصیف یہی عبارت نقل کی ہے۔[6] اہل سنت منابع میں بھی باب الحوائج کا لقب مذکور ہوا ہے۔ مثال کے طور ابن حجر ہیتمی (متوفی 974 ھ) لکھتا ہے: امام موسی کاظمؑ کو کثرت عفو درگزر اور بردباری کی وجہ سے کاظم کہا گیا۔ عراقیوں کے نزدیک باب قضاء الحوائج عندالله (یعنی خدا کے نزدیک لوگوں کی حاجات کو پوری کرنے کا دروازہ) معروف تھا۔[7] علمائے شافعی میں سے شبلنچی بھی عراق کے لوگوں میں اس مشہور صفت کے بارے میں لکھتا ہے: کاظم [ع] امام بزرگوار تھے ... اور وہ عراق کے لوگوں میں باب الحوائج الی الله معروف تھے۔ حاجتمندوں کے ان سے توسل کی بنا پر حاجات قبول ہونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا۔[8] دائرة المعارف تشیع کے مطابق لوگ موسی کاظمؑ کی قبر سے متوسل ہوتے ہیں۔[9]

عباس بن علی و علی اصغر

آج کل پرچمدار امام حسین(ع) عباس بن علی [10] اور کربلا کے سب سے چھوٹے شہید علی اصغر اسی لقب سے یاد کئے جاتے ہیں۔[11] یہ لقب بھی ان شخصیات کی نسبت شیعہ احادیث میں استعمال نہیں ہوا ہے اور ان دو شخصیتوں کیلئے استعمال ہونے کی کوئی تاریخ معلوم نہیں ہے۔ دائرة المعارف تشیع کے مطابق بارگاه حضرت عباس میں کئی مرتبہ استجابت دعا ہوئی ہے۔[12]

حوالہ جات

  1. انوری، فرہنگ سخن، ص۷۰۵
  2. دہخدا، لغت‌ نامۂ، ذیل کلمۂ باب الحوائج
  3. دہخدا، لغت‌نامہ، ذیل کلمہ باب الحوائج. محدثی، فرہنگ عاشورا، ص۳۱۶
  4. محدثی، فرہنگ عاشورا، ص۳۴۸
  5. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ج۳، ص۴۳۸.
  6. مجلسی، بحارالانوار، ج۴۸ ص۶.
  7. ابن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ فی الرد علی اہل البدع و الزندقہ، مکتبہ القاہرة، بی‌تا، ص۲۰۳.
  8. نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار، مؤمن الشبلنجی، ص۳۳۱.
  9. شہیدی، باب الحوائج، ص۱۱
  10. شہیدی، باب الحوائج، ص۱۱
  11. محدثی، فرہنگ عاشورا، ص۳۴۸
  12. شہیدی، باب الحوائج، ص۱۰

منابع

  • ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب . نجف: مطبعہ الحیدریہ، ۱۳۷۶ق.
  • انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن، انتشارات سخن، تہران، ۱۳۹۰ش.
  • دہخدا، علی اکبر، لغت‌ نامہ.
  • شبلنجی، مؤمن بن حسن، نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی الله علیہ و آلہ و سلم. قم؛ الشریف الرضی.
  • شہیدی، عبدالحسین، مدخل باب الحوائج، در دائرة المعارف تشیع، ج۳. انتشارات حکمت، تہران، ۱۳۹۰ش.
  • علامہ محمد باقر مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار. بیروت: مؤسسہ الوفاء، ۱۴۰۴ق.
  • محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، نشر معروف، قم، ۱۳۸۸ش.
  • ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقہ فی الرد علی اہل البدع و الزندقہ. مکتبہ القاہرة، بی‌تا.